سب سے قیمتی دولت

’’دولت،دولت، دولت‘‘ ہر طرف شوربرپا ہے۔ ابنِ آدم دولت کی محبت میں گرفتار ہے ۔لوگوں کی سوچ کا محور دولت بن گیا ہے اور وُہ زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں۔اس زور آزمائی میں اکثر لوگ اخلاقی اقدار پامال کررہے ہیں، مذہبی تعلیمات کو نظر انداز کر رہے ہیں اور قانونی ضوابط کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔

مصنّف کی تحقیق کے مطابق بہت کم لوگ ایسے ہیں جو یہ جانتے ہیں کہ’’دولت‘‘ کا صحیح مطلب کیا ہے،دولت کی اقسام کتنی ہیں ، ہر قسم کی دولت کی اہمیت اور کردار کیا ہے اور کون سی دولت کتنی حاصل کرنی چاہیے۔ مصنّف کو بھی طویل غوروفکر کے بعد دولت کے بارے میں صرف چند باتوں کا علم ہوا ہے ۔ اور جو کچھ اُس کی سمجھ میں آیا ہے اس مضمون میں قلم بند کر رہا ہے۔

دولت کی تعریف
مصنّف کے مطابق دولت سے مراد ہر وُہ چیز ہے جو انسان کی جسمانی ضروریات،آسائشات اور تعیشات کو پورا کرے یا جنسی اور جذباتی خواہشات کی تکمیل کا سامان مہیا کرے یا روحانی تسکین کا باعث بنے۔

دولت کی اقسام
دولت کو آپ اپنے نقطہ نگا ہ کے مطابق کئی اقسام میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ مگرمصنّف نے دولت کو چھ اقسام میں تقسیم کیا ہے جو مندرجہ ذیل ہیں:

-1مادی دولت
’’مادی دولت‘‘ میں وُہ چیزیں شامل ہیں جن کی تخلیق مادے سے ہوئی ہے۔مثلاََزمین ، جواہرات، سونا ، چاندی اور دوسری دھاتیں،مارکیٹیں اور اُن میں پڑی ہوئی ہر چیزجو ہمیں نظر آرہی ہے۔ مادی دولت کی نقد اور عام فہم صورت کرنسی نوٹس اور سکے ہیں۔

مادی دولت افادیت کے لحاظ سے بہت بڑی رحمت ہے ۔ اس سے جسم اور روح کا رشتہ بحال رکھناممکن ہوتاہے۔مادی دولت کی فراوانی پُرآسائش اور کامیاب زندگی کے لیے ضروری تصور کی جاتی ہے۔مادی دولت اقوام کی خوشحالی ، ترقی ، سیاسی استحکام اور اقتدارِ اعلیٰ کی ضامن ہے۔ ’’مادی دولت‘‘کی کمی بہت بڑی زحمت /مصیبت ہے جس کوزبانِ عام میں غربت کہا جاتا ہے۔

’’غربت تمام مصیبتوں کی ماں ہے‘‘ ، غربت کی وجہ سے زحمتوں اور تکلیفوں کا آغاز ہوتا ہے ۔غربت میں تہذیب و تمدن ، اخلاقی اقدار ،مذاہب کی تعلیمات ، قانون کے ضوابط اور سیاست کے اصول وغیرہ تہس نہس ہو جاتے ہیں۔ غربت حسِ لطافت اور ذوقِ حسن وجمال کو بھی ختم دیتی ہے۔ غربت انسان کی صلاحیتوں کو زنگ لگا دیتی ہے۔غریب ا نسان پر عقل ، دلیل اور نصیحت کی کسی بات کا اثر نہیں ہوتا۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ غربت اور کفر میں تھوڑا سا فرق ہے۔

-2صحت کی دولت
’’صحت ہزار نعمت ہے‘‘مشہور ضرب المثل ہے۔انسان کے پاس مادی دولت ہومگر اُس کی صحت خراب ہو یا وُہ کسی مہلک بیماری میں مبتلا ہو تو مادی دولت بے کار چیز محسوس ہونے لگتی ہے۔صحت کی دولت کی اہمیت پر روشنی ڈالنے کے لیے مصنّف ایک امریکی شہری کی مثال دینا مناسب سمجھتا ہے۔ جان ڈی راک فیلر43 سال کی عمر میں دنیا کی سب سے بڑی اجارہ دار کمپنی سٹینڈڈ آئل کمپنی کا مالک بن چکا تھا۔مگر پریشانیوں اور اعصاب زدگی کی زندگی گزارنے کی وجہ سے اُس کی صحت کا ستیاناس ہو گیا تھا ۔اُس کے جسم کے تمام بال جھڑ گیے تھے۔ ڈاکٹروں نے اُسے ہولناک خبر سنائی کہ اُس کے دن گنے جا چکے تھے اور چند دنوں میں اُس کی زندگی کا چراغ گُل ہونے والا تھا۔ یہ سُن کر وُہ د ھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔ اُس نے ڈاکٹروں سے التجا کی کہ اُس کی زندگی بچانے کے لیے کچھ کریں۔ ڈاکٹروں نے بتایاکہ اُس کی زندگی صرف ایک صورت میں بچ سکتی تھی کہ وُہ اپنی مادی دولت سے جس کے لیے اُس نے دن رات محنت کی تھی ، کنارہ کشی اختیار کرلے۔ راک فیلرفوراََ اپنی مادی دولت سے کنارہ کش ہو گیا اور پھر صحت یاب ہونے کے بعد92 سال کی عمر میں فوت ہوا۔صحت کی دولت کی اہمیت کے ادراک کے لیے کہیں دُور جانے کی ضرورت نہیں ، کسی بھی ہسپتا ل میں جائیں اور مریضوں سے ملیں ۔ آپ دیکھیں گے کہ اکثر مریض صحت کے بدلے میں اپنی مادی دولت سے دستبردار ہونے کو تیار ہیں۔

-3علم کی دولت
’’علم کی دولت‘‘ ابنِ آدم کا طرّہ امتیاز ہے۔ ’’علم کی دولت‘‘ کے طفیل انسان کے آگے فرشتوں نے سجدہ کیا اور انسان کو اشرف المخلوقات کا شرف حاصل ہوا ہے ۔ علم کی وجہ سے قوانینِ فطرت انسان کے سامنے سرنگوں ہوئے ہیں۔ علم کے سبب قدرتی عناصر انسان کے تابع ہو چکے ہیں جن کو استعمال میں لاکر وُہ سوئی سے لیکر خلائی راکٹ تک بنا رہا ہے اور دریاؤں کے رخ موڑ رہا ہے۔ علم کے باعث انسان نے ستاروں پر کمند ڈالی ہے۔ آپ کا موبائل فون علمِ کیمیا اور علمِ طبیعیات کا مرہونِ منت ہے۔ علم کی دولت انسان کو خود اعتمادی ،عزت وتکریم اور شہرت سے ہمکنار کرتی ہے۔اسے پروفیسر، مفکر، دانشور، مصنّف ، موجدیا سائنس دان بنادیتی ہے۔علم کی دولت اقوام کی تقدیر رقم کرتی ہے۔ علم کی دولت سے مالا مال اقوام مالی طور پر خوشحال، ٹیکنالوجی کے اعتبار سے ترقی یافتہ اور سیاسی لحاظ سے مستحکم ہیں اور علم میں غریب اقوام پر حکمرانی کر رہی ہیں۔

-4وقت کی دولت
’’وقت کی دولت‘‘ بہت اہمیت کی حامل اور طاقتور ہے۔ بیان کردہ تینوں دولتیں (مادی دولت، صحت کی دولت اور علم کی دولت)وقت کی گردش کے ساتھ حاصل ہوتی ہیں اور اُس کی مٹھی میں رہتی ہیں۔جب وقت کی دولت ختم یعنی موت واقع ہوتی ہے تو مادی دولت دوسرے افراد میں تقسیم ہو جاتی ہے، صحت کی دولت غائب ہوجاتی ہے اور علم کی دولت جسم سے پرواز کر جاتی ہے۔

-5سیرت کی دولت
مصنّف کے نظریے کے مطابق’’سیرت کی دولت‘‘ مذکورہ بالا دولتوں سے زیادہ اہم، ہمہ گیر اور دیرپاہے۔ وقت کی گردش’’سیرت کی دولت‘‘ پر بہت کم اثر انداز ہوتی ہے۔ جب ’’سیرت کی دولت‘‘ کسی انسان کو حاصل ہوتی ہے تو اُس کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ اقوالِ زرین بن جاتے ہیں؛ اُس کے افعال، اعمال اور فرمودات قابلِ تقلید قرار پاتے ہیں۔ ’’سیرت کی دولت‘‘ انسان کوزندہ جاوید کر دیتی ہے،عظیم انسان، ولی، غوث، قطب، پیغمبر، نبی یا رسول کا رتبہ پانے میں معاونت کرتی ہے۔ مادی دولت اُس کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ لوگ اُس کے حکم پر مادی دولت اور جان قربان کرنے کو ایک قابلِ فخر کارنامہ سمجھتے اور راہِ نجات خیال کرتے ہیں۔چودہ سو سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود محمدﷺ کی سیر ت کی بدولت ہم مسلمان ہیں ۔ حالانکہ ہم نے اﷲ رب العزت کو دیکھا ہے نہ قرآن مجید نازل ہوتے مشاہدہ کیا ہے؛فرشتے دیکھے ہیں نہ جنت، پھر بھی اُن پر ہمارا ایمان ہے ۔یہ ایمان صرف محمدﷺ کی سیر ت کی بدولت ہے ۔ دورِحاضر میں پیدا ہونے والی سیرت کی دولت کی حامل دو عظیم ہستیاں علامہ محمد اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ۔ آج علماء اور دانشور علامہ محمد اقبال کے اشعار کو اپنی باتوں کو وزن دینے کے لیے استعما ل کرتے ہوئے نہیں تھکتے اور قائد اعظم محمد علی جناحِ کی تصویر کے بغیر پاکستان کے کرنسی نوٹ مکمل نہیں ہوتے۔

-6عقل کی دولت
’’عقل کی دولت‘‘سب سے قیمتی دولت ہے اس کی فراوانی عقلی معیار کوبلند کر دیتی ہے جب کہ عقل کی دولت کی کمی پست عقلی معیار کا باعث ہوتی ہے۔جب ایک عظیم ہستی پیدا کرنی مقصود ہوتی ہے تو خالقِ کائنات اُسے وافر مقدار میں عقل کی دولت عطا کردیتاہے ۔ جب انسان بلند عقلی معیار کے مقام پر فائز ہوتا ہے تو فرشتے اُسے سجدہ کرتے ہیں،قوانینِ فطرت اُس کے سامنے اپنے راز اُگل دیتے ہیں،قدرتی عناصر اُس کی خدمت پر مامور ہوجاتے ہیں،مادی دولت اپنی حقیقت بیان کردیتی ہے ،صحت کی دولت اپنے راز افشاں کر دیتی ہے، علم کی دولت اپنے خزانوں کے دروازے کھول دیتی ہے ،وقت کی دولت اپنے درست استعمال کے طریقے سمجھا دیتی ہے اور سیر ت کی دولت اُس پر عاشق ہوجاتی ہے اور اُس کی رحلت کے بعد بھی اُس سے جُدا نہیں ہوتی۔

عقل کی دولت سے مالامال شخص سیاسی اقتدار، ظاہری شان و شوکت، جاگیر،کثیر بینک بیلنس وغیرہ کے حصول کے جنون میں مبتلا نہیں ہوتا ۔بلکہ وُہ تواپنی جائز ضروریات سے زائدمالی وسائل کو انسانیت کی فلاح کے لیے خرچ کرنے میں خوشی ، راحت اور کامیابی محسوس کرتاہے۔اُسے مادی دولت اور سیاسی اقتدار کی پیش کش اپنے نصب العین سے علیحدہ نہیں کرسکتی ۔اگر اُس کے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے ہاتھ پر چاند رکھنے کا لالچ دیا جائے تو وُہ مسکراکر اُسے ٹھکرا دیتا ہے اور اپنے مقصد کو جاری رکھتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وُہ مادی دولت اور سیاسی اقتدار کی حقیقت سے واقف ہوتا ہے ۔ اسے معلوم ہوتا ہے کہ اُس کا رشتہ مادی دولت سے عارضی ہے ،وُہ زندگی میں چھن جائے گی یا پھر موت پر دوسروں میں تقسیم ہو جائے گی ۔ اُسے معلوم ہوتا ہے کہ سیاسی اقتدار بے وفا ہے، جب ملکی حالات تبدیل ہو ں گے تو سیاسی اقتدار چھن جائے گا اور انسان جیل میں یا ملک سے باہر ہو گا۔

عقل کی دولت سے مالامال شخص حقیقی معنوں میں اشرف المخلوقات ہوتا ہے ۔ اُس کا کردار بلندی کے اُس مقام پر ہوتا ہے جہاں وُہ مادی دولت یا دوسرے مفادات کی خاطر ایسے کام نہیں کرسکتا جو اخلاقی طور پر غلط،مذہبی لحاظ سے گناہ یا قانون کی نظر میں جرم ہوں۔ کسی کو قتل یا زخمی کرنا تو دُور کی بات ہے وُہ کسی کا دل دُکھی کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ چوری ، ڈاکا، فراڈ، رشوت، کرپشن تو کجا وُہ راستے میں ملی ہوئی چیز بھی اپنے پاس نہیں رکھ سکتا۔الغرض !اُس کا مطمح نظراور نصب العین انسانیت کی بہتری اور فلاح ہوتا ہے۔ مگر یا د رہے کہ بلند عقلی معیار کا حامل شخص اپنی اور انسانیت کی بہتری اور فلاح کے لیے جو اچھے کام کرتا ہے وُہ کسی پر احسان نہیں کرتا۔ در اصل وُہ ایسا کرنے کے لیے اپنی عقل کے ہاتھوں مجبور ہوتاہے کیونکہ عقل اُسے کسی غلط طرف جانے کی اجازت ہی نہیں دیتی۔مزید یاد رہے بلند عقلی معیار ملنے کا یہ مطلب نہیں کہ انسان کبھی غلطی نہیں کرتا ،’’انسان غلطی کا پتلا ہے‘‘۔ وُہ غلطی کرتا ہے مگراُسے اپنی غلطی کا جلد ادراک ہو جاتا ہے،وُہ فوراََ غلطی سے باز آ جاتا ہے او ر غلطی کو دہرانے سے اجتناب کرتا ہے۔

عقل کی دولت کی کمی سب سے بڑی غربت ہے۔ عقل کی دولت کی کمی کی کوئی انتہا نہیں۔یہ کمی اتنی زیادہ ہوسکتی ہے کہ انسان اشرف المخلوقات کے منصب سے گر کر حیوانیت کے درجے یا اس سے بھی نیچے پہنچ جائے۔عقل کی دولت کی کمی انسان کی آنکھوں پر جہالت کی پٹی باندھ دیتی ہے۔ وُہ صحت ، علم، وقت اور سیرت کی دولتوں سے غافل کردیتی ہے۔ انسان کو ذات کے خول میں قید کردیتی ہے جہاں اُسے ذاتی مفادات اورخواہشات کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دیتا۔چونکہ مفادات اور خواہشات کی تکمیل کے لیے مادی دولت کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے انسان زیادہ سے زیادہ مادی دولت حاصل کرنے کے جنون میں مبتلا ہو جاتا ہے،اُس کی سوچ کا محور مادی دولت یعنی زمین ، جواہرات، سونا اور کثیر بینک بیلنس وغیرہ بن جاتے ہیں۔ اس جنون میں انسان کے لیے حرام حلال ہو جاتا ہے، ناجائز جائز قرار پاتاہے، گناہ ثواب بن جاتا ہے اور جرم قانونی عمل کا روپ دھار لیتا ہے۔ وُہ ایسے ایسے کام کرتا ہے جن کو دیکھ کر درندے احتجاج کرتے ہیں کہ اُن کا نام کیوں بدنام کیا جارہاہے اور شیطان خوش ہوتا ہے کہ اب وُہ بھی طویل رخصت پر جا سکتا ہے۔

قومی سطح پر بھی عقل کی دولت کی کمی کے نہایت نقصان دہ نتائج مرتب ہوتے ہیں۔کُرّۂ ارض پر آزاد ممالک کی تعداد200ہے جن میں تقریبََا 150 پسماندہ ممالک سمجھے جاتے ہیں۔ان ممالک کی پسماندگی کی کئی وجوہات ہیں مگر بنیادی وجہ عقلی پسماندگی ہے جس کے سبب ان ممالک کے عوام اخلاقی طور پر بلند، اقتصادی لحاظ سے خوشحال، سیاسی نقطہ نگاہ سے مستحکم اور خود مختار ریاستیں قائم نہیں کرسکے۔ پاکستان کا شمار پسماندہ ممالک میں ہوتا ہے اور عوام عقل کی دولت کی کمی کا شکار ہیں۔ مصنّف کے اندازے کے مطابق تقریبََا90 فیصد افرادصحت، علم، وقت اور سیرت کی دولتوں اور اُن کی افادیت سے نا واقف ہیں ۔ اُنہیں صرف مادی دولت ہی سب کچھ معلوم ہوتی ہے ۔اُن کی سوچ کا محور اپنے مفادات،آسائش اور فوائد ہیں۔ اُنہیں دوسرے لوگوں کے مفادات،معاشرے کی فلاح ، قوم کی بہتری اور ملکی فوائد سے کوئی سروکار نہیں ہے ۔ اُن کے نزدیک اخلاقی اقدار ، مذہبی تعلیمات اور قانونی ضوابط بے معنی چیزیں ہیں۔ریاست کے نجی شعبے عوام کا اقتصادی استحصال کرنے میں مصروف ہیں۔بازارنقلی اور دو نمبر اشیاء سے بھرے ہوئے ہیں۔ ملوں اور فیکٹریوں کے مالکان خلافِ قانون اجارہ داریاں قائم کرکے اپنی پیدا کردہ چیزیں من مانی قیمتوں پر فروخت کر رہے ہیں۔ ریاستی ادارے اور محکمے نااہلی ، رشوت اور کرپشن میں مبتلا ہیں،عدلیہ مفلوج نظر آتی ہے،لوئر کورٹس میں رشوت بطور معاوضہ وصول کی جاتی ہے اور فیصلے طاقتوروں اور برسراقتدار لوگوں کی خواہشات اور اشاروں کے مطابق کیے جارہے ہیں۔ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل درآمد کرنے میں رکاوٹیں پیدا کی جارہی ہیں۔آئین اورالیکشن کمیشن اس طرح مرتب کیے گیے ہیں کہ جاگیردار اور سرمایہ دار طبقہ کے علاوہ کوئی صوبائی اور قومی اسمبلیوں اور سینیٹ میں نہیں پہنچ سکتا۔الیکشن کو کروڑوں روپوں کا ایسا کھیل بنا دیا گیا ہے جس میں کوئی متوسط یا غریب انسان حصہ لینے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ اربابِ اقتدار اورانتظامیہ عوام کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کی بجائے رشوت اور کرپشن کے ذریعے ریاست کے وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں مصروف ہیں۔ ملک کی معیشت تباہی کے دھانے پر پہنچ چکی ہے،ملکی اور غیر ملکی قرضوں کا بوجھ 120 ارب ڈالر ہو گیا ہے اور عوام مسائل کے بوجھ تلے سسکیاں لے رہے ہیں۔بادی النظر میں، عقل کی غربت کی وجہ سے چودہ اگست1947ء کو ملنے والی آزادی 95%عوام کے لیے انگریزوں کی غلامی سے بدتر ہو چکی ہے۔

مصنّف (رانا سعیداحمد ایڈووکیٹ) کو یقینِ کامل ہے کہ پاکستان کے تمام مسائل اور پریشان کن حالات عقل کی دولت کی کمی کا شاخسانہ ہیں۔ مصنّف پورے وثوق کے ساتھ تحریر کر تا ہے کہ جب تک عوام کا عقلی معیار بلند نہیں ہو گا موجودہ دل خراش صورتِ حال میں بہتری نہیں ہو گی۔ قومی فرض سمجھتے ہوئے، مصنّف نے عوام کے عقلی معیار کو بلند کرنے اور ملک کے مسائل کو کم کرنے کے لیے طویل مشاہدات،تجربات،غورو خوض اور مشاورت کے بعد ایک کتاب تصنیف کی ہے اور ایک فاؤنڈیشن قائم کی ہے ۔ کتاب کا نام ’’ عقل ، اُس کے مختلف معیار اور اُن کے اثرات ‘‘ ہے جبکہ فاؤنڈیشن کا نام ’’تعمیرِعقل فاؤنڈیشن‘‘ تجویز کیا گیا ہے۔

مصنّف آپ کو یقین دلاتا ہے کہ اُس کا مقصد قوم اور ملک کی خدمت کرنا ہے اور اپنے لیے مادی دولت کی بجائے سیرت کی دولت کمانا ہے۔ اگر آپ بھی قوم اور ملک کے لیے کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو مصنّف سے رابطہ کریں،شکریہ!
جاری کردہ ’’تعمیرِعقل فاؤنڈیشن‘‘،لاہور پاکستان۔ موبائل 0321-4536069 :

بہترین پولی ڈائی برائے فروخت
تعداد ڈائی :تقریباََ 3500
پریس نمبر : 2 2 عدد
رولا مشین : 1 عدد
برائے رابطہ :
النور گولڈن ڈائی، امجد پرتاش والے کے سامنے ،گلی ہینگنان، سوہا ، بازار، لاہور
0321-7610553
0321-4536069

Rana Saeed Ahmad
About the Author: Rana Saeed Ahmad Read More Articles by Rana Saeed Ahmad: 14 Articles with 24585 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.