ہر فرد کو مسلمان اور پاکستانی
کی حیثیت سے اپنے دین اور ملک کی اسلامی و نظریاتی سرحدوں کا دفاع کرنا
ہوگا؟:تحریر۔ممتاز خان
اسلام ہمیں امن ،محبت اور قربانی کا درس دیتا ہے،محرم الحرام کے مہینے میں
نواسہء رسول ﷺ نے گردن کٹواکر اور نیزے پر قرآن کی تلاوت کرکے ثابت کردیا
کہ’’ اسلام زندہ رہتا ہے ہر کربلا کے بعد،،اسلامی سال کا آغاز محرم الحرام
سے ہوتا ہے ایک حدیث مبارک میں حضورﷺ نے ماہ محرم کو ’’شہراﷲ،، یعنی اﷲ کا
مہینہ قرار دیاہے،اسی ماہ کی دس تاریخ کو تخلیق انسانیت کا آغاز ہوا،اسی
روز حضرت آدم ؑ کی توبہ قبول ہوئی،اسی دن حضرت نوح ؑ کی کشتی کنارے سے
لگی،اسی روز رب کائنات نے حضرت ادریس ؑکو آسمان پر بلایا،اسی دن اﷲ تعالیٰ
نے حضرت یونس ؑ کو مچھلی کے پیٹ سے نکالااور ان کی توبہ قبول فرمائی اور
اسی روز حضرت موسی ؑ اور ان کے ساتھیوں کو فرعون سے نجات عطا فرمائی،اسی
ماہ میں تاریخ اسلام کے اوراق پر دو اہم واقعات نقش ہوئے ان میں سے پہلا
واقعہ مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ اور خسر رسول ﷺ حضرت عمر فاروق ؓ کی شہادت
،جبکہ دوسرا واقعہ نواسہ رسول اکرمﷺ حضرت حسین بن علیؓ اور ان کے 72 رفقاء
کی مظلومانہ شہادت ہے،حتیٰ کہ قیامت بھی دس محرم کو قائم ہوگی،اس وقت کے
معروضی حالات میں نواسہ رسول اکرمﷺ حضرت حسین بن علیؓ کے سامنے دو ہی راستے
تھے ،پہلا یہ کہ وہ باطل کے سامنے جھک جائیں ،اس کی اطاعت قبول کرلیں اور
پھر اقتدار میں شریک ہوجائیں ،امن و چین کی زندگی بسر کریں اورجاہ و مال
بھی حاصل کرلیں،دوسرا راستہ یہ تھا کہ وہ طاقت ور دشمن کے سامنے سینہ سپر
ہوجائیں،اقتدار کے ایوانوں سے ٹکرا جائیں اپنی گردن کٹواکر حق کا پرچم
سرنگوں نہ ہونے دیں،لہٰذا انہوں نے اپنے نانا ﷺ کی پیروی کرتے ہوئے ہر قسم
کی دنیاوی منفعت کو ٹکرا کر اور تما م مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے
اپنے لیئے وہ پرخار راستہ منتخب کیا جو تمام انبیاءؑ کا راستہ تھا جس پر
شہادت یقینی تھی،پس انہوں نے حق کی راہ میں شہادت تو قبول کرلی لیکن باطل
کے سامنے سر نہ جھکایااور اصولوں پر سودے بازی نہیں کی،یہی وہ جذبہ ہے جس
پر چلنے کی آج بھی اشد ضرورت ہے،ایک دوسرے کے گلے کاٹنا؟ایک دوسرے مسالک کی
عبادت گاہوں پر حملے کرنا،معصوم اور بے گناہ لوگوں کی جانیں لیناان کی
املاک کو جلانا کہاں کا انصاف ہے؟معاشی مسائل اور معاشرتی ناہمواریوں کے
سبب ایک دوسرے کی برداشت ختم ہوتی جارہی ہے ،ہم ایک دوسرے کو نشانہ بنائے
بیٹھے ہیں لیکن دشمن ہمیں نشانہ بنائے بیٹھاہے اور اس تاک میں ہے کہ بھائی
کو بھائی سے لڑاکرقومی امن،اتحاد اور یکجہتی کو پارہ پارہ کرکے پاکستان
کو(خدانخواستہ) برباد کردیا جائے،ہر فرد کو یہ سمجھنا ہوگا ایک مسلمان اور
پاکستانی ہونے کے ناطے اپنے دین اور ملک کی اسلامی و نظریاتی سرحدوں کا
دفاع کرنا ہوگا،یوم عاشور کے موقع پر راجہ بازار سانحہ نے ایک بار پھر
کربلا کی یاد تازہ کردی ہے؟،آخر ہم کب تک غیروں کے نشانے پر رہیں گے؟ ،وقت
کا تقاضا ہے کہ بین المذاہب ہم آہنگی،امن اور احترام انسانیت کے فروغ کیلئے
تعلیمات امام حسینؓ کو مشعل راہ بنایا جائے،اگرچہ سانحہ راولپنڈی پر عدالتی
تحقیقات کا آغاز ہوگیاہے اور100 نامعلوم شرپسندوں کیخلاف دہشت گردی اور
اقدام قتل سمیت دیگر دفعات کے تحت مقدمات بھی درج کیئے گئے ہیں،حکومت نے
شہر میں قیام امن کیلئے کرفیو سمیت دیگر ضروری اقدامات بھی کیئے لیکن اب
کرفیو اٹھالیا گیا ہے،تاجروں کے نقصانات کا تخمینہ لگانے کیلئے کمیٹیاں بھی
بنائی گئیں ہیں، ڈبل سواری پر پابندی کے ساتھ دفعہ 144 بھی نافذ ہے،ااس
المناک واقعہ کا سبب جانچنے کیلئے ضروری ہے کہ پتہ چلایا جائے کہ یوم عاشور
کے موقع پر سخت حفاظتی اقدامات کے باوجودجلوس میں خطرناک اسلحہ اور پٹرول
کیسے پہنچا؟اور وقت مقررہ نماز جمعہ سے قبل جلوس کیسے روانہ کردیا گیا؟اور
سرکاری اہلکاروں سے رائفلیں چھیننے والے اور معصوم شہریوں کو موت کے گھاٹ
اتارنے والے عناصر کون تھے؟یہ سب معلوم نہیں ہوجاتا تو امن کیسے قائم
ہوگا؟پنجاب حکومت نے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ سے پہلے ہی آر پی او، سی
پی او اور ایس ایس پی سیکورٹی کا تبادلہ کردیا ہے اورحادثے میں جاں بحق
ہونے والوں کے لواحقین کو امدادی چیک تقسیم کیئے جارہے ہیں جلائی گئی
دکانوں کے متاثرین کو بھی معاوضہ دینے کا اعلان کیا ہے ، وزیر اعلیٰ پنجاب
میاں شہباز شریف اور وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے فہم و تدبر و
فراست سے مسئلہ حل کرنے کی کوششیں کیں ،مذہبی راہنماؤں مولانا سمیع الحق
اور مولانا فضل الرحمٰن کا تعاون بھی حاصل کیا گیا،فرقہ واریت کی آگ بجھانے
کیلئے عوام کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا،راولپنڈی جیسے پرامن شہر کو نہ
جانے کس بدبخت کی نظر لگ گئی ہے،خدا تعالیٰ زندگی کی رعنائیوں سے بھرپور اس
شہر کوہر نظر بد سے بچائے۔(آمین ثمہ آمین)۔ |