وہ میرے پاس بیٹھا رومال سے
آنکھوں میں آئے آنسو صاف کر کے بولا ”سر! کیا بھائی بھی اپنے بھائی کے ساتھ
ایسے کر سکتا ہے؟“ وہ پچھلے ایک گھنٹے سے میرے آفس میں افسردہ بیٹھا تھا،
میں مصروف تھا اس لئے اس کو انتظار کرنا پڑ رہا تھا، میں جب بھی اس کی طرف
دیکھتا تو وہ اپنے چہرے پر مسکراہٹ لانے کی ناکام کوشش کرتا، اس کی حرکات و
سکنات سے بے چینی اور اضطراب صاف نظر آرہا تھا، جب میں فارغ ہوا تو اس نے
سوال داغ دیا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ ہوا کیا ہے؟ تم کیوں اتنے پریشان اور
دکھی دکھائی دے رہا ہو؟ تین سال قبل جب وہ مجھے پہلی بار ملا تھا تو بہت
خوش و خرم دکھائی دیتا تھا، اس کی شادی ہونے والی تھی، کاروبار بھی اچھا جا
رہا تھا، وہ اپنے بڑے بھائی کے ساتھ مل کر ایک امپورٹ ایکسپورٹ کی فرم چلا
رہا تھا، اس وقت اس نے مجھے بتایا کہ سب بہن بھائیوں میں بہت پیار ہے اور
والد کی وفات کے بعد وہ دونوں بھائی مل کر اپنی فیملی کو سپورٹ کررہے ہیں۔
دو بہنوں کی شادیاں ہو چکی ہیں اور اس کے سمیت ایک بہن غیر شادی شدہ ہے، اس
کی منگنی ہوچکی ہے، جلد ہی شادی ہوجائے گی اور پھر فوراً بہن کی شادی کے
لئے بھی اچھا سا رشتہ ڈھونڈنا باقی تھا۔ تین سال پہلے اور موجودہ شخصیت میں
بہت فرق محسوس ہورہا تھا، بلکہ پہلے تو میں اسے پہچان ہی نہ پایا، اس وقت
وہ نوجوان نظر آتا تھا، صاف رنگ، پورے بال اور مسکراہٹ کی دلکشی لئے اس کی
شخصیت بہت اثر انگیز تھی لیکن اب جب وہ تین سال بعد ملنے آیا تو بہت پریشان
اور بے چین تھا، سر کے بال آدھے سے زیادہ اڑ چکے تھے اور جو باقی بچے تھے
ان میں سفیدی نمایاں تھی، جبکہ میں اس کے بڑے بھائی کو بھی جانتا تھا اور
عمر میں اس سے 12/13 سال بڑا ہونے کے باوجود نہ صرف پورے بال تھے بلکہ سیاہ
بھی! جب میں نے اس سے اس کی موجودہ حالت بارے استفسار کیا تو وہ جیسے پھٹ
ہی پڑا، لگتا تھا بہت عرصہ سے اس نے غبار اپنے اندر جمع کیا ہوا تھا اور
کسی سے کہنے کو بے قرار تھا۔ اس نے مجھے جو کہانی سنائی وہ کچھ یوں تھی۔
”ہم دو بھائی اور تین بہنیں ہیں، والد صاحب 5 سال پہلے وفات پاچکے ہیں، دو
سال پہلے تک ہم دونوں بھائی مل کر کاروبار چلا رہے تھے، میری شادی سے پہلے
اور شادی کے ایک سال بعد تک بڑے بھائی فرم کے کاروبار میں کوئی عملی کام
نہیں کررہے تھے بلکہ بڑے بھائی ہونے کے ناطے صرف حکم چلایا کرتے تھے اور
میں ہمہ وقت ان کے حکم کی تعمیل بجا لانے کے لئے تیار رہتا تھا۔ میری شادی
تک سب کچھ ٹھیک ٹھاک چلتا رہا، شادی کے فوراً بعد بھابی نے بھائی کے کان
بھرنے شروع کر دئیے، آہستہ آہستہ دوریاں پیدا ہونا شروع ہوگئیں، یہاں تک
نوبت پہنچ گئی کہ ایک ہی جگہ کام کرنے کے باوجود کئی کئی دن تک صرف
کاروباری امور پر ہی بات ہوتی، جو دوستی ہم دونوں بھائیوں میں میرے بچپن سے
موجود تھی وہ ختم ہوتی گئی۔ میں اپنے دونوں بھتیجوں اور ایک بھتیجی سے بہت
پیار کرتا ہوں، انہیں بھی مجھ سے دور کرنے کی کوششیں ہوئیں، ایک ہی گھر میں
رہنے کے باوجود بچوں پر پابندیاں لگ گئیں کہ چچا اور چچی سے کچھ نہیں لینا
اور نہ ان کے ساتھ کہیں جانا ہے۔ ہر موقع پر والدہ کی توہین کی جاتی اور
دونوں بہوﺅں کے سامنے ان کی بے عزتی کا تو جیسے بڑے بھائی کو حق مل گیا ہو،
والدہ اکیلے میں روتی تھیں کہ یہ سب کیا ہورہا ہے، لیکن بھائی صاحب کی
آنکھوں پر تو جیسے پٹی بندھ گئی تھی۔ بھابی جو بات کہتیں وہ ان کے لئے قرآن
و حدیث ہوگیا، جبکہ والدہ اگر اپنی صفائی بھی دیتیں تو ان کی بات نہ مانی
جاتی۔ جب میں نے والدہ کی بے عزتی پر احتجاج کرنا شروع کیا تو میں اور بھی
برا بنتا گیا، قصہ مختصر کہ پہلے انہوں نے کاروبار سے بےدخل کیا، میں نے
اپنا علیحدہ کام شروع کر لیا، پھر انہوں نے کہا کہ کچن بھی علیحدہ کرلو، اس
حکم کی بھی تعمیل کی اور آخر کار وہ لمحہ آگیا جب انہوں نے کہا کہ اس گھر
سے نکل جاﺅ! یہ سارے معاملات صرف ایک سال میں ہوگئے، میرا کاروبار حالانکہ
نیا نیا تھا لیکن اللہ کا شکر ہے کہ ٹھیک چل رہا تھا، بچت تو نہیں ہو رہی
تھی لیکن گزارہ اچھا ہو رہا تھا، جب انہوں نے یہ کہا کہ گھر چھوڑ دو تو میں
سمجھا شائد صرف مجھے کہہ رہے ہیں لیکن انہوں نے تصحیح کردی کہ صرف اپنے
بیوی بچے کو نہیں بلکہ والدہ اور چھوٹی بہن (جسے کبھی وہ اپنی بیٹی کہا
کرتے تھے) کو بھی یہاں سے لے جاﺅ، ساتھ ہی کہنے لگے کہ کاروبار اور گھر
میرے ہیں، پھر بھی اگر تم حساب کتاب کرنا چاہو تو کر سکتے ہو! میری والدہ
نے اس وقت مجھ سے علیحدگی میں کہا کہ تم روپے پیسے کے لئے بڑے بھائی سے
ہرگز مت لڑنا اور اگر حساب کتاب کیا تو شائد ساری زندگی پھر میل ملاقات نہ
ہوسکے، وہ بھائی کے بچوں سے بہت زیادہ اٹیچڈ تھیں اور ان کے بغیر نہیں رہ
سکتیں تھیں، میں نے کرایہ کا گھر دیکھا اور ہم لوگ وہاں منتقل ہوگئے۔ کچھ
عرصہ میل ملاقات بند رہی لیکن آہستہ آہستہ کشیدگی کے باوجود بچوں کا آنا
جانا شروع ہوگیا اور والدہ بھی نئے ماحول میں ایڈجسٹ ہوتی گئیں۔ بھائی ہفتے
میں ایک دو بار ہماری طرف آجاتے ہیں لیکن جب بھی آتے ہیں وہی پرانی باتیں
شروع کرکے والدہ کو پریشان اور ذلیل کرتے ہیں، اگر کوئی بیچ میں بولے تو اس
کی شامت آجاتی ہے، مجھے تو دیکھتے ہی ایسے ہیں جیسے ابھی گولی مار دیں گے۔
بات بات پر کہتے ہیں کہ کھاﺅ اپنے بچوں کی قسم، جب سے ہم لوگ شفٹ ہوئے ہیں
چھوٹی بہن سمیت کسی کو ایک بار بھی نہیں کہا کہ میرے گھر آﺅ، کہتے ہیں میں
ہرگز نہیں کہوں گا، اگر کسی نے آنا ہے تو آجائے، اگر دل نہیں مانتا تو بے
شک سو بار نہ آﺅ۔ ایسی ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں کہ کوئی بیٹا سوچ بھی نہیں
سکتا، میری ترقی، سوسائٹی میں جان پہچان تو انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتی، ہر
وقت اسی چکر میں ہوتے ہیں کہ کیسے اسے ذلیل کیا جائے“ میں نے کہا ”کوئی بات
نہیں، تم ان کی عزت میں کمی مت لانا، اب تم اپنے گھر والے ہو، اپنا کاروبار
ہے، کسی کی بات سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، اسی کو شریکہ کہتے ہیں اور
ویسے بھی یہ تو ہر گھر کی کہانی ہے“ وہ حیرت سے میری طرف دیکھ کر بولا ”
اور بھی سارے لوگ یہی کہتے ہیں!“ مجھ سے اپنا دکھ بانٹ کر وہ ہلکا پھلکا
ہوگیا، اس کے جانے کے بعد میں نے سوچا کہ بڑے اسی لئے کہتے ہیں کہ ”شریکہ“
بھائیوں میں ہی ہوتا ہے غیروں میں نہیں....! اور جس گھر میں ”شریکہ“ شروع
ہوجائے وہاں اتحاد و اتفاق نہیں ہوسکتا، بنیادی طور پر ”شریکہ“ حسد سے شروع
ہوتا ہے اور حسد کرنے والا اپنا بھی نقصان کرتا ہے اور جس سے حسد کیا جائے
اس کا بھی۔ اگر چھوٹی چھوٹی باتوں کو انا کا مسئلہ نہ بنایا جائے تو بہت سے
مسائل اور پریشانیوں سے بچا جا سکتا ہے۔ اللہ ہر گھر کو ”شریکہ“ سے محفوظ و
مامون رکھے! آمین۔ |