ﷲ تعالیٰ کے عشق ومستی میں قتل ہونے والوں
کو خالق کائنات نے خود شہیدفرماکر انکے درجات کا تعین فرمادیا۔ یہ وہ لوگ
ہیں جو اﷲ اور رسول کے سواکسی کا حکم نہیں مانتے۔ رب العالمین کے نام کی
سربلندی میں سبھی کچھ لٹانے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ اﷲ اور رسول پر
ایمان لانا ایسا ہے کہ انسان ااپنے آپ کو آخرت کے بدلے بیچ چکا ہے۔ اب اس
جان پر کسی کا کوئی حق نہیں۔ راز زیست یہی ہے کہ جان اسی نے دی وہ جس طرح
چاہے لے لے۔ سورۃ البقرۃ میں ارشاد فرمایا کہ جس کا مفہوم یہ ہے: اور جو اﷲ
کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ مت کہوبلکہ وہ زندہ ہیں ہاں تمہیں خبر
نہیں۔ روح کی جسم سے جدائی کو ہم موت قرار دیتے ہیں لیکن ایسا بارہامرتبہ
ہوا کہ روح کی جدائی ہم نے محسوس کی لیکن اسکے باوجود روح کا تعلق جسم سے
رہا اور کچھ وقت بعد آدمی نے حرکت کی اور اٹھ بیٹھا۔ درحقیقت روح کا جسم کے
ساتھ تعلق قائم رہتا ہے۔ عام حالات میں بھی اہل قبور کو شعور ہوتا ہے اور
سلام دینے والوں کے سلام کا جواب دیتے ہیں۔ جبکہ انکی ہڈیاں ہمیں بوسید
دکھائی دیتی ہیں۔ لیکن جو اﷲ کی راہ میں مارے جاتے ہیں انکے اجسام بھی اپنی
اصلی حالت پر قائم رہتے ہیں۔ جسم کی نشونمااور دوران خون بھی جاری رہتا ہے۔
اسکی وجہ یہ ہے کہ جسم کی ضرورت خوراک ہے اور اﷲ تعالی انہیں رزق دیتا ہے
جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا کہ مفہوم :اﷲ کی راہ میں مارے
جانے والوں کو مردہ خیال نہ کرنا۔ وہ رزق دیئے جاتے ہیں اور جو اﷲ تعالیٰ
انہیں اپنے فضل سے عطا فرماتا ہے اس پر بے حد مسرور ہوتے ہیں۔
تقریبا بیالیس ہجری کا واقعہ ہے کہ جب اول بادشاہ امت حضرت معاویہ بن ابی
سفیا ن نے اہل مدینہ کو حکم دیا کہ شہداء احد کی میتیں منتقل کریں تاکہ
انکی قبور مبارک کی جگہ نہرتعمیر کی جائے۔ تو اہل مدینہ نے شہداء احد شریف
کوانکی قبور مبارک سے نکالا تو جسم تروتازہ اور لچکدار تھے کہ جنہیں انکے
اعزا نے کندھوں پر اٹھا تو جسم ڈھلکتے تھے۔ ۔ دوران کھدائی سیدنا حضرت امیر
حمزہ رضی اﷲ عنہ کے پاؤں مبارک پر پھاوڑہ لگنے سے تازہ خون بہہ نکلا۔ حضرت
عبداﷲ بن عمرو رضی اﷲ عنہ جو حضرت جابر رضی اﷲ عنہ کے والد گرام تھے،غزوہ
احد میں شہید ہوئے تو بحکم رسول اﷲ ﷺ انہیں حضرت عمروبن الجموح رضی اﷲ عنہ
کے ساتھ ایک ہی قبر میں دفن کیا گیا ۔ تقریبا چالیس سال بعد زبردست سیلابی
پانی سے قبر کھل گئی اور دونوں حضرات کی لاشیں مبارک تیرتی نظر آئیں۔ لوگوں
نے انہیں اٹھایا تو وہ تروتازہ تھیں۔ ایک روائت کے مطابق حضرت عبداﷲ بن
عمرو رضی اﷲ عنہ کو جنگ کے دوران چہرے پر زخم آیاتھا اور بوقت شہادت انہوں
نے زخم پر اپنا ہاتھ رکھا ہوا تھا۔ جب قبر کھلی تو لوگوں نے انکا ہاتھ
سیدھا کیا لیکن جیسے چھوڑا وہ پھر چہرے پر چلا گیا۔ تاریخ عالم ایسے معجزات
اور کرامات شہداء سے بھری پڑی ہے۔ 1965 کی جنگ مسلمانان پاکستان کے جذبہ
جہاد کی مظہرتھی۔ اس میں کئی شہداء کی لاشیں تروتازہ ملیں۔ شہیدگواہ کے
معنوں میں مستعمل ہے کیونکہ کہ اﷲ کی محبت اور عشق میں بندہ مومن جنت میں
اپنے مقام اور اﷲ کی نعمتو ں پر شہادت دیتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوتا ہے۔
مسلمان جب بھی کفار سے نبرد آزما ہونے کو نکلے تو انہوں نے کبھی غازی بننے
کی نیت نہیں کی بلکہ شہید ہونے کی تمنا لے کر نکلے۔اﷲ تعالیٰ کے حکم کے
مطابق اﷲ کی راہ میں قتال کرو کے مطابق مسلمانوں کو صرف تعدی کرنے والے
کفار سے لڑنے کا حکم ہے اور اس لڑائی میں جو مسلمان مارا جائے وہی شہید ہے۔
اگر کوئی مسلمان کفار کی حمائت میں مسلمانوں سے لڑتا ہوا مارا جائے تووہ
شہید نہ ہوگا جیسا کہ بھارتی فوج میں شامل مسلمان فوجی پاکستان کے خلاف
لڑتے ہوئے مارے جائیں یا اقوام متحدہ کی فوج میں شامل کوئی مسلمان کسی
مسلمان ملک کے خلاف لڑتے ہوئے مارا جائے تو وہ شہید نہ ہوگا۔ کیونکہ شہادت
کا درجہ صرف اﷲ کی راہ میں لڑنے والوں کے لیئے ہے۔ اگر کوئی باغی اور غدر
کرنے والا مسلمان اپنے ملک کی مسلمان فوج کے ہاتھوں مارا جائے تو وہ بھی
شہید نہیں۔ حیرت ہے کہ پاکستان میں شہادت کا درجہ فورا ملتا ہے ۔
ایک دفعہ کراچی میں کچھ لوگ مارے گئے تو انہیں شہدائے اردو کہا گیا۔ کبھی
کوئی شہید جمہوریت بنا۔ بھارتی فوج نے سکھوں کو قتل کیا تو سکھ رہنماؤں نے
انہیں شہید کہا جبکہ انکے عقائد اسلام کے خلاف ہیں۔ لیکن تازہ ترین خبر کہ
علامہ مفتی مہتمم دینی مدرسہ جناب فضل الرحمن امیر جمعیت علماء اسلام نے
کتوں کو بھی شہید کا درجہ دیدیا۔ میں کیا کہوں ؟ سوائے اسکے کہ انہوں نے
سراسر قرآن کا مذاق اڑایا۔ کیا وہ استغفار کرچکے ہیں اور تجدید ایمان کرلی
ہے یاتوہین احکامات قرآنی کی پاداش میں حکومت پاکستان ان کے خلاف 295-C کے
تحت کاروائی کرے گی۔بلاشبہ کفار کے ہاتھوں مارے جانے والا مسلمان شہید ہے ۔
امریکہ کافر ہے اور اسکے ہاتھوں مارے جانے والے شہید ہیں۔ اگر حکیم اﷲ
افواج پاکستان کے ہاتھوں مارا جاتا تو شہید نہ تھا لیکن اسے امریکہ نے قتل
کیا اس لیئے وہ شہید ہے۔ موت کی آنکھوں میں آنکھیں وہی ڈال سکتے ہیں جنہیں
اپنے رب سے روز محشر ملاقات کا یقین ہے۔ دنیا کی زندگی عارضی اور کڑے
امتحان کی گھڑیاں ہیں لیکن مومن اپنا دامن تر کیئے بغیر نکل جاتے ہیں۔
مومنوں کا بڑے بڑے کفار اور جرار لشکروں سے مقابلہ ہوالیکن تاریخ گواہ ہے
کہ مومنوں نے کبھی پیٹھ نہیں دکھائی اور ایشیاء، افریقہ اور یورپ کے بڑے
حصے پر توحید و رسالت کا پرچم لہرا دیا۔بین المذاہب ہم آہنگی اور کفار کے
ساتھ ملکر رہنے کی تحریکیں اس وقت بھی اٹھیں۔ اﷲ کے رسول ﷺ سے کہا گیا کہ
آپ ہمارے بتوں کو برابھلا نہ کہیں اسی کعبے میں آپ اﷲ کی عبادت کریں اور ہم
اپنے بتوں کی۔ مگر انہیں بتایاگیا کہ اسلام اسلام ہے اور کفر کفرہے۔ ضدین
کا اجتماع ممکن نہیں۔ مومن کو اگر شہادت نہ ملے تو وہ غازی ہے، اسکے لیئے
مال غنیمت اور استحکام ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ہر دوصورتوں میں اعلائے کلمۃ
الحق کا فلسفہ کارفرماہے۔ جب بھی توحید و رسالت کے نظریات پر کوئی شب خون
مارا گیا اﷲ کی محبت سے سرشار اﷲ کی محبت میں سر کٹانے نکلے۔ جب مسلمانوں
کو ذاتی ملکیت سمجھا گیا، غلام سمجھا گیا، انکے مالوں اور جائیدادوں پر
غاصبانہ قبضے ہوگئے، خلافت اسلامیہ کوشخصی اقتدار میں تبدیل کیاگیا، جب اﷲ
و رسول ﷺ کے دیئے ہوئے نظام کائینات کو ناقص کرنے کی مکروہ سازشیں سامنے
آگئیں۔ تو قافلہ حجاز حرکت میں آیا۔ خیرالناس علی الارض، عشق ومستیِ الٰہی
میں یکتا، قائم الیل اور صائم الدہر، سراپا خلق رسول ، نواسہ رسول
مقبول،راکب دوشِ رسول،امینِ حق و صداقت قربانی کا بے مثل عزم لے کر کربلا
کے میدان میں اترے۔ کیا کچھ نہ پیش کیا گیا۔ اعلائے کلمۃ الحق کو ترک کرکے
دنیا کی تمام دولتیں اور عیش قدموں میں ڈالی جائے گی، امتحان عشق تھا۔ پھر
خیرالناس علی الارض نے حق امامت اداکرنے کے لیئے اپنے رب سے توفیق طلب کی
جو نہائت عمدہ انداز میں ملی کہ عورتوں کی بیوگی، بچوں کی یتیمی، بے آب و
گیاہ صحرا میں تیمم کے ساتھ اﷲ کے حضور سجدہ ریزی کا سلسلہ جاری رہا۔ انصار،
نوجوان مسیں بھیگتے بیٹے اور بھتیجے ، معصوم بھانجے بہن کے سہارے حتی کہ چھ
ماہ کے شیر خوار بھی عزم و استقلال کے ساتھ آگ اگلتے ریگستان پر رب تعالیٰ
کی رضا پر قربان کردیئے۔ رسول اﷲ ﷺ کے نواسے ہونے کا حق ادا کردیا۔ اسی لئے
حقِ امامت سیدنا امام حسین بن علی علیہ السلام کو حاصل ہے۔ ایک خبیث اور
لعین یزید نے دینِ اسلام کی جڑیں کاٹنے کا جو عزم کیا تھا اسے تو آپ علیہ
السلام نے ناکام ونامراد کردیااوراپنے خون پاک سے شجر اسلام کی وہ آبیاری
فرمائی کہ اب قیامت تک اس پر کوئی بدکردار شب خون نہیں مارسکتا۔ آج ہر کوئی
کہہ رہاہے حسین ہمارے ہیں۔ بے شک وہ انسانیت کے محسن ہیں۔ رہا یزیدکا
معاملہ تو غاصب ،ظالم اور بے دین خائب و خاسر ہی ہوتے ہیں۔ قتل حسین اصل
میں مرگِ یزید ہے ۔ اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد۔ |