جوقوم اپنے لوگوں کی عزت نہیں
کرتی دنیا بھی انکی عزت نہیں کرتی ہرماہ 90 ارب روپے دہشت گردی کے خلاف جنگ
میں خرچ کررہےہیں جوپیسہ تعلیم اور صحت پر خرچ ہونا تھا وہ جنگ میں خرچ
ہورہا ہے ہم پر قرضے کا حجم 1500کھرب روپے تک پہنچ گیا ہے۔
ڈرون حملوں کے بعد امریکہ کے خلاف سخت ری ایکشن ہونا تھا لیکن سیاسی
جماعتوں کے بیانات سے افسوس ہوا اور قوم بٹی نظر آئی۔
امن مزاکرات کی بات کرنے والوں کودہشت گردوں کا ایجنٹ کہا جارہا ہے۔ جس طرح
امن کی آشا کی بات کرنے والے نریندرمودی کے ایجنٹ نہیں اسی طرح طالبان سے
امن مزاکرات کی بات کرنے والے دراصل پاکستان کی بھلائی کی بات کرتے ہیں
طالبان سے مزاکرات کرنا مشکل کام ہے لیکن شروع ہی سے فوجی آپریشن کے حق میں
ہوں-
لیکن میں طالبان سے مزاکرات کے خلاف بھی نہیں ہوں کیوں کہ طالبان وہ ٹیڑی
ہڈی ہے جو کبھی سیدھی نہیں ہوسکتی یہ دین اسلام کے دشمن پاکستانی اعوام کے
دشمن اغیار کے زرخرید غلام امریکی آقاؤں کے حکم پر ناچنے والے انسان نہیں
بلکہ انسان کے روپ میں کتوں سے بھی بدتر ہیں۔
دوسری جانب ہماری قوم کا یہ المیہ ہے کہ ابھی تک اس قوم کو اچھے برے کی
تمیزکرنا ہی نہیں آئی کہ کون دوست ہیں اور کون دشمن کون شہید ہیں اور کون
ہلاک۔
یہی وجہ ہے کہ مولانا ڈیزل کی طرح ہماری کچھ سیاسی اور مزہبی جماعتوں میں
شامل لوگ ہلاک کو شہید قرار دے رہے ہیں جو انکی منافقت پالیسی کا منہ بولتا
ثبوت ہیں- |