محرم الحرام کی فضلیت :
خالق ارض وسماء اپنی لاریب کتاب قرآن کریم میں ارشادفرماتا ہے :’’اِنَّ
عِدَّۃَ الشُّہُوْرِ عِنْدَ اللّٰہِ اِثْنَا عَشَرَ شَہْرًا فِیْ کِتٰبِ
اللّٰہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْہَآ اَرْبَعَۃٌ
حُرُمٌ(پ۱۰،التوبہ:۳۶)ترجمہ کنزالایمان:بے شک مہینوں کی گنتی اﷲ کے نزدیک
بارہ مہینے ہیں اﷲ کی کتاب میں جب سے اس نے آسمان و زمین بنائے ان میں سے
چار حرمت والے ہیں ۔‘‘……صدرالافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اﷲ
علیہ ان چار حرمت والے مہینوں کی تفسیر میں فرماتے ہیں:تین متّصِل ذوالقعدہ
و ذوالحجہ ،’’ محرم‘‘ اور ایک جدارَجب ، عرب لوگ زمانہ ٔجاہلیت میں بھی ان
مہینوں کی تعظیم کرتے تھے اور ان میں قتال حرام جانتے تھے ۔ اسلام میں ان
مہینوں کی حرمت و عظمت اور زیادہ کی گئی ۔(تفسیر خزائن العرفان)
قرآن کریم کے علاوہ احادیث وروایات بھی اس مہینے کی عظمت وحرمت کو بخوبی
واضح کرتی ہیں ۔چنانچہ، حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
رمضان کے بعد محرم کا روزہ افضل ہے۔ (صحیح مسلم،ص۵۹۱،الحدیث:۱۱۶۳)……اور ایک
موقع پر فرمایا:محرم کے ہردن کا روزہ ایک مہینہ کے روزوں کے برابر ہے۔(معجم
صغیر،ج۲،ص۸۷،الحدیث:۱۵۸۰ )……حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں:میں
حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو کسی دن کے روزہ کو اور دن پر فضیلت دے
کر جستجوفرماتے نہ دیکھا مگر یہ کہ عاشوراء کا دن اور یہ کہ رمضان کا
مہینہ۔(صحیح بخاری،ج۱،ص۶۵۷،الحدیث:۲۰۰۶)……معلوم ہوا کہ محرم الحرام بندوں
کے لئے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ایک انعام ہے مگر ’’اس مہینے میں عام طور پر
عوام الناس خرافات اور خلافِ شرع اعمال میں مبتلا نظر آتے ہیں جن کا قرآن
وحدیث سے کوئی ثبوت نہیں بلکہ اسوۂ حسنہ کے بالکل خلاف ہیں، حضورنبی
کریمصلی اﷲ علیہ وسلم کی سنت تو یہ ہے کہ نویں اور دسویں محرم کا روزہ رکھا
جائے۔‘‘(ماخوذاز ماہنامہ خضرراہ،نومبر۲۰۱۳ء ،ص۱۳)
دس محرم کی اہمیت اور اس کاروزہ :
ویسے تو یہ پورا مہینہ ہی محترم ومکرم ہے مگر اس کی دس تاریخ کونہ صرف
اسلام میں بلکہ پوری تاریخ انسانی میں ایک خاص اہمیت حاصل رہی ہے ۔ علامہ
سید شاہ تراب الحق قادری اطال اﷲ عمرہ تحریر فرماتے ہیں:’’ماہ محرم الحرام
کے دسویں دن کو یوم عاشورہ کہا جاتا ہے۔ یہ دن اور اس کی رات بہت فضیلت و
عظمت والے ہیں ۔اس دن کو عاشورہ اس لئے کہتے ہیں کہ یہ محرم کا دسواں دن ہے
اور بعض علماء فرماتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے اس امت کو جو اعزازات عطافرمائے
ان میں سے یہ دسواں اعزاز ہے۔بعض علماء فرماتے ہیں کہ دس محرم کو عاشورہ اس
لئے کہا جاتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اس دن دس انبیاء کرام علیہم السلام کو دس
اعزازات عطافرمائے۔(۱)حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی(۲)حضرت ادریس
علیہ السلام کو بلند مقام ملا (۳)حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کوہ جودی
پرٹھہری (۴)حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیدائش ،انہیں خلیل ہونے کاشرف اور
نارِ نمرود سے نجات ملی (۵)حضرت داؤدعلیہ السلام کی قبول توبہ وحضرت سلیمان
علیہ السلام کی بادشاہت کا لوٹایاجانا(۶)حضرت ایوب علیہ السلام کی آنکھوں
کی بینائی کی واپسی (۷)حضرت موسی علیہ السلام کو دریا میں راستہ دیا گیا
اور فرعون غرق ہوا(۸)حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ سے رہائی
عطاہوئی(۹)حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ آسمان پر اٹھائے گئے اور(۱۰)حضور
رحمت عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کے نورمبارک کی تخلیق ہوئی۔(غنیۃ
الطالبین،ص۵۳۴۔ مبارک راتیں،ص۱۱۔۱۲، ملخصاً)
یوم عاشوراء کے روزے کوبڑی فضیلت ورتبہ حاصل ہے ۔چند احادیث واقوال ملاحظہ
کیجئے :(1)…… حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یوم عاشوراء
کا روزہ رکھو اور اس میں یہودیوں کی مخالفت کرو ،اس سے پہلے یا بعد میں بھی
ایک روزہ رکھو۔(مسند احمد،ج۱،ص۵۱۸، الحدیث:۲۱۵۴) …… امیراہلسنّت حضرت
مولانا محمد الیاس قادری رضوی دام ظلہ العالی فرماتے ہیں :’’عاشوراء کا
روزہ جب رکھیں تو ساتھ ہی نویں یا گیارہویں محرم الحرام کا روزہ بھی رکھ
لینا بہتر ہے۔‘‘(رسائل عطاریہ(حصہ دوم)،ص۹۱)(2)……رحمت عالم صلی اﷲ علیہ
وسلم کا ارشادِ گرامی ہے :مجھے اﷲ تعالیٰ پر گمان ہے کہ عاشورا کا روزہ ایک
سال قبل کے گناہ مٹا دیتا ہے۔(صحیح مسلم، ص۵۹۰،الحدیث:۱۱۶۲)(3)……حضورنبی
کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:جس نے عاشوراء کے دن اپنی طرف سے کسی مومن
کو روزہ افطار کرایا گویا اس نے ساری امت محمدیہ کو روزہ افطار کرایا ،جس
نے عاشوراء کے دن یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرااﷲ تعالیٰ اس کے لئے یتیم کے
سرکے ہر بال کے بدلے جنت میں ایک درجہ بلند فرمائے گا اورجس نے عاشوراء کے
دن کسی مسکین کو کپڑا پہنایا گویا اس نے امت محمدیہ کے تمام مساکین کو
کپڑاپہنایااور اﷲ تعالیٰ اسے جنتی حلوں میں سے70حلے پہنائے گا۔(بستان
الواعظین،ص۲۲۸)(4)……صحابی رسول حضرت جابر بن سمرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں
:رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ہمیں عاشورہ کے دن کے روزہ کا حکم فرماتے،ترغیب
دلاتے اور ہماری نگرانی بھی فرماتے تھے۔(مسلم مشکوۃ،ج۱،ص۴۴۳۔ مبارک
راتیں،ص۱۳)(5)……حضرت امام محمد بن محمد غزالی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں:اسی
دن کا روزہ امتوں میں مشہور تھایہاں تک کہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس دن کا
روزہ ماہِ رمضان المبارک سے پہلے فرض تھا پھر منسوخ کردیا گیا۔(مکاشفۃ
القلوب،ص۳۱۱)
عاشوراء کے بعض اعمال وآداب :
روزہ کے علاوہ بھی بعض نیک اعمال ایسے ہیں جو دس محرم الحرام کے دن کرنا
عین سعادت وباعث اجروثواب ہے۔چنانچہ،ایک روایت میں ہے : ’’جو عاشورہ کے دن
اپنے اہل وعیال پر خرچ کرنے میں وسعت کرے اور انہیں خوب کھلائے پلائے تو اﷲ
تعالیٰ اس پر تمام سال رزق میں وسعت وکشادگی فرمادیتاہے۔ـ‘‘(ماثبت
بالسنۃ،ص۲۳)……اس حدیث کے متعلق حضرت سفیان بن عیینہ رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے
ہیں:’’ ہم پچاس سال سے اس کا تجربہ کر رہے ہیں اور ہم وسعت وکشادگی بھی
دیکھ رہے ہیں۔‘‘(غنیۃ الطالبین،ص۵۳۴، مبارک راتیں،ص۱۴) …… حدیث کی مشہور
کتاب’’شعب الایمان‘‘میں ہے :جوشخص یوم عاشوراء میں اثمد سرمہ آنکھوں میں
لگائے تو اس کی آنکھیں کبھی نہ دکھیں گی۔(شعب
الایمان،ج۳،ص۳۶۷،الحدیث:۳۷۹۷)……اورعلامہ اسماعیل حقی رحمۃ اﷲ علیہ نقل
فرماتے ہیں:’’جوشخص دس محرم کو غسل کرے وہ تمام سال ان شاء اﷲ بیماریوں سے
امن میں رہے گا کیونکہ اس دن آب زم زم تمام پانیوں میں پہنچتا ہے۔‘‘(تفسیر
روح البیان،ج۴،ص۱۴۲)……بعض اہل علم فرماتے ہیں :عاشورہ کے آداب سے ہے غسل
کرنا،روزہ رکھانا،روزہ افطار کرانا،نفل پڑھنا،دعا مانگنا، علمائے دین کی
زیارت کرنا،بیمار پرسی کرنا،یتیم کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرنا،صدقہ
کرنا،دومخالفوں کے درمیان صلح کرانا،خدا کے خوف سے رونا،سرمہ لگانا، مدعیوں
کو راضی کرنا،اپنی خطائیں معاف کرانا، اہل وعیال کو کھانا وافر دینا،خوشبو
لگانا،گمراہوں کی راہنمائی کرنا،قرآن پاک کی تلاوت کرنا،ستر مرتبہ کلمہ
تمجید (تیسراکلمہ)پڑھنا،قبروں کی زیارت کرنا،اقربا سے ملنا،ماں باپ کی خدمت
کرنااورلغووبیہودہ کاموں سے دور رہنا۔(اسلامی مہینوں کے فضائل وعبادات،ص۷)
محرم کی رسومات اور ا ن کا حکم :
ہونا تو یہ چاہیے تھا جوعشرہ محرام الحرام سابقہ شریعتوں سے اس شریعت پاک
تک نہایت بابرکت ومحل عبادت ٹھہرا ہوا تھا مسلمان اسے اطاعت الہٰی واتباع
رسول میں گزارتے مگر افسوس کہ اس مبارک مہینے میں اکثر مسلمان بدعات،بد
رسومات،گناہ وخرافات میں زیادہ مبتلا رہتے ہیں۔خواتین کا بن سنور کر گھرسے
نکلنااور غیر محروموں کو دعوتِ نظارہ دینااور خود غیر محرموں کو دیکھنا کیا
کم گناہ تھا۔اس پر غضب یہ کہ دامن عصمت کی دھجیاں اُڑادی جاتی ہیں اورغیر
مسلموں سے اسلام کا مضحکہ اڑانے کا موقع دیاجاتا ہے……عاشورا کے دن سیاہ
کپڑے پہننا،سینہ کوبی کرنا،بال نوچنا،نوحہ کرنا،منہ پیٹنا،چھری یا چاقو
وغیرہ سے بدن زخمی کرنا جیساکہ رافضیوں کا طریقہ ہے، حرام اور گناہ ہے۔ایسے
افعال شنیعہ سے بالکل اجتناب کرنا چاہیے ۔ایسے افعال پرسخت وعیدیں آئی
ہیں۔(اسلامی مہینوں کے فضائل وعبادات،ص۴ ملخصاً)……ایام محرم شریف میں
سبز،سیاہ اور سرخ کپڑے پہننا ناجائز ہے۔(کما فی فتاوی رضویہ،ج۲۲،ص۱۸۵)
امام اہلسنّت،امام احمد رضاخان رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں:تخت، عَلم، تعزیے
وغیرہ سب ناجائز ہیں اور ناجائز کام کو بطور تماشہ دیکھنا بھی حرام کیونکہ
جس کام کاکرنا حرام ہے اس پر خوشی منانابھی حرام ہے اور بچوں کو دکھانے کا
گناہ دکھانے والے پرہے اور عورتوں کو ایسی جگہوں میں جانے کی اجازت دینا
حرام ہونے کے ساتھ ساتھ سخت بے حرمتی اور نہایت بے غیرتی بھی ہے اور اس کو
ثواب سمجھناگناہ کے ساتھ ساتھ فسادعقیدہ بھی ہے۔(ماخوذ ازفتاوی رضویہ، ج۲۴،
ص۱۷۲) ……مسلمان کے نزدیک بت اور تعزیہ برابر نہیں ہوسکتے اگرچہ تعزیہ بھی
جائز نہیں۔ بت کا چڑھاوا غیر خدا کی عبادت ہے اور اس کا کھانا مسلمانوں کو
حرام ہے اور تعزیہ پر جوہوتاہے وہ حضرات شہدائے کرام کی نیاز ہے، اگر چہ
تعزیہ پر رکھنا لغوہے مگراسے کھانا نہیں چاہئے۔(کما فی فتاوی
رضویہ،ج۲۱،ص۲۴۶) ……تعزیہ پرجومٹھائی چڑھائی جاتی ہے اگرچہ حرام نہیں ہوجاتی
مگر اس کے کھانے میں جاہلوں کی نظرمیں ایک امرناجائز شرعی کی وقعت بڑھانے
اور اس کے ترک میں اس سے نفرت دلانی ہے لہٰذا نہ کھائی جائے۔(فتاوی
رضویہ،ج۲۴،ص۴۹۱)……حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ کے روضہ مبارک کی صحیح نقل
بناکرجس میں منکرات شرعیہ کی آمیزش نہ ہو محض تبرک کی نیت سے گھر میں رکھنا
شرعا جائز ہے مگر’’تعزیہ‘‘ ہر گز اس کی نقل نہیں۔ ہر جگہ نئی تراش، نئی
گھڑت جسے اُس اصل سے کچھ نسبت نہیں پھر کسی میں پریاں، کسی میں براق ،کسی
میں اور بیہودہ طمطراق پھر گلی گلی بازاربازار غم پھیلانے کے لئے ان کا گشت
اور ان کے گرد سینہ پیٹنا ،ماتم کرنا ، حرام مرثیے پڑھ کر نوحہ کرنا،ان کو
جھک جھک کر سلام کرنا،ان کا طواف وسجدہ کرنا، اس سرتاپا بدعات کو معاذاﷲ
جلوہ گاہِ حضرت امام عالی مقام سمجھ کر اس ابرک پنی سے مرادیں مانگنا
،منتیں ماننااورحاجت رواجاننا۔ پھر باقی تماشے ،باجے تاشے، مردوں عورتوں کا
راتوں کا میل اور طرح طرح کے بیہودہ کھیل ۔رزق کی بے حرمتی یوں کی جاتی ہے
کہ محتاجوں کو ہاتھوں میں دینے کے بجائے چھتوں پر بیٹھ کر پھینکتے ہیں،
روٹیاں زمین پر گررہی ہیں، رزق الٰہی کی بے ادبی ہوتی ہے ……پھر رنگا رنگ
کھیلوں کی دھوم،بازاری عورتوں کا ہر طرف ہجوم، شہوانی میلوں کی پوری
رسوم……پھر تعزیوں کو توڑتاڑ کر یا صرف اوپر کی پنیاں اتار کرمصنوعی کربلایا
قبرستان میں دفن کرتے یا سمندر میں بہاتے اور یوں ہر سال مال ضائع کرنے کا
گناہ ووبال سر پر لیتے ہیں ۔تعزیہ داری کہ اس نامحمود طریقہ کانام ہے قطعا
بدعت وناجائز وحرام ہے۔(مخلص ازفتاوی رضویہ،ج۲۴،ص ۵۱۲)……شہادت نامے
نثریانظم جو آج کل عوام میں رائج ہیں اکثرباطل روایات وبے سروپا سے
پُراورمن گھڑت جھوٹے قصوں پرمشتمل ہیں، ایسے بیان کاپڑھنا سننا وہ شہادت ہو
خواہ کوئی اور مجلس، میلاد مبارک میں ہو خواہ کہیں، مطلقاً حرام وناجائزہے،
خصوصاً جبکہ وہ بیان ایسی خرافات کوشامل ہو جن سے عوام کے عقائد میں کمزوری
واقع ہو پھر تو اور بھی زیادہ زہرقاتل ہے۔(کمافی فتاوی رضویہ،ج۲۴،ص ۵۱۴)
شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں:’’خبردار!روافض کی بدعتوں
میں شامل نہ ہونا۔گریہ زاری آہ وبکا سینہ کوبی ،نوحہ،ماتم،غم والم کے ظاہری
اظہار(جیسے سیاہ لباس وغیرہ)میں مشغول نہ ہوجانا۔کیونکہ ان کاموں کا
مسلمانوں کے عقائد واعمال سے کوئی تعلق نہیں ہے۔(ماثبت بالسنۃ،ص۲۰،مبارک
راتیں،ص۱۵)……اہل تشیع کی مجلسوں میں اہلسنّت کو شرکت کرنا حرام ہے۔(فتاوی
رضویہ،ج۳ ۲،ص۴۰۷)
اس کے علاوہ بچوں کو امام حسین کا فقیر بناکرگھر گھر بھیک منگوانا،تعزیوں
کے نیچے اپنے بچوں کو لٹانا ، تعظیم کی خاطر تعزیوں کے سامنے سجدہ کرنا،ان
کے نیچے کی دھول چہروں پر ملنا،ہاتھوں پر پیلے وزرد دھاگے باندھنا،اس مہینے
میں شادی بیاہ کو ناجائز سمجھنا اوردس محرم کو چولہا نہ جلانا ،کھانا نہ
پکانا اور جھاڑونہ لگانا وغیرہ ایسے امور ہیں جن کی شریعت میں بالکل اجازت
نہیں ،یہ سراسر لغویات وخرافات ہیں۔جناب اصغر علی مصباحی صاحب رقم طراز ہیں
:ہمیں چاہیے کہ ہم تمام خرافات وبدعات سے توبہ کریں،ان ایام میں روزہ
رکھیں،تلاوت کریں،خیرات دیں اور دوسرے نیک اعمال کے ذریعے اﷲ ورسول (عزوجل
وصلی اﷲ علیہ وسلم)کی خوشنودی حاصل کریں اور اس کا ثواب امام حسین رضی اﷲ
عنہ کی روح کو نذر کریں اس طرح امام حسین کی روح خوش ہوگی اور ہم پر ان کا
فیضان جاری ہوگا،ورنہ امام حسین ہمارے خرافات وبدعات سے ہرگزخوش نہ ہوں
گے۔بلکہ الٹا ناراض ہوں گے اور ہمارا شمار امام حسین کے نافرمانوں میں
ہوگا۔‘‘ (ماہنامہ خضرراہ،نومبر۲۰۱۳ء ،ص۱۲)……فتاوی رضوی شریف میں ہے : حضرات
کرام کے فضائل ومناقب ومراتب ومناصب روایات صحیحہ معتبرہ سے بیان کرنا
سناناعین ثواب وسعادت ہے اور ذکرشہادت شریف بھی جبکہ مقصود ان کی اس فضیلت
اور ان کے صبرواستقامت کابیان ہو مگرغم پروری کاشرع شریف میں حکم نہیں، نہ
غم وماتم کی مجلس بنانے کی اجازت، نہ ایسی باتیں کہی جائیں جس میں ان کی بے
قدری یاتوہین نکلتی ہو۔(فتاوی رضویہ،ج۲۳،ص۷۳۸)
یوم عاشوراء کے نوافل :
(1)……اولیائے کرام رحمہم اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : جو شخص عاشورہ یعنی دس
محرم کو دورکعت نماز اس طرح پڑھے کہ پہلی رکعت میں الحمد شریف کے بعدسورۂ
انعام اور دوسری رکعت میں الحمد شریف کے بعد سورۂ یاسین پڑھے اس کو ہزار
برس کی عبادت کا ثواب ملتا ہے۔(اسلامی مہینوں کے فضائل وعبادات،ص۵)
(2)……جو شخص عاشورہ کے دن چاررکعتیں اس طرح پڑھے کہ ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ
کے بعد سورہ ٔ اخلاس ایک سو گیارہ مرتبہ پڑھے گاتو اﷲ تعالیٰ اس کے پچاس
برس کے گناہ معاف فرمادے گا اور اس کے لئے نور کا منبر بنائے گا۔(نزہۃ
المجالس،ج۱،ص۱۸۱)
(3)……اکثر مشائخ کرام اور بزرگانِ عظام سے منقول ہے کہ دن کا ایک پہر چڑھنے
کے بعد غسل کرکے چار رکعت نماز نفل ایک سلام کے ساتھ ادا کرے،ہر رکعت میں
سورۂ فاتحہ کے بعد سورٔ اخلاص (قُلْ ھُوَاللّٰہُ اَحَد پوری سورت)پندرہ بار
پڑھے ،سلام کے بعد دس مرتبہ درج ذیل دعاء پڑھے اور اس نماز کا ثواب سیدنا
امام حسن اور سیدنا امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہماکی ارواح کونذر کر ے تویہ
دونوں حضرات اس کی شفاعت فرما کراپنے ساتھ جنت میں لے جائیں گے ۔دعا یہ
ہے:سُبْحَانَ اللّٰہِ مِلْأَالْمِیْزَانِ وَمُنْتَھَی الْعِلْمِ وَمَبْلَغَ
الرِّضٰی وَزِنَۃَ الْعَرْشِ لَامَلْجَاءَ وَلَامَنْجَاءَ مِنَ اللّٰہِ
اِلَّا اِلَیْہِ سُبْحَانَ اللّٰہِ عَدَدَ الشَّفْعِ وَالْوِتْرِ وَعَدَدَ
کَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّآمَّۃِ کُلِّھَا وَاَسْئَلُہُ السَّلَامَۃَ
بِرَحْمَتِہٖ وَلَاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ
الْعَظِیْمِ حَسْبِیَ اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ نِعْمَ الْمَوْلٰی
وَنِعْمَ النَّصِیْرُاَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ بِحَقِّ الْحَسَنِ
وَاَخِیْہِ وَاُمِّہٖ وَاَبِیْہِ وَجَدِّہٖ وَبَنِیْہِ فَرِّجْ عَنِّیْ
مَااَنَا فِیْہِ بِرَحْمَتِکَ یَا اَرْحَمَ الرّٰحِمِیْنَ ۔(اسلامی مہینوں
کے فضائل وعبادات،ص۶)
(4)……حضرت امام زین العابدین رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں : جو شخص دس محرم کو
طلوع آفتاب سے غروبِ آفتاب تک اس دعا کو پڑھ لے یا کسی سے سن لے تواﷲ
تعالیٰ نے چاہا تو سال بھر تک اس کی زندگی کا بیمہ ہوجائے گا،اس سال ہر گز
موت نہ آئے گی اور اگر موت آنی ہوگی تو عجیب اتفاق ہے کہ پڑھنے کی توفیق نہ
ہوگی ۔ یہ دعا بہت مجرب ہے :یَا قَابِلَ تَوْبَۃِ اٰدَمَ یَوْمَ
عَاشُوْرَآءَ ،یَا فَارِجَ کَرْبِ ذِی النُّوْنِ یَوْمَ
عَاشُوْرَآءَ،یَاسَامِعَ دَعْوَۃِ مُوْسٰی وَھٰرُوْنَ یَوْمَ
عَاشُوْرَآءَ،یَامُغِیْثَ اِبْرَاہِیْمَ مِنَ النَّارِ یَوْمَ
عَاشُوْرَآءَ،یَارَافِعَ اِدْرِیْسَ اِلَی السَّمَآءِ یَوْمَ
عَاشُوْرَآءَ،یَامُجِیْبَ دَعْوَۃَ صَالِحٍ فِی النَّاقَۃِ یَوْمَ
عَاشُوْرَآءَ،یَانَاصِرَ سَیِّدِنَامُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ
وَسَلَّمَ یَوْمَ عَاشُوْرَآءَ ، یَارَحْمٰنَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ
وَرَحِیْمَھُمَا صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَامُحَمَّدٍ وَعَلٰی اٰلِ
سَیِّدِنَامُحَمَّدٍ وَصَلِّ عَلٰی جَمِیْعِ الْاَنْبِیَآءِ
وَالْمُرْسَلِیْنَ وَاقْضِ حَاجَاتِنَا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ
وَاَطِلْ عُمْرَنَا فِیْ طَاعَتِکَ وَصُحْبَتِکَ وَرَضَاکَ
وَاَحْیِنَاحَیٰوۃً طَیِّبَۃً وَتَوَفَّنَا عَلٰی الْاِیْمَانِ
وَالْاِسْلَامِ بِرَحْمَتِکَ یَا اَرْحَمَ الرّٰحِمِیْنَ، اللّٰھم بِعِزِّ
الْحَسَنِ وَاَخِیْہِ وَاُمِّہٖ وَاَبِیْہِ وَجَدِّہٖ وَبَنِیْہِ فَرِّجْ
عَنِّیْ مَانَحْنُ فِیْہِ۔پھر سات بار پڑھے :سُبْحَانَ اللّٰہِ
مِلْأَالْمِیْزَانِ وَمُنْتَھَی الْعِلْمِ وَمَبْلَغَ الرِّضٰی وَزِنَۃَ
الْعَرْشِ لَامَلْجَاءَ وَلَامَنْجَاءَ مِنَ اللّٰہِ اِلَّا اِلَیْہِ
سُبْحَانَ اللّٰہِ عَدَدَ الشَّفْعِ وَالْوِتْرِ وَعَدَدَ کَلِمَاتِ
اللّٰہِ التَّآمَّاتِ کُلِّھَا نَسْئَلُکَ السَّلَامَۃَ بِرَحْمَتِکَ
یَااَرْحَمَ الرّٰحِمِیْنَ وَھُوَ حَسْبُناَ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ نِعْمَ
الْمَوْلٰی وَنِعْمَ النَّصِیْرُ وَلَاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّا
بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی
سَیِّدِنَامُحَمَّدٍ وَعَلٰی اٰلِہٖ وَاَصْحٰبِہٖ وَعَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ
وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ عَدَدَ ذَرَّاتِ
الْوُجُوْدِ وَعَدَدَ مَعْلُوْمَاتِ اللّٰہِ وَالْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ
الْعٰلَمِیْنَِ۔( مجموعہ وظائف صفحہ ۱۰۶) |