جب میں نے پہلی بار ٹی وی پر
عمران خان کا نیٹو سپلائی بند کرنے سے متعلق بیان سنا تو دیگر بہت سے لوگوں
کی طرح میں نے بھی ان کے اس فیصلے کو (بھلے ہی یہ فیصلہ عوامی امنگوں کا
ترجمان تھا) غلط جانا کیوں کہ یہ اختیار وفاق کا ہے۔ کیونکہ اگر اسی طرح
تمام صوبے اپنے فیصلے خود کرنے لگ جائیں تو وفاق کی بالادستی اور ریاست کے
مطلق العنان ہونے کا تصور لا معانی سا لگنے لگتا ہے۔اس حقیقت سے انکار ممکن
نہیں ڈرون حملوں میں بہت سے معصوم شہریوں کی شہادت ہوئی ہے تاہم امریکہ
بہادر اسے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں بہت بڑی کامیابی گردانتا ہے اور حکومت
وقت بھی پچھلی حکومت کی طرح صرف بیانات کی سیاست پر اکتفا کئے ہوئے ہے۔
20 نومبر کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ کے اجلاس میں وزیر اعظم کے
مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیزنے یہ بتایا تھا کہ امریکہ کو یہ بات واضح
کر دی گئی ہے کہ شمالی علاقہ جات میں ڈرون حملوں کے منفی نتائج سامنے آ رہے
ہیں اور رواں ماہ کے اوائل میں کالعدم تحریک طالبان کے سربراہ حکیم اﷲ
محسود کی ڈرون حملے میں ہلاکت سے حکومت پاکستان اور طالبان کے مابین جاری
امن مذاکرات متاثر ہوئے ہیں۔ سرتاج عزیز نے یہ دعوی بھی کیا کہ امریکہ نے
یقین دہانی کروا دی ہے کہ آئندہ مذاکرات کے عمل کے دوران کوئی ڈرون حملہ
نہیں کیا جائے گا۔
سینیٹ کے مذکورہ اجلاس کو ابھی 24گھنٹے بھی نہ ہوئے تھے کہ خیبر پختونخواہ
کے علاقہ ہنگو میں ایک مدرسے پر ڈرون حملہ کر دیا گیا۔ 21 نومبر کو صبح
ساڑھے چار بجے تحصیل ٹل میں مدرسہ دارالعلوم قرآن پر چار میزائل داغے گئے ۔
بتاتا چلوں کہ خیبر پختونخواہ کی حدود میں یہ پہلا ڈرون حملہ ہے۔ اس حملہ
میں تین اساتذہ اور تین طلباء شہید ہو گئے جبکہ آٹھ طلباء کے ذخمی ہونے کی
بھی اطلاعات ہیں۔ غیر ملکی میڈیا اس مدرسہ کو حقانی نیٹ ورک کا ٹھکانہ قرار
دے رہا ہے اور مارے جانے والوں کا تعلق افغانستان سے بتایا جا رہا ہے۔
ڈرون حملہ کے بعد دفتر خارجہ کی طرف سے وہی ایک رسمی سا بیان سامنے آیا کہ
ڈرون حملے فوری بند ہونے چاہیے، یہ ملکی سلامتی و خودمختاری کے خلاف ہیں
وغیرہ وغیرہ۔
اگر یہ بات مان بھی لی جائے کہ ان کا تعلق حقانی نیٹ ورک سے تھا اور وہ غیر
ملکی تھے تب بھی امریکہ کو یہ اختیار کس نے دیا کہ وہ ہماری سرزمین پر اپنی
من مانی کرتا پھرے۔ کیا ہماری اپنی فوج نہیں ہے۔ملک ہمارا، علاقہ ہمارا،
امریکہ دنیا کے دوسرے کونے سے آ کر تیس مار خان بنتا پھرے۔
خیبر پختونخواہ میں ہونے والے اس ڈرون حملے پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے
ہوئے چئیرمین تحریک انصاف عمران خان نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے
ہوئے کہا کہ ڈرون حملہ جنگی جرم ہے اور ڈرون حملوں پر حکومت پر توہین عدالت
بھی لاگو ہو سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ آج ہماری زمین پر حملہ ہوا ہے ، اب ہم
نیٹو سپلائی روکنے کا قانونی حق رکھتے ہیں ۔ عمران خان نے کہنا تھا کہ
23نومبربروز ہفتہ کورنگ روڈ پشاور پر دھرنا دیا جائے گا اور نیٹو سپلائی اس
وقت تک بند رکھی جائے گی جب تک ڈرون حملے بند نہیں کر دئیے جاتے۔ میں عمران
خان کے جذبات کی قدر کرتا ہوں ۔ میری تحریک انصاف سے کوئی سیاسی وابستگی
نہیں مگرمیری ناقص رائے میں اس اہم حساس ترین معاملے پر وہ پاکستان کے واحد
سیاسی راہنما ہیں جنہوں نے حب الوطنی کا ثبوت دیا۔
نیٹو سپلائی کی بندش صوبائی اختیار ہے یا وفاقی، اس بحث سے قطع نظرڈرون
حملوں سے متعلق جو چند بنیادی سوالات اٹھتے ہیں وہ یہ کہ جب حکومت خود
اعتراف کر چکی ہے کہ ڈرون حملوں میں بہت سے معصوم لوگوں کی شہادت ہوئی ہے
جو کہ پاکستانی شہری تھے تو پھر کیونکر انہیں اڈے فراہم کئے گئے ہیں۔
اگرہماری فوج ڈرون گرانے کی صلاحیت رکھتی ہے توپھر حکومت کیوں فوج کو ڈرون
گرانے کی اجازت نہیں دے رہی۔اگر نیٹو سپلائی روکنا وفاق کا کام ہے تو
انتظار کس بات کا ہے۔ آج ہنگو پر حملہ کیا گیا ہے، کیا کل کو پشاور، پرسوں
کراچی، پھر لاہور، کوئٹہ۔۔۔ کیا اسی طرح ہم تماشہ دیکھتے رہیں گے۔ کیا فوج
صرف فوجی مشقوں میں ڈرون گرا گرا کر اپنے با صلاحیت اور حکومت کے بے حس
ہونے کا پتہ دیتی رہے گی؟؟؟؟
قانتہ تحریم ؔ کے الفاظ میں حکومت وقت سے میرا سوال ہے کہ
تو کیا یہ طے ہے کہ اب سوچنا نہیں ہر گز
تو کیا یہ طے ہے کہ سب کچھ گنوا کے دم لو گے |