پشاور کے نواح میں لوگوں کو یہ
دیکھ کر تعجب ہوا کہ ایک نوعمر اور دبلی پتلی لڑکی تین پہیوں والا چنگ چی
رکشہ چلا رہی ہے۔ یہ شائد پاکستان کی پہلی خاتون رکشہ ڈرائیور ہے۔ ابتدائی
حیرانگی کے اظہار کے بعد، لوگوں کو جلد احساس ہوا کہ وجیہہ کافی مضبوط
اعصاب کی مالک ہے۔ رکشہ چلا کر روزی کمانے کے لئے وجیہہ اپنے خاندان کی
کفالت میں غیر معمولی حوصلے کا مظاہرہ کررہی ہے۔اپنے نیلے چپلوں کے ساتھ
رکشہ کو سٹارٹ کرتے ہوئے اس نے پر اعتماد انداز میں کہا کہ مجھے کسی نے بھی
رکشہ چلانے یا کوئی دوسرا کام کرنے کا نہیں کہا۔ لیکن میرے والد کی صحت کی
وجہ سے مجھے احساس ہوا کہ مجھے انکی مدد کرنی چاہیے، اس وجہ سے میں نے رکشہ
چلانا سیکھا۔نیلے رنگ کے پرانے لباس اور سنہری رنگ کی چادر اوڑھے ہوئے
وجیہہ ایک مقامی سکول میں پرائمری کی طالبہ ہے۔ سکول کے بعد، وہ اور اس کا
والد قریبی سٹینڈ سے سواریاں اٹھاتے ہیں۔انعام الرجمان پنشن یافتہ شخص ہے۔
پینشن اس کے خاندان کی کفالت کے لیے کافی نہیں ہے۔ اس وجہ سے اس نے سواریاں
اٹھانے کے لیے رکشہ خریدا۔معذور ہونے کے باوجود، انعام نے کبھی اپنی بیٹی
سے مدد کرنے کا نہیں کہا، لیکن وجیہہ نے اپنی مرضی سے یہ کام اپنے ذمے لیا
ہے۔حیرانگی اس بات پر ہوتی ہے کہ ایک لڑکی چھ سواریوں کے ہمراہ کافی مہارت
کے ساتھ رکشہ چلا تی ہے۔لیکن اب لوگ اس پر حیرت نہیں کرتے ۔مقامی لوگ اس سے
متاثر ہیں کہ وہ اپنے والد کی مدد کررہی ہے۔ صوبہ سرحد میں زاہدہ کاظمی بھی
ہیں جو ٹیکسی چلاتی ہیں۔ انھوں نے 1992 میں 33 سال کی عمر میں اپنے خاوند
کی وفات کے تھوڑے عرصے بعد ٹیکسی ڈرائیور کا پیشہ اختیار کیا تھا۔ اسکے
خاندان نے اس فیصلے کی سخت مخالفت کی مگر اپنے 6 بچوں کو پالنے کی خاطر
اسکے پاس کوئی اور راستہ نہ تھا۔شروع شروع میں وہ ٹیکسی میں اپنی حفاظت
کیلیے پیسٹل رکھتی تھی اور برقعہ بھی پہنتی تھی مگر یہ ابتدائی فکر جلد ختم
ہو گئی۔زاہدہ کو پاکستان کے شمالی علاقوں کے کٹھن روٹوں پر بھی ٹیکسی چلانا
پڑی جن میں بالاکوٹ، چترال، دھیر اور دادی سوات جیسے علاقے شامل ہیں۔
قبائلی علاقوں کے پٹھان جو مردانہ فخر اور غیر لچکدار رویے کیلیے مشہور ہیں
وہ بھی اسکے ساتھ بہت اچھے سلوک سے پیش آئے۔زاہدہ کہتی ہیں کہ اب میں بوڑھی
ہو رہی ہوں اور تھک بھی جاتی ہوں اسلیے ہر وقت ٹیکسی نہیں چلا سکتی لیکن
میں کیا کروں، میرے بیٹے میری مدد نہیں کرتے، اگر مجھے چانس ملتا تو میں
ڈاکڑ کا پیشہ اختیار کرتی۔ دنیا بھر میں ٹیکسی چلانا یا ڈرائیونگ کرنا
مردوں ہی کا کام سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اب دنیا بدل رہی ہے۔ عورتین ہر پیشے
میں داخلہ ہورہی ہیں۔ پاکستان مین گو اس کی مثالیں کم ہیں ۔ لیکن ایرانی
ٹیکسی کی ایک کمپنی مردوں کے بجائے صرف عورتوں کو ڈرائیور کی ملازمت پر
رکھتی ہے۔ ایسا نہیں کہ ٹیکسی ڈرائیونگ کے دوران خواتین کو مشکل حالات اور
غلط افراد سے سابقہ نہیں پڑتا ایران کی ٹیکسی ڈرائیور خواتین بڑی مرد مار
ہیں۔ ایک بار ایک مرد ٹیکسی ڈرائیور نے سنسان علاقے میں پہنچ کر ٹیکسی
ڈرائیور مرضیہ خاتون شریعتی سے چھیڑ چھاڑ کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اسے یہ
معلوم نہیں تھا کہ اس کی اس حرکت کا انجام کیا ہوگا۔ اس نے غالباً یہی سوچا
ہوگا کہ ایک تنہا عورت اس کا کیا بگاڑ سکتی ہے… لیکن مرضیہ خاتون جوڈو
کراٹے کی انسٹرکٹر تھی۔ اس نے بے ہودہ حرکت کے جواب میں اس کی کئی ہڈیاں
توڑ دی تھیں۔ پھر اسے ٹیکسی کی ڈکی میں ڈال کر پولیس اسٹیشن پہنچ گئی تھی۔
ایسی ہی ایک خاتون 23 سالہ ٹیکسی ڈرائیور ثمرین مظہری ہیں۔ انھوں نے ہائی
اسکول سے کمپیوٹر سائنس میں تعلیم حاصل کی ہے اور چند دن قبل ٹیکسی کمپنی
کے اشتہار شائع ہونے پر اس نے ٹیکسی کے لیے ڈرائیونگ کا انٹرویو دیا ۔
کمپنی کو پچاس خواتین ڈرائیوروں کی ضرورت تھی وہ منتخب ہونے والوں میں سے
ایک تھی۔ ’’اس انتخاب میں کمپنی والوں نے اْن عورتوں کو ترجیح دی تھی جو
بیوہ ہیں اور دوسرے نمبر پر اْن عورتوں کو ملازمت دی گئی تھی جو غریب ہیں۔
’’ثمرین مظہری نے بتایا تھا۔ ’’کسی سنسان جگہ جاکرہمیں خوف نہیں ہوتا؟ کیوں
کہ گاڑی میں الارم سسٹم نصب ہے اور وائرلیس سیٹ بھی موجود ہوتا ہے۔ جس کے
ذریعے ہم اپنی پوزیشن مرکزی آفس کو بتاتے رہتے ہیں۔‘‘ ایران میں ٹیکسی
چلانے کے لیے ان خواتین کو بھی ترجیح دی جاتی ہے جو غیر ملکی زبان پر عبور
رکھتی ہیں مثلاً، عربی، ترکی، افغانی، آذر بائیجانی، انگریزی اور فرنچ
زبانوں میں سے کوئی زبان بول اور سمجھ سکتی ہوں۔ تاکہ غیر ملکی سیاحوں کے
ساتھ گفتگو کرسکیں۔ ثمرین نے بتایا کہ اس کی شادی کو چار سال ہوچکے ہیں اور
اس کے دو بچے ہیں۔ دن کے وقت اس کا شوہر بچوں کو سنبھالتا ہے اور وہ خود
شام کو گھر پہنچتی ہے۔ پھر اس کا شوہر ڈیوٹی پر چلاجاتا ہے جو کسی ہوٹل میں
ملازم ہے۔ ’’ہم مشہد سے تقریباً تیس کلو میٹر دور جنوب کے ایک قصبے’ دوشیب‘
میں رہتے ہیں۔‘‘ ثمرین نے بتایا تھا۔ ’’ہم کوئی امیر لوگ نہیں ہیں لیکن
میری ملازمت سے خاصی بچت ہوجاتی ہے۔ لیکن لبنان میں "بنات ٹیکسی" نامی
کمپنی نے ایک ایسی منفرد مواصلاتی سروس متعارف کرائی ہے کہ جو صرف اور صرف
خواتین کے لئے ہے۔ اسکیم میں شامل گلابی رنگ کی ان ٹیکسیوں کو خواتین
ڈرائیور چلاتی ہیں۔ ابتدائی طور پر یہ سروس بیروت کے شمال مشرقی علاقے
المطیلب میں شروع کی گئی ہے، جسے بعد میں دوسرے شہروں تک پھیلایا جائے
گا۔اس منفرد سروس کی نگران اور کمپنی کی مالک نوال یاغی فخری ہیں ۔ جو کہتی
ہیں کہ ٹیکسی ڈرائیونگ کا شعبہ لبنان میں خواتین کے لئے شجر ممنوعہ سمجھا
جاتا تھا، ہم نے اس سوچ کو تبدیل کرنے کی ٹھانی۔ اس منصوبے کو شروع کرنے کی
خاطر میں نے اخبارات میں خواتین ٹیکسی ڈرائیوروں کی بھرتی کا اشتہار دیا تو
ہمیں بڑی تعداد میں خواتین نے اس جاب کے لئے درخواستیں ارسال کیں۔ ہم نے
تیس برس سے زائد عمر کی مہذب، سمارٹ اور فریش خواتین کو اس کام کے لئے
منتخب کیا۔نوال فخری بیروت میں ایک بیوٹی پارلر بھی چلاتی ہیں اور اسی
بلڈنگ میں انہوں نے "گلابی ٹیکسی" کمپنی کا دفتر کھول رکھا ہے۔ انہوں نے کہ
چستی اور پھرتی ڈرائیونگ کے لئے ضروری امر ہے، اس لئے ہم نے دونوں سہولیات
کو یکجا کر دیا ہے۔لبنانی وزیر سیاحت کے دفتر میں میڈیا کوارڈینٹر لینا
غانم کا کہنا ہے کہ "گلابی ٹیکسی" کا آئیڈیا انتہائی منفرد سوچ کا مظہر ہے۔
ہماری وزارت کے لئے یہ سروس ایک نیک شگون ہے کیونکہ لبنان سیاحت کے اعتبار
سے اہم ملک ہے۔ یہاں پر زیادہ سیاح خلیجی ممالک سے آتے ہیں اور وہاں سے آنے
والی خواتین سیاح خواتین کی معیت میں سفر کرنا زیادہ سہل محسوس کرتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ لبنانی عوام اپنی ندرت فکر کے لئے دنیا بھر میں مشہور ہیں
اور سیاحوں کی خدمت کے ضمن میں "گلابی ٹیکسی سکیم" اسی بات کی نشانی ہے۔
ایک جانب ایران اور دیگر عرب ملکوں میں خواتین ٹیکسی چلا رہی ہیں تو دوسری
جانب سعودی عرب میں خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دیے جانے پر مخالفانہ مہم
زور و شور سے جاری ہے، ایک مذہبی عالم نے تو ایک نئی تحقیق پیش کی ہے۔ جس
کے مطابق ڈرائیونگ کرنے والی خواتین کو بچوں کی پیدائش کے وقت طبی مسائل کا
سامنا کرنا پڑتا ہے۔سعودی ویب سائٹ ’سبق‘ کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں شیخ
صالح اللوہائے نے کہا ہے کہ، اگر کوئی خاتون باقاعدگی سے گاڑی چلاتی ہے تو
اس کی صحت پر برے اثرات پڑتے ہیں۔۔ خاص طور پر بچوں کی پیدائش کے وقت انھیں
شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔شیخ صالح کی جانب سے یہ تبصرہ ایسے وقت
میں سامنے آیا ہے جب سعودی عرب میں خواتین کی ڈرائیونگ کے حق کے لیے مہم
چلانے والی تنظیم ’وومن ٹو ڈرائیو‘ کے کارکنوں کی جانب سے مہم میں وقت
گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت تیزی آرہی ہے۔ادھر، یہ تنظیم خواتین پر زور دے رہی
ہے کہ وہ خواتین کے ڈرائیونگ چلانے کی پابندی کی خلاف ورزی کرین۔ اورگاڑی
چلائیں۔ ’ڈیلی میل‘ کے مطابق، سعودی عرب میں خواتین کے کار چلانے پر گذشتہ
20 برس سے پابندی عائد ہے۔ تاہم، حالیہ مہینوں کے دوران اس پابندی کے خلاف
سخت احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔اس اخبار نے اپنی خبر میں سنہ 2011 میں مذہبی
شوریٰ کی جاری کردہ ایک رپورٹ کا بھی حوالہ دیا ہے، جِس میں دعویٰ کیا گیا
ہے کہ اگر خواتین کی ڈرائیونگ پر عائد پابندی ہٹالی گئی، تو ریاست میں بے
ہودگی اور ہم جنسی پرستی کی وبا پھیل جائے گی، طلاق کی شرح میں اضافہ ہو
جائے گا اور جسم فروشی عام ہوجائے گی۔ سعودی عرب کی وزارت داخلہ نے اس مہم
کے منتظمین سے رابطہ کیا ہے، جو خواتین کی ڈرائیونگ پر پابندی کو تسلیم نہ
کرتے ہوئے انھیں گاڑیاں چلانے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ حکام نے کہا کہ ایسی
خواتین کو سزائیں دی جائیں گی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس مہم میں شریک خواتین
انٹرنیٹ پر مسلسل فوٹیجز پوسٹ کر رہی ہیں، جن میں خواتین کو سعودی سڑکوں پر
گاڑیاں چلا تے دکھایا گیا ہے۔ اس مہم کی خواتین منتظمین نے عورتوں سے کہا
تھا کہ اگر ان کے پاس کسی دوسرے ملک کا ڈرائیونگ لائسنس ہے، تو وہ اس
پابندی کو تسلیم نہ کرتے ہوئے گاڑیاں چلائیں۔یہ خواتین ٹریفک کے حوالے سے
سعودی عرب میں نافذ اسلامی شریعہ قوانین کے مبہم ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے
خواتین کے لیے اس حق کے حصول کی کوشش میں ہیں۔سعودی عرب میں خواتین کو
ڈرائیونگ کا حق نہ دینے پر اسے پوری دنیا میں تنقید کا سامنا رہتا ہے،حال
ہی میں سعودی وزارت داخلہ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا تھا
کہ خواتین کا گاڑی چلانا ایک غیر قانوی طرز عمل ہے، تاہم اب حکام اس بات
اپنا موقف مزید سخت کر رہے ہیں۔ لیکن بنگلہ دیش اس میں ایک قدم آگے ہے،
وہاں اب خواتین ٹیکسی نہیں ٹرین چلا رہی ہیں۔ بنگلہ دیش میں ایک طویل عرصے
تک خواتین کے ٹرین چلانے پر پابندی رہی اور پھر اس پابندی کو 1995ء میں ختم
کیا گیا۔اس پابندی کے ختم ہونے کے بعد سے اب تک سلمیٰ خاتون بنگلہ دیش
ریلوے میں واحد خاتون ڈرائیور ہیں جو مسافر ریل گاڑی چلاتی ہیں لیکن مردوں
کی اجارہ داری والے اس معاشرے میں یہ کام سلمیٰ کے لیے انتہائی مشکل
ہے۔سلمی کو اس پیشے مین بہت مشکلات کو سامنا کرنا پڑا ہے۔ سلمیٰ اس توہین
آمیز رویے کو جس کا انہیں ٹرین ڈرائیور کے طور پر سامنا کرنا پڑتا ہے یاد
کرکے اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ پاتیں اور رو پڑتی ہیں۔ وہ جب بھی ایک شہر
سے دوسرے شہر تک ٹرین چلاتی ہیں تو لوگ انہیں چھیڑتے ہیں، ان پر پتھر
پھینکتے ہیں اور ہر طرح سے پریشان کرتے ہیں۔ سلمیٰ کا کہنا تھا، ’’میں یہ
سب توہین اس لیے برداشت کرتی ہوں تاکہ بنگلہ دیش میں موجود دیگر خواتین کے
لیے ایک راہ ہموار کر سکوں تاکہ وہ کل کو ٹرین ڈرائیور بن سکیں اور ٹرین
چلا سکیں بالکل ویسے ہی جیسے مرد چلاتے ہیں‘‘۔عالمی اقتصادی فورم کے مطابق
135 ممالک میں بنگلہ دیش کا نمبر 86 واں ہے جہاں بڑی حد تک جنسی فرق نمایاں
ہے جبکہ چار مرتبہ وہاں خاتون کی قیادت میں حکومت تشکیل ہو چکی ہے لیکن
زیادہ تر لوگ اب بھی قدامت پسند سوچ کے مالک ہیں۔سلمیٰ کا کہنا ہے کہ اس کے
خاندان اور ساتھیوں نے ہمیشہ اس کی حوصلہ افزائی کی ہے لیکن مسئلہ ان لوگوں
کے ساتھ ہے جن سے یہ برداشت نہیں ہوتا کہ عورت کے ہاتھ میں کنٹرول ہو۔سلمیٰ
اپنی ٹریننگ مکمل ہونے سے اب تک 5000 کلومیٹر تک ٹرین چلا چکی ہیں۔ انہوں
نے دیگر خواتین کے لیے اس شعبے میں آنے کی راہ ہموار کی ہے اور اس وقت مزید
10 خواتین کو ٹرین ڈرائیور بننے کی تربیت دی جا رہی ہے۔سلمیٰ کا تعلق ایک
چھوٹے سے گاؤں سے ہے لیکن ان کے ارادے بڑے ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ’’میرا
فلسفہ بہت سادہ ہے، اگر عورت ملک کی سربراہ ہو سکتی ہے تو وہ کچھ بھی کر
سکتی ہے۔ میں نے ٹرین ڈرائیور بننے کا چیلنج لیا اور پھر اسے پورا کر کے
دکھایا‘‘۔بنگلہ دیش میں خواتین ٹیکسی ڈرائیور بھی ہیں اور اس کام کو منظم
کیا جارہا ہے۔ بنگلہ دیش کی BRAC نامی ایک غیر سرکاری تنظیم نے حکومت کے
ساتھ مل کر دارالحکومت ڈھاکہ میں آٹھ ہفتے کا ایک ڈرائیونگ کورس شروع کر
رکھا ہے، جس میں آج کل تقریباً 600 غریب خواتین کو پیشہ ورانہ ڈرائیونگ
سکھائی جا رہی ہے۔ان خواتین میں ملک کے جنوب مغربی علاقے کے ایک غریب گاؤں
کی بائیس سالہ جہاں آرا بھی شامل ہے، جو اس کورس کی تکمیل کے بعد ڈرائیونگ
کو پیشے کے طور پر اپنانا چاہتی ہے۔ اْس کے خیال میں اس پیشے سے اْسے آزادی
بھی حاصل ہو گی اور یہ اْس کے لیے ایک معقول ذریعہ آمدنی بھی ہو گا۔جہاں
آرا اکیس خواتین کے اْس گروپ کا حصہ ہے، جس نے اس سال یہ تربیتی کورس مکمل
کر لیا ہے۔ اس کورس کا مقصد ڈرائیونگ کو بطور پیشہ اختیار کرنے کے سلسلے
میں خواتین کی حوصلہ افزائی کرنا اور یوں معاشرے میں نظر آنے والے صنفی
امتیاز کو ختم کرنا ہے۔خواتین کہتی ہیں کہ پیشہ ورانہ زندگی اْنہیں آزادی
بھی دے گی اور آمدنی بھی خواتین کہتی ہیں کہ پیشہ ورانہ زندگی اْنہیں آزادی
بھی دے گی اور آمدنی بھی۔ لیکن بنگلہ دیش جیسے قدامت پسندانہ اقدار کے حامل
مسلم اکثریتی ملک میں جہاں آرا کو اپنے فیصلے کی بھاری قیمت چکانا پڑی ہے۔
وہ بتاتی ہے: ’’گاؤں کے بزرگوں نے میرے گھر والوں کے ساتھ تعلقات ختم کر
دیے۔ انہوں نے کہا کہ میرے جیسی نوجوان لڑکی کو گھر والوں سے دور اکیلے
نہیں رہنا چاہیے اور یہ کہ ڈرائیونگ سے خواتین کا کچھ لینا دینا نہیں ہے۔
میں نے اپنے والدین سے کہا کہ جب میری مالی پوزیشن مستحکم ہو جائے گی تو سب
کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ اب ہم بھوک کا شکار ہوں تو گاؤں کے بزرگ ہمیں کھانا
بھی نہیں دیتے۔جہاں آرا نے اپنے شوہر سے خلع لے لیا تھا کیونکہ وہ جہیز میں
سونا اور ایک موٹر سائیکل مانگ رہا تھا۔ بہت سے دیگر مسلم اکثریتی ممالک کے
برعکس بنگلہ دیش میں خواتین ملازمت تو کرتی ہیں لیکن ان میں سے زیادہ تر
خواتین ٹیکسٹائل کے برآمدی شعبے سے وابستہ ہیں، جہاں اْنہیں انتہائی کم
تنخواہیں دی جاتی ہیں۔ڈرائیونگ کا کورس مکمل کرنے والی ہر خاتون ڈرائیور کے
طور پر ملنے والی کسی سرکاری یا پرائیویٹ ملازمت کے دوران کم از کم دَس
ہزار ٹکے (122 ڈالر) کما سکے گی۔ یہ آمدنی ملبوسات کی صنعت سے وابستہ کسی
خاتون کی تنخواہ سے تین گنا زیادہ ہو گی۔اس پروگرام کے سربراہ احمد نجم
الحسین کو امید ہے کہ اس طرح کے کورسز کے نتیجے میں بنگلہ دیش کی سڑکوں پر
زیادہ تعداد میں خواتین ڈرائیور نظر آ سکیں گی اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ
کوئی انہونی بات نہیں رہے گی۔آج کل بنگلہ دیش میں رجسٹرڈ ڈرائیوروں میں سے
صرف 265 خواتین ایسی ہیں، جو پیشہ ورانہ طور پر ڈرائیونگ کرتی ہیں۔ اس کے
برعکس مرد ڈرائیوروں کی تعداد کا اندازہ 2.4 ملین لگایا گیا ہے۔ اس کا ایک
پہلو یہ بھی ہے کہ یورپ اور امریکا کے مقابلے میں بنگلہ دیش میں ٹریفک
حادثات کی شرح کم از کم پچاس گنا زیادہ ہے۔ بنگلہ دیش روڈ ٹرانسپورٹ
اتھارٹی کے سربراہ ایوب الرحمان خان کہتے ہیں: ’’ہم نے سوچا کہ حادثات کی
تعداد کم کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ زیادہ تعداد میں خواتین ڈرائیونگ
کریں۔ خواتین ڈرائیورز کا رویہ کم جارحانہ ہوتا ہے۔ مرد ڈرائیوروں کے
مقابلے میں مہلک حادثات میں اْن کے ملوث ہونے کا تناسب پچاس فیصد کم ہوتا
ہے اور سڑک پر جارحانہ ماحول کی شدت بھی کافی کم ہو جاتی ہے۔ لیکن مغرب میں
ایسا نہیں ہے وہاں خواتین ڈرائیور پولیس کی بھی دوڑ لگوادیتی ہیں۔ حال ہی
میں امریکی ریاست کیلی فورنیا میں ایک خاتون ڈرائیور نے ہائی وے پولیس کی
دوڑیں لگوادیں، خاتون ڈرائیور کیلی فورنیا کی ہائی وے پر سو میل فی گھنٹے
کی رفتار سے گاڑی دوڑارہی تھی اس دوران اس نے کئی بار پولیس کی ہدایات نظر
انداز کیں، ہائی وے پر کار چیسنگ اورنج کاونٹی کے نزدیک شروع ہوئی اور اس
کا اختتام رانچو مارگریٹا انٹرسیکشن کے پاس ہوا۔اس دوران ڈرائیور نے ہائی
وے پر کئی یوٹرن لئے اور اپنی گاڑی دوسری گاڑیوں سے ٹکرائی، ہائی وے پولیس
نے کئی گاڑیوں کی مدد سے گھیرا ڈال کر ڈرائیور کو گاڑی روکنے پر مجبور
کردیا اور خاتون ڈرائیور کو گرفتار کرلیا۔‘‘ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں بھی
خواتین ڈرائیونگ کے پیشے مین داخل ہوگئی ہیں۔ ۔دہلی کی سڑکوں پر صنف نازک
کے خلاف بڑھتے ہوئے جرائم پرشکنجہ کسنے کی فکر میں متعدد تجربے ہوتے رہے
ہیں۔ مجرمانہ سرگرمیوں کے پیش نظرخواتین اب ان روزگاروں ا ور کاروبار میں
بھی داخل ہوچکی ہیں جن میں کبھی صرف مردوں کی اجارہ داری ہی تصور کی جاتی
رہی تھی؛ مثلا ، دہلی کی سڑکوں پر دوڑنے والی ٹیکسیوں میں اب خواتین ٹیکسی
ڈرائیور بھی شامل ہو چکی ہیں۔یہ خواتین شہر کے مختلف حصوں میں بطور ڈرائیور
ٹیکسی میں خواتین سواریوں کے سفر کاذریعہ بن رہی ہیں۔لہٰذا اگر آپ کو دہلی
کی سڑکوں پر خاتون ٹیکسی ڈرائیور اپنا کام پوری ذمہ داری سے کرتی نظر آئے
تو تعجب کی بات نہیں۔ضرورت مند خواتین کو ٹیکسی ڈرائیونگ کے ذریعے اپنے
پیروں پر کھڑا کرنے میں مدد کر رہی ہیں۔ مینو وڈھیرا نے ایسی خواتین کو
منظم کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ بیرون ملک سفر کے دوران میں نے دیکھا کہ وہاں
خواتین بھی ٹیکسی ڈرائیور کا کام بڑی آسانی سے کرتی ہیں۔ 2003 میں ملک آنے
پر انہیں خواتین کو روزگار دلانے کا اس سے اچھا ذریعہ نظر نہیں آیاتو انھوں
نے آزاد فاونڈیشن کی شروعات کی۔فی الحال آزاد فاونڈیشن جنوبی دہلی کی کچی
بستیوں اور غریب خاندانوں کی خواتین کی مدد کر رہی ہے۔کمزور مالی حالات کی
ماری خواتین خاندانی پریشانیوں کی وجہ سے کام کرنے کے لئے مجبور ہو جاتی
ہیں جبکہ انہیں پورا محنتانہ بھی نہیں ملتا۔ انہی خواتین کوپر وقارزندگی
کیساتھ ساتھ اقتصادی طور پر قابل بنانا’سکھا‘ کا مقصد ہے۔سکھا نے خواتین کی
ٹیکسی کیب سروس شروع کی جس میں جی پی ایس ، موبائل فون ، ایمرجنسی بٹن اور
پیپر اسپرے جیسے سیکورٹی ذرائع بھی دستیاب ہیں۔ ممبئی میں پہلے سے ہی کچھ
خواتین ٹیکسی ڈرائیور کے طور پر کام کر رہی ہے۔ جنوبی ہندکی کچھ ریاستوں
میں وہ آٹو ڈرائیور بھی ہیں۔گذشتہ دنوں مشہور انڈسٹری تنظیم ’ایسوچیم‘کی
طرف سے ایک مطالعہ کروایا گیا تھا۔ اس مطالعہ کے تحت 1998 سے 2004 کے
درمیان پبلک ا ور پرائیویٹ سیکٹرکے روزگار میں عورتوں کی تعداد کے تناظر
میں تحقیق کی گئی تھی۔ اس مطالعہ کے مطابق پبلک سیکٹر میں خواتین کی تعداد
تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے۔ ان دونوں علاقوں میں خواتین کی تعداد 49.05 لاکھ
تھی جو 2004 میں بڑھ کر 50.02 لاکھ ہو گئی ہے۔’سکھا ‘نامی کمپنی بھی اسی
لئے شروع کی گئی ہے جس سے خواتین اقتصادی طور پر بھی قابل بن سکیں۔یہ تنظیم
انہی خواتین کو تربیت دیتی ہیں جن کی عمر کم از کم 20 سال ہو اور وہ آٹھویں
پاس ہوں۔ چھ ماہ کی ٹریننگ کے دوران یہ خواتین ڈرائیونگ کے ساتھ سیلف ڈیفنس
کی ٹیکنالوجی ، بات چیت کرنے کا فن اور انگریزی کا علم بھی حاصل کرتی ہیں۔
یہ تمام صلاحیتیں ان میں خود اعتمادی پیدا کرتی ہیں۔ اس کے بعد انہیں
روزگار بھی فراہم کیا جاتا ہے۔ یہ ریڈیو ٹیکسی سروس اسی لئے شروع کی گئی ہے
تاکہ اس میں صرف خواتین اور خاندان ہی سفر کرسکیں۔مینو نے لندن اسکول آف
اکونومکس سے فراغت حاصل کی۔ ان کے والد انڈین نیشنل آرمی میں تھے۔ انہی کے
نام پر مینو نے تنظیم کا نام آزاد فاونڈیشن رکھا۔ وہ اس کی ڈائریکٹر ہیں۔
آزاد فاونڈیشن کے اس کام میں کئی بڑی کمپنیاں ماروتی اور شیل مدد کر رہی
ہیں۔ اس کے علاوہ دہلی پولیس بھی خواتین کو سیلف ڈیفنس کی ٹریننگ دینے میں
مدد کر رہی ہے۔دہلی شہر کی سڑکوں پر اب ایسی کیب فراٹے بھرنے لگی ہیں جن کی
چلانے والی خواتین ہیں۔اس جدت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ خواتین کیلئے روزگار
کاایک نیا دروازہ کھل گیا ہے۔لہذا جب کبھی فروزی اوربیگنی رنگ کی وردی زیب
تن کئے کسی خاتون کاگاڑی چلاتے ہوئے لوگ دیکھتے ہیں تو سمجھ جاتے ہیں کہ یہ
کوئی عام ڈرائیورخاتون نہیں ہے۔اگر چہ روز مرہ کی زندگی میں صنف نازک کو
چمچماتی گاڑیوں کا اسٹیرنگ تھامے بارہا دیکھا گیا ہے لیکن پیشہ ورانہ طورپر
اسے اختیار کرتے ہوئے دیکھنا دہلی والوں کیلئے کسی عجوبہ سے کم نہیں ہے۔
غریب اور جھگی بستیوں کی ان کی لڑکیوں نے چولہا چوکہ چھوڑکر ڈرائیونگ کو
بطور معاش اختیار کرلیا ہے۔گزشتہ 2برسوں سے خواتین کو ڈرائیونگ کی تربیت
دینے والے شری نواس کے مطابق پسماندہ بستیوں کی خواتین کو ان کے گھر سے
نکال کرروزگار کے میدان میں لانا اور کام کے تئیں ان کی خود اعتمادی اور
یقین کو پروان چڑھانا کوئی آسان بات نہیں ہے۔اس کے باوجود وہ 72سے زیادہ
عورتوں کو گاڑی چلانے کی تربیت دے چکے ہیں جودارالسلطنت کی پرائیویٹ اور
کمرشیل گاڑیوں کو چلارہی ہیں۔متعدد خواتین کو اس پیشہ میں داخل ہونے سے
بھارت میں ایک نئی بحث چل نکلی ہے۔ جن میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ کیا
خواتین کے ڈرائیور بن جانے سے صنف نازک کے خلاف جاری مجرمانہ سرگرمیوں میں
کمی آئے گی یا اس چلن سے فتنوں کا نیا باب کھلے گا۔ |