اطاعتِ رسولؐ اور اتباعِ رسولؐ میں فرق ہے۔
اطاعتِ رسولؐ کے معنی ہیں کہ رسولؐ کے ہرحکم کی فرمانبرداری کی جائے اور
اتباع کے معنی ان کی پیروی کے ہیں یعنی جو کچھ انہوں نے کیا اور جس طرح سے
کیا اس طرح سے ہم بھی کریں۔
نوکر و آقا کی مثال یا تقلید کی مثال۔
قرآن پاک میں اتباعِ رسولؐ کے سلسلے میں متعدد آیات ہیں اسی طرح اطاعتِ
رسولؐ کے سلسلے میں مسلمان جب کلمہ طیبہ لااَلٰہ اِلااللہ محمدالرسول اللہ
پڑھتا ہے تو وہ دراصل اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ وہ زندگی میں صرف اللہ کی
اطاعت و بندگی کرے گا اور پھر اطاعت و بندگی کا وہی طرز اختیار کرے گا جو
رسول اللہؐ نے اختیار کیا۔ اتباع سے واقفیت کیلئے سیرت طیبہؐ کا مطالعہ
ضروری ہے۔ رسول اللہؐ کی زندگی میں مختلف النوع حالات پیش آئے اور مختلف
قسم کے حالات میں آپؐ نے جو طرز عمل اختیار کیا اس کے بارے میں ہمیں علم
ہوتا ہے۔ ایسا وقت تھا جب آپؐ دولت مند تھے پھر مفلسی بھی دیکھی۔ اطاعت
گزاری کا وقت گزارا اور فرمانروائی کا بھی۔ دوستی بھی نبھائی، دشمنی بھی
جھیلنی پڑی۔ صحت مند و تندرست رہے، بیماری سے بھی سابقہ پڑا۔ حکومت و جماعت
کا انتظام چلایا، معلمی بھی کی، فوج کے سپہ سالار رہے، قاضی اور جج کے
فرائض انجام دیئے۔ رشتہ داریاں نبھائیں، باپ کی حیثیت سے، شوہر کی حیثیت
سے، سسر کی حیثیت سے، مسلموں اور غیر مسلموں سے تعلقات۔ دوسرے بڑے آدمیوں
کی طرح آپؐ کی زندگی کا کوئی گوشہ خفیہ نہیں ہے۔
حضرت محمدؐ کی زندگی کا ہر رخ ہمارے سامنے ہے اور مکمل ہے۔ چمکتے سورج کی
طرح واضح ہے۔ آپؐ کا شخصی کردار اور آپؐ کا اعلیٰ اخلاقی اوصاف، شرافت،
صبر، شجاعت، توکل، عبادت سب کی کیفیت اور عملی نمونے موجود ہیں۔
اس طرح آپؐ اپنی گھریلو زندگی میں اچھے شوہر، شفیق باپ، مہربان نانا کی
حیثیت میں کس طرح کے تھے ہم بخوبی جانتے ہیں۔ اجتماعی زندگی میں اچھے
ساتھی، ہمدرد و سربراہ، اعلیٰ کمانڈر، بہترین منتظم و مدبر، دشمنوں کے
خیرخواہ وغیرہ ۔غرضیکہ ہر عمل کا نمونہ بہترین نمونہ آپ کی ذات میں ملتا
ہے۔
حضرت عائشہؓ کا قول ’’حضوؐر کا اخلاق مجسم قرآن ہے۔ ‘‘
قرآن پاک کی آیت ہے۔ وَمااٰتکُم الرسول فخذوہ وَمانھا کم عنہ فانتھوٰہ۔
یعنی تمہارا رسول تمہیں جو چیز دے اسے خوشی سے لے لو اور جس چیز سے روکے اس
سے باز رہو۔
اس کے ساتھ ہی سورہ النجم سے اس بات کی تشریح کر دی وَماینطق عن الھوٰی اِن
ھو اَلاَّوحی یوحیٰ کہ نبیؐ اپنی مرضی سے کچھ نہیں کہتے بلکہ جو ان کو وحی
کی جاتی ہے وہی بولتے ہیں۔
قرآن میں پھر ارشاد ہوتاہے۔من یطع الرسول فقد اطاع اللہ
جس نے رسولؐ کی اطاعت کی ، اس نے اللہ کی اطاعت کی یعنی اطاعت کی بنیاد
رسول اکرمؐ پر ایمان لانے پر رکھی گئی ہے۔ صرف اللہ کی واحدانیت پر ایمان
لانے سے کوئی شخص دائرہ اسلام میں داخل نہیں ہو سکتا جب تک کہ اللہ کے
رسولؐ کی تصدیق نہ کرے اور جو کچھ آپؐ اللہ کی طرف سے لائے ہیں اس پر ایمان
نہ لائے۔
قرآن پاک میں آیا ہے۔
انا ارسلنک شاھداً و مبشراً و نذیراً لیُؤمنو باللہ و رسولِہِ (الفتح 8-9)
بیشک ہم نے بھیجا آپ کو گواہ بنا کر، خوشخبری دینے والا، ڈرانے والا تاکہ
اے لوگو!تم اللہ اوراس کے رسولؐ پر ایمان لے آؤ۔
شاہد، مبشر، نذیر کی تشریح۔
سورہ اعراف میں ارشاد ہوتا ہے۔
فاٰمنوباللہ رسولہ النبی الامّی الذی یُومن باللہ و کلمتِہِ و اتبعوہ
لعلَکُم تھتدون۔
پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول نبی اُمّی پر جو خود اللہ اور اس کی
باتوں پر ایمان لاتا ہے اور اس کی پیروی کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پا لو۔
دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے۔
ومن لم یومن باللہ وَرسولِہ فانَّااعتدنا لِلکٰفرین سعیراً۔
اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان نہ لایا تو پس ہم نے کافروں کے
لئے آگ تیار کر رکھی ہے۔
ان آیات سے یہ نشاندہی ہوتی ہے کہ حضوؐر پر ایمان لانا فرض ہے اور حضوؐر پر
ایمان لائے بغیر نہ ایمان پورا ہے اور نہ اسلام درست ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ نے فرمایا کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ
میں لوگوں کے ساتھ اس وقت تک جہاد و قتال کروں جب تک کہ وہ اللہ کی وحدانیت
اور میری رسالت کے ساتھ ان باتوں کی تصدیق نہ کرلیں جو مجھے اللہ تعالیٰ نے
تعلیم فرمائی ہیں۔اب ان کا معاملہ اللہ کے ساتھ ہے۔
آنحضرتؐ کا معاملہ یہ کہ آپؐ نبی اُمّی تھے (اَن پڑھ) آپ اس قوم میں مبعوث
ہوئے جوتمام کی تمام جاہل تھی۔ آپؐ کی نشوونما اس شہر میں ہوئی جہاں گزشتہ
علوم کو جاننے والا کوئی نہ تھا نہ ہی آپؐ نے کسی ایسے شہر کا سفر کیا جس
میں کوئی عالم تھا جس سے آپؐ علم حاصل کرتے اور توریت و انجیل اور گزشتہ
امتوں کے حالات جانتے۔مصلحت خداوندی
اس کے باوجود آپؐ نے دنیا کے تمام ملتوں کے ہر فریق سے ایسی محبت قائم کی
کہ اگر تمام دنیا کے عالم و نقاد بھی جمع ہو جائیں تو بھی اس کی مثل کی
کوئی دلیل نہیں لاسکتے۔ اُمّی ہونے کے باوجود آپؐ کا ہر قسم کے علوم میں
ماہر ہونا آپؐ کی عظمت کی روشن دلیل ہے۔
آپؐ پر صرف ایمان لانا کافی نہیں ہے بلکہ زندگی کے ہر معاملے میں آپؐ
کااتباع ضروری ہے۔ آپؐ کے اسوہ حسنہ پر عمل کرنا ہر مسلمان کے لئے لازم ہے۔
آپؐ پر ایمان لانے اور آپؐ کی اطاعت و اتباع کی بدولت ہی ہدایت ملنے کی
توقع کی جاسکتی ہے۔جو شخص واضح ہدایت اور رہنمائی ملنے کے باوجود اللہ اور
اس کے رسولؐ پر ایمان نہیں لاتا وہ کافر ہے، اس کے لئے جہنم کی آگ ہے جس
میں اسے جھونک دیا جائے گا اور اپنے انکا رکے سبب سے عذاب کا مزہ چکھے گا۔
|