کیاخوف خدا اور پاسِ رسول ﷺ ہے؟

میں نے ہمیشہ یہی دیکھا اور سنا کہ جب کبھی کوئی سانحہ رونما ہوا تو بڑوں کے بیاناتِ مذمت آئے، ہم یہ برداشت نہیں کریں گے ہم وہ برداشت نہیں کریں۔ ہم نے کمیشن تشکیل دیدیا ، ہم نے انکوئری کا حکم دیدیا، ہم نے تین ماہ میں، ایک ماہ میں یا ایک ہفتہ میں رپورٹ طلب کرلی۔ جو قصور وار ہوگا اسکے خلاف ہم سخت کاروائی کریں گے ، اسے نشانِ عبرت بنادیں گے۔ ہم نے سنا کہ سلطان راہی نام کا فلمی اداکار تھا اﷲ اسے بخشے جب کوئی آدمی انہونی بات کرتا ہے تو لوگ کہتے ہیں کہ یہ سلطان راہی والی بڑھک کے سوا اور کچھ نہیں۔ٹریبیونلز،کمیشن اور انکوائری کمیٹیوں کے فوائد سے عوام کو تو انصاف نہ ملا البتہ اراکین کمیٹی کی جیبیں ضروری بھردی گئیں۔ شدید مذمت اور افسوس سے کتنی جانیں واپس آئیں اگر وہ نہیں آئیں تو مزید کتنی جانوں کی ہلاکتوں کا سد باب کیا گیا؟ حکمرانوں کو مغربی جمہوری نظام اقتدار میں لایا ہے۔ یہ لوگ کوئی بھی ٹھوس قدم نہیں اٹھا سکتے اور نہ ہی دلیرانہ طریقہ سے قانون کا نفاذ کرسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں قانون تو ہے مگر قوت نافذہ مفلوج ہے۔ یہی دیکھیں کہ محرم الحرام کے مقدس دنوں کی بے حرمتی کی گئی۔کیا یہ کوئی غیر ملکی سازش ہے؟ میرے علم کے مطابق یہ پاکستان اور ہندوستان ہی ہیں کہ جہاں ان دنوں میں مختلف نوعیت کے جلوس نکالے جاتے ہیں ۔جن بزرگوں کی یاد میں یہ سب کچھ ہوتا ہے ان کی تعلیمات کو یکسر پس پشت ڈالا جاتا ہے۔ ایسی ہستیوں کی شان میں زبان درازی کی جاتی ہے کہ جنہوں نے اﷲ کے رسول پاک ﷺ کی جانشینی کا حق اداکرتے ہوئے دین کو مستحکم کیا۔ ٹی وی پر مولانا طاہر اشرفی صاحب نے واضح کیا کہ عزاداروں کا جلو س جب دارالعلوم تعلیم القرآن کے پاس پہنچا تو جلوس میں شامل لوگو ں نے خلفاء راشدین کے خلاف زہر افشانی کی۔ جس پر مدرسہ کے طلبا نے ان پر پتھر پھینکے اور لاؤڈسپیکر سے نعرہ بازی کی۔ جس کے بعد جلوس میں سے بعض لوگوں نے پولیس سے بندوقیں حاصل کرکے مدرسے میں داخل ہوکر نہتے طلبا اور اساتذہ کو گولیوں سے چھلنی کردیا جبکہ کچھ دیگر افراد کہ جنکے پاس پہلے سے پٹرول موجود تھا، وہ دکانوں میں پٹرول چھڑکتے گئے اور آگ لگاتے گئے۔ اس دوران پولیس کی بھاری نفری اور انکے اعلی افسران نے شرپسندوں کو روکنے کی بجائے فرار ہونے میں ہی اپنی عافیت سمجھی اور شرپسندوں کو قتل و غارتگری اور نجی املاک کو تباہ کرنے کے لیئے فری ہینڈ دیا۔ جب پولیس فرار ہوگئی تو ڈی سی او کو پاک آرمی سے امداد لینی پڑی اور اس طرح کرفیو کا نفاذ کردیا گیا۔ دوسرے روز مقتول طلبا کی نماز جنازہ جن حالات میں اداکی گئی اس سے بھی ہر کوئی آگاہ ہے۔ کرفیو سے کاروبارِ زندگی مفلوج ہوگیا جو ابھی تک بحال نہ ہوسکا۔کہنے کو حکومت ہے مگر عملانہیں ہے کیونکہ ٹماٹر دو صد روپے کلو اور آلویکصد روپے کلو ،مٹر یکصد اسی روپے کلو،شیور انڈا تیس روپے کھلے عام بک رہاہے تو دوسری اشیاء کا بھی یہی عالم ہے ۔ یوٹیلیٹی سٹورز سے بھی اشیا غائب ہیں ۔ چینی دکانوں پر بلیک کی جارہی ہے۔ عوام کو اشیاء خوردنی کی مناسب داموں پر فراہمی کس کی ذمہ داری ہے؟ حکمرانوں کو نہ خوف خدا ہے اور نہ ہی پاس رسول حضرت محمد ﷺ ۔ اس اندوہناک سانحہ کے تناظر میں یہ کہوں گا کہ حضور سیدالمرسلین ﷺ کے صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم اور اہلبیت رضی اﷲ عنھم ایک متحدہ قوت تھے۔ با لخصوص سیدنا حضرت ابو بکرصدیق رضی اﷲ عنہ اور سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کی اسلام کے لیئے خدمات بے مثال ہیں۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے اپنا مال اسلام اور حضور ﷺ پر خرچ کیا۔ ایمان لانے والے پہلے پانچ میں سے ایک ہیں۔سفر ہجرت میں تمام خطرات کے باوجود صرف آپ ہی رفاقت رسول عالمین ﷺ سے مستفیذ ہوئے۔ اپنی بیٹی سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا حضور ﷺ کی زوجیت میں دی جو اﷲ کے حکم سے مومنوں کی ماؤں میں شامل ہوئیں۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ اگر تمام مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر جھوٹے مدعیان نبوت اور منکرین زکوۃ کا مقابلہ نہ کرتے تو اﷲ کا دین ہم تک نہ پہنچتا۔

سیدنا عمرفاروق رضی اﷲ عنہ اسلام کی وہ قوت ہیں کہ آپکے ایمان لانے پر بیت اﷲ شریف میں پہلی مرتبہ نماز ادا کی گئی۔ رسول اﷲ ﷺ کے فرمانِ عالیشان کے مطابق شیطان آپ سے ڈرتا تھا۔ عشق اور احترامِِ رسول کا یہ عالم تھا کہ گستاخِ رسول کا سر تن سے جدا کرنے کے لیئے پرجوش رہتے تھے۔ اور کئی مرتبہ ایسا کر گزرے۔ آپکی صاحبزادی سیدہ حفصہ رضی اﷲ عنہاحضور ﷺ کے نکاح میں آ ئیں اور بحکم قرآن مومنوں کی ماؤں میں شامل ہوئیں۔ تو پہلے دونوں خلفاء حضور سیدالعالمین ﷺ کے سسر ہوکر مومنوں کے لیئے مزید احترام کے لائق ہوئے۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کا دیا ہوا نظام حکومت غیر مسلموں نے بھی قبول کیااور کہہ اٹھے کہ سیدنا عمرفاروق رضی اﷲ عنہ کا دیا ہوا نظام حکومت انتہائی مکمل اور انسانیت کے حقوق کی ضمانت ہے۔ اسی طرح سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ نے اپنے خاندان والوں کی جانب سے ایمان لانے کی پاداش میں ہوشربا مظالم برداشت کیئے، اپنے مال سے مسلمانوں اور اسلام کی بھرپور خدمت کی، غزوہ تبوک کے لشکر کو سرور کون و مکاں ﷺنے جیش عسرت قرار دیا ۔ جیش عسرت کو مسلح کرنے والے کے لیئے جنت کی بشارت فرمائی۔ اس موقع سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ نے ایک ہزار سے زائد مجاہدین کو سواریاں، ہتھیار اور توشہ دان فراہم کیئے اور منوں چاندی بھی سرکار عالمیں ﷺ کی خدمت میں پیش کی تو اﷲ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ آج کے بعد عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کوئی نیکی نہ کریں توبھی ان کے لیئے جنت ہے۔ اﷲ کے رسول ﷺ نے انکے نکاح میں یکے بعد دیگرے اپنی دوصاحبزادیاں دیں جب دوسری نے انتقال فرمایا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر میری اور صاحبزادیاں ہوتیں تو میں یکے بعد دیگرے عثمان رضی اﷲ عنہ کے نکاح میں دیتا۔ اسی وجہ سے آپ کو ذوالنورین رضی اﷲ عنہ کا لقب ملا یعنی دو نوروں والے۔ اعلیٰ حضرت رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ آقا تو ہے نور عین تیرا سب گھرانہ نور کا۔ سیدنا حضرت علی کرم اﷲ وجھہ کی تربیت خود نبی کریم ﷺ نے فرمائی۔ پھر اپنی صاحبزادی سیدۃ النساء فاطمہ رضی اﷲ عنہاآپکے نکا ح میں دی ۔اس سے آپکے اعزاز و اکرام میں مزید اضافہ ہوا۔ مباہلہ کے پانچ میں سے ایک آپ رضی اﷲ عنہ ہیں۔ پہلے خلفاء کے دور میں انکے مشیر تھے اور کئی امور میں انکی رہنمائی کرنے کا اعزاز اس امر کا مظہر ہے ان حضرات میں کس قدر ہم آہنگی، پیار و محبت اور رشتہ ایمان کتنا مستحکم تھا۔ وہ سبھی ایک گھرانے کے افراد تھے کہ دو تو اﷲ کے رسول ﷺ کے سسر اور دو داماد تھے۔ ان میں سے کسی کے ساتھ اگر کوئی بغض رکھے اور ان پر تبرا کرے، برابھلا کہے تو وہ ہرگز مسلمان نہیں وہ خارجی ہے۔ لھذا مسلمان اس امر کو ملحوظ خاطر رکھیں اور ایمان پر قائم رہنے کے لیئے ان سبھی کا دل و جان سے ادب و احترام بجا لائیں۔ اب اس گفتگو کے بعد یہ کہنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ راجہ بازار میں جن لوگوں نے ان مقدس ہستیوں کے بارے زبان درازی کی ،قتل عام کیا اور املاک کو نذر آتش کیا انہوں نے اسلام سے غدر کیا ، وہ دہشت گرد ہیں۔ مختلف ذرائع سے انکی جو تصاویر لی گئیں ، تو شناخت آسان ہے ۔ انہیں گرفتار کرکے بلاتاخیر ان پر قانون کا اطلاق کیا جائے۔محترم جناب جسٹس مامون الرشید صاحب کی سربراہی میں قائم کمیشن سے عوام کو شفاف تحقیقات اور انصاف کی توقع ہے لیکن نتائج پر عمل درآمد کرنا حکومت کا کام ہے اگر حکومت نے اپنے فرائض کی تکمیل میں کوتاہی کی تو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے کوئی بڑی مصیبت نازل ہوگی۔تجویز ہے کہ ہر طرح کے جلسے جلوس چاردیواری تک محدود کرنے کے احکامات جاری کردیئے جائیں۔ نام نہاد امن کمیٹیاں ختم کردی جائیں کیونکہ انکے کے اراکین صرف ذاتی تشہیر کے خواہشمند ہوتے ہیں ۔جن پولیس افسران نے شرپسندوں کے خلاف کاروائی کرنے کی بجائے راہ فرار اختیار کی اور پورے ملک کو پریشانی میں مبتلاکیا انکے خلاف سخت کاروائی کی جائے۔ اﷲ حکمرانوں کو مثبت اقدامات کی توفیق عطا فرمائے اور امت متحد رہے آمین۔
AKBAR HUSAIN HASHMI
About the Author: AKBAR HUSAIN HASHMI Read More Articles by AKBAR HUSAIN HASHMI: 146 Articles with 128232 views BELONG TO HASHMI FAMILY.. View More