نوکری حاصل کرنے کے طریقے

پاکستان میں پڑھ لکھ کر یا بغیر پڑھے لکھے دونوں طرح سے نوکری ملنا بہت مشکل پر چھوکری ملنا شاید بہت آسان ہے۔نوکری کے لیے سینکڑوں جگہ ٹیسٹ ، انٹرویو کے دھکے کھا کر کہیں جاکر ایک جگہ قسمت کھلتی ہے۔ چھوکری کا کیا کہ کہیں بھی لائن ماری یا موبائل پر نمبر ملایا اور چھوکری پٹالی۔ اسی بیروزگاری کی وجہ سے آج کا نوجوان بے راہ روی کا شکار ہے۔ نوکری حاصل کرنے کے لیے کیا کیا جتن کرنے پڑتے ہیں ، آئیں دیکھیں!

ہمارے للو میاں کے کارناموں سے تو آپ سب لوگ بخوبی واقف ہیں۔ بیچارے ابھی دسویں جماعت کے پرچے دیکر ہٹے ہی تھے کہ موصوف کے واالدِ محترم نے مولا جٹ کی طرح بڑھک ماری کہ پت میں تینوں ا گے نئیں پڑھا سکدا اور للو میاں کے بار بار منت کرنے پرایسے انکار کر دیا جیسے امریکہ ڈرون نہ مارنے سے انکار کر رہا ہے۔ اس طرح وہ بھی تلاشِ نوکری میں اسطرح سرگرداں ہوگئے جیسے سرکار تلاشِ طالبان لیڈران رہتی ہے۔ پہلے پہل تو ایک جاننے والے کے توسط سے لیکویڈ فوٹو اسٹیٹ کی سستی سی رعایتی قیمت پر ایک بوری بھر کر اپنے سی وی کی کاپیاں بنا کر گھر میں سٹاک کیں اور پھر جمعے کے دن مسجد کے باہر تمام نمازیوں کو بانٹنا شروع کر د یں ایسے جیسے ، شادی کارڈ یا،، چرم ہائے قربانی ہمیں دیں ،،کے اشتہار،کہ جناب مجھے نوکری لگوا کر ثواب دارین حاصل کریں ۔ پھر ان کے ابا نے گلی محلے، رشتے دار، عزیز و اقارب اور پاکستا ن بھر اور غیر ممالک میں تمام جاننے والوں کے ہاں منے کے ختنہ کے لڈو کی طرح سی وی کی کاپیاں بھجوا دیں کہ منا پڑھ لکھ کر جوان ہو گیا ہے اسکے لیے کوئی ریشماں کی بجائے نوکری تلشوائیے۔ مزید یہ کہ للو میاں کے ابا اپنے تما م جاننے والے دوستوں کے ہاں ہر محفل میں اپنے اکلوتے بیٹے کے اوصاف خمیدہ بیان کرتے وارے نیارے دوہرے ہوئے جاتے کہ میرا بیٹا بڑا لائق فائق ہے، سائنس کے مضامین میں اول نمبر ، فزکس، کیمسٹری، بیالوجی، سائنس اور میتھ کے سوالات حل کرنا تو اسکے بائیں پاؤں کا کھیل ہے۔ حالآنکہ للو میاں کو الجبرا کے سوالات حل کرنے کے لیے بھی ہمیشہ عقل کی بجائے نقل کی ضرورت رہی اور بغیر کیلکولیٹر تو وہ کبھی ضرب تقسیم کے سوال کر پائے اور نہ ہی اپنی یا اپنے ابا کی عمر مبارک بتا پائے۔ پر للو میاں کے ابا نے ایک کان اور آنکھ بند کرکے اپنے بیٹے کو اتنا قابل اور پڑھاکو شو کیا کہ جیسے فرسٹ پوزیشن لیکر خادم اعلٰی پنجاب سے لیپ ٹاپ اور انعام وصول کرکے باہر لے ملک کے دورے پر جا رہے ہوں !

خیر جناب ! للو میاں کے ابا یا للو میاں جہاں کہیں بھی نوکری کے لیے جاتے تو پہلے زیادہ تر ایک ہی جواب ملتا کہ آپ نے دیر کردی مہربان آتے آتے ، یا یہ کہ ترکھان کا لمڈا بازی لے گیا، اب تو ہم نے بندہ رکھ لیا ہے، آپ پھر تشریف لائیے گا۔ وغیرہ وغیرہ ۔ پھر کسی جاننے والے کے توسط سے پھر کہیں اور پہنچتے تو پتہ چلتا کہ وہ نوکری بھی ہاتھ سے ایسے گئی جیسے ریما پاکستان سے گئی۔ ایک روز اخبار میں ایک اشتہار دیکھ کر للو میاں نے فون کیا تو دوسری طرف کوئی بہت ہی پیاری اور سریلی سی نسوانی آواز منتظر تھی انہیں لگا کہ شاید غلطی سے اداکارہ میرا کا نمبر نہ مل گیا ہو ۔ پر کچھ ہی دیر میں انکی غلط فہمی دور ہوئی کی موصوفہ نے سلام دعا کے بعد فر مایا کہ ہزار کا منی آرڈر بھجو ادیں آپکی درخواست پھر پروسیس ہوگی۔للو میاں نے ہزار روپے بھجوا کر دوبارہ فون کیا تو نہ نوکری تھی اور نہ چھوکری ۔سب کچھ چھو منتر ہو چکا تھا۔ للومیاں کو اخبار کی ایک خبر یاد آئی کہ مشہور گلوکارہ میڈونا نے قرآن پاک کا مطالعہ شروع کر دیا ہے تاکہ سیدھے راستے پر چل سکے پر یہاں تو قرآن پڑھے لکھے الٹے راستے پر چل رہے ہیں۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟ بہرحال! اب للو میاں اور اسکے ابا کا کام صرف یہ تھا کہ سارا دن کسی نائی کی دکان یا چائے والے ہوٹل پر اخبارات میں نوکریاں تلاش کرتے اور درخواستیں بھیج کر ایسے سورہتے جیسے بیٹے نے میٹرک نہیں بلکہ پی ایچ ڈی پاس کی ہوئی ہو ۔ایکبار ایک اور جگہ سے نوکری کے لیے بلایا گیا اور ساتھ میں میٹرک کا رزلٹ بھی آگیا جسمیں کہ للو میاں حسبِ توقع دو پرچوں میں فیل نکلے۔ اس طرح سپلی آنے پر دونوں ابا بیٹا پہلے تو کچھ مایوس سے ہوئے پر پھر ہمت مر داں ، مدد خد ا کے اصول کو سامنے رکھتے ہوئے دوبارہ نوکری کے لیے کمر بستہ ہوگئے ۔ للو میاں انٹرویو والے روز گھر کے سب سے اچھے کپڑے پہن کر حلیہ ٹھیک ٹھا ک کر کے مطلوبہ جگہ پر پہنچے تو امیدواروں کا ایک جم غفیر تھا، شام تک جب انٹرویو کی باری آئی تو حال سے بے حال تھے، اردلی نے انٹرویو کے کمرے میں جانے سے پہلے ہی حلیہ دیکھ کر بھیک مانگنے ولا سمجھ کر بھگا دیا۔للو میاں نے شکر ادا کیا کہ چلو جلد گھر پہنچ کر کچھ کھانے کو تو ملیگا۔ پر یوں نامراد گھر پہنچتے ہی اسکے ابا اور اماں ایسے گلے پڑگئے جیسے آجکل ہمارے گلے میں لوڈ شیڈنگ پڑی ہے، اور لگے ڈانٹ ڈپٹ کرنے اور پھر وہی ہوا جو ایک سخت گیر والد اولاد کے ساتھ کر تا ہے۔ کچھ عرصہ بعد ایک اور نوکری کے لیے پہنچے

توانہوں نے اصلی کاغذات مانگ لیے، ظاہر ہے کہ میٹرک تو پاس نہ تھی لہذا انہوں نے بھی بغیر انٹرویو کمرہ اور دفتر بدر کر دیا اور ساتھ میں یہ بھی کہا کہ اس علاقے میں بھی دوبارہ نظر نہ آنا ورنہ ڈرون مار دیں گے اور ساتھ میں صلواتیں بھی سنائیں کہ میٹرک پاس ہوئی نہیں اور چلے نوکری تلاش کرنے، بہتر تھا کہ پانچویں کے بعد ہی کہیں نوکری کر لیتے، یا یہ کہ کیا گھر والے اتنے تنگ ہیں کہ ابھی سے نوکری کے پیچھے لگا دیا، کسی نے کہا کہ یار نوکری چھوڑ، چھوکری پھنسا، کسی نے کہا کہ سیاستدان بن کر الیکشن میں حصہ لے لو، وہاں کونسا کوئی پی ایچ ڈی کی ضرورت پڑتی ہے، کسی نے کہا کہ ماں کے پیٹ سے ہی نوکری تلاش کرنا شروع کر دیتے نہ۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔ ۔۔۔

پھر ایک جگہ اور جاب کے لیے پہنچے تو بتایا گیا کہ سیلز کی جاب ہے کمیشن ملیگا پر گارنٹی دینی ہوگی۔ للو میاں کے پاس نہ پیسے تھے اور نہ گارنٹی دے سکے تو یہ نوکری بھی ہاتھ سے گئی۔پھر کسی بھلے مانس نے مشورہ دیا کہ یار نوکری سے پہلے چھوکری لے آؤ مطلب شادی کر لو، اﷲ برکت دے گا۔ یا پھر کوئی ایسی چھوکری تلاش کرو جو نوکری پیشہ ہو، وہ کما کر لائے اور سب گھر والے ملکر مزے سے کھائیں، اسطرح تمہارے گھر کا دال دلیہ بھی چلتا رہے۔ پر ان بیچاروں کے پاس کچھ ہوتا تو شادی کر تے نہ۔ نوکری کے لیے پریشان ، درخواستیں بھیج بھیج کر تھکے ہارے بیچارے للو میاں کی نظر ایک اشتہار پر پڑی کہ نوکری اور چھوکری آپکے قدموں میں ابھی بابا عامل جنگی۔۔۔۔فلاں فلاں سے ملیں۔ لو جناب! للو میاں پہنچے بابا جی کے پاس تو انہوں نے سات کہانیاں سنادی یں کہ آپ کے اوپر نوکری کی بندش ہے ، اسمیں دو مرد اور تین عورتوں کا ہاتھ ہے، آپکے اوپر منحوس سیا رے نے سایہ کیا ہوا ہے وغیرہ وغیروہ،،، اور اسکا اتارا کرانے کے لیے لائیے پانچ ہزار۔ بیچارے للو میں کے پاس بھلا پانچ ہزار کہاں سے آتے۔ وہ تو سو پچاس کا سوچ کر گئے تھے پر وہاں تو بات ہزاروں میں تھی، لہذا واپس نامرد۱۔ پھر ایک دوست کے توسط سے ایک بزرگ کے پاس پہہنچے کہ نوکری کیلیے دعا کرائیں گے، بزرگ صاحب اپنے کسی مرید کے ہاں کھانے پر مدعو تھے لہذا ان سے بھی ملاقات نہ ہوسکی۔ ویسے بھی وہ پیر صاحب صرف ایک گھنٹہ ہی لوگوں سے ملتے تھے۔

ایک اور جگہ نوکری کے لیے پہنچے تو گارڈ نے دور سے دیکھ کر ہی بھگا دیا کہ صاحب میٹنگ میں ہیں پرسوں آنا۔ ایک روز اخبار میں ایک اور اشتہار دیکھ کر للو میاں کی قسمت بر آئی کہ سیلز کی ایک جاب مل گئی اور وہ بھی بغیر محنت کے ۔ کمپنی والوں نے للو میاں کو مردانہ قوت والی اور اسی طرح کی دو نمبر دوائیں بھجوا دیں کہ انہیں موٹر سائیکل پر رکھو اور اپنے علاقے میں گھوم پھر کر سیل کرو۔ اس کام کے لیے للو میاں کے ابا کی پرانے زمانے کی ففٹی موٹر سائیکل کام آئی اور کچھ عرصہ یہ کام بڑی کامیابی سے چلتا رہا۔ پھر ایک روز ففٹی موٹر سائیکل، دوائیں اور تما م سیل کی رقم ڈاکو لے اڑے اور صرف پچاس روپے منی بس کا کرایہ تھما کر ڈاکو یہ جا وہ جا۔ جاتے جاتے ڈاکوؤں نے پہلے تو للو میاں کو مرغا بنوا کر پانچوں اذانیں دلوائیں، پھر بیچارے پر پہلے باکسنگ کی پریکٹس کی، پھر تھپڑو ں اور مکوں سے جسمانی ساخت کی پختگی کا پتہ چلاتے رہے اور آخر میں فٹ بال کی طرح ایسی کک ماری کہ للو میاں سیدھے منی بس کے اسٹاپ پر آکر گرے ۔چور بھائی ایک اور تاکید کر گئے کہ پولیس میں جانے کی کوشش نہ کرنا ورنہ جعلی اور دو نمبر دواؤں کے چکر میں الٹا تمہیں ہی تھانے میں ڈھکوا دیں گے۔ یوں للو میاں بیچارے کئی روز جسم سہلاتے اور ٹکور کر واتے رہے اور پھر اس کام سے بھی گئے۔

للو میاں مایوس تو ہو ئے پر ہمت نہ ہاری اور ایک جگہ ٹیسٹ میں بیٹھنے میں کامیاب ہو ہی گئے۔ پرچہ حل کر نا شروع کیا تو پتہ چلا کہ تمام سوالات ایسے ہیں کہ جو کبھی پڑھے ہی نہ تھے۔ لہذا بلینک پرچہ دینے کی بجائے اوٹ پٹانگ کارٹون بنائے اور پکڑا کر گھر چلے آئے۔ ایک اور جگہ ٹیسٹ میں کامیاب تو گئے پر انٹرویو میں اس لیے فیل ہو گئے کہ بجلی نہ ہونے کہ وجہ سے بغیر نہائے اور بغیر استری شدہ کپڑے پہن کر چلے گئے تھے انٹرویو پینل نے انہیں دیکھنے سے بھی انکار کر دیا تھا اور کہا کہ جاؤ پہلے نہا کر آؤ کیونکہ بیچارے للو میاں ہفتے یا مہینے میں ایک بار نہانے کے عادی تھے۔بلکہ سردیوں کے پورے سیزن میں تو صرف ایک ہی بار نہاتے تھے کہ کہیں ٹھنڈ لگ کر مینڈکی کو زکام نہ ہوجا ۔ لہذا کیسے پاس ہوتے؟۔ایک بار دوسرے شہر انٹرویو کے لیے جانے کو ٹرین میں سوار ہوئے اور جیب کٹوا بیٹھے، دوسری بار ٹھگ بازوں نے بے ہوش کر کے ٹرین میں سارے پیسے اینٹھ لیے۔۔۔۔۔ اور بیچارے بھیک مانگ کر گھر واپس پہنچے تو ابا میاں نے دھر لیا کہ تم بہانے کرتے ہو صبح روتے جاتے ہو اور مرتے کی

خبر لاتے ہو، تمہاری اپنی ہی مرضی نوکری کی نہیں ہوتی، ہر جگہ سے ناکامی کی خبر لاتے ہو۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ اور خوب جھاڑ کے ساتھ مار بھی پلائی تاکہ للو میاں کو آئندہ کے لیے نصیحت ہو۔ غرضیکہ للو میاں بیچارے کی جوتیاں گھس گئیں پر نوکری نہ ملی۔انشورنس کی ایک واحد نوکری تھی جس میں کہ بغیر کچھ دیے لوگوں کو پٹا کر پیسے اینٹھنے تھے، وہ نوکری للو میاں اسلیے نہ کر سکے کہ بندے پھنسانا بھی ہر کسی کے بس کا کام نہیں ہوتا۔وہ تو بلکہ خود ہر جگہ پھنسنے والے تھے۔کئی بار سوچا کہ اس نوکری تلاش کی ذلالت سے تو بہتر ہے کہ بندہ خود کشی کر لے کہ نہ ہوگی جان نہ ڈھونڈیں گے نوکری۔بلکل اسطرح جیسے انڈیا میں ہر نو منٹ بعد ایک شادی شدہ شخص خود کشی کرتا ہے۔پر خود کشی حرام کا سوچ کر خاموش ہو رہتے۔

پھر ایک روز دوبارہ ایک جاننے والے کے توسط سے ایک فیکٹری پہہنچے وہاں پر کہا گیا کہ کاغذات جمع کرا دیں اور ہفتے بعد پتہ کیجئے گا۔ ہفتے بعد گئے تو نہ وہ بندہ ملا اور نہ ہی کاغذات۔ دوبارہ کاغذات جمع کرائے تو ان بیچاروں کو رحم آہی گیا اور للو میاں کو کلرک کی نوکری دے دی گئی۔ للو میاں نے شکر ادا کیا کہ چلو کچھ نہ ہونے سے کچھ تو ملا۔پر یہاں بھی انکی قسمت ماٹھی تھی کہ انکے ذمے سیکڑوں کام لگا دیے گئے اور ساتھ میں ان کے درجن بھر باس کبھی ایک آواز دے تو کبھی دوسرا جیسے کہ رضیہ غنڈوں میں پھنسی ہو ۔ بیچارے بھرتی تو کلرک ہوئے پر کام سپر وائزر سے لے کر آفس بوائے تک کے لیے جانے لگے۔ اور تو اور اب سب لوگ چائے بھی ان سے بنوانے لگے کہ للو میاں کے ہاتھ کی چائے بہت اچھی ہوتی ہے اور صفائی ستھرائی کا کام بھی انکے ذمے ڈال دیا ۔ کچھ روز بعد صبح کا ناشتہ لانے کی ذمہ داری بھی انہی کے ناتوں کاندھوں پر ڈال دی گئی یہ کہ کر کہ بچے کھچے پیسے آپ رکھ لیا کریں کچھ خرچہ پانی بن جایا کریگا ۔ بیچارے کیا کر تے کہ مجبوری کو یہ بھی کرنا پڑا۔ پر بد قسمتی نے یہاں بھی پیچھا نہ چھوڑا کہ ایک بار صبح صبح صاحبان کا ناشتہ لینے کو سڑک پار کرنے لگے تو موٹر سائیکل سے ٹکرا کر ٹانگ تڑوا بیٹھے اور کئی ماہ کے لیے بستر پر ایسے فراش ہوئے کہ کسی ایک صاحب نے بھی خبرنہ لی اور جب چھ ماہ بعد بیچارے اپنے خرچے پر صحتیاب ہوکر دوبارہ نوکری کی جگہ پر پہنچے تو کوئی بھی سائیں نہ بنا اور پہچاننے سے ہی انکار کر دیا۔للو میاں دل میں سوچنے لگے کہ یار سائنس کی ترقی کی بدولت اب بیماریوں کی پہچان منہ سے نکلتی ہوا سے ہورہی ہے اور یہ لوگ مجھے فزیکلی ہی پہنچاننے سے انکار کر رہے ہیں، کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

خیر جناب! ایک بھلے مانس نے للو میاں کو پھر مشورہ دیا کہ یار کیوں وائٹ کالر جاب کی تلاش میں رہتے ہو، آؤ میں تمہیں ایک ہوٹل پر نوکری لگوادوں۔ یوں بیچارے ایک ہوٹل پر ٹیبل مین جمع گٹر ماسٹر لگ گئے۔ یعنی کھانا سرو کرنا اور برتن دھونے، پتیلے مانجنے۔ شروع میں تو بہت خوش رہے کہ روز نئے نئے کھانے ملتے اور شام کو بچا کھچا گھر بھی لیجاتے، پر سارا دن ہاتھ منہ ضرور کالے رہتے جنہیں دیکھ کر دل ہی دل میں کڑھتے رہتے۔ یہ کڑھنا شاید اﷲ کو نا پسند آیا کہ ایک روز ایک گاہک کو کھانا سرو کرتے سالن کی پلیٹ اسکے نوے نکور کپڑوں پر انڈیل دی۔ بس پھر کیا تھاگاہک نے اٹھ کر پہلے تو چار ٹھیک ٹھاک قسم کی چپیڑ للو میاں کے ایسی رسید کیں کہ دونوں گالوں پر نشان مٹنے کا نام نہ لیتے تھے۔ اسکے بعد للو میاں سے موقع پر ہی قمیض دھلوائی گئی اور پھر ہوٹل کے مالک نے چاروں شانے چت کر کے بمعہ دوسرے درجن بھر نوکروں کے للو میاں کے ساتھ خوب کشتی کی، تمام ممنوعہ اور غیر ممنوعہ مقام پر چھترول، لترول کرکے، زیبا اور نازیبا الفاظوں اور القابوں سے نواز کر، تمام خاندان کو کوس کر، کپڑے شپڑے پھاڑ کر اور ادھ موا کر کے رکشے میں ڈال کر گھر بھجوا دیا اور رکشے والے کو کہا کہ کرایہ انکے گھر سے لے لینا۔یوں یہ ہوٹل کا کام بھی ہوا تمام۔

زمانے بھر میں ذلیل اور رسواہو کر للو میاں بیچارے نے نوکری کی آس چھوڑ کر ایک دوست کے مشورے پر قرضہء حسنہ دینے والے ادارے ،،اخوت ،،سے رابطہ کیا اور انسے بیس ہزار روپے قرضہ حسنہ لیکر گھر کے اندر ہی بچوں کی گولی، ٹافی، چاکلیٹ کی ایک چھوٹی سے دکان سجالی اور اﷲ پاک نے اتنی مشکلات ، دکھ اور پریشانیاں جھیلنے کا صلہ للو میاں کو یہ دیا کہ اسی کام میں برکت ڈالی دی اور اچھا کام چلا دیا۔آجکل للو میاں لاکھوں میں نہیں تو ہزاروں میں ضرور کھیلتے ہیں!

پڑھنے والو! کیا آپکو اس آرٹیکل سے کوئی سبق ملا؟ اگر ملا تو کیا ملا ؟ ضرور بتائیے گا پلیز!
Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660
About the Author: Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660 Read More Articles by Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660: 93 Articles with 247525 views self motivated, self made persons.. View More