دھشت گرد شہید بننے لگ جائیں تو
معاشرے تباہ و برباد ہو جاتے ہیں اور یہی پاکستان کے ساتھ ہونے جا رہا
ہے۔ایک دھشت گرد تنظیم کے سرغنہ کی موت پر جس طرح مخصوص سیاسی ،مذہبی اور
حکومتی حلقے آنسو بہا رہے ہیں اس سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان سے
دین ، اخلاقیات اور اصولوں کا جنازہ نکل چکا ہے۔کل تک دبے دبے لفظوں میں
تحریکِ طالبان کی حمائت کرنے والوں نے آج سر پر آسمان اٹھا رکھا ہے ۔وہ اس
شور شرابہ میں کسی کی بات سننے کیلئے تیار نہیں ہیں۔وہ ان شہیدوں کو جھنوں
نے دھرتی ماں کی حفاظت میں اپنے لہو کا نذرانہ پیش کیا تھا فرموش کر رہے
ہیں۔کیسے کیسیے جوانِ ر عنا تھے جو پاک مٹی کی عصمت کو دھشت گردوں کی گرفت
سے بچاتے ہوئے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ان کے لواحقین ،ان کی جواں سال
بیویاں ، بوڑھے والدین اور معصوم بچوں کو دیکھیں تو کلیجہ منہ کو آتاہے
لیکن انھوں نے انتہائی جراتوں سے دھشت گردوں کو اپنی دھرتی پر ناپاک قدم
رکھنے سے روک کر ہماری زندگیوں کو امن اور سکون کی دولت بخشی۔یہ ان کی
جراتوں کا کمال تھا کہ دشمن اپنے مذموم مقاصد میں ناکام رہا۔ان کی جواں
ہمتی میرے جیسے کروڑ وں انسانوں کا فخر ہے اور آج اسی فخر کو مٹی میں ملانے
کی کوششیں ہو رہی ہیں لیکن یہ ان کی خام خیالی ہے کہ وہ ایسا کر سکتے
ہیں۔میرے وطن کے کروڑوں باسی آج بھی اپنے جری اور باہمت جوانوں کے ساتھ
کھڑے ہیں اور ان کی شجاعت پر نہ صرف رطب اللسان ہیں بلکہ ان کی جراتوں کو
سلام بھی پیش کر رہے ہیں۔ وہ سارے کے سارے جوان جھنوں نے ہماری آنے والی
نسلوں کو دھشت گردوں سے محفوظ رکھنے کیلئے اپنی جانوں کا خراج دیا وہ ہمیں
اپنی جان کی طرح عزیز ہیں لہذا ان کے خون سے ہاتھ رنگنے واے درندے اور قاتل
ہیں اور قابلِ گردن زدنی ہیں ۔میرے وطن کے جری جوان جو وطن کے نو نہالوں کی
زندگی بچانے کی خاطر دھشت گردوں کے سامنے حصار بن کر کھڑے ہیں انھیں ہم
کیسے بھول سکتے ہیں؟ میرے وطن کے یہ جوان پاکستان کا فخر، مان اور ناز ہیں
کیونکہ انھوں نے ایک عظیم مقصد کی خاطر موت کے سوداگروں کے سامنے جھکنے سے
انکار کیا ہے ۔ چند بے حس سیاستدان اور کچھ ناعا قبت اندیش علما وطن کے
شہیدوں کے اس لہو سے غداری کے مرتکب ہو رہے ہیں جس نے انھیں زندہ رہنے
کیلئے محفوظ پناہ گاہ مہیا کی ہے ۔ ابھی تو میجر جنرل ثنا اﷲ نیازی کا کفن
بھی میلا نہیں ہوا اور ان کے قاتل کو شہادت کا مقام عطا کیا جا رہا ہے ۔افسوس
صد افسوس ہمارے چند علما راہِ راست سے بھٹک چکے ہیں۔
کیا پاکستانی قوم پر یہ وقت بھی آنا تھا کہ اس نے پاکستان کے آئینی ادارے(
فوج) کے خلاف علما کی ہرزہ سرائی بھی سننی تھی۔حکیم اﷲ مسعود کو شہید کہنا
فوج کے خلاف کھلی بغاوت کا اعلان ہے۔فوج کو ایسے وطن دشمن بیانات کا نوٹس
لینا ہو گا کیونکہ اس طرح کی منفی سوچ پاکستان کی بنیادوں کو تباہ و برباد
کر سکتی ہے۔تحریکِ طالبان سے محبت رکھنے والے عناصر نے اپنے بیانات سے ثابت
کیا ہے کہ انھیں اپنی دھرتی کے سپوتوں سے کوئی محبت نہیں ہے۔وہ بانکے ،شیرد
ل جوان جو ہماری حفاظت کی خاطر اپنے سینوں پر گولیاں کھاتے ہیں ایک خاص
جماعت کے علما انھیں چند درندہ صفت انسانوں کے مقابلے میں شہید تسلیم کرنے
سے گریزاں ہیں۔اگر ہر قوم امیرِ جماعت اسلامی منور حسن کی سوچ پر چلنے لگ
جائے اور دھشت گردوں کو شہادت کے منصب پر فائز کرنے لگ جائے تو معاشرے کا
امن و امان اور سکون تباہ و برباد ہو جائے۔ ہر وہ شخص جو ریاست کے خلاف
ہتھیار اٹھا تا ہے وہ واجب القتل ہے۔وہ فتنہ و فساد کو ہوا دیتا ہے اور
فتنہ تو قتل سے بھی بڑا جرم ہے۔اگر علما کا اس طرح کا پروپیگنڈہ ہر گھر میں
پہنچ گیا اور لوگوں نے ان کے پیغام کو سنجیدہ لینا شروع کر دیا تو پھر مجھے
بتایا جائے کہ پاکستانی فوج کا مقام کیا ہوگا؟فوج تو ہمیشہ عوامی حمائت کی
طلب گار ہوتی ہے اور ان کی معاونت سے بڑے بڑے معرکے سر کرتی ہے لیکن حیران
کن بات ہے کہ وہ فوج جو تحریکِ طالبان کے خلاف سالہا سال سے نبر آزما رہی
ہے اور جس کے ہاتھوں اس نے بڑے گہرے زخم کھائے ہیں آج منور حسن جیسے علما
اسی فوج کے سب سے بڑے حر یف تحریکِ طالبان کے سرغنے کو شہادت کا درجہ دے
رہیں۔اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ پاکستانی فوج کا ہر وہ جوان جس نے تحریکِ
طالبان سے جنگ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا ہے شہید نہیں ہے۔جنگ میں
ہمیشہ دو فریق ہوتے ہیں اور ان میں سے ایک فریق واصلِ جہنم ہوتا ہے جبکہ
دوسرا فریق جنت کا حقدار ٹھہرتا ہے۔اب اگر تحریک طالبان کے جنگجو شہادت کے
سزاوار ہیں تو پھر ان سے نبر آزما پاک فوج کے جوان کس کھاتے میں ڈالے جائیں
گئے ؟ میرے وطن کے شعرا اور ادبا نے پاک فوج کی جراتوں کو جس اچھوتے انداز
میں خراجِ تحسین پیش کیا ہے وہ ہر پاکستانی کے لئے باعثِ فخر ہے۔ شاعر اپنے
شہدا اور غازیوں کے سدا گیت گاتے ہیں ان کا دلکش ا نداز تو دیکھئے ۔(اے
راہِ حق کے شہیدو وفا کی تصویرو ۔ تمھیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی
ہیں)۔۔(اپنی جان نذر کروں اپنی وفا پیش کروں اے قوم کے مردِ مجاہد تجھے کیا
پیش کروں)۔۔(میرا اک اک سپاہی ہے خیبر شکن)۔۔(رنگ لائے گا شہیدوں کا
لہو)۔۔(اے وطن کے سجیلے جوانو میرے نغمے تمھارے لئے ہیں)۔۔(میریا ڈول
سپائیا تینوں رب دیا رکھاں)۔۔(اے پتر ہٹا ں تے نئیں وکدے۔ تو لبھدی پھریں
بازار کڑے)۔لیکن آج اسی پاک فوج کے جوانوں کی قربانیوں کے بدلے میں ایک
دھشت گرد تنظیم کے سربراہ کے قتل کو شہادت کہہ کر پوری قوم کے جذبات کا خون
کر دیا گیا ہے۔یقین کیجئے علما کی اس حرکت پر ہر پاکستانی غم و غصے کی
تصویر بنا ہوا ہے کیونکہ ان کی عزت و آبرو اور جان و مال کے محا فظوں کے
مقابلے میں دھشت گردوں کو ہیرو بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔عوام گلی گلی
احتجاج کر رہے ہیں اور امیرِ جماعت اسلامی منور حسن کے خلاف غد اری کے
مقدمے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔عوام اس بات کو سمجھنے سے قا صر ہیں کہ کوئی
عالمِ دین اس طرح کی منفی، گھٹیا اور بے سرو پا سوچ کا اظہار بھی کر سکتا
ہے؟
آسما ن کی طرف منہ کر کے تھوکنے سے گندگی اپنے ہی منہ پر گرتی ہے اور یہی
آج کل پاکستان کے چند ناعاقبت انگیز سیاستدان اور مذہبی راہنما کرنے کی
کوشش کر رہے ہیں۔ جمعیت العلمائے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمان نے تو
حد کر دی ہے کہ امریکی ڈرون سے اگر کتا بھی مارا جائے گا تو وہ بھی ہمارے
لئے شہید ہوگا۔کاش فضل الرحمان سرحد میں ایم ایم اے کی حکومت (۲۰۰۲ سے
۲۰۰۷) کے دوران ایسا بیان دیتے تو ہمیں بھی ان کی دیانت پر فخر ہوتا ۔ڈرون
حملے تو اس وقت بھی ہوتے تھے اور بے گناہ شہری اس وقت بھی مارے جاتے تھے
لیکن اس وقت تو ایسا کوئی اعلان نہیں ہوا تھا کیونکہ اس طرح کے بیانات سے
حکومت کے ختم ہوجانے کے امکانات تھے اور مولانا اپنی حکومت کے کھوئے جانے
کے کسی بھی امکان کو اپنے قریب نہیں پھٹکنے دیتے ۔ان کیلئے اس وقت اقتدار
پہلی ترجیح تھا تبھی تو جنرل پرویز مشرف کی آمرانہ حکومت بھی انھیں قبول
تھی اور ڈرون حملوں پر انھیں کوئی سنجیدہ تحفظات بھی نہیں تھے۔ہماری سیاسی
قیادتیں در اصل اقتدار کی بھوکی ہیں اور اقتدار کے سامنے نہ تو ان کا کوئی
اصول ہوتا ہے اور نہ ہی کسی اخلاقی قدر کی کوئی اہمیت ہوتی ہے ۔ اقتدار کا
ہما سر پر بیٹھا ہوا ہو تو پھر اصولوں کا اچا ر ڈالنا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ
مولانا فضل الرحمان نے کتوں کو شہید کہہ کر شہادت کا تمسخر اڑا یا ہے اور
شریعت کی تضخیک کی ہے۔انھیں اپنی اس گمراہی کی سزا ملنی چائیے۔وہ ساری عمر
دوسروں کو گمراہ اور کافر قرار دے کر گردن زندنی کا مرتکب ٹھہراتے رہے ہیں
لیکن اب ان کی باری آئی ہے تو دیکھتے ہیں کہ علما ان کے خلاف کس طرح کا
فتوی جاری کرتے ہیں۔ ہزاروں بے گناہوں کے قاتل کو شہید کہنا اور پھر ڈرون
حملوں میں مرنے والے کتوں کو بھی مقامِ شہادت پر فائز کر دینا کوئی گمراہ
شخص ہی کر سکتا ہے اور یہ کام بد قسمتی سے پاکستان کے صفِ اول کے عالمِ دین
مولانا فضل الرحمان نے کیا ہے جسے مولانا مفتی محمود مرحوم کے فرزندِ
ارجمند ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔مجھے یقین ہے کہ مولا نا فضل الر حمان کے
یہ الفاظ ساری حیاتی ان کی ذات کے ساتھ چمٹ جائیں گئے اور ان کی بے توقیری
کا سبب بن جائیں گئے کیونکہ انھوں نے اپنے بیان میں جس طرح اسلامی شعائر کا
مذا ق اڑایا ہے اس کی سزا نھیں مل کر رہے گی۔۔(۔۔جاری ہے)۔۔ |