حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد
پاکستانی طالبان میں نہ صرف قیادت کا بحران پیدا ہو گیا بلکہ صدیوں پرانی
دشمنیاں بھی ابھرنے لگی ہیں،جس کی وجہ سے یہ گروہ ایک مضبوط، مربوط و متحرک
گروپ کی حیثیت کھو بیٹھا ہے اور طاقت کے حصول کے لیے ایک نئی رسہ کشی کا
آغاز ہوگیا ہے،جس سے تحریک طالبان کی طاقت کو زبردست دہچکا لگنے کا امکان
پیدا ہو گیا ہے۔اہم طاقتور محسود قبیلے کے رکن ،حکیم اللہ کی ہلاکت اور
وادی سوات سے تعلق رکھنے والے فضل اللہ کے سربراہ مقرر ہونے سے تصویر کا رخ
یکسر تبدیل ہوگیا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یکم نومبر کو شمالی وزیرستان میں پاکستانی
طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود اور دیگر اعلٰی سطحی دہشت گرد رہنماؤں کی
ہلاکت نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے لاغر ڈھانچے کو گہرا نقصان
پہنچایا ہے۔ محسود قبائل ایک واحد امیدوار پر متفق ہونے میں ناکام رہے ہیں
جس سے اس بات کا واضح اظہار ہوتا ہے کہ انتشار اور افراتفری نے تحریک
طالبان پاکستان کی صفوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان
کے مختلف دھڑوں کی جانب سے متضاد بیانات سے یہ تنظیم مختلف جنگجوؤں کا ایک
ڈھیلا ڈھالا اجتماع نظر آ رہی ہے جو قیادت سے محروم ہے۔ طالبان کے بعض گروپ
پہلے ہی الگ الگ کارروائیاں کر رہے تھے اور اب ان میں سے ہر ایک اپنے
ایجنڈے کی تکمیل چاہتا ہے۔ ملا فضل اللہ ایک غیر حاضر کماندار ہیں جو ملک
سے باہر بیٹھے ہیں،ان کا دوسرے کمانڈروں پر اثر نہ ہونے کے برابر
ہوگا۔کیونکہ آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل۔
نئے قائد کے چناؤ میں طالبان گروپوں کے درمیان اختلافات شروع ہوگئے تھے
اورفضل اللہ کے انتخاب نے ان اختلافات کو مزید تقویت بخشی ہے ۔محسود قبائل
کے لئے فضل اللہ کو قبول کرنا ناممکن ہے۔پاکستانی تھینک ٹینک فاٹا ریسرچ
سینٹر کے ڈائریکٹر سیف اللہ محسود کے حوالے سے رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ ملا
فضل اللہ کے انتخاب سے نہ صرف محسود قبائل ناراض ہیں بلکہ آئندہ آنے والے
دنوں میں فضل اللہ اور محسود گروپوں کے درمیان شدید لڑائی کا بھی خطرہ
موجود ہے۔
شدت پسندگروہوں کو ایک چھتری تلے جمع کرنے والی تحریک طالبان مالی وسائل
اور مقامی قبائلیوں کی حمایت میں کمی کے بعد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے،پنجابی
طالبان بھی تحریک طالبان سے خوش نہ ہیں۔ طالبان عوام میں تیزی سے اپنی
حمایت کھو رہے ہیں . محسود قبیلے کے ایک فرد نے اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط
پر ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ تحریک طالبان قبائلی علاقے میں اپنی حمایت
تیزی سے کھو رہی ہے کیونکہ لوگوں کا خیال تھا کہ انہیں قران و شریعت کی
روشنی میں انصاف ملے گا مگر اس جنگ نے ہزاروں لوگوں کے در بدر کر دیا ہے۔
تجزیہ نگار، عسکری ماہرین اور مقامی افراد سے بات چیت کے بعد معلوم ہوتا ہے
کہ تحریک طالبان پاکستان کے وسیع قبائلی علاقوں کے ایک چھوٹے سے حصے پر
اپنا اثر و رسوخ رکھتی ہے، علاقے میں درجنوں ایسے عسکری گروہ وجود میں آ
گئے ہیں جن کے اپنے کمانڈرز ہیں اور ہر کسی کا اپنا اپنا ایجنڈا اور
وفاداریاں ہیں۔
گزشتہ ہفتے شوریٰ کے ایک اجلاس کے دوران فضل اللہ کو نیا ٹی ٹی پی کمانڈر
مقرر کیا گیا تو وہاں موجود حریف گروہ کے متعدد کمانڈر اٹھ کر چلے گئے۔اس
اجلاس میں شرکت کرنے والے ایک کمانڈر کا کہنا تھا ‘جب فضل اللہ کے نام کا
اعلان کیا گیا تو وہ باہر یہ کہتے ہوئے چلے گئے کہ طالبان کی کمان برباد
ہوگئی۔
پاکستانی طالبان ہمیشہ سے ہی تقسیم رہے ہیں جو صرف اپنے شدت پسندانہ خیالات
اور حکومت سے نفرت کے جذبات کے باعث یکجا ہوئے۔تاہم اہم طاقتور محسود قبیلے
کے رکن حکیم اللہ کی ہلاکت اور وادی سوات سے تعلق رکھنے والے فضل اللہ کے
سربراہ مقرر ہونے سے تصویر کا رخ تبدیل ہوگیا ہے۔
پاکستانی تھنک ٹینک فاٹا ریسرچ سینٹر کے ڈائریکٹر سیف اللہ محسود کے مطابق
‘ محسود قبائل نہ صرف اس تقرری پر ناخوش ہیں بلکہ کچھ اطلاعات کے مطابق
گروہ میں سنجیدہ قسم کی اندرونی لڑائی جاری ہے جو کہ مستقبل قریب میں منظر
عام پر آسکتی ہے۔
سلامتی کے امور کے تجزیہ کار اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں
سلامتی کے امور کے سابق سیکرٹری ریٹائرڈ بریگیڈیر محمود شاہ نے کہا کہ
تحریک طالبان پاکستان کا تقریباً خاتمہ ہو چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس دہشت گرد تنظیم کا کمزور قیادتی ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ چکا ہے
اور نئے سربراہ کو منتخب کرنے کی اندرونی رسہ کشی نے گروپ کے حوصلے مزید
پست کر دیے ہیں۔ بریگیڈیر محمود شاہ نے کہا کہ مہمند طالبان اپنے بندے عمر
خالد خراسانی کو تحریک کا سربراہ مقرر کرنے کی کوشش کر رہے تھے جبکہ
نورستان گروپ چاہتا تھاکہ ملا فضل اللہ کو سربراہ بنایا جائے۔ انہوں نے کہا
کہ محسود قبائل ایک واحد امیدوار پر متفق ہونے میں ناکام رہے ہیں جس سے اس
بات کا واضح اظہار ہوتا ہے کہ انتشار اور افراتفری نے تحریک طالبان پاکستان
کی صفوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
عسکریت پسندی کے معاملات کا احاطہ کرنے والے فری لانس صحافی سیف اللہ گل نے
کہا کہ فضل اللہ اور خراسانی کے درمیان مسابقت کے باعث تحریک طالبان
پاکستان کا بے مرکز ڈھانچہ مزید تقسیم ہو جائے گا۔
مبصرین کے مطابق حکیم اللہ محسود کی ہلاکت میںولی الرحمن کے حامیوں اور
حقانی نیٹ ورک کا ہاتھ ہے ۔ نصیرالدین حقانی کا قتل اس حملے کا بدلہ ہو
سکتا ہے اور حقانی کےقتل میں تحریک طالبان فضل اللہ گروپ کا ہاتھ ہو سکتا
ہے۔
طالبان جیسے گروپ میں اندرونی سازشیں معمول کی بات ہیں۔ولی الرحمن کے
حامیوں کی بھی حکیم اللہ سے کافی عرصہ سے آویزش چلی آرہی تھی اور وہ ولی
الرحمن کےساتھ ،حکیم اللہ کےمسلسل ناروا سلوک کی وجہ سے ،اس سے ناخوش و
ناراض تھے.۔ ولی الرحمن کے حامی بھی، حکیم اللہ کی ہلاکت میں ملوث ہوسکتے
ہیں۔
کچھ کا خیال ہے حکیم اللہ محسود کی موت میں طالبان اور ان کے دوستوں کا
ہاتھ بھی ہوسکتا ہے اور یہ اندر کی کاروائی لگتی ہے کیونکہ طالبان کی صفوں
میں،حکیم اللہ کے کئی مخالفین موجود تھے جو بدلہ لینے کے لئے موقع کی تاک
میں تھے۔مزید براں یہ غور کرنے کی بات ہے کہ طالبان کے ترجمان نے طالبان کی
گزشتہ تاریخ کے برعکس، حکیم اللہ کی موت کا فورا اعلان کیوں کر دیا۔جبکہ
بیت اللہ محسود کی ہلاکت کے وقت طالبان پہلے تو اس کی موت سے انکاری رہے ،
اور پھر بعد میں اس کی موت کا اعلان کرتے ہوئے کئی دن لگائے تھے۔، مگر حکیم
اللہ کے معاملہ میں غیر معمولی تیزی کیوں دکھائی گئی ؟ ایسا کیوں ہوا؟یہ سب
سوچنے اور سمجھنے کی باتیں ہیں اور غور کرنے سے کئی راز آپ پر آشکارا
ہونگے؟
حکیم اللہ محسودکی زندگی میں ان کے بعض رجحانات کی وجہ سے پاکستانی طالبان
کے صفوں میں بھی اختلافات پیدا ہو گئے تھے۔ ان کے دست راست لطیف اللہ محسود
کی گرفتاری کہ وہ افغان انٹیلی جنس کے ساتھ تھے ‘نے افغان حکومت کے ساتھ ان
کے روابط کو آشکار کردیا تھا اور تحریک طالبان پاکستان کے اکثر رہنما اس پر
شدید برہم تھے ۔ پنجابی طالبان کے مولانا عصمت اللہ معاویہ اور اسی نوع کے
بعض لوگ راستے الگ کرنے کا سوچ رہے تھے. |