روئے زمین پر تقسیم ِدولت
کے سلسلے میں انسان نے دو بڑے نظام وضع کیے ۔ اشتراکیت (سوشل ازم) اور
سرمایہ دارانہ نظام ۔ اشتراکیت تو از خود غیر فطری ہونے کی وجہ سے شکست
وریخت کا شکار ہوا، جبکہ سرمایہ دار انہ نظام کے جابرانہ شکنجوں میں جکڑی
انسانیت ،اس سے نجات پانے کی منتظر ہے ۔کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام میں ایک
طرف انسان کے پالتو کتے تک کا علاج ماہر ڈاکٹر سے کرایا جاتا ہے اور دوسری
طرف انسان اپنی والدہ کو طبی سہولیات فراہم نہ ہونے کی وجہ سے اسے تڑپ تڑپ
کر مرتا دیکھتا ہے ۔انشاء اﷲ وہ دن دورنہیں جب انسان سرمایادارانہ جابر
نظام کو بھی اس کے غیر فطری ناہمواریوں کی وجہ سے پاش پاش ہوتا دیکھے گا۔
دوسری طرف اسلام کا عادلانہ نظام ہے، جس نے منصفانہ تقسیمِ دولت کا نظام
پیش کرکے ہرفرد تک اس کا حق پہنچانے کا حکم دیا ہے ۔نظامِ تقسیم دولت کے
لیے اسلام کا یہ نظریہ بھی جاننا ضروری ہے کہ ہر قسم کی دولت اور اس کے
ذرائع کا حقیقی مالک تو اﷲ رب العزت ہی ہے، لیکن انسان کو’’ حق تملک‘‘ دے
کر یہ نگرانی بھی سونپ دی گئی کہ وہ اﷲ کے نازل کردہ قوانین اور آنحضرت صلی
اﷲ علیہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں اﷲ کی دی ہوئی دولت کو تقسیم کرے۔
تقسیم دولت میں کفالت عامہ کا خصوصی خیال رکھاگیا ہے۔ جیسے : بوڑھے والدین،
بیوی ،نابالغ اولاد اور دیگر معذور ومستحق افراد وغیرہ۔ کفالت عامہ میں
زکوۃ، صدقات ،ہبہ اور وصیت کی طرح وراثت بھی ایک اہم ذریعہ ہے ۔جس میں
انسان اﷲ کے نازل کردہ قوانین کے مطابق دولت کے ایک متعین حصے کا مالک بنتا
ہے اور جس کے ذریعے انسان کو اپنی معاشی مشکلات حل کرنے میں مدد ملتی ہے۔
انسان کو جس طرح تربیت اولاد کی ذمہ داری سونپی گئی ہے ،اسی طرح اسے یہ
احساس بھی دلایا گیا کہ وہ اپنی زندگی کے بعد بھی اپنی اولاد کی فکر کرے ۔مسند
احمد کی روایت میں ہے(حدیث نمبر ۱۴۸۲) : ’’ تمہارا اپنے وارث کو غنی چھوڑنا
اس سے کہیں بہتر ہے کہ اس کو ایسا محتاج چھوڑے کہ وہ لوگوں سے سوال کرتا
پھرے‘‘۔
اسلام چونکہ دین فطرت ہے، اس لیے وراثت کے فطری امر کو اشتراکیت کی طرح
کچلنے کا حکم نہیں دیتا؛بلکہ اس کے حصول کے لیے جائز راہیں تجویز کی ہیں۔
کیونکہ وراثت میں جہاں کسی محتاج کی ضرورت پوری ہوسکتی ہے ،وہاں معاشرتی
واخلاقی طور پر اس سے اقرباء ولواحقین کے درمیان صلہ رحمی کے جذبات بھی جنم
لے سکتے ہیں ۔
پھر اسلام دولت کے انجماد کے بے ثمر اصول کا خاتمہ کرکے اس کو گردش دے کر
دولت میں توازن پیدا کر دیتا ہے ۔سرمایہ دارانہ نظام کا وہ اصول جس میں
جائیداد باپ کی موت کے بعد صرف بڑے بیٹے کا حق سمجھاجاتا ہے ،کی صراحۃ نفی
کرکے اسلام نے مبنی برعدل قوانین ِمیراث پیش کیے ہیں ۔
زمانۂ جاہلیت میں بھی لوگوں کی عادت تھی،جب کوئی ان میں مرجاتا تو اس کا
مال صرف چند شہسواروں میں تقسیم کر دیا جاتا ،جبکہ ضرورت مند عورتوں، بچوں
اور بوڑھوں کے متعلق یہ کہہ کرانہیں محروم کر دیا جاتا کہ وہ دشمن سے لڑنا
نہیں جانتے ،گھڑ سواری نہیں کر سکتے ،مالِ غنیمت اکھٹا نہیں کر سکتے، وغیرہ
۔
لیکن اسلام نے انسانیت کے لیے اس کے عائلی واجتماعی مالی قوانین وضع کیے،
جن میں عورتوں اور بچوں کو حقوق دے کر اعلان کیا : ’’مردوں کے لیے حصہ ہے ،اس
مال میں جو ماں باپ اور قرابت والوں نے چھوڑا ،اور عورتوں کے لیے حصہ ہے ،اس
مال میں جو ماں باپ اور قرابت والوں نے چھوڑا ‘‘۔ اور’’ ایک لڑکے کے لیے دو
لڑکیوں کے برابر حصہ ہے ‘‘۔’’ اکیلی بیٹی کے لیے کل مال کا نصف حصہ ہے
‘‘۔’’ ماں باپ میں سے ہر ایک کے لیے چھٹا حصہ مقرر ہے ‘‘۔جن کے تفصیلی
احکام سورہ نساء آیت : ۱۲-۱۱ اور :۱۷۶ میں موجو ہیں ۔
بد قسمتی سے ہمارے ہاں برصغیر میں اشتراکیت وسرمایہ دارانہ نظام کی طرح
فیوڈل ازم اور خان ازم نے بھی بعض علاقوں میں لوگوں، خصوصا عورتوں اور بچوں
کو اپنے جابرانہ شکنجوں میں جکڑ ڈالا ہے۔ چنانچہ کوئی عورت اگر شوہر کے
انتقال کے بعد دوسری شادی کرنا چاہتی ہے تو اسے شوہرِ اول کی میراث سے
محروم کر دینے کی دھمکی دی جاتی ہے ․․کئی عورتیں یہ تک نہیں جانتیں کہ
میراث میں ان کا حق بھی موجود ہے اور جنہیں معلوم ہے بھی تو ان کے بھائی ان
سے میراث سے دست برداری کا مطالبہ کرتے ہیں ․․بعض دفعہ باپ کی موت کے بعد
ایک بیٹا صرف اس لیے جائیداد پر قابض ہوجاتا ہے کہ وہ مرنے والے کا بڑا
بیٹا ہوتا ہے ۔
یہ ہیں ہر ازم کی وہ خرابیاں جو گردش دولت کو منجمد کرکے تقسیم دولت کے
تختہ ٔ توازن میں تناسب یکسر ختم کر دیتا ہے۔ مذکورہ خرابیوں سے نجات کی
راہ صرف اسلام کے عادلانہ معاشی و عائلی نظام میں نظر آتی ہے ۔ اس نظام میں
جہاں ریاست ومعاشرت کے حقوق وضع کر دیے گئے ، وہاں ہر فرد کے حقوق بھی
موجود ہیں ۔
ایسے میں حکام اور’’ حقوق نسواں ‘‘کے لیے آواز اٹھانے والی تنظیموں کی ذمہ
داری بنتی ہے کہ وہ لوگوں میں عورتوں اور بچوں کے شرعی حقوق کے شعور کو
اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ، ان کے حقوق دلوانے میں اعلی سطح پر فوری اقدامات
کریں۔ تاکہ معاشرے میں تقسیم دولت کے توازن میں تناسب پیدا کیا جاسکے ۔
نیز اہل علم وفضل کا بالخصوص فریضہ بنتا ہے ، علم میراث کو عوام تک پہنچانے
کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کریں ۔ آج کل دینی مدارس میں تعطیلات کا
موسم ہے ۔ بعض دینی اداروں میں (جن میں جامعہ فاروقیہ کراچی بھی شامل ہے )
مختصر دوروں کا اہتمام ہوتا ہے ، ایسے دورے اور اس قسم کے دیگر طرق اپنا کر
پہلے یہ علم عام وتام کرنے کی مساعی فرمائیں اور معاشرے سے تقسیم مال کے
حوالے سے فیوڈل ازم وخان ازم کی صورت میں جو ظلم وجور اور تعدی وزیادتی کا
سلسلہ جاری ہے ، اسے ختم کرنے اور انسانیت کو صلاح وفلاح کی راہوں پر ڈالنے
میں اپنا حقیقی کردار ادا کریں ۔ |