اگر آپ ابھی تک لوٹے کی اصلی قدروقیمت سے ناواقف ہیں تو
اس تحریر کو پڑھنا آپ کے لئے بہت ضروری ہے
یوں تو جاب پر دیسی کو دن میں کئ بین الاقوامی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے
اور دل میں رہ رہ کر پاکستان کا درد جاگ اٹھتا ہے مگر ایک دن تو حد ہی ہو
گئی ۔ نہ جانے بیٹھے بٹھائے دماغ میں کیا سودا سمایا کہ اس نے فیصلہ کیا کہ
جب امریکن باتھ روم میں دنیا جہاں کے باقی سارے لوازمات موجود ہیں تو آخر
لوٹا بھی لے آنے سے کونسا حکومت کا تختہ الٹ جائے گا یا وائٹ ہاؤس بلیک
ہاؤس میں تبدیل ہو جائے گا۔ ارے یہ کیا صاحب آپ تو ناحق ہنسنے لگے۔ لگتا ہے
آپ لوٹے کی اصلی قدر قیمت سے ہرگز واقف نہیں ورنہ ایسی گستاخی کے مرتکب
کبھی نہ ہوتے ۔۔۔۔شاید اس لئے کہ آپ میں سے بیشتر نے اس کے نہ ہونے کا صدمہ
کبھی جھیلا ہی نہیں ہو گا تو پھر بھلا اس محرومی سے کیونکر واقف ہو سکتے
ہیں ۔ اگر آپ خود کو ایک مہذب طرز زندگی سے وابسطہ فرد ثابت کرنا چاہتے ہیں
تو لوٹےکو نامعتبر سمجھنے جیسے قبیح فعل سے نہ صرف باز رہیں بلکہ " سیاہ ست
دانہ " تعصب کی عینک اتار کر دیکھیں تو لوٹے سے محرومی کا دل گداز غم آپ کو
آٹھ آٹھ آنسو رونے پر مجبور کر دے گا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو بڑے بڑے لوگ اس
کو اپنا امتیازی نشان بنائے رکھنا کیوں فخر کی بات سمجھتے اور پھر اس سے یہ
بھی تو ثابت ہوتا ہے وہ سب دیسی کی طرح اس کے نہ ہونے کا دکھ جھیل چکے ہیں
تب ہی تو اب لوٹے کو احتیاطً اپنے ناموں کا حصہ بنائے ساتھ ساتھ اٹھائے
پھرتے ہیں۔
دیسی نے امریکن سسٹم میں پاکستانی پیوندکاری کرنے کی ٹھان تو لی پر کسی سے
پوچھنا بےکار تھا۔ اجازت ملنے کا امکان نہیں تھا۔ جس ملک میں لوگ اپنے مکان
کے باہر ایک کیل تک اپنی مرضی سے نہ ٹھونک سکتے ہوں اور کھڑکیوں دروازوں پر
نیلے پیلے اودھے ہرے پینٹ تک نہ کر سکتے ہوں وہاں بھلا لوٹے جیسے بڑے
معاشرتی مسئلے کو اچانک بغیر کسی خونی انقلاب کے امریکی باتھ روم میں کیسے
جگہ مل سکتی تھی۔ اصول کچھ بھی رہے ہوں مگر دیسی کی نظر میں اس کمی کو فی
الفور پورا کیا جانا بہت ضروری تھا۔۔ کافی دیر سوچ بچار کے بعد اس نے یہ
انوکھا ایڈونچر اپنے رسک پر کرنے کی ٹھان لی اور باتھ روم میں کئ گھنٹے
تحقیق کے بعد بے شمار ایکسٹرا کیبنیٹس میں سے آخری والی کو اپنے ہونے والے
پیارے لوٹے کی مستقل جائے رہائش کے طور پر منتخب کر لیا ۔ لیجیے دیکھتے ہی
دیکھتے لوٹے کی سکونت کا مسئلہ چٹکیوں میں حل ہو گیا اور اس قدر کامیابی سے
یہ راز چھپائے رکھنے پر اپنے آپ کو داد دینے کا ضروری فریضہ بھی دیسی کو
خود ہی انجام دینا پڑا ۔ جب وہ اپنی توضیح و تعریف سے فارغ ہو چکی تو اب
مسئلہ کھڑا ہوا کہ سب کی نظروں سے چھپا کر لوٹے کو منزل مقصود تک پہنچایا
کیسے جائے ۔
سب سے پہلے تو پاکستانی اسٹور سے ایک لوٹا ہیروں کے مول خریدا گیا پھر
ریپنگ پیپر میں لپیٹ کر کرسمس گفٹ بیگ میں رکھ کر اس کی گردن میں ہار پھول
اور ربن ڈالے گئے تاکہ دیکھنے والے کو وہ دور سے کرسمس گفٹ نظر آئے۔ لوٹا
اپنی اس عزت افزائی پر پھولے نہیں سما رہا تھا بلکہ خوشی کے مارے اپنی
اوقات بھول کر آپے سے باہر ہو ہو جاتا تھا ۔۔ دیسی نے جیسے تیسے کر کے
لوگوں کی نظروں سے چھپا کر لوٹے کو اس کی جائے رہائش تک پہنچا دیا اور اس
کے سامنے ٹشو پیپرز کی دیوار بھی بنا دی تاکہ دیکھنے والوں کی بینائی پر
برا اثر نہ پڑے اور لوٹے کو بھی تنہائی کا جان لیوا احساس باقی نہ رہے۔ اب
دن میں کئ بار دیسی اور لوٹے کی چوری چھپے ملاقاتیں ہوتیں ۔ وہ چپکے چپکے
باتھروم میں جا کر اپنے لوٹے کا دیدار کرتی اور ادھر لوٹا بھی ہر وقت دیسی
کے انتظار میں دیدہ دل فرش راہ کئے پڑا رہتا۔ جب بھی دونوں ملتے ایک دوسرے
سے خوب شکوے شکایات کئے جاتے۔کھبی روٹھا تو کھبی منایا جاتا۔ غرض ان کی
محبت زوروں پر تھی اور بڑی کامیابی سے زمانے کی آنکھوں میں دھول جھونک کر
یہ عشق پروان چڑھ رہا تھا۔ ابھی ان کا طولانی عشق شروع ہوئے صرف پانچ دن ہی
ہوئے تھے کہ ایک دن اچانک دیسی کو اوورہیڈ پر اپنا نام سنائی دیا۔ اس کو
فورا کسی ایمرجنسی میٹنگ کے لئے کہیں بلایا جا رہا تھا۔ یہ سنتے ہی ہمیشہ
کی طرح اس کے ہاتھ پاؤں پھول گئے اور باری باری بھاگ دوڑ کر ہر میٹنگ روم ،کانفرنس
روم میں ٹھوکریں اور ٹھڈے کھانے کے باوجود جب کہیں بھی ایسے آثار نظر نہیں
آئے تو اس کی پریشانی کو بھی پریشانی لاحق ہونے لگی ۔ اتنی دیر میں اعلان
دوبارہ سنائی دیا تو دیسی نے بھاگ کر رسپشینسٹ سے پوچھا کہاں ہے میٹنگ؟
جواب ملا تمھارے ڈیپارٹمنٹ کے لیڈیز باتھ روم میں ہے۔
یہ غیر متوقع جواب سن کر وہ ہکا بکا رہ گئ۔۔۔۔ہائیں ! یہ کس ٹائپ کی میٹنگ
ہے؟ اس کے ہاتھ میں پکڑی فائل نیچےگر گئ اور پھر لوٹے کا خیال آتے ہی
ہاتھوں کے طوطے کبوتر وغیرہ سب اڑ گئے۔ یہ تو بہت ہی خطرناک صورت حال ہے ۔
وہیں تو میرا پیارا لوٹا بھی سکونت پذیر ہے۔ کہیں اس نے کوئی شرارت تو نہیں
کر دی اور وہ تو کمبخت ہے بھی نظرباز ، اتنی ساری عورتوں کو اکٹھا دیکھ کر
کہیں باہر ہی نہ نکل آئے ۔ وہ بڑبڑاتی ہوئی ادھر بھاگی۔ جیسے ہی دروازہ
کھولا تو اندر ایک عجیب دل دہلا دینے والا منظر نظر آیا۔ بالکل سامنے اس کی
پانچ ساتھی دائرے میں جھکی ہوئی زمین کو ایسے خوفزدہ انداز میں گھور رہی
تھیں جیسے وہاں ابھی کوئی خلائی مخلوق اتر آئی ہو ۔ جب ان کی نظروں کے
تعاقب میں دیسی نے زمین کو دیکھا تو تھرا کر رہ گئی۔ ان کے بیچوں بیچ اس کا
پیارا لوٹا بالکل بے پردگی کی حالت میں پڑا تھا اور پانچ خوبصورت عورتوں کی
نظریں تیر کی طرح اس کے آر پار ہو رہی تھیں۔ جس کی وجہ سے لوٹا پہلے تو شرم
سے سرخ ہو ہو کر اپنے آپ میں سمٹتا رہا مگر جب کسی نے اس کی نقشے بازی پر
توجہ نہیں دی تو شرمانے کا ارادہ ملتوی کر کے اب فکر و پریشانی سے نیلا
ہونا شروع ہو گیا تھا۔ قدموں کی آہٹ پا کر سب نے مڑ کر دیسی کو دیکھا اور
ایک ساتھی نے پوچھا تم کو معلوم ہے یہ کیا جیز ہے اور کیا تمھاری ہے؟
پہلے دیسی نے گھبرا کر سوچا کہ اجنبی بن جائے اور لوٹے سے اپنی تمام
ملاقاتوں کا حال بھی چھپا لے مگر جب لوٹے پر نظر پڑی تو وہ بڑی عاشقانہ اور
محبوبانہ نظروں سے دیسی کو ہی دیکھ رہا تھا۔ دیسی اس وقت بلیک لانگ ڈریس
میں بہت کیوٹ لگ رہی تھی جس پر سلور بیل لگی تھی اس کے لانبے لانبے بال بھی
ہوا میں لہرا رہے تھے(باتھ روم میں کوئی پنکھا بھی نہیں تھا اس لئے بال
لہرانے کی وجہ ابھی تک معلوم نہیں ہو سکی، ریسرچ جاری ہے) اس کی میچنگ بلیک
اورسلور جیولری کی روشنی اس کے چہرے کو ایک الوہی چمک بخش رہے تھے ۔ دیسی
کی یہی" سادگی" تھی جو اسے باقی سب سے ممتاز کرتی تھی۔( توجہ طلب بات یہ ہے
کہ اپنے آخری وقت اور اتنی پریشانی کے عالم میں بھی لوٹا یہ سب اول الزکر
نوٹس کئے بنا نہیں رہ سکا تھا ۔ لگتا ہے اس پر بھی ہمارے افسانوں اور
ڈراموں کا کافی اثر تھا) ۔وہ دنیا و مافہیا سے بےخبر ابھی بھی دیسی کو بڑی
دلنواز نظروں سے گھورے جا رہا تھا۔ اچانک اسے جب اپنی حالیہ اور عاشقانہ کی
بجائے مجرمانہ حیثیت کا احساس ہوا تو گھبرا کر رہ گیا۔ بڑی ملتجانہ نظروں
سے دیسی کو دیکھ کر سوچنے لگا ایک یہی تو ہے جو مجھے میری شناخت دے سکتی ہے
۔ مجھے اپنا نام دے کر بھرے باتھ روم میں بے آبرو ہونے سے بچا سکتی ہے ورنہ
تو میرا انجام جانے کیا ہو۔ اپنے پیارے لوٹے کی جدائی کے خیال سے دیسی کی
آنکھیں بھی بھر آئیں۔ اس نے سچ بولنے کی ٹھان لی اور سوچا اب جو ہو گا
دیکھا جائے گا میں اپنے قدم واپس نہیں موڑ سکتی نہ ہی لوٹے سے بے وفائی کی
مرتکب ہو سکتی ہوں۔ سو اس نے کھنکار کر گلا صاف کیا اور بولی ۔ دس از مائی
لوٹا ۔
وٹ ؟ وٹ از دس ؟ وہ پانچوں کورس کے انداز میں چلائیں۔ وہ ۔۔۔۔یہ۔۔
میں۔۔۔ہاں۔۔۔وہ۔۔۔۔۔۔نہیں۔ ۔۔۔ یہ تو ۔۔۔۔جلدی جلدی اپنے گٹوں پر زور ڈال
کر دیسی نے لوٹے کا کوئی انگلش نام یاد کرنے کی ناکام کوشش بہت کامیابی سے
کر ڈالی ۔ اب اسے خود پر ، اپنے گھر والوں پر، اپنے اساتذہ پر اور پورے
معاشرے پر بے تحاشا غصہ آنے لگا، جنہوں نے اس کو لوٹے کا کوئی انگلش نام
نہیں بتایا تھا۔ خود وہ اپنے آپ کو بھی کوس رہی تھی کہ جب یہاں لانے کا رسک
لیا تو نام کیوں نہیں پوچھا ۔ خیر ان کو کیا معلوم ؟ میں کچھ بھی کہ دیتی
ہوں۔۔ دیسی نے کھنکار کر دوبارہ گلا صاف کیا اور اب کی بار اپنے لہجے کو
حتی الامکان امریکن بناتے ہوئے بولی "دھس از مائی لوؤٹھا"
بٹ وٹ دس لوؤٹحا ڈز اینڈ وائے از ہئیر؟ وہ سب ایک ساتھ کمر پر ہاتھ رکھ کر
استفسار کرنے لگیں اس دن سے لے کر آج تک دیسی ان کو لوٹے کی وجہ
تسمیہ سمجھانے میں اتنی ہی ناکام ہے جتنا کہ اس سوال کا جواب دینا کہ پہلے
مرغی پیدا ہوئی تھی یا انڈا ۔ ہاں البتہ اب آپ اکثر نینسی کو اسی لوٹے سے
اپنے آفس والے پودوں کو پانی دیتے دیکھ سکتے ہیں۔ جارج کی ہر وقت گرم ہونے
والی کار میں پانی ڈالنے کے کام بھی یہی آتا ہے۔ سلینا کو سڑک پر آوارہ
پھرتی بطخوں کو پانی پلانا ہو تو بھی اسی کی کمبختی آئے گی اور تو اور ایک
دن پٹریشا کرسمس پارٹی کے موقع پر برتن کم ہو جانے کے باعث اسی "ایشین
صراحی" میں برف تک سرو کرنے پر بضد تھی جسے بڑی مشکل سے سمجھا بجھا کر
جذباتی ہونے سے روکا گیا ۔ کیوں اب کہیئے، آپ بھی لوٹے کی اہمیت مان گئے
ہیں نا :) ۔
گر پاکستانی لوٹے یہ کہانی پڑھ لیں تو امریکن لوٹے پر رشک کرتے ہوے بیک
زبان ہو کر سب کہیں لوٹے کو اتنی عزت ،،،ہم سب کو امریکہ چھوڑ آو ،،،اگر
ایسا ہو جائے تو پھر پاکستان کی اسمبلیوں میںدوسرے برتنوں کی قدو قیمت میں
بھی اضافہ ہو سکتا ہے ،چمچہ ،کڑچھا جیسے نام تو پہلے ہی کافی مشہور ہیں ،باقی
برتنوں کی بھی سنی جاسکتی ہے-
ھمارے ملک کے نایاب لوٹے وائٹ ہاوس میں جاکر نہیں شرماتے ان کی تنی ھوئی
گردنوں سے امریکیوں کے دل سیراب ھوتے نظر نہیں آتے ۔ پتہ نہیں باقی چھوٹے
موٹے لوٹے کیوں شرماتے ہیں ۔ ویسے ھمارے ملک کے لوٹے یورپ اور امریکہ کے
ایوانوں میں تو اجنبی نہیں مگر یہ جان کر حیرت ھوئی کہ عام لوٹے عام جگہوں
پر کیوں اجنبی ہیں ابھی تک ۔۔ ۔۔ ۔ بہت خوب
لوٹا شائد اُن چند ایک مصنوعات میں سے ہے جو مذہب اور سیاست دونوں شعبوں
میں یکساں مقبول ہے۔ ۔ لوٹا اکثر اوقات سلور‘ پیتل اور مٹی سے بنایا جاتا
ہے۔ لوٹا اپنی تشکیل سے پہلے پہلے جس بھی کیفیت میں چاہے رہ سکتا ہے لیکن
ایک مرتبہ جب وہ لوٹا بن جائے پھر کم از کم عزت کے ساتھ واپسی کے امکانات
ختم ہو جاتے ہیں۔ لوٹے کی ایک خوبی جو اسے دیگر مصنوعات سے ممتاز کرتی ہے
کہ وہ بلاامتیاز سب کی خدمت کے لئے آمادہ دکھائی دیتا ہے۔ اسے واش روم میں
رکھ دیں تب خوش۔ اسے صرف وضو کے لئے گھر کے کونے میں رکھ چھوڑیں تب بھی اس
کی پیشانی پر کوئی بل نہیں پڑتے یا پھر اسے ہاتھ میں تھامے شہر سے یا کسی
گاؤں سے دور نکل جائیں وہ بخوشی ہم سفری قبول کرتا ہے۔ لوٹا پلاسٹک‘ سلور‘
تانبا‘ لوہا‘ مٹی ہر شکل میں ڈھل جاتا ہے۔ اسی لئے لوٹا بہت مقبول ہوتا ہے
لوٹوں کی مختلف اوقات میں مختلف قیمت لگتی ہے۔ لوٹے کی قیمت دس دس ‘ بیس
بیس‘ چالیس چالیس روپوں سے چالیس چالیس کروڑ بھی لگتی ہے۔ لیکن چالیس کروڑ
کا لوٹاکوئی کوئی مائی کا لال ہوتا ہے۔ وہ کم قیمت لگنے پر لال پیلا بھی ہو
جاتا ہے۔ لوگ اسے جو بھی کہیں اسے اس کی فکر نہیں ہوتی۔ لیکن جو اُس کی
بولی لگا رہا ہوتا ہے اس کے لئے وہ کوہ نور ہیرے سے کم نہیں ہوتا۔ وہ کہیں
بھی گیا ’لوٹا‘ تو میرے پاس آیا بس یہی بات اچھی ہے میرے ہر جائی کی
( پروین شاکر)
نوٹ : مندرجہ بالا شعر میں ’ لوٹا‘ واپسی کی صنف ہے، صفائی ستھرائی میں
مددگار بن ٹونٹی اور بن پیندے کا کوئی برتن( بدنہ) نہیں |