کیا اس دنیا کے لئے سب سے بڑا
خطرہ خود حضرت انسان ہے؟عالم ارض کے لئے انسان سب سے سنگین خطرے کے طور پر
نمایاں ہے۔دنیا کے قدرتی ماحول کو انسان کی کارستانیوں سے شدید خطرات لاحق
ہیں۔انسان نے دنیا کے قدرتی ماحول کو یوں اپنی ناجائز حرکات کا نشانہ بنایا
ہے کہ خود انسان کو قدرتی ماحول کے بگڑتے اثرات کے تباہ کن نتائج کا سامنا
ہے۔یہ تو ہے انسان بمقابلہ قدرتی حیات ،دوسری طرف خود انسان ہی انسان کی
بقاء کے لئے سب فوری سنگین خطرے کے طور پر نظر آ رہا ہے۔اک عرصہ سے کہا
جاتا ہے کہ جو بہترین ہو گا وہ بچ جائے گا،باقی ختم ہو جائیں گے،مٹ جائیں
گے۔
عالم حیات کے گزشتہ ہزاروں سال کے دوران مختلف مذاہب آئے جن کا بنیادی مقصد
انسانیت کی ترویج،ترقی اور انسانیت کو مقدم و محترم قرار دینا ہے۔قدیم
مذاہب میں انسان کو کسی قدر اﷲ تعالی کی پہچان کرائی گئی،انسانی بہتری کے
لئے معاشرتی ہدایات دی گئیں،مقصد انسان کو انسانیت کے ایسے اعلی معیار پر
فائز کرنا کہ عالم انسانیت اپنی بہتری کے لئے اعلی انسانی اقدار کی ترویج
کرتے ہوئے انسانی حیات کے سفر میں اس ارتقائی راستے پہ گامزن ہو سکے جو
مقصود حیات ہے۔قدیم دور سے ایک دوسرے کے بعد آنے والے مذاہب میں اسی نکتہ
نظر سے انسانی معاشرے کی بہتری کے لئے ہدایات دی گئیں لیکن جس مذہب نے سب
سے بڑھ کر عالم انسانیت کو محترم و مقدم قرار دینے کی بات کی وہ آخری مذہب
اسلام ہے۔اسلام نے اﷲ تعالی کی بہترین پہچان کرائی،انسانی معاشرے کے لئے
ایسی ہدایات دیں جو ہر شعبہ ہائے زندگی کا احاطہ کرتی ہیں۔اسلامی تعلیمات
میں ہر انسان کو برابر قرار دیا گیا،کسی انسان کو حسب و نسب،خاندان،قبیلے ،علاقے
،نسل ،زبان کی بنیاد پر کوئی ترجیح حاصل نہیں،امتیاز انسان کے اعمال،طرز
عمل ، عملی کردار کی بنیاد پر حاصل ہے۔اسلامی احکامات میں کسی بھی انسان کر
تخصیص حاصل نہیں۔لیکن حضرت انسان شخصیت پرستی کے اس چنگل سے نجات نہیں پا
سکا جس نے انسان کے لئے برتری کے ایسے معیار ہمیشہ مستحکم کئے رکھے جو
انسان کو اس کے کردار کے بجائے اس کی قدرتی طور پر استوار حیثیت کی بنیاد
پر قائم ہے ۔ہم نفرتوں کی ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جہاں
علاقے،نسل،زبان،مذہب ،فرقے ،نظریات اور سوچ و عمل کی بنیاد پر نفرتوں کو
پالا جا رہا ہے اور انہی بنیادوں پر نفرتوں میں مبتلا ہوتے ہوئے انسانوں کو
واجب القتل قرار دینا اپنا اولین فرض قرار دیتے ہیں۔
دنیا کے مختلف خطوں میں انسانی ترقی و تویج کی صورتحال مختلف ہے۔ دنیا کے
کئی علاقے علم و قابلیت کے سفر میں آگے چلے اور کئی علاقوں میں کمزور و
مجبور انسان کمتر،انسانی عظمت کے منافی مخصوص منفی معیارات میں محدود و
مقید نظر آتاہے۔کہیں انسان نے علم و شعور کے اس راستے پہ سفر شروع کر دیا
جو اﷲ تعالی کی ہدایات کی مرضی و منشاء ہے اور کہیں انسان انسانیت کے درجات
میں انحطاط پذیر نظر آتا ہے۔ علاقہ اورماحول کے اثرات انسان پر گہرے طور پر
مرتب ہوتے ہیں۔اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں پسماندہ،ترقی پذیرعلاقوں میں
رہنے والے لوگوں میں جنونیت،عدم برداشت،جہالت اور نفرت و بیزاری کے جذبات
واظہار عمومی نوعیت کے طور پر درپیش ہیں۔دوسری طرف ترقی یافتہ،خوشحال،امیر
ملکوں میں دنیا کے مختلف ملکوں کے انسانوں کے لئے مختلف معیارات سے ان کے
علم و شعور کی ترقی پر بڑے سوالیہ نشان کھڑے ہوتے ہیں۔
راولپنڈی کے پرانے شہر راجہ بازار میں دس محرم کو اہل تشیع کے روائتی جلوس
کے دوران راجہ بازار میں واقع ایک پرانی جامع مسجد و دینی مدرسے میں نماز
جمعہ کے موقع پر نامناسب انتظامات،نفرت و بیزاری ،جنونیت، اور جہالت پر
مبنی غیر مناسب روئیے کے اظہار سے متعدد قیمتی انسانی جانوں کا نقصان
ہوا۔انسانوں کو انسانوں نے یوں ظالمانہ طریقوں سے ہلاک کیا کہ انسان کانپ
اٹھا۔ملک کے مختلف علاقوں میں مختلف فرقوں کے افراد پرہونے والے حملے تو
دہشت گرد کرتے تھے لیکن راجہ بازار کے اس اندوہناک واقعہ میں تو عام لوگ ہی
اس جنونیت میں مبتلا نظر آئے جس جنونیت و وحشت کو ہم صرف دہشت گردوں سے ہی
منسلک کرتے ہیں۔میرے خیال میں راولپنڈی میں ہونے والا یہ افسوسناک واقعہ
ہمارے ملک میں انحطاط پذیری کی صورتحال کی عکاسی ہے۔یعنی کہ جہالت و جنونیت
پر مبنی جذبات ،خیالات اور اقدامات کو لگام نہ دی گئی توہمارے مظلوم ،مجبور
،بے بس ،عاجز عوام کو فرقہ واریت،علاقائیت،وغیرہ کی بنیاد پرہونے والی ایسی
ہی غیر انسانی کاروائیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔اس صورتحال کا تدارک
ایسے ہی ہو سکتا ہے کہ ملک میں جھوٹ،جہالت،جنونیت کو ملک و عوام کا مقدر
قرار دینے کے بجائے علم و شعور کی تعظیم کو مقدم قرار دیا جائے۔ |