کراچی میں موسلا دھار بارش کے اڑتالیس
گھنٹے بعد بھی شہر کی جو صورتحال ہے۔ اسے جنگ کے بعد کی صورتحال سے تشبیہہ
دی جاسکتی ہے۔ ٹوٹی ہوئی سڑکیں، بہتا ہوا اور جمع شدہ پانی، کچرے کے ڈھیر،
اور اس پر مستزاد یہ کہ شہر کے وسیع حصے میں بجلی غائب ہے جس کی وجہ سے شہر
کے بیشتر علاقوں میں پینے کے پانی کی شدید قلت بھی پیدا ہوگئی ہے۔ کراچی
میں دو سو پینتیس ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔ اس سے قبل کراچی میں سب سے
زیادہ بارش انیس سو ستتر میں دو سو سات ملی میٹر ریکارڈ کی گئی تھی۔ کراچی
میں اس طوفانِ باد باراں کے دوران مختلف حادثات میں ۰۵ سے زائد افراد ہلاک
ہوئے ہیں۔ محمود آباد، گارڈن ایسٹ، منظور کالونی، گلشن حدید سمیت شہر کے
کئی علاقوں میں اڑتالیس گھنٹوں سے بجلی بند ہے جس کی وجہ سے پینے کے پانی
کی فراہمی بھی معطل ہے اور ان علاقوں کے مکینوں میں سخت اشتعال پایا جاتا
ہے۔ شہر کے بعض مقامات پر بجلی اور پانی کی بندش اور بارش کے پانی کی نکاسی
نہ ہونے کے خلاف مشتعل لوگوں کی جانب سے سڑکوں پر احتجاج جاری ہے۔ کے ای
ایس سی کے حکام مسلسل دعوٰی کر رہے ہیں کہ شہر کے زیادہ تر علاقوں میں بجلی
کی فراہمی بحال کردی گئی ہے۔ لیکن عوامی احتجاج اب سڑکوں کو بلاک کررہا ہے۔
ٹرینوں کو روک رہا ہے، وزراﺀ، عوامی نمائندوں سے ناراض ہے۔
سیاست دانوں اور سڑک پر چلنے والی گاڑیوں پر پتھراﺅ کرراہا ہے۔ عوامی جذبات
کی وہ شدت ہے کہ اب خطرہ ہے کہ کراچی میں نئے سرے سے حالات بد ترین نہ ہو
جائیں۔ ایدھی ویلفیر ٹرسٹ نے اپنے مرکزی دفاتر کے مقامات سے بارش کے پانی
کی نکاسی نہ ہونے اور بجلی نہ ہونے کے باعث مریضوں کو فراہم کی جانے والی
ایمبولنس سروس عارضی طور پر معطل کر دی ہے۔ کے ای ایس سی کے معاملے میں
حکام بے بس نظر آتے ہیں۔ تو دوسری طرف کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی کے
عہدیداروں بے فکر۔ بارش باراں رحمت ہے اس کے آنے کا گلا نہیں کیا جاسکتا۔
لیکن اس کے بعد کے حالات افسوسناک کہے جاسکتے ہیں۔ شہری مسائل کے حل کے لئے
اخبارات تشہیر کے لاکھوں روپے کے اشتہارات میں کئے جانے والے سارے دعوے مٹی
کا ڈھیر ثابت ہوئے ہیں۔ تین دن گزرنے کے باوجود اب تک شہر کے بیس سے پچیس
فیصد علاقوں میں بجلی بحال نہیں ہوسکی ہے جس کی وجہ بارش کے نتیجے میں بجلی
کی تنصیبات میں پیدا ہونے والے نقائص ہیں۔ بعض علاقوں میں بجلی سے محروم
مشتعل لوگ کے ای ایس سی کے عملے پر حملے کررہے ہیں جس کی وجہ سے مرمت کے
کام میں دشواری پیش آرہی ہے۔ اور عملہ ان علاقوں میں جانے سے کترا رہا ہے۔
پیر اور منگل تک ایم اے جناح روڈ اور بولٹن مارکیٹ کے علاقوں کی دکانوں میں
دو سے تین فٹ پانی جمع ہوا تھا۔ جو حالیہ سڑکوں کی استرکاری کا بدترین
شاہکار کہا جاسکتا ہے۔ ہرچند کہ ان مارکیٹوں سے پانی نکال کر سڑک پر ڈال
دیا گیا ہے لیکن جب کوئی گاڑی گزرتی ہے تو پانی پھر اندر داخل ہوجاتا ہے۔
شہر کے بعض علاقے تاحال بارش کے پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ
پورا شہر نمک کا بنا ہوا تھا۔ جو بارش ہوتے ہی گھل کر رہ گیا۔ کراچی میں
بارش اور طوفانی ہواوؤں اور مرکزی شاہراہوں پر گرنے والے ہورڈنگز اور سائن
بورڈ کے نیچے دب کر کئی قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں۔ طوفانی بارش میں ہونے
والی ہلاکتوں اور زخمیوں کی تعداد 200 سے زائد بتائی جا رہی ہے۔
زیادہ تر نقصان، درخت، بجلی کے پول اور ہورڈنگز گرنے سے ہوئی ہے۔ اس کا ذمہ
دار کون ہے۔ وہ ادارے ہیں جو اس کا نظم نسبق چلاتے ہیں۔ لیکن اس سے قطع نظر
تھوڑی سی آمدنی کے لئے لوگوں کی جانوں کو خطرہ میں ڈالنا کہاں کی دانشمندی
ہے۔ بلاشبہ سٹی ناظم مصطفیٰ کمال ایک متحرک شخصیت ہیں۔ انہوں نے مہینوں قبل
سٹی گورنمنٹ کی زنگ آلودہ مشنری کو ہلایا تھا۔ لیکن بارش کے بعد کی صورتحال
کو یہ مشنری پھر بھی بہتر نہ کرسکی۔ مرکزی شاہراہوں سے پانی صاف کرنے کی
کاوش قابل تعریف لیکن مزار قائد، گورنر ہاﺅس کی سڑک کے پاس پانی کا پھیلاﺅ
ایک بدنظمی کا شاہکار ہے۔ پیر کو ٹریفک میں لوگوں کو جو دشواریاں ہوئی۔ اس
کی ذمہ داری ٹریفک پولیس کے سر ہے جو ایسے موقع پر عوام کو بے یارومدگار
چھوڑ کر غائب ہوجاتی ہے۔ میٹھادر، کھارادر، لیاری، گلشن حدید، گلستان جوہر،
بلدیہ ٹاؤن، لانڈھی، کورنگی سمیت شہر کے کئی نشیبی علاقوں میں بارش کا پانی
بدستور گلیوں میں جمع ہے جس سے لوگوں کو آمدورفت میں سخت پریشانی پیش آ رہی
ہے۔ کراچی بلدیاتی انتظام کے لحاظ سے کئی حصوں میں تقسیم ہے۔ شہر کا تینتیس
فیصد علاقہ سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ اور ٹاؤنز انتظامیہ کے ماتحت ہے جبکہ باقی
ماندہ علاقے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی، چھ کنٹونمینٹ بورڈز، سائٹ، کراچی پورٹ
ٹرسٹ اور پورٹ قاسم کے زیر انتظام ہے۔ وفاقی حکومت نے متاثرین کی فوری
بحالی کے لیے بیس کروڑ روپے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن اس سے کہیں بڑھ کر کراچی
کے کسی ایک والی وارث کا تعین ضروری ہے۔ ون کمانڈ کے بغیر آپ کس پر اس شہر
کی زمہ داری ڈال سکتے ہیں۔ بجلی، پانی، سڑکیں، بلڈنگ کنٹرول، نکاسی آب،
پولیس امن وامان سب کا ذمہ کوئی ایک تو ہونا چاہئے تاکہ اس کا احتساب کیا
جاسکے۔ اور وہ پوری طرح اس شہر کو ایک میڑو پولس بناسکے۔ |