غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر

کہتے ہیں جب ہلاکو خاں کی فوج نے عراق پر چڑھائی کی تو اتنی تباہی مچائی کہ اس کی نظیر نہیں ملتی۔ہلاکو خاں کی دہشت اور فرعونیت کا مسلمانوں پر اتناشدید اثر ہوا کہ مسلم فوج کی پسپائی کے بعد جب ہلاکو خاں کی فوج کا کوئی نہتا سپاہی کسی مسلمان کو دیکھ لیتا تو وہ مسلمان سے کہتا تم ادھر ٹھہرو میں ابھی آیا۔۔۔اور جب تک ہلاکو خاں کا سپاہی ہتھیار لے کر نہ آتا مسلمان کھڑا تھر تھر کانپ رہا ہوتا۔۔۔۔میں نے جب یہ واقعہ سنا تو سوچا اتنی ذہنی مرعوبیت اور ذہنی شکست۔۔۔!!!!

پھر وقت کروٹ بدلتاہے ۔۔امریکہ کی فوج پاکستان میں داخل ہوتی ہے۔۔ایک ٹیلی فون کال پہ پاکستانی اڈے امریکہ کی تحویل میں دے دیے جاتے ہیں۔پاکستان کے ہوائی اڈوں سے اڑ کر یہ ہمسایہ مسلم ملک افغانستان میں بمباری کرتے ہیں۔۔۔ان ہوائی جہازوں کو تمام سپلائی پاکستان سے ملتی ہے۔۔ایک بھائی دوسرے بھائی کو مارنے اور مٹانے کے لیے تیار۔۔۔پھر وقت نے ایک اور کروٹ لی ۔۔تو پاکستان میں موجود بلوچی قبائل پر ڈرون حملے شروع ہوتے ہیں۔۔۔پاکستان کے سپلائی لائن سے ملنے والا ایندھن پاکستانیوں ہی کے اوپر برسایا جا رہا۔۔۔اپنا سر اپنی جوتیاں۔۔۔مجھے یقین آگیا کہ ذہنی پسپائی اور مرعوبیت ایسے ہتھیار ہیں جن کا مقابلہ کوئی ٹینک اور ہتھیار نہیں کر سکتا۔۔یقین نہ آئے تو آج کل کی اخبار پڑھ کر یکھ لیں ۔۔۔جماعت اسلامی کے امیر منورحسین کا بیان "اگر پاکستان کی سر زمیں پر کوئی امریکی لڑتا ہوا مارا جائے تو وہ شہید نہیں ہو تا تو اسی امریکہ کے مفاد میں لڑتا ہوا کوئی مسلمان فوجی اگر مارا جائے تو وہ کیسے شہید ہوگیا؟؟؟؟؟؟؟؟منور حسین نے یہ سوال آج اٹھایا ہے مگر میں کئی سالوں سے اسی سوچ میں سرگرداں۔۔۔یہ سوال بہت بنیادی نوعیت کا ہے مگر اس سوال کے نتیجے میں سیکولر عناصر،مغربی حلقے ،الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں گویا کہرام مچ گیا۔۔۔اس سوال کا جواب تو درکنار اس سوال میں چھپے بنیادی سچ کو کوئی ماننے کو تیار نہیں۔۔غافل اور غلام قومیں ،مرعوب ذہنیت اور اخلاقی پستی وہ بیماریاں ہیں جو زبانیں ہی نہیں عقلوں کو بھی ماوف کر دیا کرتے ہیں۔۔بقول اقبال
غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر!

کسی انگریز کا قول ہے"کہ جنگوں کی ابتداء ذہنوں سے ہوتی ہے اگر ذہنوں میں امن بٹھا دیا جائے تو پھر چاروں طرف امن ہو جائے گا"اس قول کی تائید میں میں یہ کہوں گی کہ "جنگوں میں پسپائی کی ابتداء بھی ذہنوں سے ہوتی ہے اگر کسی قوم کے ذہنوں میں اپنی مرعوبیت بٹھا دی جائے ۔۔تو ان سے بغیر لڑے فتح یاب ہوا جا سکتاہے۔۔۔رہی بات سوالوں کی تو وہ پیدا ہوتے رہے گے کہ دنیا ابھی اتنی کنگال نہیں ہوئی،کچھ مرد مومن ابھی باقی ہیں۔۔
Rubina Shaheen
About the Author: Rubina Shaheen Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.