اچھائی سے کیا مراد ہے؟
’’اچھائی ‘‘سے مراد وُہ افعال ، اعمال اور تدابیر ہیں جن کو معاشر ہ ،
قانون اورمذہب اچھا ، درست ، جائز اور ثواب قرار دیتے ہیں۔ زبانِ عام میں
اچھی کو’’ نیکی‘‘ بھی کہتے ہیں۔اچھائی انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے کام
کرنے کا نام ہے۔ مثلاََ غریب ، ضرورت مند اورکمزور کی مالی اور اخلاقی مدد
کرنا،بیمار کی تیمارداری کرنا، دکھی دلوں پر مرہم رکھنا، ناخواندہ افراد کو
تعلیم دینا اور دوسرے ایسے کام اچھائی ہیں۔اس کے علاوہ کاروبار میں
دیانتداری کو ملحوظِ خاطر رکھنا،اصلی اور ملاوٹ سے پاک مال فروخت کرنا، وزن
پورا دینا، قیمت مناست لینا،ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری سے اجتناب
کرناوغیرہ وغیرہ بھی اچھائی کے زمرہ میں شامل ہیں۔ ؛فرائضِ منصبی کو بطریقِ
احسن سرانجام دینا جیسے رشوت، کرپشن، نااہلی سے بچنا اورمعاشرہ ،قوم اور
ملک کے مفادات کو مقدم رکھنا وغیرہ اچھائی میں شامل ہیں۔ مختصر یہ کہ ہر
وُہ کام جس سے دوسرے فائدہ پہنچے اور معاشرہ ، قانون اور مذہب درست ، جائز
اور ثواب قرار دے اچھائی ہیں۔ اچھائی کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں ذاتی
مفادات اور خواہشات کو نظرانداز یا قربان کرکے فرد ، قوم اور ملک کے فوائد
اور مفادات کا خیال رکھا جاتا ہے۔
بُرائی سے کیا مراد ہے؟
’’بُرائی ‘‘سے مراد وُ ہ افعال، اعمال اور تدابیر ہیں جن کو معاشر ہ ،
قانون اور مذہب بُرا ، غلط ، ناجائز اور حرام و گناہ قرار دیتا ہے۔ بُرائی
کو زبانِ عام میں ’’ بدی ‘‘ کہتے ہیں ۔بُرائی ذاتی فوائد اور مفادات کی
خاطر بنی نوع انسان کو ذہنی،جسمانی ،مالی یا کسی دیگر طریقے سے نقصان
پہنچانے کا نام ہے ۔بُرائی کی اتنی شکلیں اور صورتیں ہیں کہ اُن ضبطِ تحریر
میں نہیں لایا جا سکتا۔ اس پر طرّہ یہ ہے کہ ہر لمحہ اُن اضافہ ہوتا رہتا
ہے اور جدّت آتی رہتی ہے۔فی زمانہ جھوٹ، غیبت، وعدہ خلافی، ناجائز منافع
خوری ، ملاوٹ ، نقلی مال کی فروخت،ذخیرہ اندوزی، فراڈ ،دھوکا دہی،ناجائز
قبضہ، چوری ، ڈاکا ، قتل ،زنا، اغوا برائے تاوان،نامزد قتل ، کنبہ
پروری،نسلی انتہا پسندی ، مذہبی تعصب ،دہشت گردی، خود کش بم
دھماکا،اختیارات سے ناجائز فائدہ ، رشوت ، کرپشن ، منی لانڈرنگ وغیرہ وغیرہ
بُرائی کی خالص شکلیں ہیں۔ بُرائی کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں انسان انتقام
لینے،خواہشات پوری کرنے،مفادات حاصل کرنے کے لیے دوسرے لوگوں کو
اچھائی کو نشرواشاعت اور تبلیخ کے لیے ہمہ وقتی وسیع سٹیج حاصل ہے
اچھائی کو نشرواشاعت اور تبلیخ کے لیے ہمہ وقتی وسیع سٹیج حاصل ہے،۔اس سٹیج
پر ریاست کے بہت سے ادارے مصروفِ عمل ہیں۔یہ ادارے اچھائی کی مختلف اقدار
اور اقسام کی وضاحت کرتے ہیں، اُن کے دنیاوی اور دینی فوائد پر روشنی ڈالتے
اور اُن پر عمل کرنے کے تلقین کرتے ہیں۔مثلاََ تمام مذاہب کی عبادت گاہوں
اور مدارس میں علماء اور اساتذہ کرام اپنے خطبات،تقاریر اور درسوں/ادارس
میں اچھائی کی تبلیخ کرتے ہیں ، قرآن کی مختلف آیات اور سنتِ نبویﷺ کے
حوالے دیے جاتے ہیں۔ اسی طر ح پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا بھی اچھائی کے فروغ
اور اشاعت و تنلیخ میں بھرپور کردار ادار کررہا ہے۔ اخبارات میں آئے دن
ادارے اور مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں جن میں حکومت اور عوام کی اچھائی کی
مختلف تجاویز پیش کی جاتی ہیں۔
ٹیلی وژن کے تمام چینلز اچھائی کی نشرواشاعت اور تبلیخ میں حتیٰ المقدور
کوشش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کئی چینلز صبح اپنی نشریات کا آغاز قرآن حکیم
فرقانِ حمید کی آیات اور اُن کے ترجمے سے کرتے ہیں۔کچھ چینلزنے دن کا بڑا
حصہ اچھائی کی تبلیخ کے لیے مختص کررکھا ہے ۔
بُرائی کو اپنی نشرواشاعت اور تبلیغ کے لیے کسی قسم کا سٹیج حاصل نہیں ہے
اس کے برعکس بُرائی کو اپنی نشرواشاعت اور تبلیغ کے لیے کسی قسم کا سٹیج
حاصل نہیں ہے اور نہ ہی کسی قسم کی ظاہر ی مدد ہو رہی ہے ۔ ملک میں کوئی
مذہبی ، ریاستی، معاشرتی ادارہ یاجماعت یا فردجھوٹ، غیبت، وعدہ خلافی،
ناجائز منافع خوری ، ملاوٹ ، نقلی مال کی فروخت،ذخیرہ اندوزی، فراڈ ،دھوکا
دہی،ناجائز قبضہ، چوری ، ڈاکا ، قتل ،زنا، اغوا برائے تاوان،نامزد قتل ،
کنبہ پروری،نسلی انتہا پسندی ، مذہبی تعصب ،دہشت گردی، خود کش بم
دھماکا،اختیارات سے ناجائز فائدہ ، رشوت ، کرپشن ، منی لانڈرنگ اور دیگر
بُرائیوں کی تعلیم و ترغیب دینے کے لیے موجود نہیں ہے ۔
اچھائی پر بُرائی حاوی ہے
بُرائی نشرواشاعت اور تبلیغ کا سٹیج نہ ہونے کے باوجود اچھائی پر حاوی ہے،
ہر شعبہ ء زندگی میں اُس کا راج ہے۔ یہاں تک کہ پاکستان بُرائی کا ایک ایسا
سمندر بن چکا ہے جس کی وسعت اور گہرائی کی پیمائش ناممکن ہے۔ بُرائی کے لیے
ایسے ایسے طریقے ،حربے اور ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں کہ شیطان بھی
انگشت بدنداں ہے انسان کو اپنا استاد مانے کے لیے سوچ رہا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اچھائی پر بُرائی کیوں حاوی ہے اور اس قدر اچھائی
کی تبلیغ کے باوجود لوگوں کی اکثریت بُرائی کو ترجیح دیتی ہے، معزز قارئین
اس کی کئی وجوہات ہیں اور ہر فرد کی علیحدہ علیحدہ ہیں۔ مصنّف نے بھی اس
سوال پر بہت غوروخوص کیا ہے۔ اس کی سمجھ میں جو وجوہات آئیں ہیں وُہ اُن کو
ایک نئے انداز میں پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
اچھائی میں تمام تر خوبیوں کے باوجود ایک بڑی بُرائی ہے۔ وُہ بُرائی یہ ہے
کہ تمام اچھائیاں اپنا صلہ اُدھار کرتی ہیں اور اپنا فائدہ یا اجر مستقبل
میں یا مرنے کے بعد اداکرنے کا وعدہ کرتی ہیں۔ مصنّف کے خیال کے مطابق کوئی
اچھائی ایسی نہیں ہے جو اپناصلہ یا اجر فوری ادا کرتی ہو۔ بلکہ بعض اوقات
تو اچھائی کرنے والے کو فوری نقصان اٹھانا پڑجاتا ہے۔ اس حقیقت کو صحیح
ثابت کرنے کے لیے بے شمار مثالیں دیں جا سکتی ہیں مگر اختصار کو ملحوظِ
خاطر رکھتے ہوئے مصنّف صرف چار مثالیں پیش کر رہا ہے۔
پہلی مثالـ: اگر آپ کسی غریب یا ضرورت مند شخص کو 100روپے بطور مدد د ے کر
اچھائی یا نیکی کا کام سرانجام دیں تو آپ کو فوری طور پر 100 روپے کا مالی
نقصان ہوگاجبکہ اچھائی کا صلہ یااجر اُسی وقت نہیں ملے گا بلکہ اُوھار ہو
جائے گا ،اوھار کب وصول ہو گا آپ کو یا مجھے بلکہ کسی کو معلوم نہیں ۔بیان
یہ کیا جاتا ہے کہ غیر معین مستقبل یا مرنے کے بعد ملے گا۔
دوسری مثال: اگرمیں کسی حادثے یا سانحہ میں زخمی شخص کی مدد کروں اور طبی
امداد کے لیے اُسے ہسپتال پہنچا دوں تو مجھے فوری طور پر پہلا نقصان وقت کا
ہو گا، دوسرا نقصان یہ ہوگا کہ پولیس مجھ سے تفتیش کرے گی ، تمہارا کیا نام
ہے ؟کہاں سے لائے ہو اس زخمی کو؟کس نے زخمی کیا ہے ؟زخمی سے تمہار ا
کیارشتہ اور تعلق ہے؟تم نے تو اس کو زخمی نہیں کیا؟ یہاں اقرار نامہ لکھ کر
دو جب تمہیں طلب کیا جائے گا حاضر ہو جاؤ گے وغیرہ وغیرہ اور عین ممکن ہے
مجھے بھاری رشوت دے کر جان چھڑانی پڑے۔
تیسری مثال: اگر آپ ایک دوکاندار ہیں اچھائی اور نیکی کمانے کی خاطر صاف
ستھرا کاروبار کرتے ہیں اوربغیر ملاوٹ اور ایک نمبر مال مناست منافع لے کر
فروخت کرتے ہیں۔
چوتھی مثال: اگر آپ کسی صوبائی یا وفاقی حکومت کے ملازم ہیں ۔فرض کریں کہ
آپ پولیس یا انکم ٹیکس کے محکمے میں ملازم ہیں اور اپنے فرائض منصبی
ایمانداری اور بغیر رشوت سر انجام دے رہے اس اچھائی کا صلہ اور اجر آپ کو
فوری نہیں بلکہ مستقبل میں ملے گا یا مرنے کے بعد وصول ہوگا۔ مگر فوری
نقصان یہ ہو سکتا ہے کہ آپ کے محکمے کے بددیانت اور رشوت خور ملازمین آپ
راستے کی دیورار سمجھ کر اُس کو گرانے کی کوشش میں مصروف ہو جائیں اور ایک
دن آپ کو ملازمت سے سبکدوش کروادیں اور آپ کو گھر بیٹھا دیں۔
اس کے بر عکس بُرائی میں تمامتر خرابیوں کے باوجود ایک بڑی اچھائی/ خوبی ہے
اور وُہ اچھائی /خوبی یہ ہے کہ تمام بُرائیاں اپنا صلہ اور اجر نقد اور
فوری ادا کرتی ہیں اور صرف اُس وقت مکمل ہوتی ہیں جب اُن کا صلہ اور اجر
بُرائی کرنے والے کو حاصل ہو جاتاہے۔ بُرائی کی اچھائی /خوبی کو ثابت کرنے
کے لیے بے شمار مثالیں دیں جا سکتی ہیں مگر ایک بار پھر اختصار کو ملحوظِ
خاطر رکھتے ہوئے مصنّف صرف چار مثالیں پیش کر رہا ہے۔
پہلی مثال : چوری یا رشوت کی بُرائی/ جرم اُس وقت مکمل ہوتی ہے جب چوری یا
رشوت کا مال یعنی صلہ مجرم کی جیب میں پہنچ جاتا ہے۔
دوسری مثال : ملاوٹ کی بُرائی اور وقت پوری ہوتی ہے جب اصل چیز ملاوٹ کی
وجہ سے مقدار میں بڑھ جاتا ہے اور اُس کی فروخت سے ناجائز منافع حاصل ہو
جائے۔
تیسری مثال : قتل کا جرم اُس وقت مکمل ہوتاہے جب مضروب مرجائے۔
چوتھی مثال : منی لانڈرنگ کا جرم اُس وقت مکمل ہوتا ہے جب کرپشن کی رقم
دوسرے ملک میں پہنچ جائے۔
اچھائی پر بُرائی کیوں حاوی ہے
انسان کو ہر روز مختلف نوعیت کی بے شمار چیزوں ضرورت پڑتی ہے ان میں کچھ
چیزیں جسم اور روح کا رشتہ بحال رکھنے کے لیے ناگزیر ہیں،کچھ چیزیں سکون
اور آرام کی مطلوب ہیں اور کچھ چیزیں تعیشات اور شان و شوکت کی خاطر درکار
ہوتی ہیں۔ اور اگر انسان اپنے کنبہ کا سربراہ ہوتو اُسے انحصاری افراد کی
کفالت کے لیے بھی بہت سے چیزیں پیدا کر کے مہیا کرنی ہوتی ہیں۔انسان کو
مطلوب چیزوں میں اکثرایسی ہوتی ہیں جو زندگی کی بقاء اور خواہشات کی تکمیل
کے لیے فوری درکار ہوتی ہیں اور اگر وُہ چیزیں نہ دستیاب ہوں تو انسان کی
زندگی کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے اور خواہشات کا گلا گھونٹ جاتا ہے۔لہٰذا
انسان اُن چیزوں کے حصول کے لیے حتیٰ المقدور کوشش کرتاہے۔ اس کوشش میں
اچھائی اور بُرائی کے دونوں ذرائع اُس کے سامنے ہوتے ہیں۔ جب وُہ اچھائی کی
طرف دیکھتا ہے تو اچھائی اُسے اپنا صلہ اور اخر اُوھار کرتی ہوئی نظر آتی
ہے۔ دوسری طرف اُس کی ضرورت فوری اور نقد ہیں ، اُس اپنے اور گھر والوں کے
لیے خوراک چاہیے، لباس چاہیے، بچوں کی تعلیم کے لیے کتابیں ،فیس اور کھلونے
چاہیں،اسے آج بجلی اور گیس کا بل ادا کرنا ہے، بیمار ماں کے لیے دوائی لانی
ہے وغیرہ وغیرہ۔مگر اچھائی جو بظاہر بہت اچھی راہ ہے مگر نقد دینے کے لیے
اُ س کے پاس کچھ نہیں ہے۔ دوسری طرف بُرائی جس خلاف ریاست ، مذہب اور
معاشرے کے ادارے اُسے بہت کچھ کہتے نظر آتے ہیں مگر وُہ اُسے اختیار کرنے
پر اپنا صلہ اور اجر نقد اور فوری ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ایسی صورت حال
میں ،مصنّف کے اندازے کے مطابق ، پاکستان میں90 فی صد لوگ اچھائی کی نصیحت
اور تبلیخ کو ایک طرف رکھ کراور پسِ پشت ڈال کر نقد اور فوری ادائیگی کرنے
والی بُرائی کو خوش آمدید کہتے ہیں اورجھوٹ، غیبت، وعدہ خلافی، ناجائز
منافع خوری ، ملاوٹ ، نقلی مال کی فروخت،ذخیرہ اندوزی، فراڈ ،دھوکا
دہی،ناجائز قبضہ، چوری ، ڈاکا ، قتل ،زنا، اغوا برائے تاوان،نامزد قتل ،
کنبہ پروری،نسلی انتہا پسندی ، مذہبی تعصب ،دہشت گردی، خود کش بم
دھماکا،اختیارات سے ناجائز فائدہ ، رشوت ، کرپشن ، منی لانڈرنگ اور دیگر
بُرائیوں میں مبتلا ہوتے ہوئے شرم محسوس نہیں کرتے۔یوں اچھائی پر بُرائی
حاوی ہو جاتی ہے بلکہ ہو چکی ہے۔ |