حضرت مولانا محمد یوسف
کاندھلویؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت عبداﷲ بن
مسعودؓ نبی کریمؐ کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کے کچھ فرشتے ایسے
ہیں جو زمین پر چلتے پھرتے ہیں اور میری امت کی طرف سے مجھے سلام پہنچاتے
رہتے ہیں ۔تم مجھ سے باتیں کرتے ہوئے (اور احکام شرعیہ مجھ سے پوچھتے رہتے
ہو ) میں(تمہار ے سوالوں کا جواب دینے کے لئے )تم سے بات کرتا ہوں اور میری
وفات میں بھی تمہارے لئے خیر ہو گی(اور وہ اس طرح کہ )تمہارے اعمال مجھ پر
پیش کئے جاتے رہیں گے ان اعمال میں جو اچھے عمل مجھے نظر آئیں ان پر اﷲ
تعالیٰ کی تعریف کروں گا(جو اس کی توفیق سے ہوئے )اور جو برے عمل دیکھوں گا
ان پر تمہارے لئے اﷲ سے استغفار کروں گا۔
حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں حضورؐکے زمانے میں ایک آدمی قتل ہو گیا اور اس
کے قتل کا پتہ نہ چلا (یہ خبرسن کر ) حضورؐ اپنے منبر پر تشریف فرما ہوئے
اور فرمایا اے لوگویہ کیا بات ہے میں تم لوگوں میں موجود ہوں اور ایک آدمی
قتل ہو گیا اوراس کے قاتل کا پتہ نہیں چل رہا ہے اگر تمام آسمان والے ا ور
زمین والے مل کر ایک مسلمان کو قتل کر دیں تو بھی اﷲ تعالیٰ انہیں بے حدو
حساب دے گا
حضرت بکر بن حارثہؓ فرماتے ہیں کہ حضورؐ نے ایک جماعت بھیجی میں بھی اس میں
گیا ہماری اور مشرکوں کی جنگ ہوئی میں نے ایک مشرک پر حملہ کیا تو اس نے
اسلام کا اظہار کر کے جان بچانی چاہیے میں نے اسے پھر بھی قتل کر دیا جب
حضورؐ کو یہ خبر پہنچی تو آپؐ ناراض ہوئے اور مجھے اپنے سے دور کر دیا
پھراﷲ تعالیٰ نے یہ آیات وحی میں بھیجی
’’ترجمہ(اور کسی مومن کی شان نہیں کہ وہ کسی مومن کو قتل کرے لیکن غلطی
سے)‘‘
(چونکہ میں نے اسے غلطی سے قتل کیا تھا اس وجہ سے )حضورؐ مجھ سے راضی ہو
گئے اور مجھے اپنے قریب کر لیا ۔
قارئین!دس محرم الحرام یوم عاشور کے موقع پر ہم نے اپنے ایک کالم میں
اسلامی سال کے افتتاحی مہینے کے متعلق چند باتیں تحریر کرتے ہوئے گزارش کی
تھی کہ یکم محرم الحرام کو خلیفہ دوئم جنہیں پوری دنیا فاروق اعظمؓ کے نام
سے یاد کرتی ہے انہیں شہید کیا گیا تھا اور یکم محرم سے لے کر دس محرم
الحرام تک نواسہ رسولؐ حضرت امام حسینؓ اور قافلہء حق کے 72جانثاروں کی یاد
میں پوری اسلامی دنیا سوگوار ہوتی ہے ہم نے ان ایام کی مناسبت سے تمام
احباب سے یہ اپیل کی تھی کہ حضرت عمر فاروقؓ کے یوم شہادت یکم محرم یعنی
اسلامی سال کے پہلے دن سے لے کر دس محرم الحرام تک حضرت امام حسینؓ کے یوم
شہادت کے موقع پر ان دونوں عظیم اور عالی مرتبت شخصیات کو پوری امت اتحاد
کا ذریعہ بنائے نہ کہ نفاق کا ۔کیونکہ یہود، نصاریٰ اور ہنود کی ہر دور میں
سازشیں رہی ہیں کہ کسی طریقے سے مسلمانوں کو آپس میں لڑایا جائے اور انہیں
کمزور کیا جائے تاریخ گواہ ہے کہ جب چنگیز خان اورہلاکو خان مسلمانوں کے
سروں کے مینار تعمیر کر رہے تھے اس وقت ہمارے ’’جید علمائے کرام‘‘ امت کو
علم کے نام پر آپس میں لڑا رہے تھے ، کوے کے حلال یا حرام ہونے پر مناظرے
ہو رہے تھے اور موسیقی کے متعلق ایک دوسرے کی گردنیں اتارنے تک کی نوبت
آچکی تھی نفاق کا یہ سلسلہ جاری تھا کہ دشمن سر پر آن پہنچا اور پھر مہلت
ختم ہو گئی ۔
قارئین! دس محرم کو راولپنڈی میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا یہاں ہم آپ کو تھوڑا
سا نقشہ اور پس منظر بتاتے چلیں اہل تشیع حضرات عرصہ دراز سے کالج روڈ
،بوہڑ بازار، راجہ بازار، تیلی محلہ، کمیٹی چوک ،رتہ امرال او ر راولپنڈی
کے دیگر مختلف علاقوں سے اکٹھے ہو کر کرنل مقبول امام بارگاہ میں جمع ہوتے
تھے اور تمام جلوس ایک مرکزی جلوس بن کر اس امام بارگاہ میں شام کے وقت
پہنچتے تھے ۔دوسری جانب مولانا غلام اﷲ خان ساری زندگی خطابت اور درس
وتدریس کے حوالے سے اہل سنت والجماعت میں انتہائی عقیدت واحترام سے دیکھے
جاتے تھے ۔ راجہ بازار میں ان کا قائم کردہ مدرسہ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں
مسلمانوں کو علم اور دین کی روشنی سے مالا مال کر چکا ہے اس مدرسے میں اب
بھی سینکڑوں طلباء حفظ قرآن اور درس نظامی کی تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔عرصہ
دراز سے مولانا غلام اﷲ خان اور ان کے جانشین اس مسجد اور مدرسے میں اپنے
عقائد کے مطابق تقاریر بھی کرتے تھے اور عبادات بھی کی جاتی تھیں اور عرصہ
دراز سے ہر سال دس محرم الحرام کو اہل تشیع ماتم اور تعزیہ کرتے ہوئے راجہ
بازار کی مرکزی سڑک سے اس مدرسہ کے سامنے سے گزرا کرتے تھے جس کے ساتھ یہ
جامع مسجد موجود تھی اس سال آخر ایساکیا مختلف تھا کہ خون کی ایک بارش نے
پاکستان کے زخم زخم چہرے کو ایک اور سرخی سے دوچار کر دیا ۔سوشل میڈیا اور
فیس بک پر اس وقت ایسی ایسی تصاویر، ویڈیو کلپس اور معلومات شیئر کی جا رہی
ہیں کہ انسان لرز جاتا ہے کہ کیا مذہب کے نام پر کوئی انسان اتنا بھی گر
سکتا ہے کہ وہ اپنے ہی جیسے ایک انسان کو انتہائی بے دردی سے زندگی سے
محروم کر دے ۔سرکاری سطح پر جو خبر سب سے پہلے میڈیا پر آئی وہ کچھ یوں تھی
کہ راولپنڈی میں راجہ بازار میں کپڑے کی مارکیٹ کو آگ لگا دی گئی ہے اور آگ
پر قابو پانے کی کوشش کی جا رہی ہے تھوڑی دیر گزری تو خبر کا رخ تبدیل ہو
گیا اب خبر کچھ یوں تھی کہ راولپنڈی میں دو گروہوں میں تصادم ہوا ہے فائرنگ
کے نتیجے میں کچھ لوگ زخمی ہو چکے ہیں او ر پولیس حالات پر قابو پانے کی
کوشش کر رہی ہے تھوڑا وقت مزید گزرا تو پوری دنیا دہل کر رہ گئی جب یہ خبر
سامنے آئی کہ راولپنڈی میں راجہ بازار میں ہونے والے تصادم کے نتیجے میں
سات افراد جاں بحق ہو چکے ہیں اور پچاس سے زائد زخمی ہیں اسی طرح وقت گزرتا
گیا اور واقعے کی سنگینی بڑھتی گئی رات گئے میڈیا پر حکومت کی جانب سے
اعلان کیا گیا کہ راولپنڈی میں ہونے والے واقعہ کے نتیجہ میں شہر کے حالات
قابو سے باہر ہو چکے ہیں اور کرفیو لگا کر شہر کو فوج اور رینجرز کے حوالے
کر دیا گیاہے ۔48گھنٹے تک لگنے والے اس کرفیو نے پوری قوم کو ایک اضطراب
میں مبتلاء کر دیا اور سوشل میڈیا اور فیس بک کے ذریعے پھیلنے والی معلومات
نے ایک قیامت برپا کر دی ۔حکومت نے سوشل میڈیا اور فیس بک کی معلومات کو
جھوٹ اور پراپیگنڈہ قرار دیا ہے ان اطلاعات کے مطابق نماز جمعہ کے وقت
مدرسہ اور مسجد کے سامنے سے محرم کا جلوس گزر رہا تھا ۔اہل تشیع حضرات کا
یہ کہنا ہے کہ مسجد میں خطیب نے تقریر کرتے ہوئے امام حسینؓ کے قاتل یزید
کے متعلق تعریفی کلمات کہے اور جلوس کو تنبیہ کی کہ وہ فوراً مسجد کے سامنے
سے گزر جائے جب جلوس مسجد کے سامنے سے گزرنے لگا تو بقول اہل تشیع حضرات
مسجداور مدرسے کی چھت سے ان پر پتھراؤ کیا گیا اور فائرنگ بھی کی گئی ۔جس
سے تصادم شروع ہوا اور ہوتے ہوتے معاملہ کئی انسانی جانوں کے ضیاع اور
کرفیو تک جا پہنچا دوسری جانب اہلسنت حضرات کا یہ کہنا ہے کہ نماز جمعہ کے
وقت سوچے سمجھے منصوبے کے تحت یہ لوگ مسجد کے سامنے پہنچے اور بھرپور انداز
میں انتہائی زور وشور سے ماتم زنی شروع کر دی اور ایسے کلمات ادا کرنے شروع
کئے جو انتہائی نامناسب تھے یہاں ہم چشتیاں میں پیش آنے والے واقعے کو بھی
نقل کرتے چلیں کہ جہاں اہل تشیع حضرات کی طرف سے صحابہ کرامؓ کی شان میں
گستاخانہ الفاظ استعمال کئے گئے اوربقول اہل سنت حضرات تبرا بازی کی گئی جس
کی وجہ سے اہل سنت کے جذبات مشتعل ہوئے اور وہاں بھی نوبت کرفیو تک جا
پہنچی اور جن امام بارگاہوں سے صحابہ کرامؓ کی شان میں نازیبا الفاظ
استعمال کئے گئے تھے انہیں بھی جلادیا گیا راولپنڈی میں بھی راجہ بازار میں
جب یہ سلسلہ شروع ہوا تو اس پر اہلسنت حضرات نے احتجاج کیا اور مسجد ومدرسے
سے حفاظ قرآن اور نمازیوں نے ردعمل دکھایا تو اس پر ابلیسی رقص شروع ہو گیا
ماتم کرنے والے اہل تشیع میں سے کچھ لوگوں نے مسجد ومدرسے پر پتھراؤ کیا
،پٹرول بم پھینکے، مبینہ طور پر موقع پر موجود پولیس کے جوانوں سے خود کار
اسلحہ چھین کر فائرنگ کرتے ہوئے مسجد میں گھس گئے اور حفاظ کرام اور
نمازیوں کا قتل عام شروع کر دیا۔ اس موقع پر پولیس خاموش تماشائی بنی رہی
چند پولیس اہلکاروں نے مزاحمت کی کوشش کی تو انہیں بھی مومنوں نے مار مار
کر ’’دنبہ‘‘بنا دیا ۔فیس بک اورسوشل میڈیا پر جو تصویریں، ویڈیو کلپس اور
معلومات شیئر کی جا رہی ہیں وہ انتہائی خوفناک ہیں ۔بچوں اور نوجوانوں کے
کٹے ہوئے سر دکھائے جا رہے ہیں ،ہاتھوں میں تلواریں اور خنجر لئے قاتل قتل
عام کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں ،مارکیٹس میں لگائی جانیوالی آگ کے شعلے دل جلا
رہے ہیں اور مسجد اور مدرسے کی توہین پر مبنی تمام کارروائی دیکھ کر جی چاہ
رہا ہے کہ شرم کے مارے مر ہی جائیں ۔حکومت کی طرف سے سرکاری طور پر گیارہ
افراد کی شہادت اور 35افراد کے زخمی ہونے کی تصدیق کی گئی ہے جبکہ غیر
مصدقہ ،غیرسرکاری اطلاعات کے مطابق 25سے زائد لوگ شہید ہوئے ہیں،تین درجن
کے قریب لاپتہ ہیں اور زخمیوں کی تعداد 200کے قریب ہے اور حیرانگی کی بات
یہ ہے کہ 90فیصد سے زائد زخمی وشہید ہونے والے گولیوں کا نشانہ بنے ہیں ۔
قارئین! ہم نے اہل تشیع اور اہلسنت حضرات دونوں کا موقف پیش کرنے کیساتھ
ساتھ ایک تجزیہ بھی آپ کے سامنے کرنا ہے ۔راقم خود بھی اہلسنت سے تعلق
رکھتا ہے اور اعمال کے اعتبار سے گناہگار ہونے کے باوجود عقائد کے لحاظ سے
حضرت امام حسینؓ اور ان کے 72شہید ہونے والے ساتھیوں کو اپنے سر کا تاج اور
ان کے احترام کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھتا ہے اور یہی تمام اہلسنت کا عقیدہ
ہے اسی طرح راقم یہ عقیدہ بھی رکھتا ہے کہ نبی کریمؐ کے تمام صحابہ کرامؓ
ستاروں کی مانند ہیں جن کی پیروی کرنے سے ہدایت ملتی ہے۔ ہمیں سمجھ نہیں
آتا کہ وہ کون سے اہلسنت ہیں کہ جو نبی کریم ؐ کے نواسے حضرت امام حسینؓ کے
قاتلوں کو اچھا کہیں یا ان کے متعلق کوئی تعریفی بات کریں یہ نہیں ہو سکتا
اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ کم از کم اہلسنت کا حصہ نہیں ہے لیکن یہاں
پر یہ بات معنی خیز ہے کہ آخر کیوں اہل تشیع حضرات کی صفوں میں ایسے لوگ
موجود ہیں جو گزشتہ چودہ سو سالوں سے حضرت ابو بکرؓ ،حضرت عمرؓ اور حضرت
عثمانؓ سے لے کر حضرت امیر معاویہؓ تک صحابہ کرامؓ کے متعلق ایسے کلمات ادا
کرتے ہیں کہ جو کوئی بھی ایمان والا برداشت نہیں کرسکتا۔ آخر کیوں جلیل
القدرصحابہ کرامؓ کی شان میں گستاخی پر مبنی انتہائی گھٹیا اور غلیظ لٹریچر
اور کتابیں اسلام کے نام پر شائع کر کے لاکھوں کی تعداد میں ملک کے اندر
تقسیم کی جاتی ہیں۔ ہمسایہ ملک ایران میں خمینی انقلاب کے بعد 98فیصدآبادی
شیعہ مسلک اختیار کر گئی یا اختیار کروا دی گئی کیونکر پاکستان میں اس حد
تک مداخلت کر رہا ہے کہ اب اس کا انتہائی خطرناک ردعمل پوری امت کو لرزا
رہا ہے یہاں ہم انتہائی ذمہ داری کیساتھ یہ بات تحریر کر رہے ہیں کہ سپاہ
صحابہؓ پاکستان،لشکر جھنگوی اور طالبان یہ تمام کے تمام لوگ اسی ردعمل کے
طور پر سامنے آئے اورانہیں بعدازاں مختلف ممالک اور گروپس نے یا تو اپنے
مقاصد کے تحت استعمال کرنا شروع کر دیا اور یا پھر ان کے کچھ گروپس اتنے
طاقتور ہو گئے کہ انہوں نے افغان طالبان کیساتھ مل کر امریکہ بہادر اور
پاکستانی فوج کو بھی ’’چیلنج‘‘کردیا اور یہ چیلنج اس حد تک سنگین اور
سنجیدہ نکلا کہ آج پاکستانی حکومت اور عساکر پاکستان ان طالبان سے مذاکرات
کرنے کے لئے درخواستیں دیتے پھر رہے ہیں اور افغانستان میں انکل سام اپنی
بچی کھچی عزت بچانے کے لئے ایک سال کے اندر اندر بھاگنے کے چکر میں
ہیں۔یہاں ہم اہل تشیع حضرات سے گزارش کرتے ہیں کہ اپنی صفوں میں موجود ان
فتنہ پرور لوگوں کو شناخت کریں جو شیعانِ حضرت علی ؓ ہونے کا دعویٰ کرتے
ہیں اور ان کی تمام سرگرمیاں حضرت علیؓ کی سنت سے متصادم ہیں اوراسی طرح ہم
اہلسنت حضرات سے اپیل کرتے ہیں کہ اپنی صفوں میں موجود ایسے لوگوں کو گرفت
میں لیں کہ جو صورتحال کو جلتی پر تیل ڈالنے جیسے محاورے کی شکل دیتے ہیں ۔
قارئین! سانحہ راولپنڈی کے نتیجہ میں پورا ملک ہل کر ر ہ گیا ہے اور طالبان
نے اس سانحہ کی ذمہ داری بھی حکومت پر عائد کی ہے اور براہ راست ڈی آئی جی
اور انتظامیہ کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے انہیں نشانہء عبرت بنانے کا اعلان کر
دیاہے اس وقت ملتان، بہاول نگر، چشتیاں، کراچی، شمالی علاقہ جات، کوئٹہ سے
لے کر چاروں صوبوں میں ایک آگ لگی ہوئی ہے چنگاریاں سلگ رہی ہیں اور اگر ان
چنگاریوں کو سرد نہ کیا گیا تو یقین جانیے کہ پورا ملک خانہ جنگی کی نذرہو
جائے گا۔اگر حکومت نے شیعہ سنی فساد کروانے کی اس سازش کوناکام نہ بنایا تو
طالبان کی طرف سے انتقام کا اعلان صرف اعلان نہیں ہو گا بلکہ ملک میں خون
کی ندیاں بہہ سکتی ہیں۔ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق یہ بھی کہا جا رہا ہے
کہ مسجدو مدرسے میں سینکڑوں حفاظ قرآن اور نمازیوں کو ذبح کیا گیا اور آگ
میں ڈال دیا گیا حکومت کو چاہیے کہ اصل حقائق اور شہید ہونے والے لوگوں کی
اصل تعداد عوام کے سامنے رکھے اور جھوٹ سے پرہیز کرے۔
قارئین! آخر میں آزاد کشمیر کی سیاسی صورتحال کی ہلکی سی جھلکی ۔سابق
وزیراعظم بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کی جانب سے مجاور حکومت کے خلاف عوامی
تحریک کا سلسلہ شروع ہو گیا برنالہ سے شروع کی جانے والی اس تحریک میں عوام
جو در جوق شامل ہو رہے ہیں۔ بیرسٹرسلطان محمود چوہدری نے انتہائی معنی خیز
انداز میں مجاور وزیراعظم اور چار کے ٹولے کے متعلق کھل کربات کرنا شروع
کردی ہے برنالہ کے جلسے میں بیرسٹرسلطان محمود چوہدری نے کلک آئی ڈیز
سکینڈل اور جناح ماڈل ٹاؤن سکینڈل سمیت دیگر درجنوں سکینڈلز میں مبینہ طور
پر عوام کی اربوں روپے کی لوٹی گئی رقم کی واپسی کے لئے حکمرانوں کے پیٹ تک
پھاڑنے کااعلان کر دیا۔ چکسواری میں وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کے گڑھ کے
اندر جلسے کی تیاریاں بھی عروج پر پہنچتی جا رہی ہیں اور بیرسٹرسلطان محمود
چوہدری کی طرف سے وزیراعظم کا تختہ چند دنوں میں الٹنے کا اعلان کیا جا رہا
ہے ۔سیاسی پنڈتوں کا یہ کہنا ہے کہ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کی طرف سے
اپنی ہی کابینہ کے وزراء ،سیکرٹری سمیت بیورو کریسی سے تعلق رکھنے والے
اعلیٰ افسران،اپنی ہی پارٹی کے کارکنان اور ان سب سے بڑھ کر شعبہ صحافت سے
تعلق رکھنے والے صحافیوں کے متعلق گالیوں اور ناشائستہ ونازیبا الفاظ پر
مبنی گفتگو انہیں نفرت کا نشانہ بنا چکی ہے اس حوالے سے میرپور آزاد کشمیر
میں ایوان صحافت میں صحافیوں سے بات چیت کے دوران غصے سے بے قابو ہو کر
انہوں نے صحافیوں کو گالیاں دینا شروع کردیں اس پر پاکستان وآزاد کشمیر بھر
کے پریس کلبز اورصحافی سراپا احتجاج بن گئے اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی
پاکستان مسلم لیگ ن اور مسلم کانفرنس نے ایک آواز ہو کر شدید مذمت کی اس
حوالہ سے بیرسٹرسلطان محمود چوہدری سابق وزیراعظم نے انکشاف کیا کہ اسلام
آباد اور پاکستان بھر سے تعلق رکھنے والے صحافتی تنظیموں کے سربراہان اور
سینئر ٹی وی وریڈیواینکرز نے ان سے رابطہ کر کے وزیراعظم چوہدری عبدالمجید
کے رویے کی شدید مذمت کی اور ان سے مطالبہ کیا کہ وہ فوراًغیر مشروط معافی
مانگیں سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ آنے والے تین ہفتے وزیراعظم چوہدری
عبدالمجید کے لئے انتہائی بھاری ثابت ہونگے اور بیرسٹرسلطان محمود چوہدری
کی عوامی مہم کے نتیجے میں پارٹی چوہدری عبدالمجید کو برطرف کر کے آزاد
کشمیر کی سب سے بڑی گوجربرادری کے سربراہ چوہدری لطیف اکبر یا محمد مطلوب
انقلابی کو وزیراعظم بنانے کا اعلان کرسکتی ہے اگر ایسا ہوا تو اس کا نتیجہ
اسمبلی کی تحلیل اور قبل از وقت الیکشن کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے اور
بیرسٹرسلطان محمودچوہدری مسلم لیگ ن آزاد کشمیر ،مسلم کانفرنس اور اپنے
ساتھیوں کے ساتھ مل کر قبل از وقت الیکشن کی بات کرسکتے ہیں رواں ہفتے
میرپور میں پاکستان پیپلزپارٹی کے انتہائی سینئر اور نظریاتی کارکن چیئرمین
جموں وکشمیر ہیومن رائٹس کمیشن ہمایوں زمان مرزا پرہونے والا مبینہ قاتلانہ
حملہ بھی آزاد کشمیر کے سیاسی وسماجی حلقوں میں زیربحث ہے ۔برطانوی ہاؤس آف
لارڈز کے پہلے تاحیات مسلمان رکن لارڈ نذیر احمد، سابق وزرائے اعظم
بیرسٹرسلطان محمود چوہدری اور راجہ فاروق حیدر خان سمیت انسانی حقوق کی
متعدد تنظیموں نے ہمایوں زمان مرزا پر ہونے والے قاتلانہ حملے کو ’’ٹارگٹ
کلنگ‘‘کی کوشش قرار دیا ہے یہ واقعہ بھی وزیراعظم آزاد کشمیر کے لئے درد سر
بن چکا ہے ۔مسلم لیگ ن کی مرکزی قیادت اور ان کے مرکزی ترجمان صدیق الفارق
بھی سیاسی سرگرمیوں میں تیزی لے آئے ہیں اور انہوں نے مظفرآباد میں اعلان
کیا ہے کہ آئندہ الیکشن میں ہمارے وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان ہونگے ان
تمام باتوں سے واضح اشارے مل رہے ہیں کہ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کی
حکومت کسی بھی وقت ختم ہو سکتی ہے یہ تمام صورتحال ایسی ہے کہ لاکھوں
کشمیری شہداء کا وارث ہونے کی حیثیت سے ہم کبھی ادھر دیکھتے ہیں اور کبھی
ادھر دیکھتے ہیں بقول غالب یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا
عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی
میری وحشت تری شہرت ہی سہی
قطع کیجئے نہ تعلق ہم سے
کچھ نہیں ہے تو عداوت ہی سہی
ہم بھی دشمن تو نہیں ہیں اپنے
غیر کو تجھ سے محبت ہی سہی
اپنی ہستی ہی سے ہو جو کچھ ہو
آگہی گر نہیں غفلت ہی سہی
ہم کوئی ترک وفا کرتے ہیں
نہ سہی عشق مصیبت ہی سہی
یار سے چھیڑ چلی جائے اسد
گر نہیں وصل تو حسرت ہی سہی
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے ۔
ایک خاتون نے آنسوبہاتے ہوئے اپنی پڑوسن کو بتایا کہ میرا شوہر مجھ سے
زیادہ اپنی ماں سے پیار کرتا ہے میں نے اس سے پوچھا کہ اگر ہم دونوں پانی
میں ڈوب رہے ہیں تو وہ کسے پہلے بچائے گا ا س پر اس نے جواب دیا ہے کہ وہ
پہلے اپنی ماں کو بچائے گا کیونکہ ماں کا حق زیادہ ہے مجھے بتاؤ ان حالات
میں مجھے کیا کرنا چاہیے
پڑوسن نے ہمدردی سے جواب دیا
’’تمہیں فوراًتیراکی سیکھ لینی چاہیے ‘‘
قارئین آزاد کشمیراور پاکستان کے موجودہ حالات تقاضا کرتے ہیں کہ پاکستانی
حکومت اور وزیراعظم چوہدری عبدالمجید بھی اب تیراکی سیکھ لیں یہی وقت کا
تقاضا ہے۔ |