قرآنی حکم ہے جس کا مفہوم یہ ہے:
جس کسی نے تم میں سے کسی مومن کو عمدا قتل کیا اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ ہر
کوئی اپنے آپ کو مومن کہتا ہے اور دوسرے کو کافر سمجھتا ہے ۔ حال یہ ہے کہ
سب کی مساجد ہیں ،تمام مساجد قبلہ رخ ہیں،اذانیں دیتے ہیں ، نمازیں پڑھتے
ہیں،نمازوں میں اسی کلام کی تلاوت کرتے ہیں جوسیدالمرسلین ﷺ پر نازل ہوا،
اسی اﷲ کے رسول ﷺؑ اور انکی آل اطہار پر درود و سلام بھیجتے ہیں، ذکر الہی
اسی اﷲ کا کرتے ہیں جس ذکراﷲ کے رسول ﷺ ، صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم اور
اہلبیت رسول نے کیا۔ پھر مجھے کوئی سمجھائے کہ مسلمانوں میں یہ کافر اور
مومن کہاں سے پیدا ہوگئے؟ اﷲ تعالیٰ کے رسول ﷺ نے اپنے چچا کا کلیجہ چبانے
والی ہندہ ، اپنے چچا کو شہید کرنے والے ظالم وحشی، اپنی بیٹی کے ایک لحاظ
سے قاتل ہبار بن الاسود وغیرہ نجانے کتنے شدت پسند دشمنوں کو معاف کردیا
بلکہ یہاں تک کہ مشرکین کے لشکر لے کراﷲ کے رسول پر متعدد مرتبہ چڑھائی
کرنے والے ابوسفیان کو بھی معاف فرمادیا۔ بدر میں مشرکین کو جب پانی لینے
سے صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم نے منع کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ پانی لینے دو۔
کربلا کی ستم انگیزیاں عروج پر تھیں چاروں طرف سے ضیرالنا س علی الارض پر
ظلم و بربریت کی کالی گھٹائیں چھائی ہوئی تھیں کہ اس کرب و ابتلا میں شاہ
جنات حاضر ہوکر ملعون یزیدیوں کو تباہ کرنے کی درخواست کرتا ہے لیکن رحمۃ
اللعلمین ﷺ کے نواسے نے اپنے جد امجد سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی
مثل جواب دیا کہ اﷲ تجھے اہل بیت رسول کی عقیدت اور محبت کی جزائے خیر عطا
فرمائے چونکہ جنات انسانوں کو نظر نہیں آتے اس لیئے تمہاری مدد کو میں
دھوکا دینے کے مترادف سمجھتے ہوئے معذرت کرتا ہوں۔ یو ں کوئی ایسی مجبوری
نہ تھی ۔ آپ ان پانچ میں سے ایک ہیں کہ جنکے بارے نجران کے عیسائی پادریوں
نے کہا کہ واﷲ یہ سچوں کے چہرے ہیں اگر یہ اس احد پہاڑ کے لیئے اﷲ سے
دعاکریں تووہ بھی یہاں سے دوسری جگہ منتقل ہوجائے گا۔ نواسہ رسول
سیدالشہداء امام حسین علیہ السلام نے حضرت امیر معاویہ کے خلاف خروج نہ کیا
کیونکہ آپ رضی اﷲ عنہ معاہدے کی پابندی اور قیام امن و سکون کے داعی تھے۔
یزید ملعون کے خلاف آپ علیہ السلام نے لشکر کشی نہیں کی۔ بلکہ آپ چاہتے تھے
کہ اس سے ملاقات کرکے اسکی اصلاح کی کوشش کی جائے لیکن یزید آپ علیہ السلام
سے خائف ہونے کی وجہ سے ملاقات سے گریزاں تھا اور آپ پر پانی بند کرنے اور
پھر آپ کے قتل پر عبد اﷲ بن زیاد کو مامور کیا۔ یزید کی قرآن وسنت کی
اعلانیہ نافرمانی اور اسلامی اقدار کی تذلیل پر آپ علیہ السلام نے یزید کی
حاکمیت پر اﷲ کی حاکمیت کو صمیم قلب سے تسلیم کرتے ہوئے اپنا سبھی کچھ
قربان کردیا۔ ایسی محسن اسلام ہستی ، شفیق اور اخلاق کریمانہ میں قرآن اور
سنت رسول اﷲ ﷺ کی عملی تفسیرسے کسی فرقہ کو تشکیل دینے کی کوئی گنجائش نہیں
اور نہ ایسا ہوا۔ اسلام کو تاابد زندہ کو تابندہ رکھنے کے لیئے آپ علیہ
السلام کی قربانیاں نہ صرف مسلمانوں پر احسان عظیم ہیں بلکہ تمام انسانیت
پر آپ کا احسان ہے۔ جب محرم الحرام آتا ہے تو ہر مسلمان اپنے اپنے انداز
میں آپ کو خراج عقیدت پیش کرتا ہے۔ اس قربانی کی یاد اور عظمت اسلام کے اس
محیرالعقول واقعہ کی یاد کے موقع پر باہمی جنگ و جدال اجتماعی ہلاکت کا پیش
خیمہ ہے۔باہمی قتال و جدال کو جہالت اور دخول فی النار قرار دیا گیا ہے۔
ایسا کرنے سے مسلمانوں کی کفار پر دہشت اور رعب ختم ہوجاتا ہے۔ مسلمانوں کو
فقہی مسالک پر اختلافات میں اس قدر متشدد ہونا تقویٰ کے خلاف ہے اور فسادات
کا دروازہ کھولنا صریحاگمراہی ہے۔ مسالک کے اولین رہنماؤں کے مابین ایک
دوسرے کے خلاف کفریہ فتویٰ سازی کا کوئی ثبوت نہیں۔ میں یہ کہتا ہوں کہ کیا
آج ہم زیادہ مخلص مسلمان ہیں کہ اپنے اسلاف کی یاد مناتے ہوئے اپنے ہی
بھائیو ں کو قتل کرنا شروع کردیں؟ کس قدر شرمناک واقعات ہیں۔ اب ان غیر
اسلامی حرکات پر روئیں ۔
اﷲ تعالیٰ سے معافی مانگیں اور کھلے دل سے ایک دوسرے سے معافیاں مانگیں ۔
یا پھر اﷲ کے عذاب کی انتظار کریں۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ حکومت اپنے فرائض
سرانجام دینے میں کیوں قاصر ہے؟ لگتا ہے کہ حکمرانی کا شوق رکھنے والے
اوصاف حکمرانی سے بے بہرہ ہیں۔محرم الحرام کی آمد سے قبل فوٹو سیشن شروع
ہوجاتے ہیں۔ سرکاری افسران اور چند ملا صاحبان کے اجلاسات ہوتے ہیں جو گپ
شپ اور خوردونوش تک محدود ہوتے ہیں۔ جب جلوس نکلتے ہیں تو یہ لوگ کہیں بھی
نظر نہیں آتے۔ امن کمیٹی بوگس ادارے حکومت اور عوام کو دھوکا دینے اور
معمول کی کاغذی کاروائی تک محدود ہوتی ہے۔ میں یہ کہتا ہوں کہ یہ سارے
اعمال مذہب کے نام پر کیئے جاتے ہیں ۔ اس میں بزرگوں سے اپنی شفاعت مقصود
ہوتی ہے۔ اور اﷲ تعالیٰ کی رضا کہ ہم ان ہستیوں کے ساتھ محبت و عقیدت رکھتے
ہیں تو صرف اﷲ کے لیئے۔ نیتوں پر ہی اعمال کی سزا جزا ہوگی۔ لیکن جب ہماری
نیتوں میں ریاکاری یا کسی کو دکھ دینے اور کسی کی مخالفت ہوگی تو بجائے
ثواب کے عذاب ہوگا۔اگر ہمارے کسی عمل کا ہمارے دوسرے بھائی کو ادراک نہیں
اور وہ یہ چاہتا ہے کہ اسکے دروازے ، مدرسے یا مسجد کے سامنے ایسا عمل نہ
کیا جائے۔ تو ایسا نہ کیا جائے۔ باہمی رواداری کو قائم رکھتے ہوئے اپنے
مسلمان بھائی کی خوشنودی کو مدنظر رکھنا زیادہ اہم ہے۔ مثلا ایک مسلک کے
لوگ اگر جلوس لے کر چل رہے ہیں تو وہ راستے میں اپنے دیگر مسالک کے بھائیوں
کی دل آزاری مول نہ لیں۔ دونوں طرف سے فراخ دلی کا ثبوت دیا جائے جیسا کہ
تقسیم ہند سے پہلے مسلمان باہمی محبت اور یگانگت کا اظہار کرتے تھے۔ میں
سمجھتا ہوں کہ سڑکوں کو بند کرکے عوام کی تکالیف میں اضافہ کرنے سے یہ بہتر
ہے کہ ہر قسم کی محافل کے لیئے مقامات مخصوص کرلیئے جائیں جہاں تمام مسالک
کے لوگ جدید اور عمدہ طریقہ سے بزرگوں کی یادیں منائیں۔حکمرانوں پر عوام کے
جان ومال کے تحفظ کی ذمہ داری عائد ہے ۔ ریاکاری فوٹواور آن ائر کے سیشنوں
پرزور نہ دیں بلکہ اپنے اندر خلوص پیدا کریں تاکہ امن و امان کی صورت حال
بہترہو۔ اﷲ امت کو متحد رکھے آمین ۔
خادم اسلام : پروفیسر اکبر حسین ھاشمی |