سائیں سائیں! وہ چھوٹے سائیں نے چوہدری کریم دارکے بیٹے
کو قتل کردیا!
کیا ؟ ؟ کیا کہا ؟
نوکر نے خبر سنائی تو رحیم بخش عجیب سی کیفیت سے دوچارہوگیا ۔چوہدری رحیم
بخش اپنے علاقے کا بڑا اثرورسوخ رکھنے والا شخص تھا، سندھ کے ایک علاقے میں
اس کے نام کا سکہ چلتاتھا گوکہ اس کی رگوں میں بھی وڈیروں اور جاگیر داروں
کا خون تھا مگر شاید علم دوستی نے اس کے اندر کے انسان کو بیدار رکھا تھا
یہی وجہ تھی کہ لوگ اسے ایک حد تک پسند کرتے تھے۔
رحیم بخش جس علاقے کا وڈیرا تھا اس علاقے میں قتل وغارت ، لوٹ کھسوٹ جھگڑے
اور فسادات، آپس میں قطع تعلقی معمول کا حصہ تھے، لوگ خاندانی دشمنوں میں
بڑھ کر حصہ لینا فخر سمجھتے ، پنچایت کی خلاف ورزی کرنے والا سولی پر چڑھا
دیا جاتا۔
٭٭٭
خان سائیں چوہدری کریم دادنے کل پنچایت بلوائی ہے اور آپ کے نام بھی پیغام
بھجوایا ہے کہ ’’تم سب کو انصاف دیتے ہو تو میرے بیٹے کے بارے میں بھی
انصاف کرکے دکھاو ‘‘ نوکر نے من وعن سارا پیغام دے دیا۔
ٹھیک ہے تم کہہ دو کہ ہم آئیں گے۔
نوکر چلا گیا تورحیم بخش 12سال پیچھے چلاگیا جب ایک شخص نے اس کے بڑے بھائی
کو مار دیا اور بدلے میں پنچایت نے اس کے باپ کے حکم کے مطابق اس بات پر
صلح کی کہ قاتل کی 12 سالہ بہن ’’ونی‘‘ کے طورپررحیم کے نکاح میں دے دی
جائے۔ اس وقت رحیم بخش ایک 10سالہ بچے کا باپ تھا اور آج وہ12سالہ لڑکی ایک
8سالہ بچی کی ماں کی تھی۔
اگر آج بھی یہی تاریخ دہرائی گئی تو کیامیری بیٹی بھی ’’ونی‘‘ کی بھینٹ
چڑھے گی؟ یہ سوچ کر ہی اسے جھرجھری سی آگئی۔
8سالہ فاطمہ اس کی گودمیں بیٹھی معصومانہ سوال پوچھ رہی تھی :’’بابا!باباآپ
کو کیا ہوا ؟ مجھ سے کھیلتے کیوں نہیں؟ یہ بچی کی اپنی معصومیت تھی یا باپ
کی فطری شفقت کہ اسے اپنی بیٹی سے محبت تھی باوجود اس کے اس علاقے میں بیٹی
سے محبت ایک گالی تھی۔
نہیںنہیں !میں اپنی بیٹی کو کسی صورت میں ’’ونی ‘‘کی بھینٹ نہ چڑھائوں گا
اس نے اپنی بیٹی کے سرپرپیار دیتے ہوئے خودسے عہد کیااور باہر نکل آیاتمام
بڑے جاگیردارعلاقے کے با اثر لوگ مشورہ میں مصروف تھے اور اس کے ذہن میں
عجیب ہلچل مچ رہی تھی اگر میری معصوم فاطمہ…اس سے آگے اس سے سوچانہ گیا۔
اتنے میں پنچایت کے ایک شخص کی آواز گونجی پنچایت کے فیصلے کے مطابق اگر
چوہدری رحیم بخش اپنی بیٹی کو کریم داد کے نکاح میں دے دے تو چوہدری کریم
داد اپنے بیٹے کے خون معاف کرتاہے۔
نہیں یہ نہیں ہو سکتا!رحیم بخش کے منہ سے کرب میں ڈوبی آواز نکلی…
تو پھر ٹھیک ہے بدلے میں تمہارے بیٹے کو پھانسی دی جائے گی پنچایت کے
سربراہ نے فیصلہ سنایااور اسے ایک ہفتے کی مہلت دے کر سب اٹھ گئے ۔چوہدری
رحیم بخش کے ذہن میں عجیب اتھل پتھل مچی تھی بیٹی کو بچاتا ہے تو بیٹے سے
ہاتھ دھونے پڑتے ہیں ۔
اسی کشمکش میں آج شایدپہلی بار اس نے اپنے رب کو اتنی شدت سے پکاراتھا میرے
سوہنے رب تو تو جانتاہے کہ مجھے یہ سب رواج بالکل پسند نہیں مگر میں
دستورکے آگے مجبورہوں میرے رب میں اپنی بچی کو تیرے سپرد کرتاہوں میری
معصوم بچی کی حفاظت کرنا۔
آج اس نے اپنے رب سے وعدہ کیاتھا کہ اگر اس کی بیٹی اس فرسودہ نظام کی
بھینٹ نہ چڑھی تو وہ اپنی بچی کو دین پرلگائے گا وہ ان تمام روایات کا قلع
قمع کرے گا۔
آج پھر پنچایت بیٹھی تھی …ہاں چوہدری رحیم بخش کیافیصلہ کیا تو نے؟
میں اپنی بیٹی کو ونی میں دینے کو تیار ہوں مگر وہ ابھی بہت چھوٹی ہے
چوہدری رحیم بخش کے جواب سے سربراہوں کے درمیان کھسرپھسر ہونے لگی دوسری
طرف کریم داد اور اس کے ماتحت خوش تھے کہ چوہدری رحیم بخش کا سر جھک جائے
گا آخر پنچایت نے فیصلہ سنادیا کہ جب چوہدری کی بیٹی 18سال کی ہوگی تو اسے
ونی میں چوہدری کریم داد کو دے دیاجائے گا۔
چوہدری رحیم بخش جانتاتھاکہ یہ تمام روایات خودساختہ ہیں مگر وہ کچھ کرنے
کے قابل نہ تھا پورے علاقہ میں ان فرسودہ روایات کو ختم کرنااس کے لیے ممکن
نہ تھا۔اس نے شہرمیں کچھ لوگوں سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ یہ قانونی اور
اسلامی دونوںطرح سے ناجائز ہے۔اب وہ آہستہ آہستہ لوگوں کے ذہن بدلنے لگا اس
کی بیٹی اب 15سالہ کی تھی۔ ان سات سالوں میں وہ محض چند لوگوں کو ہی بدل
سکاتھا مگر پھر بھی مطمئن تھا۔
بیٹی کودیکھتے ہی اسے جھرجھری سی آجاتی کہاں اس کی معصوم بیٹی اور کہاں وہ
70سالہ بوڑھا شخص۔ اب اس کا ذہن آہستہ آہستہ اسلام کی طرف راغب ہونے لگا
تھا اس کی نمازیں لمبی ہوتی گئیں۔
٭٭٭
خان سائیں چند لوگ آپ سے ملنے آتے ہیں ۔کہتے ہیںکہ اس علاقے کے وڈیرے سے
ملنا ہے شہر سے آپ کے دوست نے انہیں بھیجاہے ۔نوکر نے آکر پیغام دیاتو اس
نے سرکے اشارے سے ان لوگوں کو بٹھانے کا حکم دیا۔مہمان خانے میں پہنچا تو
لوگوں کو دیکھ کر رک گیاسرپرعمامے چہرے پر سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور
سفید کرتہ شلواروں میں ملبوس۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ان لوگوں میں سے ایک نے سلام کیا۔
وعلیکم السلام!ہاں کہوکیاکام ہے؟
ہمیں شہر سے امام صاحب نے بھیجا ہے تبلیغ کے لیے بس اگر آپ ہمارے ساتھ
تعاون کریں تو ہم لوگوں کو سیدھے راستے پر لانا چاہتے ہیں اور کوئی مقصد
نہیں ہے ہمارا۔
چوہدری رحیم بخش کی تو گویا دلی مراد برآتی تھی۔ ہاں ہاں! کیوں نہیں! آپ
ہمارے علاقے میں مہمان ہوجتنے دن چاہو رہ سکتے ہو۔
چوہدری رحیم بخش نے سب کی خوب آئو بھگت کی… انہیں اس علاقے کے رسوم ورواج
بتائے اورلوگوں کے متعلق معلومات فراہم کیں۔وہ لوگ کوشش کرتے رہے اس سے یہ
فرق پڑاکہ جس مسجد میں پہلے 10 ،15نمازی آتے تھے وہ مسجد اب آباد ہونے لگی
تھی لوگوں کے ذہن بدلنے لگے۔آج ان لوگوں نے ایک بیان کرنا تھا اور اس بیان
میں علاقے کے تمام لوگوں کے علاوہ چوہدری کریم داد کو بھی بلایاتھا۔
ان لوگوں میں سے ایک بزرگ کھڑے ہوئے اور ان سے گویاہوئے:
بھائیو بزرگو دوستو !!جیساکہ آپ لوگ جان چکے ہیں کہ ہم لوگوں میں کس قدر
فرسودہ رسمیں رواج پاچکی ہیں جن چیزوں سے ہمیں ہمارے پیارے نبی صلی اللہ
علیہ وسلم نے منع فرمایا ہم ان چیزوں کے حصول کے لیے جھگڑرہے ہیں۔ محض اپنی
اَنا کی تسکین کے لیے ،دوسروں پر ظلم کرتے ہیں ،ہمیں نماز پڑھنے کاحکم ملا
مگر ہم اس سے غافل رہے، ہمیں زکوۃ دینے کاحکم ملا مگر ہم مکروفریب کرتے رہے
ہمیں جھگڑوں اور فتنہ فساد سے باز رہنے کا حکم ملا مگر ہم فتنہ فساد کرتے
رہے حالانکہ یہ تواسلام سے پہلے عربوں کی حالت تھی اور یہ زمانہ جاہلیت کے
لوگ تھے جوبیٹی کو اپنے لیے گالی سمجھتے تھے اسے زندہ درگورکردیتے اسلام نے
تو بیٹی کو رحمت کہاہے آپ کی حدیث کا مفہوم ہے کہ جس کی دوبیٹیاںہوں اور وہ
ان کی بہترین پرورش کرے پھر ان کو اچھے طریقے سے رخصت کرے توہ جتنی ہے اور
ہمارے نبی ﷺتو اپنی بیٹی کے استقبال کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے تھے ان کی پیشانی
پر بوسہ دیتے اور اسے احترام دیتے اسلام نے بیٹی کو عزت دی کہ اس کا نکاح
بھی اس کی مرضی کے بغیر نہ کیاجائے گا۔
مگر آج ہم لوگ زبردستی بیٹی کا نکاح کردیتے ہیں چوہدری کریم داد اور علاقے
کے لوگوں کے چہرے شرم سے جھکے ہوتے تھے بزرگ نے اپنا سلسلہ کلام جاری رکھا
اور کہنے لگے کہ ’’ونی‘‘ کی رسم بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے بیٹی بوجھ
نہیں بلکہ رحمت ہے اس کی اچھی تربیت کرو پھر اسے اچھے طریقے سے اپنے گھر سے
رخصت کرو نہ کہ اس طرح جس طرح تم اپنے گناہوں کی سزا بھی اسے دیتے ہو۔
اللہ کے بندو !جو کچھ کرچکے اس پر معافی مانگو اور آئندہ اپنے رب سے نہ
کرنے کا عزم کرو اپنی بیویوں سے اچھے طریقے سے پیش آئو! آپ صلی اللہ علیہ
وسلم اپنی بیویوں سے حسن اخلاق سے پیش آتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا خیر کم خیرکم لاھلہ وانا خیر کم لاھلی(تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے
گھر والوں کے لیے بہترین اور میں تم میں سے اپنے گھروالوں کیلیے سب سے
بہترہوں)
یہ کہہ کربزرگ نے سب لوگوں کی طرف دیکھاتو اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے
تھے چوہدری کریم داد اٹھ کھڑا ہوا اور بولا:’’ میں اپنے بیٹے کاخون معاف
کرتا ہوں اس شرط کے ساتھ کہ آئندہ ہمیشہ کے لیے ہمارے علاقے سے ’’ونی‘‘ کی
یہ فضول رسم ختم کردی جائے گی۔‘‘ سب نے تائید میں سرہلادیے اور چوہدری رحیم
بخش کی آنکھوں میں تشکر کے آنسو امڈ آئے ۔ |