شاہین کوثر ڈار
پاکستان جو کئی سالوں سے غیر ملکی خصوصاً بھارتی ’’را‘‘ کی سرپرستی میں
دہشت گردی کا شکار چلا آ رہا ہے۔ اسی لہولہان پاکستان کے خلاف یہ منظم
پروپیگنڈا پاکستان دشمنی کی طرف سے جاری و ساری رہتا ہے کہ پاکستان دہشت
گردی کا مرکز ہے حالانکہ پاکستان خود دہشت گردی کا شکار ہے خاص طور پر
براستہ افغانستان ’’را ‘‘اور افغان انٹیلی جنس کی پاکستان میں دہشت گردانہ
کارروائیاں کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ۔ سوات میں آپریشن راہ راست کے دوران
پاکستان آرمی کی طرف سے گرفتار کیے گئے تحریک طالبان کے 23 کمانڈروں نے
دوران تفتیش اعتراف کیا تھا کہ بھارتی ’’را‘‘ اور افغان انٹیلی جنس پاکستان
میں مسلح دہشت گردی کے لئے انہیں مالی وسائل،اسلحہ اور تربیت فراہم کررہی
ہیں تاکہ پاکستان میں ٹارگٹ کلنگ ، بموں کے دھماکے، خودکش حملے پاکستان کی
سول اور فوجی تنصیبات پر حملے، اغواء برائے تاوان اور فرقہ وارانہ پُرتشدد
کارروائیاں و ہلاکتیں جاری رکھی جا سکیں۔ سابق بھارتی آرمی چیف وی کے سنگھ
کھلے عام اعتراف کرچکے ہیں کہ سپیشل انٹیلی جنس یونٹ ٹیکنیکل سروسز ڈویژن
پاکستان کے اندر بشمول بلوچستان اور آزاد کشمیر میں دہشت گردانہ کارروائیوں
میں تیار کیا گیا تھا ۔ امریکی خصوصی افواج کی طرف سے تحریک طالبان پاکستان
کے رہنماء لطیف اﷲ محسود کو افغان تحویل سے گرفتار کیے جانے کے بعد پاکستان
کو یہ اطلاع دی گئی کہ لطیف اﷲ محسود نے اعتراف کیا ہے کہ افغانستان اور
بھارتی ’’را‘‘ اور افغان ’’این ڈی ایس‘‘ کے ذریعے پاکستان میں پراکسی وار
جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس مقصد کے لئے تحریک طالبان پاکستان کو دہشت گردی اور
خونی کارروائیاں جاری رکھنے کے لئے پوری رہنمائی اور سرپرستی فراہم کی جا
رہی ہے۔ لطیف اﷲ محسود نے یہ بھی اعتراف کیا کہ اپر دیر میں میجر جنرل ثناء
اﷲ نیازی پر حملہ و ان کی شہادت کابل اور نئی دہلی گٹھ جوڑ کا نتیجہ تھا۔
اسی طرح پشاور چرچ پر حملے بھی بھارتی اور افغان انٹیلی جنس ایجنسیوں نے
مشترکہ منصوبہ بندی کے تحت کرائے تھے۔ اسی تناظر میں امریکی قیادت میں نیٹو،
ایساف کمانڈروں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ڈیورنڈ لائن کے پار بعض
پاکستانیوں کو ’’محفوظ جنت میں‘‘ دہشت گردی کی تربیت اور مالی معاونت فراہم
کی جاتی ہے تاکہ وہ پاکستانی سرزمین پر تباہ کن دہشت گردی کرسکیں۔ تحریک
طالبان پاکستان کے نئے سربراہ مولانا فضل اﷲ ملالہ یوسف زئی پر قاتلانہ
حملے کرنے والوں کو ذاتی طور پر ہدایات دے چکے ہیں اور پاکستان میں ایک
اعلانیہ دہشت گرد قرار دیئے جا چکے ہیں۔ انہیں کابل حکومت تمام خصوصی
مراعات فراہم کر رہی ہے جبکہ بھارتی ’’را‘‘ مالی معاونت بھی۔ جس سے یہ
شواہد بالکل واضح ہو جاتے ہیں کہ افغان انٹیلی جنس ’’این ڈی ایس‘‘ اور
بھارتی ’’را‘‘ پاکستان میں دہشت گردی میں پوری طرح ملوث ہیں ۔ جس سے یہ
ثابت ہو جاتا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کا مرکز نہیں بلکہ بھارتی اور افغان
انٹیلی جنس ایجنسیوں کی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی کا شکار ہے۔ یہ
کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ہم حالت جنگ میں ہیں۔ دہشت گرد ی نے قوم کو
بے حال کررکھا ہے۔مشرقی سرحدوں پر خطرات تو ہمیشہ سے موجود تھے، ہماری
مغربی سرحدیں بھی اب غیرمحفوظ ہوگئی ہیں۔ سرحدوں پر جوخطرات منڈلا رہے ہیں
ہماری قابل فخر مسلح افواج ان کے مقابلے کے لئے چوبیس گھنٹے مستعد اور چوکس
ہیں۔ یہ جذبہ شہادت ہی ہے جو ان کے عزم و حوصلے کو بلند رکھتا اور قوم اور
اس کی آئندہ نسلوں کی بقا کے لئے جان سے گزرجانے کا راستہ دکھاتا ہے۔ پھر
کس سے لڑنا، کس کے ساتھ مل کر لڑنا اور کس سے نہیں لڑنا، اس کا فیصلہ فوجی
مجاہد خود نہیں کرتے۔ یہ فیصلہ ریاست کرتی ہے جواولی الامر کا درجہ رکھتی
ہے۔ ملک و قوم کو درپیش خطرات کی موجودگی میں قوم پوری طرح مسلح افواج کے
ساتھ ہے۔
امریکی ڈرون حملے میں حکیم اﷲ محسود کی ہلاکت اور دہشت گردی کے خلاف جانیں
قربان کرنے والے فوجیوں کے متعلق امیرجماعت اسلامی سیدمنور حسن کے بیان پر
پاک فوج کا شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ امیرجماعت اسلامی کا کہنا ہے اور وہ
اب بھی اپنے اس موقف پر قائم ہیں کہ حکیم اﷲ محسود شہید ہے جبکہ امریکی کاز
کے لئے طالبان سے لڑائی میں مارے جانے والے پاکستانی فوجی شہید نہیں ہیں۔
پاک فوج کے ترجمان نے ان کے اس بیان کی مذمت کرتے ہوئے اسے غیرذمہ دارانہ،
گمراہ کن، سیاسی مفاد کے لئے نئی منطق ایجاد کرنے کی کوشش اور دہشت گردی کے
دوران ہزاروں پاکستانی شہریوں اور فوجیوں کی شہادت کی توہین قرار دیا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ آئی ایس پی آر کے بیان نے پوری قوم کی ترجمانی کی ہے۔ دوسری
جانب پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے بھی امیر جماعت اسلامی کو آڑے
ہاتھوں لیا ہے۔سماجی ویب سائٹ پر اپنے ایک ٹوئٹ میں ان کا کہنا تھا کہ ملک
کے سب سے بڑے دشمن کو شہید قرار دینا بہادر فوجیوں کی توہین اور غداری کے
مترادف ہے ۔ بلاول کا کہنا تھا دہشت گردوں کے جو یار ہیں غدار ہیں غدار ہیں۔
سیاسی اور مذہبی حلقوں کی جانب سے منور حسن کے بیان پر شدید ردعمل ظاہر کیا
جا رہا ہے حتیٰ کہ سندھ اسمبلی میں سید منور حسن کے خلاف اس متنازعہ بیان
پر مذمتی قرارداد تک منظور کرلی گئی جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ وہ قوم
سے غیر مشروط معافی مانگیں اور اپنا بیان واپس لیں۔ |