پرانی کتابوں کا اتوار بازار، کراچی

13 اکتوبر 2013۔خاکوں کے مجموعے

اس مرتبہ پرانی کتابوں کے اتوار بازار کا رخ کرتے وقت اپنے دوست اعجاز منگی کی وہ سطور یاد آرہی تھیں جن میں انہوں نے سندھ کے ایک صوفی منش انسان کا تعارف کرایا تھا۔ یہ ذکر ہے خورشید احمد قائم خانی مرحوم کاجنہوں نے سندھ کی اقلیتوں کے حقوق کی خاطر اپنی زندگی تج دی تھی۔ وہ تین کتابوں’’ سپیاں اورپتھر‘‘، ’’بھٹکتی نسلیں‘‘، ’’سپنوں کا دیس‘‘ کے مصنف اورخدیجہ گوہر کی کتاب’’ امیدوں کی فصل‘‘ کے مترجم تھے۔ صحافی سہیل سانگی لکھتے ہیں: ’’ ٹنڈوالہ یار میں وہ گھر پر شادر و ناز ہی موجود ہوتے تھے۔ ان سے ملنے والے انہیں باگڑی کالونی، بھیل کالونی، جوی کالونی، وغیرہ میں ڈھونڈتے تھے اور وہ وہیں ملتے تھے۔وہ اپنا وقت دانشوروں یا دوسری فضولیات میں گنوانے کے بجائے عام بھیل، کولہی لوگوں کے ساتھ گزارنا پسند کرتے تھے۔ عجب شخص تھا۔ سیلانی بھی تھا اور مٹی سے محبت کرنے والا بھی۔ان کے اندر سے اپنی جنم بھومی راجستھان آخر تک نہیں نکل سکا۔ اور وہ اس لیے خود کو خانہ بدوش ہی سمجھتے تھے۔

انہوں نے زندگی میں پچھتاوے نام کی کسی چیز کو قریب آنے نہیں دیا۔ آخری ایام میں انہوں نے لوگوں سے دور رہنے اور سکون میں وقت گزارنے کی کوشش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ بہت لکھا، بہت باتیں کیں اور خوب محفلیں کیں۔ اب بس کرنی چاہئے۔انہوں نے کراچی کے ایک پبلشر کو خودنوشتہ سوانح حیات شائع کرنے کے لیے دی۔ پبلشر نے یہ کتاب شائع کرنے کی ہامی تو بھر لی، مگر ان سے کہا کہ ان کے جیتے جی یہ کتاب شایع نہیں ہوسکتی کیونکہ اس میں بعض اداروں کے بارے میں مخالفانہ مواد ہے اس واقع کا بیان اپنی ایک کتاب کے پیش لفظ میں یوں کرتے ہیں: میں اردو پبلشروں سے مایوس ہوچکا ہوں، لہٰذا اب سندھی ناشرین سے رجوع کیا ہے جہاں میرے موضوعات کے بڑی تعداد میں قاری بھی موجود ہیں۔‘‘
 

image

برادرم اعجاز منگی نے خورشید قائم خانی کی ایک تخلیق پیش کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ اشعار فیض صاحب سنتے تو اپنے مجموعہ کلام کا انتساب اس شاعرکے نام کرتے جو ساری زندگی گمنام ہی رہا ۔جس نے ساری زندگی عدالت کی ملازمت میں اپنی انگلیاں ٹائپ رائٹر پر چلائیں․․․․․․․بقول اعجاز، ایسے اشعار چراغوں کی طرح تاریخ کے طوفان میں زندہ رہتے ہیں ، جن کی لو آنکھ جیسی اور تیل لہو ہوا کرتا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:
احسان ِ عیادت ان کا یہ بیمار پر ہے
اور زور بھی گرتی ہوئی دیوار پر ہے
مطربا دیکھ کہیں یہ میری شہ رگ تو نہیں
تیری انگشت حسیں، ساز کی جس تار پر ہے
راقم انہی اشعار کی سرشاری میں اتوار بازار پہنچا تھا۔

اس مرتبہ شخصی خاکوں کی کتابوں نے میدان مار لیا۔ نیم رخ کے عنوان سے پروفیسر مجتبی حسین کی کتاب 1978 میں شائع ہوئی تھی ۔اسی طرح ڈاکٹر محی الدین قادری زور کی ’’ چند شخصیتیں چند تاثرات‘‘ نامی کتاب جولائی 1962 میں شائع ہوئی۔ جبکہ تیسری کتاب سید مقصود زاہدی کی ’’یادوں کے سائے‘‘ ہے جو اتوار بازار ہی سے وابستہ ایک شخص کے ذریعے گزشتہ ہفتے ملی تھی اور جس کا تذکرہ زیر نظر احوال کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ زاہدی صاحب کی کتاب کے مطالعے کے بعد احساس ہوا کہ یہ بلاشبہ صنفِ خاکہ نگاری میں سنگ میل کا درجہ رکھتی ہے۔ انداز بیان، تحریر کا حسن و بانکپن اور اس کی چاشنی بالکل ویسی ہی ہے جیسے ’کیا قافلہ جاتاہے‘ میں نصر اﷲ خاں کی تھی۔ کون کہہ سکتا ہے کہ مذکورہ کتاب چراغ حسن حسرت، ماہر القادری، ڈاکٹر اسلم فرخی و دیگر بلند پایہ ادیبوں کی لکھی خاکوں کی کتابوں سے معیار کے معاملے میں کسی طور بھی ہلکی پڑتی ہے۔ مولوی عبدالحق ہوں یا ظفرعلی خان، ڈاکٹر عابد حسین کا تذکرہ ہو یا پھر یلدرم و نیاز فتح پوری کا، مصنف نے قلم کا حق ادا کردیا ہے۔ مگر دلی کے مولوی عبدالسلام نیازی اور آغا طاہر نبیرہ آزاد کے خاکوں کی تو چھب ہی نرالی ہے۔ یہ زندہ رہنے والے خاکے ہیں۔ افسوس کہ یہ کتاب اپنی اشاعت کے بعد وقت کے دھندلکوں میں کھو کر رہ گئی، اشاعت ثانی کے بارے میں کسی کو خیال ہی نہ آیا۔ یہ کسی نے نہ سوچا کہ اس نوع کی تحریروں کو تو بار بار قارئین کے سامنے پیش کیا جانا چاہیے۔ مقصود زاہدی کو شہر ملتان سے عشق تھا۔ تقسیم ہند کے بعد قدم اکھڑے تو ساری زندگی ملتان ہی میں گزری۔ آخری وقتوں میں طوہا ًو کرہا ًاسلام آباد میں سکونت اختیار کی اور بقول فارغ بخاری، ملتان سے دوری کا یہی غم انہیں لے ڈوبا ۔ اردو کے رباعی گو شاعر، افسانہ نگار سید مقصود زاہدی 6 فروری 1918 کو میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ ہومیو پیتھ معالج کی حیثیت سے نام کمایا۔ ذکر و فکر کے عنوان سے ان کے افسانوں کی پہلی کتاب 1942 میں شائع ہوئی تھی۔ 6 نومبر 1996 کو اسلام آباد میں انتقال کیا۔ ان کے صاحبزادے ڈاکٹر انور زاہدی ادیب بھی ہیں اور شاعر بھی جبکہ صاحبزادی ماہ طلعت زاہدی کا نام بھی ادبی حلقوں میں جانا پہچانا ہے۔

مقصود زاہدی ، یادوں کے سائے کو اپنی زندگی کے چھوٹے چھوٹے شندرات کا نام دیتے ہیں۔ ایسے شندرات جنہیں مصنف نے یادوں کے دریچوں سے سایوں کی مانند پھیلتے دیکھا ہے۔مقصود زاہدی ، بابائے اردو مولوی عبدالحق سے ملاقات کو گئے تو اس وقت نوعمر تھے ، جاتے ہی اپنی کتاب ذکر و فکر مولوی صاحب کے ہاتھ میں تھما دی۔ عبدالحق صاحب بولے ’’بھئی آپ کے داڑھی تو ہے نہیں ، پھر آپ کی تصنیف میں کیا ذکر و فکر ہوگا‘‘ ۔مقصود زاہدی کو کیا سوجھی کہ یک دم بول پڑے ’’ مولوی صاحب قبلہ، بعض لوگوں کے چہرے پر داڑھی ہوتی ہے بعض کے پیٹ میں‘‘

مولوی صاحب کی آنکھوں میں شوخی کی لہر نمودار ہوئی، بولے ’’ گویا اس تصنیف میں وہ ذکر و فکر ملے گا جو پیٹ میں داڑھی والوں کا ہوتا ہے۔آپ بہت شوخ معلوم ہوتے ہیں‘‘

مقصود زاہدی نے معافی مانگتے ہوئے جواب دیا ’’ مولوی صاحب ، میں تو شاید عمر کے تقاضے سے ایسا نظر آتا ہوں لیکن آپ تو اس سن و سال کے باوصف اتنے شوخ ہیں‘‘

مقصود زاہدی کو مولوی عبدالحق سے ہونے والی آخری ملاقات بھی یاد رہی۔ بیان کرتے ہیں :’’ ان دنوں مولوی صاحب کوئی بیاسی تراسی کے لپیٹ میں تھے۔ ان کی طبیعت میں جو طنطنہ تھا، وہ چڑچڑے پن میں تبدیل ہوگیا تھا۔وہ حکومتی اہلکاروں سے بھی دل برداشتہ تھے اور اپنے ساتھیوں سے بھی۔ باتوں باتوں میں مقصود زاہدی سے کہنے لگے ’ یہاں تو ہر شخص نے پاکستان کو مال غنیمت سمجھ رکھا ہے۔ لوٹ کھسوٹ کی ہر ایک کو پڑی ہے۔ہر شخص اس نوزائدہ مملکت پر اپنے حقوق جتاتا ہے اور اپنے فرائض کی طرف بہت کم حضرات متوجہ ہیں ۔ شاید ابھی مسلمانوں کا شعور اتنا پختہ نہیں ہوا تھا کہ انہیں ایک آزاد مملکت کا انعام قدرت کی طرف سے ملتا۔‘‘

مقصود زاہدی نے مولانا حسرت موہانی کا خاکہ بھی خوب لکھا ہے۔ انہوں نے مولانا کا تذکرہ سن رکھا تھا اور دید کی حسرت دل میں موجزن تھی۔1938 کے آل انڈیا مسلم لیگ اجلاس میں مقصود زاہدی کی حسرت پوری ہوئی۔ لکھتے ہیں:
’’ اجلاس میں مولانا کی زیارت سبھوں نے کرلی۔ وہ ایک عجیب سے غریب سے بے ڈھبے ، بدوضع اور بدقطع انسان تھے جن کی کوئی بات اور کوئی قرینہ ڈھنگ کا نظر نہ آتا تھا۔ سرپر ترکی ٹوپی تھی جس کا پھندنا غالبا ًدانستہ پیلے دھاگوں کا بنا کر ڈال لیا گیا تھا۔ عینک وہی تھی جو بوڑھے دہقان سستی سے سستی چلتے پھرتے عینک والوں سے خرید کر لگا لیا کرتے تھے۔ اس کی ایک طرف کی کمانی ثابت تھی اور دوسری سمت کی ٹوٹی ہوئی کمانی کا کام موٹے سوتی دھاگے سے لے لیا گیا تھا۔ کپڑے کھدر کے تھے لیکن کپڑوں پر کھدر ہی کی سبز رنگ کی کوئی شے پہن رکھی تھی جسے جی چاہے تو اچکن کہہ لیجیے جی چاہے عبا کہہ لیجیے۔ جوتے جاپانی کینوس کے تھے لیکن جوتوں پر نیلی سیاہی پوتی ہوئی تھی۔ چہرے پر ناک چھائی ہوئی تھی اور بے طور بڑھی ہوئی داڑھی نے چیچک رو چہرے کے تین چوتھائی کو ڈھانپ رکھا تھا۔ مولانا اس ہیت کذائی میں پنڈال میں پھر رہے تھے لیکن وہ جس جانب بھی نکل جاتے حاضرین میں سرگوشیاں شروع ہوجاتیں اور جب وہ کسی بھی کرسی نشینوں کی قطار تک پہنچتے تو لوگ خواہ مخواہ کرسیاں چھوڑ چھوڑ کر کھڑے ہونے لگتے۔‘‘
 

image

ایک موقع پر مقصود زاہدی نے مولانا حسرت موہانی کی شخصیت کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے
’’ مولانا عوام کو منظم کرنے کی صلاحیتوں سے بالکل عاری تھے۔ وہ لوگوں کو اپنے گرد و پیش جمع نہیں کرسکتے تھے۔ وہ ایسے سالار لشکر تھے جو فوج کی رہنمائی کرتے کرتے عین ہنگامہ کارزار میں گم بھی ہوسکتے تھے۔ میدان چھوڑ کر نہیں بلکہ عرصہ جنگ میں کسی گوشے میں بیٹھ کر ایک غزل لکھنے کے لیے۔ مولانا کا تغزل اور تصوف، دونوں انہیں ہنگامہ ہائے ہاؤ ہو سے گوشہ تنہائی میں کھینچ کر لے جاتے تھے۔ یہ مولانا کی زندگی کا سب سے بڑا تضاد رہا۔ ایک ہی ذات میں بیک وقت اتنی صفات کا اجتماع لاکھوں کیا کروڑوں انسانوں میں کسی ایک میں بمشکل مل سکتا ہے۔ ایک حسن پرست حسن کی ادا شناس رکھنے والا شاعر، ایک صوفی صافی اشتراکی اور انقلابی تصورات کا حامی۔انگریز سامراج کا دشمن، حق بات پر مٹنے والی کوہ ثبات طبیعت اور اس کے ساتھ ساتھ ہی ایک عاجز و مسکین، گدائے بوریہ نشین، محنت و مشقت کی توفیق کو سب سے بڑی سعادت سمجھنے والا۔ کبر و نخوت، زاہدانہ غرور سے متنفر، سادہ وبے ریا انسان مشکل ہی سے پیدا ہوتا ہے۔ ‘‘
خوبی ہمیں کرشمہ و ناز و خرام نیست
بسیار شیوہ ہاست بتاں را کہ نام نیست

ٓ نبیرہ آزاد، آغا طاہر کے خاکے میں ایک زندہ دل انسان کا تاثر ابھر کر سامنے آتا ہے۔ آغا طاہر کے برادر خورد نے ریڈیو کی دنیا میں بہت نام کمایا۔ ان کو اہل علم آغا اشرف کے نام سے جانتے ہیں۔ آغا اشرف، ذوالفقار علی بخاری کے ہمراہ بی بی سی ریڈیو کے ہندوستان میں قیام و آغاز ہی سے اس کے ساتھ وابستہ ہوگئے تھے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ آغا طاہر، اپنے چھوٹے بھائی آغا اشرف سے خوش نہیں تھے۔ اس ضمن میں مقصود زاہدی بیان کرتے ہیں:
’’ آغا طاہر اگرچہ خود بلا کے ذہین انسان تھے لیکن انہوں نے تصنیف و تالیف کے میدان میں کوئی قابل ذکر معرکہ سر نہ کیا۔ وہ ایک مجلسی انسان تھے اور ساتھ ہی سخت قسم کے گھریلو بھی۔ دو اپنے دونوں لڑکوں سے بے اندازہ محبت کرتے تھے ۔وہ آغا اشرف سے، جو ان کے چھوٹے بھائی تھے، بہت محبت کرتے تھے لیکن کبھی کبھار ایسی باتیں بھی ان کے منہ سے نکل جاتی تھیں جن سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ اپنے چھوٹے بھائی سے جو توقعات انہوں نے قائم کیں وہ پوری نہ ہوئیں۔ ایک دن جب میں نے ان کی دنیاوی ترقی اور کامیابی کا ذکر کیا تو انہوں نے ایک سرد آہ بھری اور فورا ً ایک شعر پڑھا جو مجھے آج تک یاد ہے:
صد رفیق و صد ہمدم پر شکستہ و دل تنگ
داد را نمی زیبد بال وپر بمن تنہا

واضح رہے کہ آغا اشرف بی بی سے سے پطرس بخاری سے ایک چھوٹی سی بات پر ہوئے اختلاف کی بنا پر بی بی سی کو خیر باد کہہ گئے تھے۔ اس ضمن میں اخلاق احمد دہلوی بیان کرتے ہیں:
’’ آغا اشرف جیسا کھنک دار آواز کا اناونسر دنیا کے کسی ریڈیو اسٹیشن سے آج تک نہیں سنا گا۔ ان کے گلے میں جیسے اشرفیاں کھنکتی تھیں اور یہ خوبصورتی ان کی آواز میں قدرتی تھی کہ لوگ ان کی آواز سننے کے لیے اس زمانے میں ریڈیو خریدتے تھے۔ ان کا کچھ تنازعہ پطرس بخاری سے مٹی کے تلفظ پرہوگیا تھا۔ آغا اشرف کہتے تھے ‘مٹی‘ بالکسر بھی درست ہے اور بالفتح بھی۔ لیکن پطرس صاحب کا اصرار تھا کہ لفظ مٹی زبر سے ہے، زیر سے نہیں۔ اس پر آغا اشرف استعفی دے کر ڈیرہ دون چلے گئے۔ دون کالج میں انگریزی کے لیکچرار بن کر اور پھر بی بی سی لندن سے آداب عرض کہا اور آخر کار اقوام متحدہ میں ریڈیو کے شعبے کے ڈائرکٹر کی حیثیت سے وفات پائی۔‘‘۔ (یادوں کا سفر۔خودنوشت۔اخلاق احمد دہلوی)

یوں تو آغا طاہر کا مکمل خاکہ ہی لائق مطالعہ ہے لیکن اس کے آخر میں مقصود زاہدی نے آغا صاحب کا بیان کردہ ایک چشم کشا واقعہ درج کیا ہے ۔ تقسیم کے دنوں میں آغا طاہر دیگر مسافروں کے ہمراہ جس ٹرین میں پاکستان جانے کے لیے سوار تھے، وہ امرتسر اور لاہور کے کہیں وسط میں اچانک رک گئی۔ مغرب اور عشاء کے درمیان کا وقت تھا ، گاڑی ہلنے کا نام نہ لیتی تھی، اندھیرے میں پھیلا ہوا سناٹا کلیجوں کو دہلائے دے رہا تھا،جان کے خوف سے سہمے مسافروں کے چہروں پر موت کی زردی چھا چکی تھی۔ یکایک دور سے شور کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ شور بھی ایسا کہ صاف معلوم ہوتا تھا کہ حملہ آور تعداد میں زیادہ ہیں اور اب کچھ ہی دیر میں سر پرپہنچ کر سبھوں کو تہ تیغ کردیں گے۔ لبوں پر دعائیں تھیں لیکن مقابلے کے لیے کچھ پلے نہ تھا۔ اچانک کھٹ کھٹ کی آواز نے سناٹے کو توڑ دیا اور پھر دور کسی شخص کے بولنے کی آواز آتی رہی۔ وہ جو کوئی بھی تھا ، ہر ڈبے کے سامنے رکتا تھا اور اپنی بات دوہراتا آگے بڑھ جاتا تھا۔ چند لمحوں میں وہ آغا طاہر کے ڈبے تک
آ ن پہنچا۔مقصود زاہدی کی زبانی آگے کا احوال پڑھیے:
پھر اس شخص کی آواز سنائی دی ، وہ کہہ رہا تھا :
’’ بھائیو! مسلمانو! دیکھو دشمن آرہے ہیں۔ یاد رکھو موت کا ایک وقت معین ہے۔ جس کی آئی ہے اسے دنیا کی کوئی طاقت نہیں ٹال سکتی اور جس کی موت نہیں آئی اسے دنیا کی کوئی طاقت مار نہیں سکتی۔ مصیبت کے وقت صبر اور عقل کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ تمہارے پاس جتنے بھی ٹرنک اور بھاری سامان ہیں اسے ڈبے کی دیواروں کے ساتھ دروازوں اور کھڑکیوں سے پیوستہ کرکے رکھ دو۔ اس کے پیچھے اپنے بستروں اور گھٹریوں کو رکھ دو۔ آگے جوان اور پیچھے بوڑھے مرد بیٹھ جائیں۔ڈبے کے عین درمیان عورتوں اور بچوں کو کرلو۔ حملہ آور تیزی سے آئیں گے۔ وہ دروازے اور کھڑکیاں توڑنے کی کوشش کریں گے۔ جس ڈبے کو وہ توڑنے میں کامیاب ہوجائیں گے، اسی میں گھس کر لوٹ مار کا سلسلہ شروع کردیں گے اور پھر بھاگ جائیں گے۔ بس ان باتوں کو اپنے پلے میں باندھ لو اور جلدی سے اپنی پوزیشنیں درست کرلو۔ ہمت اور حوصلہ بڑی چیز ہوتا ہے۔‘‘

آغا صاحب فرمانے لگے کہ یہ جاں بخش مختصر تقریر سننے کے بعد ایک دم سے میری سوئی ہوئی لیڈر شپ کی حس بیدار ہوگئی۔ میں نے فورا ً لوگوں سے کہا آنا! فاناً میں کھڑے ہوجاؤ اور یہ بندوبست کرڈالو۔ دیکھتے ہی دیکھتے منٹوں بلکہ سیکنڈوں میں ٹرنک کھڑکیوں کے آگے رکھ دیے گئے۔ ٹرنکوں کے پیچھے بستر آگئے۔ بستر کے پیچھے جوان اور تنو مند لوگ بیٹھ گئے اور جوانوں کے عقب میں بوڑھے اور ڈبے کے عین وسط میں عورتیں اور بچے سما گئے اور سب مسافر آنے والے خطرے کے مقابلے کے لیے تیار ہو کر بیٹھ گئے۔ کھٹ کھٹ کھٹ کی آوازیں دیر تک آتی رہیں اور ساتھ ہی اس جواں مرد اور باہمت انسان کے سمجھانے کی آواز آتی رہی۔ یہاں تک کہ وہ حملہ آوروں کے نعروں اور شور و غوغا میں بالکل دب گئی۔ کچھ دیر بعد حملہ آور سر پر پہنچ گئے اور پھر ایک دم سے شور قیامت مچ گیا۔ یہ معلوم ہوتا تھا جیسے سروں پر تبر اور کلہاڑے برس رہے ہوں۔ ہمارے ڈبے پر بھی بیسیوں کاری ضربیں لگیں لیکن حملہ آور ناکام ہو کر آگے بڑھ گئے۔ چند منٹ کے بعد واویلا اور آہ و زاری کی فلک شگاف چیخ دھاڑ نعروں کی آوزوں پر غالب آگئی۔ اس یلغار کے کافی دیر بعد ہماری گاڑی چل پڑی۔ جب ہم واہگہ کی سرحد پر پہنچے اور اتر کر اپنی گاڑی کا جائزہ لیا تو دو درجے ایسے نظر آئے جو خون میں لتھڑے ہوئے تھے۔ شاید یہ وہ ڈبے تھے جن کے مسافروں نے اس عالی ہمت انسان کی باتوں کو لائق اعتنا نہ گردانا تھا اورحفاظتی تدابیر نہ اپنائی تھیں۔

مقصود زاہدی بیان کرتے ہیں کہ یہ واقعہ سنانے کے بعد آغا طاہر کی آنکھوں سے جوئے اشک رواں ہوگئی۔ ایک طویل عرصے کے تعلق کے دوران مقصود زاہدی نے آغا صاحب کو کبھی روتے نہ دیکھا تھا ۔وہ بچوں کی طرح زاہدی مرحوم سے پوچھ رہے تھے ’’ مقصود! کیا تم کو یقین ہے کہ پاکستان قائم رہے گا ؟ اگر پاکستان قائم نہ رہا اور اسے استحکام نصیب نہ ہوا تو مسلمانوں کا ہندوستان کے طول و عرض میں یہی حشر ہوگا جو اس ریفیوجی اسپیشل کے مسافروں کا ہوا تھا‘‘۔

سید مقصود زاہدی نے اس بات کا وہی جواب دیا جو ان جیسی شخصیت کو دینا چاہیے تھا :
’’ آغا صاحب! جب تک کسی گروہ میں ایسے افراد موجود ہیں جیسا کہ وہ عظیم انسان تھا جو اپنا سر ہتھیلی پر رکھ کر اس خوفناک رات کو ، اس ہیبت ناک عالم میں اسپیشل کے مسافروں کو ہمت اور حوصلہ دے رہا تھا، اس وقت تک کوئی قوم فنا کے گھاٹ نہیں اتر سکتی ‘‘

’’یادوں کے سائے‘‘ میں مولوی عبدالسلام نیازی کے عمدہ اور جامع خاکے کا تذکرہ اوپر کیا گیا تھا۔ مذکورہ خاکے کے مطالعے کے بعد ہی راقم الحروف نے مولوی صاحب پر لکھی تحریروں کو جمع کرنے کا ارادہ کیا تھا اور چند مخلص کرم فرماؤں کے تعاون سے اس سلسلے میں خاصی پیش رفت ہوچکی ہے۔
 

image

مقصود زاہدی ، ہومیو پیتھ ڈاکٹر تھے۔ ناصر کاظمی کے آخری ایام میں جب ان سے مل کر آئے تو ناصر کاظمی کی حالت دیکھتے ہی سمجھ گئے کہ وہ چراغ سحری ہیں۔اسپتال کے کمرے سے باہر نکل کر مقصود زاہدی اپنے ہمراہ موجود ایک عزیز سے کہنے لگے ’’ اگر ناصر ٹھیک ہوگئے تو یہ ایک معجزہ ہوگا۔ ناصر، ظاہری تمام قرائن سے صرف چند دن کے مہمان ہیں۔کتنے دن کے ، یہ یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا۔ میں کوئی پیش گوئی نہیں کررہا بلکہ اپنے معالجانہ تجربے کی رو سے مریض کی حالت دیکھ کر کہہ رہا ہوں۔‘‘

مجتبی حسین کی ’’ نیم رخ ‘‘ میں جن شخصیات پر طویل خاکے ہیں ان میں شامل ہیں یگانہ چنگیزی، نیاز فتح پوری، فراق گورکھپوری، نہال سیوہاروی، میرا جی، مجاز، فیض احمد فیض، سلام مچھلی شہری اور عزیز حامد مدنی۔

چند شخصیتیں چند تاثرات میں ڈاکٹر محی الدین قادری زور نے جن شخصیات پر لکھا ہے ان میں شامل ہیں: اصغر گونڈوی، عظمت اﷲ خاں، سالار جنگ، صاحبزادہ میکش، مولوی محمد مرتضی، سر مہدی یار جنگ، پنڈت دتا تریہ کیفی، خواجہ حسن نظامی، سید علی منظور،مولوی عبد الحق،جگر مراد آبادی ،امجد حیدرآبادی، نواب زین یار جنگ، مولوی تمکین کاظمی اور مولوی عبدالقدیر صدیقی حسرت۔

مجتبی حسین کی ’’نیم رخ‘‘ بھی ایک خوب کتاب ہے۔ طویل خاکے بلکہ تذکرے کہیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ مجاز کے بیان میں لکھتے ہیں :
’’ بمبئی کے علاوہ غالباً 1976 میں بھی ان سے الہ آباد میں ملاقات ہوئی تھی۔ یہ ملاقات بھی فراق صاحب کے یہاں ہوئی۔ شام کے وقت جب میں فراق صاحب کے یہاں پہنچا تو مجاز کھڑے ہوئے فراق صاحب سے انگلی کے اشارے سے بار بار کہہ رہے تھے ’ فراق جب ہم تمہیں اپنی طرف بلائیں گے تو تمہیں آنا پڑے گا۔ ‘ ۔۔فراق صاحب مجاز کی اس ہذیانی کیفیت سے بہت پریشان ہورہے تھے۔ مجھے دیکھ کر انہیں سہارا ملا۔ انہوں نے حکم دیا کہ میں کسی طرح مجاز کو وہاں سے لے جاؤں۔ بدقت تمام کسی طرح سمجھا بجھا کر انہیں ہٹا لے جانے میں کامیابی ہوئی۔ رام نرائن کے چوراہے پر پہنچ کر میں نے تانگہ کیا۔ مجاز کو بہ ہزار خرابی تانگے پر بیٹھنے پر راضی کیا۔ جب تانگہ چلا تو ان پر ایک اور دورہ پڑا۔ وہ دفعتاً رونے لگے، کہنے لگے :
مجتبی میں بہت خراب ہوگیا ہوں ۔مگر اس پر بھی جب میں پہنچتا ہوں تو میری ماں میرا سر اپنے زانو پر رکھ لیتی ہے۔

روتے روتے نہ معلوم انہیں کیا سوجھی، کہنے لگے:
جب میکسم گورکی کی ماں ہوسکتی ہے تو میری بھی ماں ہوسکتی ہے۔اور مجھے تقریبا ً چیخ کر حکم دیا:
’کہو ماں ‘
چنانچہ ہم دونوں نے ماں ماں کے نعرے لگانے شروع کردیے۔ یہ نہ کرتا تو کیا کرتا۔ ممکن ہے وہ تانگے سے اتر جاتے۔شارع عام پر ہی چیخنا شروع کردیتے۔ رات ہوچکی تھی۔سڑکوں پر بڑی بھیڑ تھی۔"

مجاز سے مجتبی حسین کی آخری ملاقات کراچی میں ہوئی جہاں مجاز مشاعرہ پڑھنے آئے تھے۔ ہڈیوں کے ڈھانچے کی مانند۔خاصا مجمع تھا، طلبہ کا غلبہ تھا۔ مجاز نے ’’آوارہ ‘‘کے چند بند سنائے مگر پھر نقاہت کے باعث اسے درمیان ہی میں چھوڑ کر اسٹیج پر جابیٹھے۔ ادھر سامعین کا شور کہ وہ مجاز کو سننا چاہتے ہیں۔ مجتبی حسین لکھتے ہیں:
بارے مجاز ڈائس پر آئے۔انہوں نے ’’اعتراف‘‘ سنانی شروع کی۔ وہ پڑھ نہیں پا رہے تھے۔ ان کی سانس بار بار ٹوٹ جاتی اور وہ رک جاتے۔ انہیں مستقل کھانسی آرہی تھی اور وہ ہر جھٹکے کے ساتھ سینہ تھام لیتے ۔طلبہ کا مجمع کچھ بے چین اور بے کیف ہوا جارہا تھا۔ بعض گوشوں سے ہوٹنگ بھی شروع ہوچکی تھی۔ مگر مجاز سامعین کی اکتاہٹ سے بے خبر ہوکر پڑھے جارہے تھے:
خاک میں آہ ملائی ہے جوانی میں نے
شعلہ زاروں میں جلائی ہے جوانی میں نے
شہر خوباں میں گنوائی ہے جوانی میں نے
خواب گاہوں میں جگائی ہے جوانی میں نے

ان کی آواز میں ایک عجیب حزن آگیا تھا۔ مجاز اپنی بربادی کا مرقع بنے ہوئے نظم پڑھ رہے تھے۔ ان کی لے جس کا سلسلہ کبھی ٹوٹتا نہیں تھا، بیچ میں ٹوٹ ٹوٹ جاتی تھی۔مگر اس ٹوٹ جانے میں بھی ایک کیفیت تھی۔ ایک عظیم شکست و ریخت کا تاثر تھا۔ رفتہ رفتہ مجمع کی ہنسی رک گئی۔ اور خاموشی چھا گئی۔دفعتاً میرے پاس بیٹھے ہوئے ایک طالب علم نے دوسرے سے پوچھا ’یہ کون شاعر ہے ‘۔

معلوم نہیں اس نے کیا جواب دیا۔ کیا جانے اسے بھی معلوم ہو یا نہ رہا ہو۔ میں اس سوال یک عبد کچھ اور نہیں سن سکا۔ زمانہ اتنا بدل گیا ہے، اس کا احساس مجھے اس وقت ہوا۔ جس مجاز کے نام پر بقول عصمت چغتائی، لڑکیاں قرعے ڈالتی تھیں۔جس کے نام کی قسمیں کھائی جاتی تھیں۔ آج اسے ایک درس گاہ کی ادبی محفل میں طالب علم جانتے بھی نہیں۔
اس کے بعد میں مجاز سے کبھی نہیں مل سکا۔ (مجتبی حسین )

اتوار بازار سے ملنے والی کتابوں کی تفصیل یہ ہے:

یادوں کے سائے۔شخصی خاکے۔سید مقصود زاہدی۔ مکتبہ کارواں، ملتان ۔اشاعت: 1976
نیم رخ ۔ شخصی خاکے۔مجتبی حسین ۔ پاک پبلشر لمیٹڈ، کراچی ۔اشاعت: فروری 1978
چند شخصیتیں چند تاثرات۔ڈاکٹر محی الدین قادری زور۔سندھ یونیورسٹی پریس، حیدرآباد سندھ۔اشاعت: جولائی 1962
برائے خاطر احباب ۔سفرنامہ۔ صالحہ عابد حسین
کلیات مرزا فرحت اﷲ بیگ ۔حصہ اول۔ علی ظہیر نے حیدرآباد دکن سے شائع کی۔اشاعت:2007
Rashid Ashraf
About the Author: Rashid Ashraf Read More Articles by Rashid Ashraf: 107 Articles with 300461 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.