17 نومبر 2013۔باقر مہدی کی یاد
میں
پرانی کتابوں کا اتوار بازار، علی الصبح کا وقت، جانب بازار گامزن ہونے کے
دوران چند روز قبل احباب سے ہوئی گفتگو ذہن و قلب میں حاوی تھی۔ ہوا یوں کہ
پاکستان میں کھمبیوں کی مانند اگ آنے والے ان گنت نوزائیدہ ٹی وی چینلز میں
سے ایک نے رات آٹھ بجے اپنے پرائم ٹائم کے ایک اہم سیاسی پروگرام میں سرخی
دکھائی کہ ’’ اجلت میں کیے گئے اس فیصلے․․․․․․․․․․․․․․‘‘۔ راقم نے اس روح
پرور منظر کی ایک تصویر محفوظ کرکے فیس بک پر آویزاں کردی اور احباب کے
تبصروں کی بھرمار ہوگئی۔ ایک صاحب نے جون ایلیا کا سہارا لیتے ہوئے کہا کہ
’’یہی ممکن تھا اتنی عجلت میں‘‘۔
چند روز پیشتر پاکستان اور جنوبی افریقہ کے مابین تیسرا کرکٹ میچ کھیلا
جارہا تھا۔ ایک ’’جید‘‘ ٹی وی چینل پر اچانک سرخی چھا گئی، لکھا تھا ’’
جنوبی افریقہ کے خطرناک کھلاڑی ڈومنی آؤٹ ہوگئے‘‘۔
یا خدا۔ ہم نے سوچا۔ کیا جنوبی افریقہ کی ٹیم میں اب ڈومینیاں بھی کھیلنے
لگیں ؟
معلوم ہوا کہ یہ Jean-Paul Duminy ہیں جن کو ’’ڈومینی‘‘ کے بجائے وہ لکھا
گیا ہے جس سے ذہنوں میں ایک ’خوشگوار ‘ابہام کا پیدا ہونا ایک لازمی امر ہے۔
کچھ عرصہ پیشتر راقم نے محمود شام صاحب کا سنایا ہوا وہ قصہ یہاں احباب کے
سامنے پیش کیا تھا جس میں کچھ اسی قسم کی بات کی گئی تھی۔ یہ سب سے بڑے
چینل ہونے کے دعوے دارٹی وی چینل پر میک اپ میں لتھڑی ہوئی ایک خبریں پڑھنے
والی خاتون کا قصہ تھا۔پاکستان میں2009 میں آنے والے سیلاب کے دنوں میں کیے
گئے ایک براہ راست پروگرام کے دوران وہ ناظرین سے مدد کی درخواست کرتے ہوئے
فرمارہی تھیں کہ ’’آگے بڑھیے! ہم آپ کی دست درازیوں کے منتظر ہیں‘‘ ۔
کوئی پوچھے کہ بھلے مانسوں ، ہم ایسے لوگ کہیں پھسلے تو فرق نہیں پڑے گا ،
تم پھسل جاؤ گے تو ان گنت ناظرین بھی تمہارے ساتھ ہی غوطہ کھا جائیں گے۔
ابن صفی مرحوم نے اپنے ایک کردار علی عمران کی زبانی علامہ کے ایک شعر کو
یوں کہلوایا تھا :
خدا تجھے کسی ’’دہقان ‘‘سے آشنا کردے
کہ ترے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
صاحبو! خدا لگتی کہوں گا کہ یہ ان گنت ٹی وہ چینلیز پر براجمان ’’اینکر
پرسنز‘‘ ، صحافی کم اور اخباری ہاکر زیادہ لگتے ہیں۔ لمحے لمحے بعد بریکنگ
نیوز دینے کی دوڑ نے وہ سماں باندھا ہے کہ الامان۔ سندھ کے شہر سکھر میں
شوہر نے بیوی کو پیٹ ڈالا ․․․․․اس تاریخی موقع کی خبر ’’بریکنگ نیوز‘ کے
عنوان سے ہم نے خود دیکھی ہے۔
ریڈیو کی بھی سن لیجیے۔ ڈاکٹر اسلم فرخی سے روایت ہے کہ ذوالفقار علی بخاری
کے دور میں عابد علی عابد کی غزل ’’ بہ وصف عقل میری چاک دامانی نہیں
جاتی‘‘گائی جارہی تھی ۔ مغینہ کچھ یوں غزل سرا تھیں:
بہ وقت وصل میری پاک دامانی نہیں جاتی
ذوالفقار علی بخاری اس وقت ریڈیو سن رہے تھے۔ انہوں نے فوراً ریڈیو کے
کنڑول روم میں فون کیا اور یوں اس فاش مگر دل لبھاتی غلطی کی تصحیح کی گئی۔
٭
ٓذکر ہے اتوار بازار کا۔ اور اس مرتبہ تذکروں اور خاکوں پر مبنی کتاب ’’نیم
رخ ‘‘ نے میدان مار لیا۔ یہ کتاب ہم تک محترم عقیل عباس جعفری کی مہربانی
سے پہنچی ۔ یہ وہ نیم رخ نہیں ہے جو مجتبی حسین نے لکھی تھی۔ بلکہ یہ اس
شخصیت کی ’نیم رخ ‘ہے جو باقر مہدی کہلاتا تھا۔اکھڑ مزاج، کج رو، کج ادا،
کھرا ․․․․․․․․․ ایک کڑوا شخص۔سچ کو منہ پر دے مارنے والا انسان جس سے بڑے
بڑے نامی گرامی کنا رہ کرنا ہی عافیت سمجھتے تھے۔
میں تنگ آگئی تری بدعہدیوں سے
ان آئے دن کی باقر مہدیوں سے
|
|
شعر مذکورہ کو مشفق خواجہ نے اپنے ایک کالم میں باندھا تھا۔ راجہ مہدی علی
خاں کی ایک نظم سے لیے گئے اس شعر کو سن کر ایک مرتبہ تو باقر مہدی بھی
مسکرا اٹھے ہوں گے۔ مشفق خواجہ کا یہ کالم 28 دسمبر 1989 کو شائع ہوا تھا۔
یہ وہ دن تھے جب باقر مہدی، پاکستان میں تھے ۔ خامہ بگوش لکھتے ہیں:
’’ ہندوستان سے آئے دن ادیب آتے رہتے ہیں جن سے مل کر اور جن کی باتیں سن
کر ہم خوش ہوتے ہیں ۔لیکن اب کے ایک ایسا ادیب آیا ہے جس کے آنے کی خبر سن
کر سب پر خوف طاری ہوگیا اور مل کر ایسا محسوس ہوا جیسے سانپ سونگھ گیا ہو۔
باقر مہدی اپنی وضع کے بالکل مختلف آدمی ہیں۔ روایتی ادب اور روایتی اخلاق،
دونوں سے بیزار۔ نتیجہ یہ ہے کہ سوائے وارث علوی کے کوئی ان کو پڑھ کر خوش
ہوتا ہے نہ مل کر۔ وہ تحریر میں شمشیر عریاں ہیں تو گفتگو میں تیغ
محرف۔نوک خنجر سے لکھتے ہیں تو نیزے کی انی سے بولتے ہیں۔‘‘
نیم رخ اپریل 2005 میں ممبئی سے شائع ہوئی تھی ۔جبکہ مشفق خواجہ اسی سال
فروری میں انتقال کرگئے تھے، زندہ رہتے تو متذکرہ کتاب ضرور پڑھتے اور شاید
مزید ایک کالم لکھ ڈالتے۔ کتاب ہی کچھ ایسی ہے۔ 11 فروری 1927 کو ردولی میں
مولوی جعفر مہدی رزم ردولوی کے گھر پیدا ہونے والے باقر مہدی نے 24 ستمبر
2006کو ممبئی میں جان ، جان آفریں کے حوالے کی تھی۔
اس عالم رنگ و بو میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو غیر روایتی شخصیتوں کے
مالک ہوتے ہیں۔ ایسے ہی چند احباب کا تذکرہ جوش نے یادوں کی برات میں بھی
کیا ہے۔ ان میں ایک صاحب تھے جو یاروں کی جمی جمائی محفل کے عین درمیان ان
سبھوں کو یہ کہہ کر لتاڑ بیٹھے تھے کہ تم لوگ خود کو بوژوا کہتے ہو اور کیا
خاک کہتے ہو، بوژوائیت تو یہ ہے کہ میں کموڈ میں پلاؤ کھا سکتا ہوں جو تم
لوگ نہیں کھا سکتے۔ جوش کہتے ہیں کہ یہ عجیب و غریب دعوی سن کر سبھی پیچھے
ہٹ گئے اور ان صاحب نے کموڈ منگوا کر اسے راکھ سے دھلوایا اور اس میں پلاؤ
ڈال، شتابی سے چٹ کرگئے۔ یادوں کی برات ہی میں ایک اور شخصیت کا تذکرہ بھی
ہے جن کی والدہ کے انتقال پر ایک خلقت ان کی کوٹھی کے سامنے تعزیت کے لیے
جمع ہوگئی اور وہ اندر سے برآمد ہوئے اور مجمع کو مخاطب کرکے قریب موجود
ایک شخص سے فرمانے لگے کہ ’’ ان سب کا ہماری والدہ سے کیا تعلق ہے کہ ان کی
تعزیت کے لیے جمع ہوگئے ہیں؟‘‘
سب کے سب سر پر پاؤں رکھ کر بھاگے اور آن کی آن میں کوٹھی کا احاطہ خالی
ہوگیا۔
کچھ ایسی ہی شخصیت باقر مہدی کی بھی تھی۔ ان کا یہ شعر ملاحظہ ہو کہ اپنے
بارے میں اس قسم کا اظہار خیال دل گردے کی بات ہے:
بس میرا ذکر آتے ہی محفل اجڑ گئی
شیطان کے بعد دوسری شہرت ملی مجھے
راوی کہتا ہے کہ ایک پاکستان ادیب نے نہایت عقیدت سے باقر مہدی کی خدمت میں
اپنی کتاب پیش کی۔ باقر مہدی نے کتاب اور مصنف دونوں پر ایک نگاہ ِغلط
انداز ڈالی اور کہا ’’ اس زحمت کی کیا ضرورت ہے‘‘۔مصنف نے اپنی عقیدت کو
مزید گاڑھا کرتے ہوئے عرض کیا ’’ یہ حقیر تحفہ آپ کی نذر ہے‘‘۔ باقر مہدی
نے جواب دیا ’’ میرے اپنے ملک میں ایسے حقیر تحفوں کی کیا کمی ہے جو میں آپ
کے ملک کی کتابیں ساتھ لے جاؤں‘‘۔
ذکر ہے باقر مہدی اور ان کی نیم رخ کا۔ کتاب مذکورہ 320 صفحات پر مشتمل ہے
اور اس میں شخصی خاکوں و تذکروں کے علاوہ مختلف مشاہیر ادب کے وہ مکاتیب
بھی شامل ہیں جو مختلف ادوار میں باقر مہدی کے نام لکھے گئے تھے۔ نیم رخ
میں خلیل الرحمن اعظمی، احتشام حسین، وارث علوی، جاں نثار اختر، پروفیسر
مجتبی حسین، آل احمد سرور، مجروح سلطان پوری، سردار جعفری، انور خان، فراق
اور حسن نعیم کے خاکے شامل ہیں۔
اوپر ہم نے مشفق خواجہ کے کالم کے حوالے دیے ہیں۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب
باقر مہدی پاکستان آئے تھے۔ کالم میں ایک جگہ مشفق خواجہ لکھتے ہیں :
’’ سننے میں آیا ہے کہ باقر مہدی آج کل لاہور میں ہیں اور وہاں کی ادبی
محفلوں میں صبح وشام شرکت کررہے ہیں اور چہک رہے ہیں۔ چہکنے کی وجہ یہ ہے
کہ کشور ناہید ان کی میزبان ہیں۔کشور ناہید جہاں چاہتی ہیں انہیں لے جاتی
ہیں۔‘‘
|
|
آئیے دیکھتے ہیں کہ قیام لاہور
اور کشور ناہید کی ہم نشینی کے سبب باقر مہدی کی چہکاروں کے بیان کے برعکس
خود باقر مہدی اس بارے میں نیم رخ میں کیا لکھتے ہیں:
’’ میرے تعلقات کشور ناہید سے بھی ختم ہوگئے۔ اس لیے کہ انہوں نے میرے
’اعزاز ‘میں سنگ میل اشاعتی ادارہ اور وزیر آغا کے یہاں جلسہ رکھا۔شاید وہ
میری دعوت کا ’معاوضہ‘ ادا کرنا چاہتی تھیں۔میں نے کراچی سے 23 دسمبر 1989
میں انہیں نہایت سخت قسم کا خط لکھا ۔یہی کہ میں اس قسم کے جلسے اور اعزاز
کے خلاف ہوں۔مجھ ’غریب‘ (غریب شہر سخن ہائے گفتنی دارد)پر کیوں اتنی رحم کی
بارش کرتی ہیں۔خیر۔‘‘
باقر مہدی ایک غصہ ور شخصیت کے مالک تھے۔ چھوٹی موٹی جھڑپیں تو خیر ایک
معمول کی بات تھی البتہ ہاتھا پائی کی بھی نوبت آجایا کرتی تھی۔ سردار
جعفری کے خاکے میں انہوں نے ایسا ہی ایک واقعہ لکھا ہے ۔باقر مہدی کے
امریتا پریتم اور ساحر سے متعلق ایک گستاخانہ فقرے کو سن کر سردار جعفری اس
قدر طیش میں آگئے کہ انہوں نے باقر مہدی پر سوڈے کی بوتل کھینچ کر ماری۔
مگرشومئی قسمت کہ بوتل ساتھ کھڑے ہوئے غلام ربانی تاباں سے ٹکرا کر پاش پاش
ہوگئی۔اسی طرح ایک موقع پر باقر مہدی، قتیل شفائی کے ایک شعر کی تحریف کر
کے حسن نعیم کو ناراض کر بیٹھے، شعر یہ تھا:
اڑتے اڑتے آس کا پنچھی دور افق میں ڈوب گیا
گاتے گاتے بیٹھ گئی آواز قتیل شفائی کی
غضب تو تب ہوا جب باقر مہدی کی جھڑپ مجنوں گورکھپوری سے ہوئی۔ باقر مہدی
لکھتے ہیں:
’’ میں پہلی اور آخری بار مجنوں گورکھپوری سے ملا تھا۔ شراب کم پڑ گئی تو
حسن نعیم ایک آشنا اسمعیل کے گھر گئے اور وہاں میری چخ مجنوں صاحب سے ہوگئی۔
شاید میں نے کہا تھا کہ مجھے تھامس ہارڈی کا ناول Tess نہیں Return of the
Native پسند ہے اور آپ کا نام ’ہیا ہیا‘ اچھا نہیں لگا ہے، یہ میں نے فیض
آباد میں گلاب واڑ ی کے کتب خانے سے لے کر پڑھا تھا۔ وہ برہم ہوگئے اور
اپنی چھڑی لے کر مجھے مارنے کے لیے بڑھے۔ ہم سب مدہوش تھے مگر مجھے ان کی
بزرگی اور علمیت کا احترام تھا اس لیے بچنے کے لیے کمرے میں ادھر ادھر
گھومتا رہا ۔‘‘
اول تو باقر مہدی کا یہ لکھنا کہ ’’ہم سب مدہوش‘‘ تھے، صورت حال کو واضح
کردیتا ہے۔ مزید وضاحت اس وقت ہوتی ہے جب انہیں سطور میں ذرا آگے چل کر
باقر مہدی یہ کہتے ہیں کہ جب اس بھاگ دوڑ کے بعد انہوں نے مجنوں صاحب کی
تعریف یہ کہہ کر کی کہ وہ تو انہیں فراق سے بھی بڑا دانشور سمجھتے ہیں تو
مجنوں صاحب ساری ناچاقی یک لخت بھلا کر خوش ہوگئے۔ مجنوں صاحب یہ بھی بھول
چکے تھے کہ کچھ دیر قبل وہ باقر مہدی کو زدو کوب کرنے کی نیت سے ان کے
پیچھے بھاگ رہے تھے۔
نیم رخ میں ایک مزے دار واقعہ لکھا ہے۔ بمبئی کی ایک محفل میں جوش موجود
تھے۔ بھارت بھوشن مجمع کو چیرتے ان تک پہنچے اور کہا ’’جوش صاحب! میں نے
مرزا غالب میں غالب کا کردار ادا کیا‘ ۔جوش کو یہ مداخلت بے جا پسند نہ آئی
اور انہوں نے برجستہ جواب دیا ’ ’ میں غالب کا مخالف نہیں ہوں مگر تم نے
کیسے یہ کردار ادا کیا کہ لوگ غالب کے مخالف ہوگئے۔‘‘۔
نیم رخ میں باقر مہدی نے اپنی شادی کا قصہ خوب بیان کیا ہے۔ لکھتے ہیں:
’’ خیر النساء (باقر مہدی کی اہلیہ) سے چند لمحے گفتگو بھی ہر ہفتے ہوتی
تھی۔ میں نے اپنے اخراجات کم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس طرح سگریٹ ،چائے اور
کھانے میں کفایت سے کام لینے لگا۔ٹیکسی کا خیال بالکل چھوڑ دیا۔ اگر ٹرام
نہ ملے تو زیادہ تر بس پر سفر کرتا تھا۔ شادی کی تاریخ بڑھتی چلی جارہی تھی
مگر مجھے اس کی زیادہ فکر تھی کہ میرے معاشی حالات بہتر ہوجائیں۔ آخر 10
اکتوبر کو ہماری شادی ہوئی۔جاں نثار اختر، اختر الایمان، استاد خلیل شریک
تھے۔ 12 اکتوبر کو میرے طرف سے ضیافت کا انتظام سراج الحق کے دوست وارثی
صاحب نے تاج ہوٹل کی انیکسی میں کرایا تھا، صرف چائے کیک کا انتظام تھا۔
حیرت ہے کہ اردو کے مشہور شعراء شریک ہوئے مگر کوئی شیعہ نہ آیا۔‘‘
ہماری دسترس میں باقر مہدی پر لکھا صرف ایک ہی خاکہ ہے۔ یہ ہے انور ظہیر
خان کی دلچسپ اور جاندار تحریر ’’ کتابیں، قہقہے اور باقر مہدی ‘‘ ۔ انور
ظہیر کی اس تحریر سے باقر مہدی کی شخصیت کے مزید کئی پہلو آشکار ہوتے
ہیں۔انور ظہیر کی باقر مہدی سے پہلی ملاقات تھی جو مختصر رہی اور واپسی پر
ان کے یہ کہنے پر کہ ’’ دعاؤں میں یاد رکھیے گا، خدا حافظ‘‘‘، باقر مہدی نے
ایک قہقہہ لگا کر اپنی بیگم کو آواز دی ’’ آہاہاہاہا․․․․․․․․․․․․سنو خیری،
یہ ،یہ کیا کہہ رہے ہیں۔ دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔ دادا رے دادا۔ میں اور
دعا․․․․․دعا اور میں‘‘۔
انور ظہیر خان کے بقول جب باقر مہدی کے والد انہیں گھیر گھار کر مسجد کی
جانب لے گئے تو انہوں نے کچھ ان الفاظ میں نماز کی نیت باندھی تھی’ ’ اﷲ
تعالی، میں نیت کرتا ہوں دو رکعت کی نماز کی۔، مگر آپ کے نہیں ابا کے ڈر سے،
منہ میرا طرف کعبہ شریف کے ، اﷲ اکبر‘‘
اور باقر مہدی کے والد نے ایک زناٹے کا تھپٹر ان کے منہ پر رسید کرڈالا۔
باقر مہدی کی بھری محفلوں میں مشاہیر ادب کی بھد اڑانے کے قصے عام تھے،۔
ایسے ہی ایک واقعے کے راوی انور ظہیر خان بھی تھے۔موقع تھا مہارشٹر اسٹیٹ
اردو اکادمی کے منشی پریم چند سیمنار کا، ڈائس پر سردار جعفری، آل احمد
سرور، شمس الرحمان فاروقی، خواجہ احمد عباس وغیرہ بیٹھے تھے اور تقریر
کررہے تھے ۔لکھتے ہیں:
باری آنے پر پروفیسر آل احمد سرور نے اپنے گھمبیر لہجے میں تقریر کرتے ہوئے
جب کچھ اس طرح کے جملے ادا کیے ’’ پریم چند اور ڈاکٹر اقبال اردو کے دو بڑے
تخلیقی فنکار ہیں جنہوں نے اپنی نظر اور نظریے اور زبان و بیاں سے فکر اور
شعریات کے دھارے بدل دیے۔‘‘ ۔باقر مہدی سے نہ رہا گیا ، زور سے سر کو جھٹکا
دیا۔ہاتھ لہرایا اور کرسی پر اچھلے اور آہستہ آہستہ بولے ’’ پھ پھ پھر وہی
پہ پہ پرانی بات ، یہ ․․․․․․․․یہ درست نہیں ہے۔ درست نہیں۔‘‘
آڈیٹوریم میں ایک ہلچل سی پیدا ہوئی ۔جو لوگ ان کے قریب بیٹھے تھے، سر جھکا
کے یا رومال میں منہ چھپا کر ہنسنے لگے۔جو دور تھے، گردنیں اونچی کرکر کے
دیکھنے لگے کہ یہ آواز کس خانہ خراب کی ہے۔ سرور صاحب تقریر ختم کرکے
بیٹھنے لگے تو باقر مہدی کھڑے ہوگئے اور بولنا شروع کردیا ’’ سووو․․․سرور
صاحب․․․․اقبال اور پریم چند آپ کی پرانی کمزوری ہیں۔ آج پھر آپ نے دونوں کا
موازنہ کرڈالا جبکہ دونوں کی تھنکنگ مختلف اور ٹریٹمنٹ جداگانہ ہیں۔‘‘اور
اتنا کہتے ہی ’آہا آہا ہا‘ کہتے ہوئے کرسی میں سما گئے۔ ان آنکھوں نے دیکھا
اور کانوں نے سنا کہ اس وقت ہنسنے والے باقر مہدی تنہا نہیں تھے۔ ‘‘
مذکورہ خاکے میں انور ظہیر خان ایک موقع پر ہمیں ایک دوسرے باقر مہدی کی
جھلک بھی دکھاتے ہیں۔ شاید یہی باقر مہدی کا اصل چہرہ تھا، حساس اور درد
مند۔ یہ موقع تھا ایک ایسے سیمنار کا جہاں باقر مہدی مقالہ پڑھنے گئے تھے
اور اپنے مرحوم دوستوں ظ انصاری، عزیز قیسی اور حسن نعیم کو یاد کرتے رہے
تھے۔ تقریب کے اختتام پر ان کی آنکھیں نم تھیں اور آواز بھرائی ہوئی تھی۔
وہ انور ظہیر و دیگر سے یوں گویا ہوئے تھے :
’’ میں کیا کروں دادا رے دادا۔ سردار جعفری اور وارث علوی کو دیکھ کر مجھے
وہ تینوں دوست یاد آگئے۔ وہ صحبتیں، وہ راتیں یاد آگئیں۔ جب ہم دھوم مچاتے
تھے۔ لہکتے تھے، بہکتے چہکتے تھے اور کسی کی کسی بات پر پہروں کھنچے کھنچے
بھی رہتے تھے۔ آپ مجھ سے بہت چھوٹے ہیں۔اگر کوئی گستاخی ہو تو معاف کیجئے
گا جناب۔ آپ لوگ فرشتوں کی طرح routine life جی رہے ہیں۔ہم اور ہمارے ساتھی
خوب پڑھتے controversies پیدا کرتے ، اکھاڑ پچھاڑ ہوتی، جوش جنوں میں
گریباں پر ہاتھ ڈالتے اور جب جنوں کا پھین ختم ہوجاتا تو دامن پکڑ لیتے ،گلے
میں بانہیں ڈال کر گھومتے۔ہائے وہ کیا دن تھے۔ کیا راتیں تھیں۔کیا باتیں
تھیں۔ ہائے ہمارے مہرباں بھی کیسے کیسے تھے اور کیا کیا کر گزرے۔ معافی
چاہتا ہوں۔ نئی نسل ان نعمتوں، صحبتوں سے محروم ہے۔ ہم وحشی تھے مگر انسان
تھے۔آپ لوگ صرف انسان ہیں انسان۔ دادا رے دادا۔‘‘
٭٭٭
اتوار بازار سے ملنے والی دیگر کتابوں کی تفصیل یہ ہے:
محفلے دیدم، خاکوں کا مجموعہ،حیرت شملو ی ،مرتب: سید انیس شاہ جیلانی۔حیرت
شملوی اکادمی، محمد آباد، تحصیل صادق آباد۔اشاعت: 1981
محمد نقوش، مدیر نقوش محمد طفیل پر تحریر کردہ مضامین کا مجموعہ، سید معین
الرحمن , کاروان ادب، ملتان۔اشاعت: 1983
اردو زبان اور ادب کا خاکہ، پی ایچ ڈی کا مقالہ، ڈاکٹر خوشحال زیدی، بزم
خضر راہ، نئی دہلی۔اشاعت: 1993
کفر کے اندھیروں سے نور اسلام تک، ایک نومسلم کے قبول اسلام کی داستان ،
غازی احمد (سابق کرشن لال)، صدیقی ٹرسٹ، کراچی۔اشاعت: 1983
جرم ،جیل اور پولیس ، اسیری کی یاداشتیں، برکت علی غیور، جنگ
پبلیکیشنز۔اشاعت: 1994 |