مذہب کے نام کو بعض مذہبی راہنما جس بے دردی سے
استعمال کرتے ہیں۔شاید ہی کوئی اور نام اس بے دردی سے استعمال ہوا ہو۔بایں
ہمہ مذہب کو ہر گز ا’ن مظالم اور خو نریزیوں کا ذمہ دار قرار نہیں دیا جا
سکتا۔جو اس کے نام پر کی جاتی رہی ہیں۔ اور آج بھی کی جا رہی ہیں۔کیا دیانت
کے نام پر اگر بددیانتی کی جاےّ تو دیانت کے پاکیزہ چہرے پر کوئی داغ لگ
سکتا ہے؟
دراصل انفرادی یا قومی اعمال کسی فرد یا قوم کے ذہنی رجحانات اور قلبی
کیفیات کے آئینہ دار ہوا کرتے ہیں۔یہ جو ہم اپنے گردوپیش میں معاشرے کی
تصویر دیکھتے ہیں یہ ہمارے ہی تصورات اور اخلاق کے خدوخال ہیں۔اور بحیثیت
قوم ہمارے باطن کا وہ عکس ہے جو آ َئٔینہ قدرت ہمیں دکھا رہا ہے۔جس قدر کسی
قوم کا باطن پاک وصاف ہو گا۔اور جسے جسے قومی اخلاق پر صفاتـــ الہی کا دنگ
چڑھتا جائے گا۔اسی قدر یہ تصویر زیادہ جاذب نظر اور دلکش بنتی چلی جائے گی․یہ
تصویر خو د بخود قوم کے اخلاق بننے اور بگڑ نے کے ساتھ ساتھ بنتی اور بگڑتی
رہتی ہے۔اور قومی اخلاق کے بننے اور بگٹنے میں مذہبی علما کے اخلاق کا غیر
معمولی دخل ہوا کرتا ہے۔بڑی ہی قابل رشک اور خو ش قسمت ہوتی ہے وہ قوم جس
کے راہنما وں تقوی اﷲ کی مضبوط اور غیر متزلزل چٹان پر قائم ہوں۔اس کے سوا
ہر دوسری بنیاد ناقابل اعتماد ہے۔اور وہ قوم بڑی ہی بدقسمت ہوا کرتی ہے۔ جس
کے راہنماؤں کی اخلاقی اور نظریاتی عمارت اس چٹان پر قائم نہ ہو۔اور وہ
عدلوانصاف ،امنتاور دیانت،وسیع حوصلگی کی ااعلٰی صفات سے عاری ہو چکے ہوں۔
کیا اس بڑھ کر بھی کسی مذہبی قوم پر کوئی ادبار آسکتا ہے۔کہ اس کے راہنما
تنگ نظر اور بے حوصلہ ہو جائیں۔اور اپنے باہمی اختلافات میں میزان عدل سے
کام لینا ترک کر دیں۔؟جن نظریات کو قائم کرنے کے وہ دعو یدار ہوں۔خود اپنے
اعمال سے انہی کی بیخ کنی کر رہے ہوں۔اگر ایسا ہو تو اس قوم کے دن لکھے جا
چکے ہیں۔ایسی قوم یقینا بد قسمت ہوتی ہے۔اور ان کے علماء ایسی روحانی
بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔جو دن بدن بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔ان کے دل
ودماغ کو ایک گھن سا لگ جاتا ہے۔جو اندر ہی اندر ان کی صلاحیتوں کوچاٹ جاتا
ہے۔اور تمام نظام عقل خرد کو مفلوج کر دیتا ہے۔خود غرضی ان کی پہچان ہویی
ہے۔اور تنگ حوصلگی طرہ امتیاز۔ہر دوسرے شخص کے عقائد پر یہ خدائی فوجدار بن
کر نگران ہو جاتے ہیں۔اور خدا کی غلامی کے نام پر یہ دنیا کو اپنے نظریات
کی غلامی پر مجبور کرتے ہیں۔ان کی طبیعت سخت متضاد خصوصیات کی حامل ہوتی
ہے۔ایک طرف تو کسی دوسرے فرقے کے ائمہ اور بزرگان سے متعلق سخت گندی زبان
اور ننگ انسانیت زبان استعمال کرنے سے بھی ان کے نذدیک کسی کی دل آزاری
نہیں ہوتی۔اور دوسری طرف ان باتوں پر بھی بھڑک اٹھتے ہیں جو ان کے لیے باعث
انبساط ہونی چاہیے تھیں۔ ماوں ، بہنوں بیٹیوں کے بارے میں ایسی زبان استمال
کرنا ۔کہ سر شرم سے جھک جائے۔
کیا ہم اسلام کی خدمت کر رہے ہیں؟کیا یہ درست ہے کہ دوسروں کی مساجد جلا
کر۔ اور ان کا خون بہا کر ہم خود کو مسلمان کہیں؟کیا دوسرے ممالک پاکستان
میں ہونے والی خون ریزی اور اختلافات کو دیکھ کر اسلام سے بد دل نہیں ہو
جائے گی؟ افسوس سے کہنا پڑتا ہے۔ کہ اسلام کی سچی محبت ہی باقی نہیں رہی۔ہم
اسلام کی سچی تعلیم کو بھول گئے ہیں۔ افسوس صد افسوس۔ ۔ ۔ ۔ |