برطانیہ اسلامی بنکاری میں دنیا سے بازی لے گیا

برطانیہ میں اسلامی مالیات اور بنکاری ساری دنیا سے زیادہ ہے۔ اور اس شعبے میں مسلسل ترقی ہورہی ہے۔ اسلامی مالیات برطانوی اقتصادیات کا ایک اہم حصہ ہے۔ برطانیہ اس شعبے میں مغرب کے مرکز کی حیثیت اختیار کرگیا ہے،برطانیہ میں اس شعبے میں ترقی کی عظیم مثالیں پہلے ہی موجود ہیں۔ لندن میں ایک درجن سے زائد بنک اسلامی مالیاتی لین دین فراہم کررہے ہیں ، جن میں سے پانچ مکمل طور پر شریعت کے مطابق کام کرتے ہیں۔ لندن کا منظرشریعہ لین دین کی وجہ سے تبدیل ہوچکا ہے، دا شارڈ(لندن میں شیشے کی بنی 72 منزلہ عمارت)،چیلسی بیرکس، ہیرڈز، اولمپک ولیج، ان سب کو مکمل یا جزوی طور پراسلامی مالیاتی وسائل سے تعمیر کیا گیا ہے۔برطانیہ کی عالمی لیڈرشپ کو مزید مستحکم کرنے کے لئے لندن کاانتخاب 9ویں عالمی اسلامی اقتصادی فورم کے میزبان کی حیثیت سے کیا گیا تھا، پہلی بار یہ فورم اسلامی دنیا سے باہر ہوا ہے۔لندن میں ورلڈ اسلامک اکنامک فورم کا نواں اجلاس گذشتہ ماہ منعقد ہوا۔ جس میں لندن اسٹاک ایکسچینج میں اسلامک انڈکس بھی متعارف کرایا گیا۔ عالمی اسلامی اقتصادی فورم کے اس اجلاس کے دوران اسلامی دنیا کی اقتصادی ترقی اور مسلم ممالک کے درمیان تجارتی تعاون کے فروغ کے لیے بہت سی تجاویز پیش کی گئی۔ اس دوران مسلم ممالک کی معاشی بہتری کے لیے متعدد سفارشات پر غور بھی کیا گیا ۔برطانوی وزیرِاعظم ڈیوڈ کیمرون نے اسلامک انڈکس کا افتتاح کیا۔ ماہرین کے نزدیک برطانیہ تیزی سے پھیلتی ہوئی اسلامی فنانس مارکیٹ کے ثمرات میں سے اپنے حصے میں اضافے کا خواہش مند ہے۔کیمرون یہ سمجھتے ہیں کہ لندن مسلم دنیا سے باہر مسلم اقتصادیات کا سب سے بڑا مرکز ہے۔خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق حالیہ سالوں میں اسلامی سرمایہ کاری میں ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا ہے۔ سن 2006ء سے اسلامی بینکاری نظام تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ ماہرین یہ توقع کر رہے ہیں کہ اگلے سال کے آخر تک اس کا حجم دو ٹریلین ڈالر تک پہنچ جائے گا۔برطانیہ کی جانب سے اسلامک بانڈ ’سکوک‘ کا اجراء بھی کیا گیا۔سکوک وہ اسلامی بانڈ ہیں جن کو سود کے متبادل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ جاری کیے جانے والے اسلامک بانڈز کی مالیت 323 ملین امریکی ڈالر کے برابر ہے۔ ان بانڈز کا اس سے پہلے ملائشیا اور عرب دنیا میں کامیاب اجرا ہو چکا ہے۔اس کے علاوہ بین الاقوامی اسلامک انڈکس کا افتتاح بھی کیا گیا۔ ورلڈ اسلامک اکنامک فورم میں دنیا بھر سے آئے ہوئے 1800 سے زائد مندوبین شریک ہوئے۔ اہم مقررین میں پاکستانی وزیر اعظم محمد نواز شریف بھی شامل تھے۔ انھوں نے اپنے خطاب کے دوران پاکستانی وزیر اعظم نے مسلمان رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ پائیدار انسانی ترقی کے لیے کوششیں کریں۔ انہوں نے کہا کہ امت مسلمہ کو پائیدار سماجی اور اقتصادی ترقی کے لیے توانائی، پانی، بنیادی ڈھانچے، تجارت اور سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔نواز شریف کا مزید کہنا تھا کہ انسانیت کا مستقبل ایک دوسرے پر انحصار میں مضمر ہے اور کوئی خطہ اپنے طور پر الگ تھلگ رہتے ہوئے ترقی نہیں کر سکتا۔ نواز شریف نے کہا کہ اسلامی ممالک اقتصادی سماجی اور سیاسی شعبوں میں دنیا کے لیے بہت کچھ کر سکتے ہیں۔

اس وقت دنیا میں ایک بدلتے ہوئے اقتصادی منظر میں عالمی دوڑ جاری ہے، معاشی طاقت مشرق کا رخ کررہی ہے، چین اور بھارت اورمشرق وسطی اورجنوب مشرقی ایشیا کے بورڑوا درمیانی طبقے کی طرف منتقل ہورہی ہے۔شائد اسی لئے برطانیہ کو دنیا کو یہ دکھانے کی ضرورت ہے کہ برطانیہ غیر ملکی سرمایہ کاری اور تجارت کیلئے اول درجے کامرکز ہے۔ یہ دکھانے کی کہ برطانیہ کے دروازیکاروبار کے لئے کھلے ہوئے ہیں۔ لندن یہ پیغام واضح اور بلند آواز سے بھیج رہا ہے۔ یہ اب بھی دنیا کانمبرون مالیاتی مرکزہے اور یہ ایک ایسا مقام ہے جسے برطانیہ کھونا نہیں چاہتا ہے۔ برطانیہ اس وقت دبئی، نیو یارک اور ہانگ کانگ کے علاوہ مستقبل کے علاقائی مراکز، جیسے نائیجیریا،سے بڑھتی ہوئی مسابقتی دوڑمیں شریک ہے۔ نائیجیریا افریقی مالیاتی مرکز بننے کی کوشش کررہاہے۔ شائد اسی لئے ابرطانیہ نے اسلامی مالیات کا شعبہ منتخب کیا ہے۔ اسلامی مالیات ایک ایسا شعبہ ہے جہاں پیشرفت ممکن ہے۔ یہ کوئی چاندی کی گولی نہیں لیکن ایک سنہرا موقع ضرور ہے۔اس لئے بھی کہ دنیا کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی 25 مارکیٹوں میں سے 10 مسلم اکثریتی ملکوں میں ہیں۔دوسری وجہ یہ کہ، اسلامی مالیات آج کی اخلاقی مالیات کی تلاش کا جواب ہے۔اسلامی بنکاری کی پیش رفت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ 2009 تک۵۷ سے زائد مسلم اور غیر مسلم ملکوں میں تین سو سے زائد اسلامک بنک اور شریعت کی بنیادوں پر قائم مالیاتی ادارے وجود میں آئے جو اس وقت انڈونیشیا ،ملیشیا ،ایران، سوڈان، اردن ،سعودی عرب ،متحدہ عرب امارات اور کویت وغیرہ میں پھیلے ہوئے ہیں اور ہر سال اس میں دس فیصد کی شرح سے اضافہ ہورہا ہے اور ان اسلامی بنکوں میں آج بھی تقریباً پانچ کھرب ڈالر کا محفوظ سرمایہ موجود ہے اسلامی بنکنگ کی عالمی سطح پر مقبولیت کا اندازہ وہ صرف اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ برطانیہ کی یونیورسٹی آف ریڈنگ نے اسلامک فائنانس کورس کے لئے ایک مستقل شعبہ شروع کیا ہے ،فرانس کی یونیورسٹی کی طرف سے بھی اس طرح کی اطلاعات آرہی ہیں ،ملیشیا میں اسلامک بنکنگ سے استفادہ کرنے والوں میں پہلے سال ہی 50 سے زائد غیر مسلم تھے ،سنگاپور نے جب اسلامک بانڈ جاری کئے تواس سلسلہ میں سرمایہ کاری کرنے والوں کا اندازہ تھا کہ اسلامک بانڈ کی مقبولیت کا یہی حال رہا تو صرف اگلے دو تین سالوں میں اس کی مالیت ایک کھرب ڈالر تک بآسانی پہونچ جائیگی ،امریکہ میں اسلامک بنک کا آغاز ہوچکا ہے ،خود فرانس کی حکومت بھی اپنے یہاں اس غیر سودی اسلامی بنکنگ نظام کو جاری کرنے پر سنجیدگی سے غور کررہی ہے انڈیا میں بھی وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے اسلامک بنکنگ کے امکانات کا جائزہ لینے کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔

مغربی دنیا میں مالیاتی دھچکے کے بعد سے جب یہ واضح ہوا کہ نقصان اورمنافع کے درمیان ربط ٹوٹ چکا ہے، سود کا نہ ہونا بہت لوگوں کے لئے پرکشش ہوگیا ہے۔تاریخ شاہد ہے کہ اس غیر انسانی سودی نطام نے صرف گذشتہ سو سال میں انسانیت کو معاشی واقتصادی اعتبار سے بھی ہلاکت کے کس غار تک پہونچا دیا ہے، اس کے لئے صرف امریکی ویوروپی بنکوں کی مثالیں کافی ہیں، دنیا کو یہ بتانا ضروری ہے کہ عالمی سطح کی موجودہ کساد بازاری اور کروڑوں انسانوں کی یک لخت بے روزگاری کے پس پردہ اسی سودی نظام کی خباثتیں ہیں جس نے قرضوں تلے دبے ہزاروں انسانوں کو خود کشی پر مجبور کیا ،پلک جھپکنے میں کروڑ پتی سے بھیک مانگنے والا بنادیا۔سودی قرض لینے والوں کو اسراف وعیش پسندی کا خوگر بنادیا ،اخلاقی حدود وقیود کو پامال کردیا ،کریڈٹ کارڈ کی شکل میں انسانوں کا راتوں رات دیوالیہ کردیا ،اسی مالی نظام نے انسانوں کو اپنی حیثیت سے زیادہ خرچ کرنے کا عادی بنادیا ،غریب کو غریب تر کردیا اور عالمی سطح پر غربت کے گراف میں ناقابل یقین اضافہ کیا ،اسی غیر سودی نظام نے پہلے خود سود لینے والوں کو ڈبو دیا اور کنگال کیا بالآخرچشم فلک نے یہ بھی دیکھا کہ جس نے دوسروں کو کنگال کیا ایک دن وہ خود بھی کنگال ہو گیا ،یورپ کے اسٹاکس ایکسچینج اچانک بیٹھ گئے امریکی انشورنس کمپنیاں دیکھتے دیکھتے بیٹھ گئیں ،برطانیہ اور فرانس کے شئیر بازار خود اپنے اصل سرمایہ اور Assets سے بھی محروم ہوگئے ۔کیونکہ ارشاد ربانی ہے کہ اﷲ تعالی سود کومٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے)۔

در حقیقت، لوگوں کا ایسی سرمایہ کاری تلاش کرناجو ان کے فلسفے اور عقائد کے مطابق ہوکوئی نئی بات نہیں اور نہ ہی صرف اسلام کا خاصہ ہے۔ ترکی میں اسلامی تقاضوں کے مطابق کام کرنے والے بنکوں کے اثاثوں کی مالیت گزشتہ دس سال میں ہزار گنا بڑھ گئی ہے۔ قرض حسنہ کے ذریعے اسلامی مالیات ایک خیر خواہ معاشرے، دولت کی گردش، بھلائی کے کام اور ضرورتمندوں کی مدد کا عزم رکھتی ہے۔ایک ایسے وقت میں جب اعتماد کمزور ہے اورحکومت جی ایٹ کے ساتھ مل کر مالیاتی اداروں میں شفافیت کے لئے کام کررہی ہے، اسلامی مالیات ایک معقول اور نپا تلا بنکاری متبادل بن سکتا ہے۔اور یہ تیسری وجہ ہے کہ اسلامی مالیات کیوں ایک اہم متبادل ہے کیونکہ ہم پہلے کی طرح اسی راہ پر چلنا جاری نہیں رکھ سکتے۔ ہمیں توازن نو پیدا کرنا اور معیشت کو متنوع بنانا ہے۔ ہمیں اپنے موجودہ مقام کو مستحکم اورمحفوظ کرنا ہے۔ ہمیں نئی مارکیٹوں، مصنوعات اور خطوں سے سے رابطہ کرنا ہوگا۔ مالیاتی مشورے کاپہلا اصول’’ اپنے پورٹ فولیو کو متنوع بنانا’’ ہے، اسلامی مالیات کا منفردانداز بنکاری شعبے کیلئے ایسا کرنے کی سہولت فراہم کرتا ہے۔اسلامی مالیاتی لین دین میں صرف منافع ہی نہیں نقصان کی بھی شراکت ہوتی ہے۔ سرمایہ کاری سے پہلے کاروباری پیش کش کی نتیجہ خیزی کو سختی سے جانچا جاتا ہے۔ اور منصوبے کا جائزآمدنی پیدا کرنا لازمی ہے۔ فلسفہ یہ ہے کہ آپ ‘وہ شے فروخت نہیں کر سکتے جو آپ کے پاس ہو ہی نہیں’۔ اسلامی مالیاتی شعبے میں قیاس یا غرار سے کسی حد تک تحفظ مل جاتا ہے۔ برطانوی وزیر سعیدہ وارثی کہتی ہیں کہ برطانیہ میں پہلی بارکسی وزیرکے تحت اسلامی مالیاتی ٹاسک فورس کا قیام ہوا ہے جسے کئی شعبوں کی وزارتی چھتری میسر ہے، اس ٹاسک فورس کی پانچ نکات پر توجہ ہوگی۔اول، مارکیٹ سے تعاون۔ ہم نے رکاوٹوں کو دور کرنے اورمارکیٹ کی طلب کے مطابق ترقی اوراختراع کے طریقوں پر غورشروع کردیا ہے۔اسلامی مالیات کے لئے موزوں ٹیکس اور ضابطوں کے فریم ورک کو برقرار رکھنے کے خصوصی ہدف کے ساتھ لندن کو ایک مسابقتی قوت دینا، برطانیہ نے اسلامی مارگیج کیلئے جو ٹیکس نظام پہلے ہی فراہم کیا ہے تاکہ سکوک کو نقصان نہ پہنچے۔ ہم متبادل مالیاتی اسکیموں جیسے مرابحہ اور وکالہ کے ذریعے طلبہ کے اسٹوڈینٹس لون کو شریعہ کے مطابق فراہم کرنے کا متبادل فراہم کررہے ہیں۔دوئم، مالیاتی انفرااسٹرکچرجیسے جیسے اسلامی مالیات کی طلب بڑھ رہی ہے اسی کے ساتھ برطانیہ کے لئے بیرونی سرمایہ کاری کے بڑے مواقع بھی موجود ہیں اور ہم غور کررہے ہیں کہ ٹاسک فورس کس طرح سرمایے کو مثال کے طور پر 40 بڑے ترجیحی انفرا اسٹرکچر منصوبوں کے لئے متحرک کرسکتی ہے جن کی قومی انفرااسٹرکچر منصوبے میں نشاندہی کی گئی ہے۔سوئم ضابطے۔ ٹاسک فورس اسلامی مالیات کے لئے ضابطوں پر بھی غور کررہی ہیکیونکہ سرکاری نظم و ضبط اورانفرااسٹرکچر جو اس شعبے کو قوت دے گا وہی مستقبل کے استحکام اور افادیت کی ضمانت ہوگی۔

چہارم یہ کہ برطانیہ کے اسلامی مالیاتی تعلیمی ، تربیتی اور تحقیقی مہارت کو فروغ اور برآمد کیسے کیا جائے۔پنجم مواصلات۔ مارکیٹ کی نمو میں تعاون کے ہمارے منصوبے میں لازمی اہمیت لندن کو ایک ترجیحی مرکز بنانا ہے۔ لندن اول درجے کی مالیاتی اور اس سے منسلک خدمات کی پیشکش کرتا ہے جن میں اکاؤنٹنسی،قانون اور ثالثی شامل ہے اور وہ اسلامی مالیات کے تقاضوں کے عین مطابق ہیں جس سے کسی معاملت کے ہر مرحلے کی تکمیل ایک ہی مالیاتی مرکز میں ہونا ممکن ہے۔

اسلامی مالیات دو بلین سے زائد افراد کے لئے مارکیٹ بیس بننے کی قوت رکھتی ہے۔ مالیاتی بحران کے دور میں وہ اصول جن پر اسلامی مالیات کا دارومدار ہے پہلے سے زیادہ اہم اور پر کشش ہوگئے ہیں۔ توازن، نقصان میں شراکت، شفافیت، تحفظ اور فروگزاشت کے اصول۔ وہ اصول جو آپ کو ایسی شے فروخت کرنے سے باز رکھتے ہیں جو آپ کے پاس ہے ہی نہیں یا ان اثاثوں کی قیمت لگانا جن کا وجود نہ ہو۔

اسلامی بنکاری کے فروغ کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی قابل تشویش ہے کہ جس تیزی سے پوری دنیا میں غیر سودی بنیادوں پر اسلامک بنکوں کا قیام عمل میں آرہاہے اس تناسب سے ان بنکوں اور شرعی مالیاتی اداروں کو رہنمائی کے لئے شریعت کے ماہرین دستیاب نہیں ہورہے ہیں۔ اور نہ ایسے ماہرین دستیاب ہیں جو عالمی مالیاتی نظام سے تو واقف ہوتے ہیں لیکن اسلامی مالیاتی نظام کی روح سے ان کو مناسبت نہیں ہوتی ،اس کے برخلاف ہمارے علماء بنیادی اسلامی اقتصادی نظام سے دس سال سے زائد فقہ کی کتابوں کو پڑھنے کی وجہ سے نہ صرف واقف ہوتے ہیں بلکہ وہ اس کے ماہر بھی ہوتے ہیں لیکن عالمی مالیاتی و بنکنگ نظام سے عدم واقفیت اور اپنی پڑھی ہوئی فقہی بحثوں اور ابواب کو اس سے تطابق نہ دینے کی وجہ سے ان سے اس میدان میں فائدہ نہیں اٹھا یا جارہا ہے ۔ گو ہمارے علما نے اس باب میں بہت کام کیا ہے۔ مولانا حفظ الرحمن سیوہاردی نے اسلام کا اقتصادی نظام کے نام سے جدید اسلامک بنکنگ کے خد وخال پہلے ہی واضح کردیئے تھے، اسی طرح مولانا مناظر احسن گیلانی نے اسلامی معاشیات کے جدید اصول وضوابط پر ایک مکمل کتاب تالیف کی تھی ،خود مولانا سید ابوالاعلی مودودی نے بھی آج سے ۵۷ سال قبل جدید سودی نظام کے مضرات وقباحتوں پر قرآن وحدیث کی روشنی میں ایک لاجواب کتاب سود کے نام سے لکھ کر سود سے پاک اسلامک مارکیٹنگ کا تصور سب سے پہلے پیش کیا تھا ، لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے دینی مدارس میں اسلامک بنکنگ میں تعلیم پر توجہ دی جائے تاکہ ملت کی ایک اہم ضرورت کی تکمیل ہوسکے ۔

اس وقت پاکستان میں اسلامی بینکنگ میں 15 فیصد اضافہ کی شرح برقرار ہے ، دنیا بھر کے 51 اسلامی ممالک میں 500 سے زائد اسلامی بینک اور مالیاتی ادارے اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں جس سے کروڑوں لوگ مستفید ہورہے ہیں، ان اداروں سے استفادہ کرنے والوں میں مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم بھی شامل ہیں جو آج غیر سودی بینکاری کو زیادہ محفوظ تصور کرتے ہیں، اگرچہ اس وقت اسلامی مالیاتی اداروں کے اثاثے عالمی بینکنگ اور مالیاتی اداروں کی کل مارکیٹ کا صرف ایک فیصد ہیں، لیکن آئندہ ایک عشرے میں توقع کی جارہی ہے کہ یہ بڑھ کر 8 سے 10 فیصد ہوجائیں گے، پاکستان میں اس وقت 6 اسلامی بینک کام کررہے ہیں جن کی ملک بھر میں 560 شاخیں ہیں،جبکہ 12 روایتی بینکوں کی اسلامی بینکنگ شاخیں بھی موجود ہیں، اسلامی بینکنگ کا ملک کے مجموعی بینکنگ اثاثوں میں حصہ 5 فیصد کے لگ بھگ ہے اور اسلامی بینکوں کا 35 ارب روپے کا تمسکاتی پروگرام ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا غیر سودی قرض منصوبہ ہے ،جس سے حکومتِ پاکستان استفادہ کرسکتی ہے۔اسلامی بینکنگ دیگر اقسام کی بینکنگ سے کس طرح مختلف ہے اس کا اندازہ اس مثال سے ہوتا ہے کہ اسلامی بینک کمپنیوں کو فلوٹنگ انٹرسٹ ریٹ پر قرضے دیتے ہیں، فلوٹنگ ریٹ کا انحصار کمپنی کی شرح نمو پر ہوتا ہے، چنانچہ بینک کا نفع کمپنی کے منافع کی ایک خاص شرح کی صورت میں ملتا ہے، جب قرض کی اصل رقم واپس کر دی جائے تو نفع میں شراکت کا یہ معاہدہ ختم ہوجاتا ہے،اس نظام کی ایک اور مثال کاروبار میں سرمایہ کاری ہے، کاروبار کرنے والا افرادی قوت فراہم کرتا ہے جبکہ بنک اس میں سرمایہ لگاتا ہے، اس طرح نفع اور نقصان دونوں میں شرکت ہو جاتی ہے، سرمایے اور مزدور کے درمیان اس طرح کا شراکتی انتظام اسلام کے اس اصول کی نشاندہی کرتا ہے کہ کاروبار میں کسی ناکامی کا سارا بوجھ صرف قرض دار کو ہی نہ اٹھانا پڑے، دوسری طرف اس سے آمدن بھی متوازن طور پر تقسیم ہو جاتی ہے اور معیشت پر قرض دینے والے کے تسلط کا بھی سدِّباب ہو جاتا ہے،رہن کے معاملے میں بھی بینک اسلامی اصول پر عمل کرتے ہیں، اس نظام میں بینک کوئی چیز خریدنے کے لئے رقم فراہم نہیں کرتا بلکہ مطلوبہ شئے خود خرید لیتا ہے اور پھراپنا منافع رکھ کروہ چیز صارف کو دوبارہ فروخت کر دیتا ہے، بینک صارف کو اس شئے کی قیمت قسطوں میں ادا کرنے کی سہولت بھی دیتا ہے اور تاخیر سے ادائیگی کی صورت میں کوئی اضافی رقم یا جرمانہ بھی ادا نہیں کرنا پڑتا، اس تیسری مثال میں نادہندگی سے بچنے کے لئے فریقین کے درمیان سخت شرائط رکھی جاتی ہیں۔ آج اسلامی بینکنگ اوراسلامی سرمایہ کاری کا ہرطرف بہت شورہے،اسلامی دنیا میں بینکاری کے اس رجحان کو دیکھتے ہوئے مغرب میں بھی حکومتی سطح پر اس نظام کو فروغ دیا جا رہا ہے ،اسلامک بینکنگ کا نظام اس وقت پاکستان سمیت کئی اسلامی ممالک میں رائج ہے گو کہ مغربی ممالک میں یہ تصور ابھی اتنا عام نہیں ہے، لیکن اب امریکہ میں بھی اسلامی بینکنگ اور مسلم فنانسنگ نظام متعارف کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے، یوں اس کے فوائد اب صرف اسلامی ممالک تک محدود نہیں رہے ہیں بلکہ دنیا بھر میں تسلیم کئے جارہے ہیں، اس سال برطانیہ سود سے پاک ،سکوک ، اسلامی بانڈ جاری کرے گا، ان بانڈز کی قدر سٹرلنگ پاؤنڈ میں مقرر کی گئی ہے تاکہ برطانیہ میں رہنے والے مسلمان اور دیگر ایسے لوگ جو سٹرلنگ پاؤنڈ میں کاروبار کرنے کے خواہشمند ہیں، اس موقع سے فائدہ اٹھا سکیں، مزید براں یورپ میں یورپی اسلامی سرمایہ کاربینک اور برطانوی اسلامی بینک جیسے کئی بڑے اسلامی مالیاتی ادارے ابھر کر سامنے آرہے ہیں، تھائی لینڈ اور سنگاپور بھی انہی خطوط پر آگے بڑھ رہے ہیں اورایشیاء میں ہانگ کانگ اور سنگاپور سب سے پرکشش اسلامی فنانس مارکیٹ کی شکل اختیار کر رہے ہیں۔اس وقت برطانیہ کی کئی یونیورسٹیوں میں اسلامی بینکنگ سے متعلق ماسٹر ڈگری پروگرام اس وجہ سے شروع کئے گئے ہیں کہ اْن کی بینکوں سے ایک بڑی رقم نکل کر مسلمان ممالک کی اسلامی بینکوں میں نہ چلی جائے،چنانچہ وہ اس سرمائے کو اپنی بینکوں میں محفوظ رکھنے کیلئے اپنے یہاں اسلامی بینکاری نظام کو فروغ دے رہے ہیں۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 387562 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More