انڈمان کا سفر

دوہزار دو اور دو ہزار تیرا کے دو سفر نامے……!!
دو ہزار دو …… (جھلکیاں)

جزائر انڈمان و نکوبار خلیج بنگال میں 92 ڈگری تا 94ڈگری عرض بلد اور 6ڈگری تا14ڈگری طول بلد پر واقعہ وہ جزائر ہیں جو کبھی کالا پانی کے نام سے یاد کئے جاتے تھے اور جد و جہد آزادی کے مجاہدین کی ایک بڑی تعداد کو یہاں قیدی بنا کر لایا جاتا اور جسمانی اذیتوں میں مبتلا کرکے بالآخر مار دیا جاتا۔ انڈمان کا علاقہ86فیصد گھنے جنگلات پر مشتمل ہے۔ سالانہ بارش کا اوسط 3000یم یم ہے ۔آبادی کا اندازہ 35افراد فی مربع کلو میٹر ہے۔ اس کا صدر مقام پورٹ بلیر ہے۔ سیاحوں کے لئے تجویز کردہ خوشگوار موسم اکتوبر تا مئی کے درمیان کا ہے۔ کپاس کے لباس کو ترجیح حاصل ہے، کیونکہ کم سے کم درجۂ حرارت 23ڈگری اور زیادہ سے زیادہ31ڈگری سیلسیس رہتا ہے۔ چنائی سے پورٹ بلیر کا سمندری فاصلہ1190 کلو میٹر،کلکتہ سے 1255ناٹک کلومیٹر اوروشاکھا پٹنم سے 1200ناٹک کلومیٹر ہے۔سمندر موجزن نہ ہو تو ان تینوں بندرگاہوں سے نکلنے والے جہاز پورٹ بلیر پہنچنے کے لئے 52 گھنٹے کا وقت لیتے ہیں۔پورٹ بلیر ایر پورٹ جو اب ویر ساورکر کے نام سے موسوم کیا گیا ہے، چنائی اور کلکتہ سے جڑ کر ہوائی نقشے میں شامل ہے۔انڈ ین ایر لائنس اور جیٹ ایر ویز کی پروازیں روزانہ سیاحوں ، سیاست دانوں، تاجروں اور انڈمان ونکوبار ایڈمنسٹریشن کے افسران کو چنائی اور کولکتہ سے لے آتی اور لے جاتی ہیں۔

ہمارا سفر7؍اگست 2002ء کوصبح 6 بجکر40منٹ پر شروع ہوا، جبکہ ہم لال باغ ایکسپرس میں ،کینٹونمنٹ ریلوے سٹیشن، بنگلور سے نکلے۔دوپہر 12 بجے چنائی پہنچنے کے بعد ہمیں ہوٹل میں قیام کرنا پڑا، کیونکہ ہمارا جہاز جمعہ کے دن دوپہر کو روانہ ہونے والا تھا اور کم از کم ایک دن ٹکٹ حاصل کرنے کے لئے ضروری تھا۔میرے ساتھ حسب پروگرام محترم محمد علی صاحب جو جماعت اسلامی ہندانڈمان و نکوبار کے امیر ہیں، شریک سفر تھے۔ آپ کیرالہ کے ایک تنظیمی اجلاس میں شرکت کے بعد چنائی پہنچے تھے اور ادھر میں بنگلور سے چنائی پہنچکر ان کا منتظر تھا اور یہ انتظار ایک دن بعد ہی ختم ہو گیا تھا۔چنائی میں تقریباً دو دن قیام کے دوران ہم نے جناب پی کے محمد علی صاحب کے ہمراہ جماعت اسلامی ہند ، حلقۂ تمل ناڈو کے دفتر جسےIFTبھی کہتے ہیں (Islamic FoundationTrust) کا دورہ کیا۔ یہ پروگرام محترم امیر حلقہ جناب عبدالرقیب صاحب سے فون پر گفتگو کے بعد طے ہوا تھا ۔ بعد نماز ظہر(بروز جمعرات،8اگست) ہم دفتر حلقہ پہنچے۔ لیکن کسی اہم مہمان کے ساتھ امیرِ حلقہ دفتر حلقہ سے باہر کہیں مصروف تھے۔ دفتر میں محترم طفیل احمد صاحب جو IFTکے Publication Divisionکے انچارج ہیں، نے ہمارا پر تپاک خیر مقدم کیا اور امیر حلقہ کی آمد سے قبلIFT کی جملہ کارکردگیوں کا بڑا تفصیل سے تعارف کرایا۔

تمل ناڈو میں اِسلام جس تیزی سے پھیل رہا ہے اسے دیکھتے ہوئے یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں ہوگی کہ یہ اسلام کے فروغ کے اعتبار سے ہندوستان کا امریکہ ہے، جہاں اسلام مخالف طاقتوں کی تباہ کن سازشوں کے باوجود لوگ حلقہ بگوش اسلام ہو رہے ہیں۔تمل ناڈو کی جماعت اس صورتحال کا دباؤPressureکئی وجوہ سے محسوس کرتی ہے، جیسے اسلامی لٹریچر کی وسیع پیمانے پر مانگ، وسائل کی کمی، مردان کار کی کمی۔ لیکن دفتر IFTمیں ایثار و قربانی کے پیکر ہائے اخلاص ، رفقائے جماعت کی ٹیم بڑی خاموشی سے دعوتِ دین کے کاموں میں مصروف نظر آتی ہے۔بعض نو مسلم نوجوان بھی اس ٹیم سے جڑے ہوئے ہیں اور اپنی ہمہ گیر تربیت کے لئے ہمہ تن مصروف نظر آتے ہیں۔ محترم طفیل احمد صاحب نے ایک نو مسلم نوجوان سے ہماری ملاقات کرائی ،جس نے قرآن مجید کی چند آیات کی تلاوت تجویدکے اُصولوں کے ساتھ کچھ اس انداز سے کی کہ بے ساختہ آنکھوں سے آنسوں چھلک پڑے اور دِل سے دُعا نکلی کہ اﷲ تعالےٰ IFT کو نظر بد سے بچائے۔ ایسی مثالیں ، طفیل احمد صاحب کے بقول، تمل ناڈو میں جا بجا نظر آئیں گی۔ بستیوں کی بستیاں اِسلام قبول کر چکی ہیں اور ہندو معاشرے کے ستائے ہوئے طبقوں نے اسلام قبول کر کے چین کی سانس لی ہے۔ ان بستیوں میں طبی ّ ، دینی، اصلاحی خدمات کا تعارف کرانے والی VCDبھی دکھانے کانظم فرمایا اور ہم حیرت و انبساط کے ملے جلے جذبات کے ساتھ اسے دیکھتے رہے۔ آپ نے IFTکے جملہ رفقاء کا فرداً فرداً تعارف کرایا ،لیکن ان میں بیشتر ہم سے واقف تھے۔اور ہم سے پہلے ہمارے کلام کے یہاں پہنچ جانے سے یہاں پہلے ہی سے اجنبیت کی دیواریں باقی نہیں رہ گئی تھیں۔ چنانچہ تمام رفقاء یہ کہتے ہوئے ملے کہ کیا آپ ہی وہ ’’میرے مصطفےٰ والے‘‘ عزیز بلگامی ہیں؟چند لمحات بعد امیر حلقہ بھی پہنچ گئے اور ہمیں خوش آمدید کہا۔آپ کی گفتگو کے ایک ایک لفظ میں عزم، حوصلہ، کچھ کر گذرنے کی آرزوئیں پوشیدہ نظر آئیں۔تمل ناڈو کے مخصوص حالات کا آپ نے بڑ ا ایمان افروز تذکرہ فرمایا۔ تحریک اسلامی کی کوششیں تو اپنی جگہ ہیں، لیکن قبولیت حق کی جو بادِ صبا اس وقت چل رہی ہے یہ ایک طرف اپنارنگ دکھا رہی ہیں اور اِن ہی کے سبب متذکرہ کوششیں رنگ لا رہی ہیں۔دیگر موضوعات بھی زیر بحث آئے اور بڑی دیر تک گفتگو جاری رہی۔محترم نے IFTکی کچھ خاص کتابوں اور درس و تدریس کی معتدبہ کتابوں کے تحفے بھی ہمیں عنایت فرمائے۔نماز عصر کے بعد چائے کا دور چلا۔ ہم ابھی ایک گھونٹ بھی حلق کے نیچے اتار نہیں پائے تھے کے محترم طفیل احمد صاحب نے امیر حلقہ کی موجودگی میں اعلان فرمادیا کہ چائے کے بعد رفقاء عزیزؔصاحب کے کلام سے لطف اندوز ہونگے۔امیر حلقہ نے فوراً اجازت مرحمت فرمائی۔رہی ہماری رضا مند ی تو ہم اس طرح کی کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کے لئے ہمیشہ تیار رہتے ہیں، اِس لئے کہ ہمارا کلام اسی فکرو نظر کی دین ہے، جس کے فروغ ، جس کی آبیاری کے لئے ہمارے یہ رفقاء سرگرم عمل ہیں،حفیظ صاحب نے فرمایا ہے:
منظر کی تکمیل نہ ہو گی ……تنہا مجھ سے فنکارو
دُکھ کے گیت تو میں گا لوں گا ، آنسوں کون بہائے گا

چنانچہ IFTمیں ایک بزم سخن سجی اور امیر حلقہ کے افتتاحی اور تعارفی کلمات سے آغازہوا۔امیر حلقہ کے حسن ظن کے جواب میں ہمارے دل سے بھی دعا نکلی کہ اﷲ تعالےٰ انہیں اسکا بہترین اجر دے۔اٰمین ۔ہم نے کچھ فرمائشی اور کچھ تازہ کلام سنایااور رفقاء محظوظ ہوتے رہے۔اور IFTکی یہ سہانی شام امیر حلقہ کی دعا کے ساتھ اس اعلان پر ختم ہوئی کہ عزیزؔ بلگامی صاحب انڈمان سے لوٹتے ہوئے دوبارہ IFT تشریف لائیں گے اور چنائی کے وہ رفقاء جو آج کی نششت سے محروم ہوگیے ہیں ، اُن کے ذوقِ سخن کی آبیاری کا سامان کیا جائے گا۔(افسوس کہ اِس کے بعد سفر کے جو مرحلے طے ہوئے اُن کی روداد ذہن سے محو ہو چکی ہے، جس میں تین دن کے سفر کے حالات، انڈمان میں قیام اور ہمارے اعزاز میں ہونے والے مشاعرے کی تفصیلات درج تھیں۔ خدا کے فضل سے اُمید ہے کہ اِس فائل کو ہم اپنی یادداشت کے سسٹم سے بازیافت کرنے میں کسی دن کامیاب ہو جائیں گے،اِنشاء اﷲ۔)
دو ہزار تیرا……انڈمان کا سفر
کیا مسافر تھے جو اِس راہ گزر سے گزرے……!!

ہم آج کل(اگست؍۲۰۱۳ء) انڈمان کے سفر پر ہیں، اورجب تک یہاں ہمارا قیام ہے، ہم چاہتے ہیں کہ ہم اپنے دوستوں کو بھی اِن خوبصورت جزائر کے بارے میں کچھ نہ کچھ معلومات فراہم کرتے رہیں۔نیزاِن ساری تفصیلات کو ایک سفر نامے کی شکل دیں، تاکہ ہمارے قارئین بھی ایک طرح سے ہمارے روحانی ہم سفر بن کر ہمارے شریکِ سفرہونے کا لطف اُٹھائیں۔

رمضان المبارک کی آمد سے بہت پہلے ہم نے اپنے سفر کی ساری دستاویزات تیار کر لی تھیں اور اِس پورے عرصے میں ہم انڈمان کے خوبصور ت جزائر کے حسین مناظر کو اپنے تصور میں سجائے،اُس دن( ۱۱ ؍اگست ،۲۰۱۳ء )کے منتظر تھے، جب ہمیں براہ چینائی ، انڈمان پہنچنا تھا۔اِس دوران ہمیں ایک فکر ستاتی رہی اور وہ یہ تھی کہ کرناٹک اُردو اکادمی کی چیر مین شپ کی دوڑ میں ہم بھی شامل ہوگیے تھے ،اورتقررکے فیصلے سے پہلے ہمارا لمبے سفر پرنکلنا مناسب نہیں تھا۔چنانچہ مجوزہ سفرِانڈمان کی منسوخی کی تلوار سر پرمسلسل لٹکتی رہی۔غیرمصدقہ اطلاعات یہ تھیں کہ اکادمی کی چیرمین شپ کا فیصلہ رمضان کے فوراً بعد ہو جائے گا،اور ہمارا سفر بھی اِن ہی تاریخوں میں یعنی عید کے تیسرے دن ہی شروع ہونے والا تھا۔تذبذب کا عجیب عالم تھا اور اِسی عالم ِ تذبذب میں رمضان کا مبارک مہینہ گزرنے لگا کہ آخری عشرے میں خبرآئی جو نہایت غیر متوقع تھی کہ خودکرناٹک کے وزیر اوقات، حج اور اقلیتی اُمور کو چیرمین شپ سونپی گئی ہے،جسے ہم نے حیرت و استعجاب کے ساتھ سنا، تاہم ہم نے خود کو تسلی دے لی کہ سیاست دانوں کی سیاسی مجبوریاں یا مصلحتیں ہو سکتی ہیں،جن کی بنا پر ریاست ِ کرناٹک کی اُردو اکادمیوں کی تاریخ میں ایسا واقعہ پہلی بار رونما ہوا۔ اِس خبر کو ہم نے اضطراب و سکون کے ملے جلے جذبات کے ساتھ سنا ، اضطراب اِس لیے کہ ہمارا کام نہیں بنا یا موخر ہو گیا اورسکون اِس لیے کہ سفرِ انڈمان کا آغاز سکون سے ممکن ہوا۔ سفر کے متاثر نہ ہونے سے ہم مطمئن ہو گیے اور۹؍اگست،۲۰۱۳ء عید الفطر بھی ہم نے بڑے اطمینان کے ساتھ اپنے گھر بنگلور ہی میں منائی۔

۱۱ ؍اگست کی صبح ساڑھے پانچ بجے ہم اپنی اہلیہ محترمہ اور اپنے فرزند کے ہمراہ یشونت پور ریلوے اسٹیشن پہنچے، جہاں پلیٹ فارم نمبر ۵ پر ہبلی چینائی ایکسپریس ہمیں چینائی لے جانے کے لیے تیار کھڑی تھی۔کل تین سو ستّر کلو میٹر کا فاصلہ اِسے چھ گھنٹوں میں طے کرنا تھا۔چنانچہ ہم ساڑھے گیارہ بجے چینائی پہنچے اور محترم ظفر رحمانی صاحب، جو سنگا پور میں اُستاذ ہیں اور عید کے لیے اپنے وطن چینائی آئے ہوئے تھے،اور جناب ملک العزیز صاحب جو چینائی میں اُردوکی ایک علامت سمجھے جاتے ہیں،کی مہمان نوازی سے فیض یاب ہونے کا سلسلہ شروع ہوا۔ یعنی ہم چینائی سنٹرل ریلوے اسٹیشن سے سیدھے حج ہاؤ ز پہنچے،جہاں ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گیے کہ حج ہاؤ ز کے ذمہ داران ہمارے لیے آنکھیں بچھائے کھڑے ہیں۔ شعیب بھائی نہ صرف ہمیں ہمارے کمرے تک رہنمائی فرمائی، بلکہ ہمارا سامان بھی اُٹھانے میں جھجک محسوس نہیں کی۔ صاف ستھرے کمرے ہماری تھکاوٹ کو کافور کر گیے اور دوپہر کے کھانے کے بعد ہمیں آرام کا بھرپور موقع میسر آیا۔چار بجے کے آس پاس ، جناب ظفر رحمانی صاحب تشریف لائے اور موصوف سے یہ ہماری پہلی ملاقات تھی، اِس کے باوجود وہ ہم سے یوں ملے جیسے ہم روز ملتے رہے ہوں۔ مطالعے کے لیے اُنھوں نے ہمیں کتابوں کا تحفہ پیش کیا اور چینائی کی مشہور میٹھائی ہمیں عنایت فرمائیْ۔ ہم نے بھی اپنی شعری کتاب ’’سکون کے لمحوں کی تازگی‘‘پیش کی۔ تھوڑی ہی دیر میں محترم ملک العزیز صاحب بھی تشریف لائے اور ہمارے ساتھ شب ۱۰ ؍بجے تک رہے اور ہماری ضیافت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ڈنر کے بعد یہ حضرات چینائی کے مشہور مرینا بیچ لے گیے، جوسمندر سے لگا ہوا ریت کا ایک بہت بڑا میدان ہے، جہاں شام کی خنک مگر خوش گوارسمندری ہواؤں کے درمیان ساحل ِ سمند ر کے اِس پر کیف ماحول نے لطف اندوز ہونے کا موقع فراہم کیا۔ ایسے میں ہماری رگ سخن بھی پھڑکی اور ’ساحل‘ کے حوالے سے ہم نے اِن دونوں حضرات کو اپنی ساحل ردیف والی مشہور غزل سنائی ، جسے بڑی توجہ کے ساتھ سنا گیا:
وہ تو دیوانے تھے لڑتے ہی رہے طوفاں سے
منتظر رہ گیا دیوانوں کا پگلا ساحل
بے اثر ہو گئی شوریدہ سری موجوں کی
اُس جگہ اب بھی ہے موجود جہاں تھا ساحل

اورجب ایک غزل سے جی نہیں بھرا تو ایک اور غزل کی فرمائش کی گئی اور ہم نے اپنی غزل کے کچھ اور شعر پھر ترنم میں پیش کیے۔شاعرانہ شام کے درمیاں موڈبھی کچھ ایسا بنا کہ خواہ مخواہ گنگنانے کو جی چاہنے لگا تھا، جب کہ عام حالات میں بڑی مشکل سے ہم اپنے شعر کسی کو سنانے کو آمادہ ہوتے ہیں۔ یہ حسین شام اِس خوبصورت شعری محفل کے ساتھ شب دس بجے اختتام کو پہنچی اور یہ وقت اِن پیارے دوستوں سے رُخصت لینے کا بھی تھا، اِس لیے کہ ہمیں اگلی صبح پورٹ بلیر انڈمان کے لیے ساڑھے پانچ بجے کی فلائٹ لینی تھی اور کم از کم دیڑھ گھنٹہ قبل ہی یعنی ساڑھے تین بجے ایر پورٹ پہنچنا تھا، چنانچہ ہم ۱۱ ؍بجے اپنی قیام گاہ پر لوٹ آئے، اور بڑی مشکل سے کچھ پل سو پائے، تین بجے ایر پور ٹ پہنچانے کے لیے کار پہنچ گئی تھی۔ہم کار میں سوارہوکر ایر پورٹ کی سمت روانہ ہوئے۔اور وقت سے پندرہ منٹ پہلے ہی پہنچ گیے۔ہمارے فرزند محمد زکریہ نے بھی ہم سے رخصت لی اور بنگلور روانہ ہوگیے۔اب ہم اور ہماری اہلیہ چینائی ایر پورٹ کی جدید عمارت،جہاں رات کے باجود دن کا منظردکھائی دیتا تھا، جس کی سفید روشنی سے سارا منظر جیسے دودھ سے دھلا نظر آتا تھا، ہم اِس دلفریب منظر سے لطف اندوز ہونے میں محو ہو گیے۔چار بجے ہمارے سامان کی سیکوریٹی چیک ہوئی او ر ہمارے بیگس ایر لائنس کے حوالے کر دیے گیے، پھر گیٹ نمبر ۵ پرہمار ے سراپا کی چیکنگ ہوئی ، جہاں سے نکل کر ہمیں ایرکرافٹ پر سوار ہونے کا انتظار نہیں کرنا پڑا۔ دو گھنٹوں میں ہم پورٹ بلیر ایر پورٹ پر لینڈ ہو رہے تھے۔ہمارے داماد زبیر، جو انڈمان کے معروف صحافی ہیں، ہمیں خوش آمدید کہنے کے لیے موجود تھے۔ ہماری نواسی نصیحہ دوڑتی ہوئی آئی اورہم سے لپٹ گئی۔ایک سال بعد ملاقات ہو رہی تھی تو آنکھوں کا چھلکنا فطری تھا، سو چھلک گیے۔ایر پورٹ سے میرے قیام کا فاصلہ تقریباً ۴۵ منٹ کا تھا۔ کل اُنیس دن کے لیے ہمارا انڈمان میں قیام رہا۔پریس کے ذریعہ ہماری آمد کی اِطلاعات انڈمان کے اُردو حلقوں میں سرعت سے پھیل گئی ۔خصوصاً’’انڈمان شیکھاڈاٹ کام‘‘ نے انگریزی زبان میں ہمارا تفصیلی تعارف شہ سرخیوں کے ساتھ شائع کیا اور ہمیں خوش آمدید کہا، تو انڈمان اڈمنسٹریشن اور وہاں خواتین کی ایکNGO تنظیم ISMATکے باہمی اشتراک سے ایک مشاعرہ کا انعقادکا اعلان بھی ہوا۔چنانچہ۲۷؍اگست کو شام پورٹ بلیر میں ایک خوبصورت’’ محفلِ مشاعرہ‘‘سجائی گئی اور مقامی شعراء بھی اِس میں شریک ہوئے اوراپنے کلام سے محظوظ کیا۔ ہماری واپسی سے ایک روز قبل آل انڈیا ریڈیو نے بھی ہماری انٹرویو اور غزلوں کی رکارڈنگ کااہتمام کیا۔ جوہماری واپسی کے بعد نشر ہوا۔انڈمان کے قیام کے دوران نہایت ہی خوبصورت مقامات کی سیر و تفریح بھی ہوئی اور بہت ہی خوبصورت اور تاریخی مقامات کو دیکھنے کا بھی موقع ملا۔جزئیات کی تفصیل میں گیے بغیراور طوالت سے بچنے کے لیے ہم اپنے قارئین کو نہایت قیمتی معلومات فراہم کرنے کی سعی کریں گے اور امید کریں گے کہ یہ سفر نامہ انڈمان کے مستقبل کے مسافرین کی ذوقِ سیاحی میں اِضافے کا باعث بنے گا۔جناب زبیر احمد صاحب،ہفت روزہ لائٹ آف انڈمان کے ہم شکر گزار ہیں کہ اُنہوں نے بہت ساری معلومات فراہم کیں۔ لیجیے آپ بھی اِس سے فائدہ اُٹھائیں۔

جزائر کے دو گروپس انڈمان اور نکوبار پر مشتمل یہ علاقے یکم نومبر ۱۹۵۶ء سے ہندوستانی حکومت کے براہِ راست زیرِ انتظام ہیں اور اِن جزائر میں مرکزی حکومت کی نمائندگی لیفٹیننٹ گورنر کرتا رہاہے۔عالی جناب اے کے سنگھ اِ س وقت گورنر کے عہدے پر فائز ہیں۔کرۂ ارض پر اِس کا محل وقوع گیارہ اعشاریہ اڑسٹھ ڈگری شمال،بیانوے اعشاریہ ستہترڈگری مشرق میں خلیجِ بنگال کے بحرانڈمان میں، انڈونیشیا کے شہر Acehکے شمال میں ایک سو پچاس کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔اورتھائی لینڈ اور برما کو اِن جزائر سے الگ کر نے والا بحر انڈمان ہے۔یہ جزائر آٹھ ہزار تہتر مربع کلومیٹریا تین ہزار ایک سو سترہ مربع میل کے رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں۔جزائر کی آبادی ۲۰۱۲ء کے سنسس کے حساب سے تین لاکھ اسی ہزار پانچ سو ہے۔

پورٹ بلیر انڈمان کا سب سے بڑا شہر ہے اور صدر مقام بھی۔نکوبارجزائر کا صدر مقام ’’کار نکوبار‘‘ہے اور اِس کا دوسرا نام ’’ملکا‘‘بھی ہے۔یہاں ہندی کے علاوہ بنگالی، ہندی ،تمل، تلگو، نکوباری اور ملیالم زبانیں بولی جاتی ہیں۔اُردو بولنے والو ں کی بھی خاصی تعدا دہے ۔ اچھے شعراء بھی ہیں اور اپنی بنیادیں بہار اور یو پی میں رکھتے ہیں اِس لیے معیاری شعر کہنے پر قادر ہیں۔جیسا کہ عرض کیا گیا،ہمارے اعزاز میں ۲۷ ؍اگست کی شب ایک عظیم الشان مشاعرہ کا انعقاد ہوا،جو انڈمان اینڈ نکوبار آرٹ اینڈ کلچرل ڈپارٹمنٹ،حکومتِ ہند کے زیر اہتمام ہوا اور خواتین کی معروف تنظیم ISMATکاڈپارٹمنٹ سے اشتراک رہا۔
انڈمان کے پس منظر کے بارے میں کچھ باتیں عرض ہیں۔انگریزوں کے خلاف آزادی کی پہلی لڑائی (۱۸۵۷ء)پر اب ایک سو چھپن سال کا عرصہ گزر چکا ہے ،جزائر انڈمان اور نکوبارکی سیلولر جیل کی پر شکوہ عمارت، جو ایک سو سال سے بھی زائد عرصے سے جنگِ آزادی کی علامت بنی ہوئی نہ جانے کس قدر جاں سوز یادوں کو سمیٹے کھڑی ہے۔ بھلے ہی سیلو لر جیل کے نام سے لوگ بے خبر ہوں،لیکن’’کالا پانی ‘‘کے نام سے کوئی ناواقف نہیں ، نہ ہو سکتا ہے، کیونکہ کالاپانی تاریخ جنگ آزادی کا ایک نا قابلِ فراموش باب ہے،جس پر سو سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اور حکومت کے فراہم کردہ رکارڈ کے مطابق اِس کی تعمیر ۱۹۱۰ء میں مکمل ہوئی تھی۔ہر سال اِنقلابیوں اورجنگ آزادی کے سورماؤں کی یاد بڑے تزک و احتشام کے ساتھ منائی جاتی ہے۔اِس میں کوئی اِختلاف نہیں کہ یہ جیل انگریزوں کے خلاف معرکہ آراء مجاہدین آزادی کی قربانیوں کی علامت بن گئی ہے۔لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ جزائرِ انڈمان میں جد و جہد آزادی کی تاریخ کا نہ تو آغاز سیلولر جیل سے ہوتا ہے نہ اختتام۔ بلکہ تحریکِ آزادی میں شامل بے شمار اور بھی چیزیں ہیں جن کی حقیقت لوگوں کے لیے ایک نامعلوم شے بنی ہوئی ہے۔یہاں تک کہ طلباء کو بھی نصف تاریخ پڑھائی جاتی ہے، یعنی صرف ما بعد ۱۹۰۶ء کی تاریخ ، جب سیلو لر جیل وجود میں آئی تھی، پڑھائی جاتی ہے۔پہلی نصف تاریخ انڈمان کے لوگوں اور حکومتِ ہند کے اجتماعی تحت الشعور سے غائب ہے۔اب زیادہ تر زورصدی کے اِبتدائی دور کے سیاسی قیدیوں کی اسیری پرہی دیا جاتا ہے،لیکن وہ لوگ جو،۱۸۵۷ء کے غدر میں یعنی آزادی کی پہلی جنگ میں حصہ لینے کی پاد اش میں بطور سزا، انڈمان جیسی قیدیوں کی نوآبادی میں بھیجے گیے اور حالتِ اسیری میں جاں بحق ہوئے،اوروہ ملزمین اِنقلابی جن کی نسلیں انڈمان کی حقیقی تعمیرکے حصہ دار ہیں،وہ انڈمانی ، جن کی قوت کے بل پر سبھاش چندر بوس نے انڈمان کو اپنی عبوری حکومت کا مرکزمقرر کیا،اور پنڈت جواہر لال نہرواِس مطالبے کے قائل ہوئے کہ جزائر کو آزاد ہندوستان کا حصہ بننا چاہیے،یہ اور ایسی حقیقتوں کو پس پشت ڈال دیا گیا اور فراموش کر دیا گیا۔ہر ہندوستانی سیلو لر جیل کے اِنقلابی قیدیوں کو سلام کرتا ہے ، لیکن کسی کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ انڈمان کی تاریخ کا آغاز ۱۰ مارچ ۱۸۵۸ء سے ہوتا ہے۔پہلی جنگِ آزادی کے وہ جانباز سپاہی تھے،جو سیلو لر جیل کی تعمیر سے بہت پہلے زندہ رہتے یا مر جاتے تو نہ اِن پر کوئی رونے والا تھا نہ اُن کی جانبازی کے نغمے ہی گانے والانظر آتا ہے۔یہی وہ حقیقی علمبردارانِ حریت تھے ،جن میں سے بہت کم لوگ یاد رکھے گیے اور اِن کی ایک بڑی تعداد گمنام ہی رہی، جنہیں ۱۸۵۷ء کے فوراً بعد ملک بدر کر دیا گیا تھا۔نامناسب نہیں ہوگا اگر ہم پہلی جنگ آزادی کے ایسے ہی ایک عظیم ہیرو کو یاد کر لیں جس نے اپنے ساتھی مجاہدین کے ہمراہ،کالا پانی میں(سیلولر جیل کی تعمیر سے قبل) ایک تکلیف دہ اور اذیت ناک زندگی بسر کی تھی، ہماری مراد ہے علامہ فضلِ حق خیر آبادی۔

۱۸۵۷ء کی تاریخ میں فضلِ حق خیر آبادی(متوفی:۱۸۶۱ء)کی ’’زندگی اور خدمات‘‘ توجہ حاصل نہ کر سکیں۔وہ زمانۂ نو آبادیاتی نظام کے سیاسی قیدیوں میں سے ایک تھے،جنہوں نے کچہری کے منتظم کے عہدے سے استعفاء دے دیا تھا اور کہتے ہیں کہ اُنہوں نے برطانوی سامراج کے خلاف جہاد کا فتویٰ بھی صادر کر رکھا تھا۔ساتھ ہی اُنہوں نے جمہوری اُصولوں پر آزاد ہندوستان کا پہلا دستور بھی مرتب کر لیا تھا۔ایک اسلامی سکالر ہونے کے ساتھ ساتھ وہ مذہبیات کے بھی ماہر تھے۔ساتھ ہی وہ ایک ادبی ذوق رکھنے والے آدمی بھی تھے، خاص کر عربی اور فارسی ادب پر اُنہیں مہارت حاصل تھی۔اپنے گہرے علم اور ، عظیم اکاڈمک پس منظر کی بدولت اُنہیں علامہ بھی کہا جانے لگا تھا،بعد میں اُنہیں عظیم صوفی بھی کہا جانے لگا۔ خیر آبادی ۱۸۵۷ء کی تاریخ کے کوئی معمولی کردار نہیں تھے،پھر بھی تاریخ میں اُن کی موجودگی،اگر قطعی طور پر نظر انداز نہیں کی گئی ہے،تومیانہ رو تاریخ دانوں سے ٹھیک طور پر متعین بھی نہیں کی جا سکی ہے۔اگرچہ خیر آبادی اُردو اور فارسی ادب میں آج بھی زندہ ہیں، تاہم تاریخی نقطۂ نگاہ سے اُن کے بارے میں بڑی مشکل سے کہیں سے کوئی آواز سنائی دیتی ہے، جو دراصل اِس حقیقت کو معلوم کرنے کے لیے ضروری ہے، کہ ۱۸۵۷ء کی بغاوت کی اصل نوعیت کیا تھی؟

فضلِ حق اُن سرکردہ مجاہدینِ آزادی میں سے ایک تھے جو۱۸۵۹ء کو ملک بدر کرکے انڈمان بھیج دیے گیے تھے۔اُنہوں نے اپنی تحریروں کے ذریعہ ہندوستانی عوام میں احساسِ حب الوطنی پیدا کیا، خاص طور سے مسلمان ، اور آزاد ی کے حصول کے لیے نو آبادیاتی حکومت کے خلاف لڑنے کا حوصلہ پیدا کیا۔پہلی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد ۳۰؍جنوری ۱۹۵۹ء کو اُنہیں خیر آباد میں گرفتار کیا گیا۔فضلِ حق حکومت کے خلاف بغاوت کے جرم کے مرتکب پائے گیے اوراُنہیں کالا پانی میں عمر قید کی سزا سنائی گئی، نیز اودھ کورٹ کے عدالتی حکام نے اُن کی جائیدادکو ضبط کرنے کا فیصلہ صادر کیا ۔ وہ اپنے رفقاء کے ہمراہ ۸؍اکتوبر ۱۸۵۹ء کو ’’فائر کوئین‘‘نامی ایک تیزرفتار جہاز کے ذریعہ انڈمان پہنچائے گیے۔
انڈمان میں تصنیف کردہ علامہ فضلِ حق صاحب کی عربی کتاب ’’الصوت الہندیہ‘‘میں ایک اہم واقعہ کا ذکر ملتا ہے۔پورٹ بلیر کے سپرنٹنڈنٹ کرنل ہاٹن نے ایک فارسی مسودہ ، ضروری تصحیح کی درخواست کے ساتھ، کسی قیدی مولوی صاحب کے حوالے کیا۔محترم مولوی صاحب نے جب تصحیح کے کام کو دشوار پایا تو علامہ فضلِ حق صاحب کو دے دیا۔وہ اِس کام پر آمادہ ہوئے اور اِضافے اور حوالوں کے ساتھ ضروری تصحیح فرمادی۔مولوی صاحب کے پاس سے جب تصحیح شدہ مسودہ کرنل ہاٹن کو ملا تو اِسے دیکھ کر وہ بہت خوش ہوئے۔ اُنہوں نے دریافت کہ اِتنا مشکل کام اِتنی ساری کتابوں کے حوالوں کے ساتھ کیسے انجام دیا ،تو اُنہوں نے کرنل کو سارا ماجرہ سنا دیا۔ وہ فوراً علامہ فضلِ حق صاحب کے براک میں گیے اور اِنتظار کرتے رہے ،کچھ دیر بعداُنہوں نے دیکھا کہ ایک بوڑھا آدمی اپنے سر پر ٹوکری ڈھوئے چلا آرہا ہے،مولوی صاحب نے کہا کہ یہی علامہ فضلِ حق ہیں، تو کرنل ہاٹن کی آنکھوں سے آنسوں رواں ہوگیے۔کرنل نے معافی طلب کی اورفوری طور پر اُنہیں اپنی نگرانی میں لے لیا۔دریں اثناء علامہ فضلِ حق کے فرزندشمس الحق نے کسی طرح اپنے والد محترم کی رہائی کا حکم نامہ جاری کر وا لیا۔ جب وہ ۱۳؍ فروری ۱۸۶۱ء کو پورٹ بلیر پہنچے تودیکھا کہ ایک جلوسِ جنازہ جارہا ہے، جس کے پیچھے لوگوں کا اژدہام ہے۔شمس الحق نے دریافت کیا کہ یہ کون وفات پا گیا ، جس کے جلوسِ جنازہ میں اِتنی بڑی تعداد میں لوگ شریک ہیں؟ کسی نے جواب دیا کہ یہ علامہ فضلِ حق خیر آبادی ہیں جو کل(۱۲؍اگست،۱۸۶۱ء) انتقال فرما گیے۔ایک گہرے صدمے کے ساتھ جلوسِ جنازہ میں شمس الحق صاحب بھی شامل ہو گیے اور اِس طرح انڈمان میں قربانیوں کے ایک دور کا خاتمہ ہوگیا۔

جیل کی تعمیر سے پہلے ۱۸۶۶ء میں ،قیدیوں کی جو ایک اور جماعت ملک بدر کروا کے انڈمان لائی گئی،اُن میں کٹر وہابی حضرات شامل تھے۔مولانا محمد جعفر تھانیسری،مولانا یحیٰ علی،مولاناعبد الغفور،مولانا اِلٰہی بخش، مولوی احمد اﷲ اور مولانا عبدالرحیم صادق پوری جن میں شامل تھے۔مولاناجعفر تھانیسری ایک صاحبِ طرز ادیب تھے ، جن کی تحریریںٍ’’کالاپانی:تواریخ عجیب‘‘کی شکل میں منظر عام پر آچکی ہیں اور یہی اِس وقت یونیورسٹیوں میں مطالعے اور ریسرچ کا مواد بھی فراہم کرتی ہے ،جس میں قیدیوں کی نوآبادیات کے موضوع کا احاطہ کیا گیا ہے۔افسوس کہ یہاں جب بھی آزادی کا جشن منایا جاتا ہے، وہابی حضرات کی جد و جہد ِ آزادی کا کہیں ذکر نہیں ہوتا۔یہاں تک کہ شیر علی جو سیلو لر جیل کی تعمیر کی پشت پر ایک اہم سبب تھے، اُنہیں بھی نظر انداز کر دیا گیا ہے۔آئندہ جب بھی آزادی کے جشن منائے جائیں گے،یہی سوال دہرایا جائے گا کہ کیا اِن انڈمانی غریب الوطنوں کو بھی کبھی یادکرنے کی نوبت آئے گی؟کیا تاریخ کے صفحات پر اِنہیں دوبارہ زندہ کرنے کی کبھی سنجیدہ کوشش بھی کی جا سکے گی؟اب توانڈمان اور نکوبار انتظامیہ اور حکومتِ ہندکے پاس وطن کے اُن حب الوطن بہادر بیٹوں کو نظر انداز کرنے کے گناہ سے توبہ کرنے کے لیے بہت کم وقت بچا ہے ، جو کبھی برطانوی سامراج کی نفرت کا ہدف بنے رہے تھے اور اب ہندوستانیوں کی بے اعتنائی کا شکار ہیں۔ سلولر جیل کی تعمیر کے بعد بھی، دوسرے کئی اورمجاہدین بھی اِن بے مروّت مورخیں کے تعصب کا شکار بنے ہوئے ہیں۔

بہر کیف جدوجہدِآزادیٔ ہند کی ایک سچی تاریخ اب بھی اپنے جنم کی منتظر نظر آتی ہے۔ وہ واقعات جو برطانوی راج کو ہلا کر رکھ دینے کے ذمہ دارتھے اور۱۹۲۱ء اور ۱۹۲۲ء کاسابقہ مالابار ضلع ……’’انڈین نیشنل کانگریس ،تاریخِ کیرلہ‘‘ پر لکھی گئی کتابوں میں بہت کم جگہ پاسکے ہیں۔ان واقعات نے عملاً چھ ماہ یا اِس سے بھی زیادہ وقت کے لیے برطانوی طاقت کومالابار سے غائب ہوتے دیکھا۔یہ واقعہ جو انڈمان کی گفتگوؤں میں آج بھی سننے کو ملتا ہے اور،وہ لوگ جو بعد میں ملک بدر کر دیے گیے تھے،ایک چھوٹے سے تذکرے کا بھی موضوع نہیں بن پاتے۔

۱۹۲۱ او ر۱۹۲۲ء کی مالابار بغاوت دراصل موپلا آبادی کی بغاوت تھی، جس کی اکثریت زراعتی مزدوروں، روزانہ کی اُجرت پر کام کرنے والوں،چھوٹے موٹے چائے فروشوں اور اُن لوگوں پر مشتمل تھی جو مساجد سے وابستہ تھے۔مٹھی بھر ہندو بھی اِس میں شامل تھے۔یہ جاگیرداروں اور اُن کے غیر ملکی آقاؤں کے خلاف محروم طبقات کی ایک کشمکش تھی۔ یہ ایک حقیقت ہے، جس کے بہت سارے لوگ قائل بھی ہیں، کہ۱۹۲۱ء اور ۱۹۲۲ء کی مالاباری بغاوت ایک بھیانک مسلح بغاوت تھی ،جس کا ۱۸۵۷ء کے بعد برطانوی ہندوستانی حکومت نے سامنا کیا ۔جدوجہدِ آزادی کے وہ بہادرشرکاء جنہوں نے اپنی جانیں قربان کیں، یا زخمی ہوئے اورانڈمان منتقل کر دیے گیے، اپنی تمام تر قوت و جوش و جذبے کو برطانوی سامراج سے ٹکر انے میں جھونک دیا، اگرچہ، اِس کے لیے اُنہیں بھاری قیمت بھی چکانی پڑی،محض اِسی ایک نصب العین کے لیے کہ ہندوستان کو غیر ملکی تسلط سے ،بشمول اُن جاگیر داروں کے تسلط سے آزاد کیا جائے، جو غیر ملکی استبداد کے لیے کٹھ پتلی بنے ہوئے تھے۔اِس کی جو قیمت چکانی پڑی وہ یہ تھی کہ اُنہیں اپنے مادرِ وطن ہی سے اُکھڑنا پڑا۔اُن کی بغاوت نے اُنہیں کئی غیر مہذب القاب بھی عطا کیے۔جیسے موپلا شورش،موپلائی جنون وغیرہ،وغیرہ۔۱۴؍مارچ ۱۹۲۲ء کی رپورٹ کے مطابق،میجر جنرل سٹارٹ نے لکھا:’’بغاوت ۶ ماہ تک جاری رہی،جس کے دوران موپلاز مالا بار کے بڑے حصے پراپنی گرفت مضبوط رکھی،اور اِس کی قیمت دس ہزار جانوں کی صورت میں ادا کی۔‘‘

ایک رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ برطانوی افواج نے۱۸۵۷ء کی بغاوت کے بعد پہلی بڑی گوریلا جنگ کا ایک تجربہ کیا جو طویل بھی تھا اور گھمسان بھی۔

اطلاعات کے مطابق، تقریباً پچاس ہزارافراد کو گرفتار کیا گیا۔چودہ ہزار سے زیادہ کا کورٹ مارشل کیا گیا، پھر یا تو اِنہیں سزائے موت سنائی گئی یاعمر بھر کے لیے انڈمان بھیج دیا گیا۔بعد ازیں،کئی قیدی اور سزا یافتہ افراد پر جرمانہ عائد کیا گیا، تاکہ جیلوں پر بوجھ کم کیا جاسکے۔رونالڈ ملر کے مطابق ، حتمی حل کے طور پر بڑے پیمانے پر ملک بدری کے لیے اور موپلاز کی انڈمان میں نو آبادی کی غرض سے ’’موپلا سکیم ‘‘ مرتب کی گئی۔اِس طرح اِن کی ملک بدری ۱۹۲۲ء میں شروع ہوئی اور ۱۹۲۶ء تک جاری رہی۔۱۹۳۱ء کے سنسس کے مطابق موپلاز کی آبادی ۱۸۸۵ شمار کی گئی، جن میں ۱۱۷۱مرد اور ۷۱۴ عورتیں شامل تھیں۔متضاد اِطلاعات کے مطابق تقریباً ڈھائی ہزار افرادکو ملک بدر کیا گیا۔’’موپلاز‘‘جنہوں نے قیدیوں کی شکل میں اپنی زندگی کا آغاز کیا،اپنی سزا کے ختم ہونے کے بعد بھی یہیں انڈمان میں بس جانے کا فیصلہ کیااور کیرالہ سے اپنے اہل و عیال کو بھی منتقل کرلیا۔اُنہوں نے بستیاں بسائیں، دیہاتوں کی تعمیر کی اور اپنی بساط بھر اِن جزائر کی ترقی کے لیے جی جان سے کوششیں کیں۔بد قسمتی سے مجاہدینِ آزادی کے وارثین میں سے ایک کا نام بھی اُس فہرست میں نظر نہیں آتا جنہیں آزادی کے جشن کے موقع پر اعزاز بخشنے کے لیے ہر سال مدعو کیاجاتا ہے۔

جو لوگ انڈمان کو جاتے ہیں، اُن میں سے زیادہ ترلوگوں کا مقصد تفریح سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔کاش کہ وہ اِن حقائق کی روشنی میں اپنے مقاصدِ سفر کو نیے سرے سے مرتب کریں۔ اپنے آباء کی قربانیوں کو یاد کریں۔ پھر یہ کہ جن مجاہدینِ آزادی کی نسلیں وہاں آباد ہیں ، کم از کم اُن کی فلاح کی طرف ہماری حکومت کو خلوص کے ساتھ توجہ دینی چاہیے۔ہم نے دیکھا کہ وہاں مختلف دیہاتوں کو جوڑنے والی سڑکیں بہت خستہ حالت میں ہیں۔اب بھی لوگ بڑی جفا کشی کے ساتھ اپنی زندگی گزارتے ہیں۔ بجلی کی حالت اس قدر خستہ ہے کہ بجلی لوٹ آنے کا واقعہ اخبارات کی ایک اہم خبر بن کر نشر ہوتا ہے۔مہنگائی کا وہ عالم ہے کہ توبہ بھلی۔ ہر اعتبار سے یہاں کی یہ زبوں حالی میرے لیے اِس لیے بھی باعثِ پریشانی بنتی رہتی ہے کہ میری بیٹی انڈمان میں بیاہی گئی ہے، جس سے میری سال میں ایک بار ملاقات ہوتی ہے۔ ایک گہرے سمندر سے اُبھرے ہوئے اِن جزیروں میں میری لختِ جگر اور اُس کی دو پیاری پیاری بیٹیاں اور ایک ہونہار بیٹے کی موجودگی مجھے ہر وقت الرٹ رکھتی ہے۔ جب سنامی آئی تھی تو ہماری جان نکل گئی تھی اور زلزلوں کی خبروں پر ہما را دل دھڑکنے لگتا ہے۔ مزے کی بات یہ کہ جب بھی خلیج بنگال میں کسی طوفان کی خبر ٹی وی پر نشر ہوتی ہے تو احباب کے فونس کا تانتا بندھ جاتا ہے اور پوچھنے لگتے ہیں کہ بیٹی کا کیا حال ہے۔لیکن الحمد ﷲ ہمیں اُس کی خوشحال زندگی کا اطمینان ہے اور اُس کی داعیانہ مصروفیات بھی اُس کے ذہن سے اپنے مائیکے کی یاد و ں کو مدھم کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔

بہر کیف انڈمان کا ہمارا یہ تیسرایادگار سفر بحسن و خوبی اِختتام کو پہنچا۔ دوپہر کا کھانا ہم نے پورٹ بلیر میں کھایا اور ۳۱؍اگست ،دو بجے ہم پورٹ بلیر سے نکلے اور، براہ چنائی ٹھیک شب ۱۱ بجے بنگلورایر پورٹ پہنچے۔دونوں بیٹے محمد زکریا اور محمد یونس ہمیں لینے کے لیے موجود تھے۔ گھر پہنچ کر ہم سوچ رہے ہیں کہ ایک یاد گار سفر کی یادیں نہ جانے کب تک ہمارے شعور کے آنگن میں رقصاں رہیں گی۔ .. یار زندہ و صحبت باقی...
Azeez Belgaumi
About the Author: Azeez Belgaumi Read More Articles by Azeez Belgaumi: 77 Articles with 76402 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.