عربی زبان ……چند سادہ سی گزارشات

اس حقیقت سے شاید ہی کوئی بے خبر ہو کہ ہر مخلوق قوت گویائی سے سرفراز کی گئی ہے اور اس فطری وصف میں حیوانات وجمادات اور انسان سب ہی مشترک ہیں، اس جبلی صفت کو قرآن کریم نے یوں بیان فرمایا ہے:
’’ہر ہر چیز اﷲ وحدہ لاشریک لہ کی حمد وثنا بیان کرتی ہے، لیکن تم اس کی سمجھ نہیں رکھتے‘‘۔

اﷲ تعالیٰ نے زمین وآسمان کو بار امانت سونپنے کی خاطر خطاب کا شرف بخشا ، انہوں نے دست بستہ اپنی بے بسی کا اعتراف کرتے ہوئے بارگاہ عزاسمہ میں معذرت نامہ پیش کردیا۔ مخلوق کے خطاب کرنے اور ان سے خطاب کئے جانے کے شواہد میں اﷲ جل جلالہ کا شہد کی مکھی کو خطاب کرتے ہوئے اسے اس کی ذمہ داری تفویض کرنا، مزید برآں حضرت سلیمان علیہ السلام کے لشکر کو آتا دیکھ کر چیونٹیوں کی ملکہ کا اپنی ساتھی چیونٹیوں کو ناصحانہ کلام کرتے ہوئے اپنے ٹھکانوں میں چلے جانے کا حکم دینا، نصوص قرآنیہ سے ثابت شدہ غیر انسانی مخلوقات کی گویائی اور جبلی تکلم کے واقعات ہیں۔ احادیث میں جناب نبی کریم ﷺ کی ذات بابرکات کی نبوت کی تصدیق کے لئے پتھروں اور درختوں کی گواہیاں اور آپ علیہ السلام سے گفتگو کرنا ہمارے قول کی دلیل ہے، کہ اﷲ تعالیٰ نے ہر مخلوق کو اس کے مناسب زبان ولہجہ عطا فرمایا، تاکہ وہ خطاب کرتے ہوئے اظہار مافی الضمیر کرسکے، یہ بات الگ ہے کہ ہم ہر لب و لہجہ کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، انہی مخلوقات میں سے انسان اس کائنات کا مرکزی کردار اور یہاں کے نظام کا منتظم بنایا گیا ہے، اﷲ رب العزت نے اپنی خلافت کا تاج اسی کو پہنا کرا پنا بار امانت انسان کے کندھوں پر ڈالا ہے۔ تکوینی طور پر انسان کی بول چال کی زبانیں اور لہجے اس قدر ہیں کہ ان کا شمار آسان نہیں، کہاجاتاہے کہ انسانی زبانیں ایک ہزار سے متجاوز ہیں، بین الاقوامی سطح پر مسلّم اور منظور شدہ زبانوں میں عربی، انگریزی، فرانسیسی ، روسی اور چینی زبانیں خاص اہمیت کی حامل ہیں۔ عربی زبان جزیرۃالعرب سے مرحلے وار منتقل ہوتے ہوئے اور بتدریج پروان چڑھتے ہوئے چار دانگ عالم میں اپنا اثر رکھتی ہے، اس کی مقبولیت کا عجیب وغریب مظہر یہ ہے کہ بے شمار انسان اس زبان کومکمل بولنے اور سمجھنے کی صلاحیت نہ رکھنے کے باوجود اس کو پسند کرتے ہیں، اور اس سے محبت وعقیدت رکھتے ہیں۔

جہاں تک دیگر عالمی زبانوں کا تعلق ہے ان میں سے بیشتر زبانوں کا فروغ اور ان کا پھیلاؤ فطری انداز سے نہیں ہوا، اور نہ ہی ان زبانوں کی مقبولیت ان میں موجود چاشنی اور زبانی حسن وجمال کی وجہ سے ہے، بلکہ استعماری طاقتوں اور سیاسی قوتوں کے زیر اثر یہ زبانیں بین الاقوامی شہرت حاصل کئے ہوئے ہیں، وگرنہ ان زبانوں میں بین الاقوامی سطح پر تخاطب اور بول چال کی صلاحیت نہیں، کیونکہ ایک تو ان زبانوں میں زبان دانی کے اندازے اور اس کے واضح ضابطے نہیں پائے جاتے، دوسرے ان زبانوں کے بولنے اور سمجھنے والے ہر علاقے میں دستیاب نہیں ہیں۔

عربی زبان بین الاقوامی زبانوں میں ایک ایسی منفرد زبان ہے، جسے حیاتِ جاویدانی حاصل ہے، تغیر وتبدل کی لہریں اس کو متاثر کرنے سے قاصر رہی ہیں۔ اس زبان کی ایک مسلمہ خوبی یہ ہے کہ بین الاقوامی شہرت کا حامل مذہب اسلام اپنی تمام تر تعلیمات اورتہذیب وثقافت کے بیان کرنے میں عربی زبان کو بطور ترجمان استعمال کرتا ہے۔ مشرق و مغرب میں مسلمانوں کی نمائندہ زبان عربی ہی سمجھی جاتی ہے، اسلامی دستور قرآن کریم کی شکل میں اور اس دستور کی تشریحات خاتم الانبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کی احادیث کی صورت میں عربی زبان کی رونق میں اضافہ کرتے نظر آتے ہیں۔ چنانچہ ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ عربی زبان محض ایک زبان ہی نہیں بلکہ یہ دین وملت کی امین، بین الاقوامی روابط کا موثر ترین ذریعہ، اسلامی علوم وفنون کا خزینہ اور جدید عصری علوم کا اہم ترین آلہ اور واسطہ ہے۔

زبانِ عربی کی شان وشوکت کو ان مختصر سطور میں بیان کرنا سمندرکوکوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے، بہرحال عربی کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے بعد ہم یہ عرض کرتے ہیں کہ فی زمانہ عربی زبان کی ترقی، اس کے فروغ اور پھیلاؤ اور اس کو کسی دوسری زبان کی آمیزش سے محفوظ رکھنے کی کوشش ایک عظیم الشان علمی، ادبی ، ثقافتی، تاریخی اور ملی ورثے کی حفاظت اور اس کو ترقی دینے کی خدمتِ جلیلہ اور ان میدانوں کے شہسوار ان علمی وادبی کاوشوں کی اہمیت سے صرفِ نظر کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے، چہ جائیکہ اس کا انکار کرسکیں ، لہٰذا ہم دست بستہ گزارش کرتے ہیں کہ اسلامی ممالک کے سربراہان ، قدیم وجدید علوم کے حامل علماء کرام، اسلامی جامعات اور یونیورسٹیوں کے چانسلرز اور نظام ہائے تعلیمات کے نگران اس قیمتی اثاثے کے سلسلے میں خاطر خواہ حکمت عملی کا اہتمام فرمائیں، بصورتِ دیگر امت مسلمہ اپنے اسلاف کے وقیع علمی وثقافتی اور مذہبی وملی ورثے سے دور اور لاعلم ہوسکتی ہے۔

دورِ حاضر کا ایک مسئلہ جو عربی زبان کو درپیش ہے، وہ یہ ہے کہ اس زندہ وجاوید زبان کو استعماری طاقتوں کے زیر اثر قطع وبرید کے لئے تختۂ مشق بنایا جارہاہے، عربی زبان کو غیر ملکی خصوصاً یورپی زبان کے ساتھ خلط ملط کرنے کی مذموم سازش کی جارہی ہے، اس کی واضح اور حقیقت پر مبنی مثال مراکش (جسے ’’المغرب‘‘ اور ’’مراکو‘‘ کہاجاتا ہے)کی ہمارے سامنے ہے، وہاں فرانسیسی استعمار کے قابض رہنے کی وجہ سے خالص عربی معاشرہ میں روز مرہ کی عمومی بول چال میں عربی فرانسیسی کے امتزاج سے پروان چڑھنے والی زبان (جسے وہاں کے لوگ ’’دارِجہ‘‘ اور ’’عامیہ‘‘ کے نام سے موسوم کرتے ہیں) بولی جاتی ہے اور افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ فصیح عربی زبان سے اس کا کوئی تعلق نہیں ،نہ ہی فصیح عربی بولنے اور سمجھنے والا اس زبان کو سمجھنے اور بولنے کی طاقت رکھتا ہے۔ ہر ذی شعور اس حقیقت سے آشنا ہے کہ قوموں کی بقاء اور ان کے ارتقاء میں اس قوم کی زندہ زبان اور اس کا قدیم تہذیبی وثقافتی ورثہ کس قدر اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔

عربی کو زبانِ اغیار سے آلودہ کرنے کی بدذوقی پر زبانِ حال سے عربی زبان کا شکوہ ملاحظہ ہو:
أیطر بکم من جانب الغرب ناعب
ینادي بوأدي في ربیع حیاتي
أری کل یومٍ بالجرائد مزلقاً
من القبر ید نیني بغیر أناۃ
وسعت کتاب اﷲ لفظا وغایۃ
وما ضقت عن آي بہ وعظاتٖ
فکیف أضیق الیوم عن وصف آلۃ
وتنسیق أسماءٍ لمخترعاتٖ
’’مغرب کی جانب سے نعرہ لگانے والے کی آواز پر تم جھوم رہے ہو، وہ آواز مجھے جیتے جاگتے زندہ درگور کرنے کی پکار ہے، میں روزانہ اخبارات ورسائل میں اپنا پھسلایا جانا ملاحظہ کرتی ہوں، جو مجھے زبردستی قبر کی طرف کھینچ رہا ہے، میری وسعتوں کا پیمانہ اس قدر وسیع ہے کہ قرآنی علوم کے عمیق ذخائر کو الفاظ کا جامہ پہنانے سے بھی میں عاجز نہیں رہتی ،تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آج کسی جدید پرزے اور کسی نئی ایجاد کے لئے معمولی سی تعبیر کی ادائیگی میں مجھے بے بس تصور کرلیاجائے‘‘۔

قرآن کریم نہ صرف یہ کہ عربی میں نازل ہوا، بلکہ وہ عربی زبان کے سمجھنے اور اس کے سمجھانے کی پوری صلاحیت رکھتے ہوئے اس کی پرزور دعوت بھی دیتا ہے، گویا قرآن کریم نے عربی فصاحت وبلاغت اور حسن وجمال کا عَلم بلند کیا ہوا ہے، اور قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جابجا اس حقیقت کا اظہار فرمایا ہے کہ قرآن کریم فصیح وبلیغ عربی زبان میں نازل کیا گیا ہے اور وہ تکلفات سے پاک نہایت ستھری اور سادہ وسہل زبان میں ایک ممتاز حیثیت رکھتا ہے۔ عربی زبان کی انہی صفات وکمالات کی بناء پر یہ کہاجاسکتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اس زبان کی خصوصیات کے پیش نظر بنی نوع انسان کو خطاب کرنے کے لئے اس مبارک زبان کو منتخب فرمایا ہے۔

ہم اﷲ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ امتِ محمدیہ (علی صاحبہا الصلاۃ والسلام) کو عربی زبان کے فروغ، اس کے تعلیم وتعلم اور اس کی ترویج کی توفیق عطا فرمائے اور بین الاقوامی سطح پر شخصی اور اجتماعی ہر شکل میں اس کا لوہا منوانے کی طرف متوجہ فرمائے۔ آمین۔
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 818251 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More