راوالپنڈی کے راجہ بازار میں فائرنگ کے بعد دوگروپوں میں
مسلح تصادم کے نتیجے میں آٹھ افراد جاں بحق اور چالیس سے زائد افراد زخمی
ہوئے تھے۔ ان زخمیوں کو ہسپتال پہنچایا گیا تو دوزخمی دم توڑ گئے جس سے
ہلاکتوں کی تعداد دس ہوگئی۔ تصادم کے دوران شرپسندوں نے فیصل کلاتھ مارکیٹ
کو آگ لگادی۔ دیکھتے ہی دیکھتے آگ نے اردگرد کی دکانوں کو بھی لپیٹ میں لے
لیا۔ شرپسندوں نے بازارمیں توڑ پھوڑکی۔ کشیدہ صورتحال کے باعث پولیس کی
بھاری نفری پہنچ گئی۔ لیکن وہ حالات کنٹرول کرنے میں ناکام رہی۔ جب کہ
شرپسندوں کی جانب سے آگ بجھانے والی گاڑیوں کو آگ بجھانے سے بھی روک دیا
گیا۔ حالات قابو سے باہرہونے کے بعد شہر میں امن واما ن کی صورت میں تمام
ترذمہ داری فوج کے حوالے کردی گئی۔ پاک فوج نے شہر کے انیس تھانوں کی حدود
میں کنٹرول سنبھال لیا۔ شہر میں موبائل سروس معطل کردی گئی۔ ایف اے کے ضمنی
امتحانات بھی ملتوی کرنے پڑے۔ علاقے میں کشیدگی کے باعث سول ہسپتال کو جانے
والے راستے بندہوگئے۔ جس کی وجہ سے مریضوں کو سخت پریشانی کا سامنا کرنا
پڑا۔ وزیراعلیٰ کی صدارت میں اجلاس کے بعد شہر میں کرفیوبھی نافذکردیا گیا۔
جو یہ سطورلکھنے تک اٹھالیا گیا۔ اور دفعہ ایک سو چوالیس برقراررکھی گئی ہے۔
پنجاب کے وزیرقانون رانا ثناء اﷲ نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ
صوبائی حکومت نے راولپنڈی میں دوگروپوں کے درمیان تصادم کی جوڈیشل انکوائری
کا حکم دے دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ذمہ داروں کے خلاف دہشت گردی ایکٹ کے
تحت سخت کارروائی کی جائے گی۔
یہ تصادم صرف راولپنڈی میں ہی نہیں ہوا۔ ملتان اورچشتیاں میں بھی ہوا ہے۔
اس کی تفصیلات کچھ یوں ہیں کہ ملتان کے تھانہ کپ کے علاقے میں کالے منڈی
میں دسویں محرم الحرام کو دوران جلوس ایک شخص نے شرانگیز تقریر کی جس سے
دوسری مذہبی جماعت کی دل آزاری ہوئی۔ جس کی درخواست تھانہ کپ میں کاروائی
کے لئے دی گئی۔ پولیس نے فوراً مقدمہ درج نہ کیا۔ جس پر لوگ مشتعل ہوگئے۔
گیارھویں محرم کو بازار میں اکٹھے ہوکردوسری مذہبی جماعت کے خلاف نعرے بازی
کرنے لگے مشتعل ہو کر علم اکھاڑ دیا اور گردلگاہوا جنگلا بھی توڑدیا۔ جس پر
دوسرے مذہبی گروہ نے اشتعال میں آکر حملہ کردیا۔ ایک دوسرے پر فائرنگ ،
ڈندوں اور اینٹوں کے بے دریغ استعمال سے دوافراد جاں بحق اور 23افرادزخمی
ہوگئے۔ چشتیان میں صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کی شان میں مبینہ
گستاخی اورنازیبا الفاظ کے استعمال کے بعد مذہبی جماعتوں کی اپیل پر شہر
میں مکمل شٹرڈاؤن اور ہڑتال کے بعد مظاہرین سڑکوں پر آگئے۔ پولیس نے
مظاہرین کو مشتعل کرنے کے لئے آنسو گیس استعمال کی۔ اور ہوائی فائرنگ کی۔
کئی گھنٹے ہائی وے روڈ میدان جنگ بنا رہا۔ لیکن مظاہرین مزید مشتعل ہوتے
رہے دو دکانوں کو آگ لگادی۔ بعد ازاں پاک آرمی کو طلب کرلیا گیا جس نے شہر
کا کنٹرول سنبھال لیا۔ ابھی راولپنڈی میں لگنے والی آگ کی تپش باقی تھی کہ
کوہاٹ میں بھی فساد شروع ہوگیا۔ وہاں دوگروپوں کے درمیان جھڑپ میں فائرنگ
سے دوپولیس اہلکار سمیت تین افراد جاں بحق ہوگئے۔ فائرنگ کے واقعے میں تین
افراد کی ہلاکت کے بعدشہر میں کشیدگی پھیل گئی۔ بازاراور دکانیں بندکرادی
گئیں۔ اس دوران مشتعل افراد نے درجنوں کو آگ لگا دی۔ ان حالات کی وجہ سے
کوہاٹ کرفیو نافذکردیاگیا۔
مختلف سیاسی او ر مذہبی قائدین نے سانحہ راولپنڈی پر دکھ اور گہرے افسوس کا
اظہار کرتے ہوئے اسے امن تباہ کرنے کی سازش قراردیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن
نے کہا ہے کہ واقعہ قابل مذمت اور امن تباہ کرنے کی سازش ہے۔ حکومت واقعہ
کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے۔ مولانا محمد احمد لدھیانوی اور
مولانا سمیع الحق نے راول پنڈی واقعے کوانتظامیہ کی نااہلی قراردیتے ہوئے
تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ حافظ طاہر اشرفی نے کہا کہ راول پنڈی واقعہ انتہائی
افسوسناک ہے۔ وزیراعلیٰ خود صورتحال کو معمول پر لانے کے لئے اقدامات کریں۔
شیخ رشید نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ ایم
کیو ایم کے الطا ف حسین نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی اور صوبائی
حکومتوں سے ملوث عناصر کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے
تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد سے مشتعل نہ ہونے کی اپیل کی۔
مجلس وحدت مسلمین نے واقعہ کی شدید مذمت کی اس کے ترجمان نے کہا کہ شیعہ
سنی باہمی اتحاد کے ذریعے غیر ملکی ایجنٹوں کی سازش ناکام بنائیں گے۔
ترجمان نے کہا واقعہ پنجاب حکومت کی نااہلی کا ثبوت ہے۔ حکومت راولپنڈی کے
حالات معمول پر لانے کے لئے عملی اقدامات کرے۔ یہ کرفیو نافذ کرنا ، فوج کا
آجانا اور موبائل سروس کا معطل ہوجانا یہ عملی اقدامات نہیں ہیں کیا۔ منور
حسن نے راولپنڈی واقعہ پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے جانی ومالی نقصان پر
رنج اورافسوس کا اظہارکیا ہے۔ اپنے ایک بیان میں منور حسن نے کہا کہ
سیکیورٹی ادارے پوری طرح چوکس ہوتے تویہ سانحہ پیش نہ آتا۔ انہوں نے ہر طرف
سے ناکہ بندی تو کررکھی تھی اور عزاداری کی مجالس اور جلوسوں کے راستوں کو
بھی بند کردیا تھا۔ وہاں پیدل بھی کوئی نہیں جاسکتا تھا تو کیا اب بھی وہ
چوکس نہیں تھے۔ حکومت ملک میں امن وامان قائم رکھنے میں ناکام رہی ہے۔
گوجرانوالہ واقعہ کے بعد پورے ملک میں سیکیورٹی کے حوالے سے ہائی الرٹ ہونا
چاہیے تھا۔ لیکن حکومت نے معمول کے مطابق سیکیورٹی انتظامات پر اکتفا کیا۔
جس کا فائدہ اٹھا کر شرپسند عناصرکواپنے مذموم مقاصد پورے کرنے کا موقع
ملا۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک میں فرقہ وارانہ فسادات سے بچنے کے لئے حکومت کو
ہنگامی اقدامات کرنے ہوں گے۔ اسلام وملک دشمن قوتیں قومی یکجہتی ملی وحدت
کو نقصان پہچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں۔ انہوں نے کہا حکومت
فوری طورپر دونوں فریقوں کے سرکردہ علماء کا اجلاس بلا کرمعاملے کی تہہ تک
پہنچنے کی کوشش کرے۔ اور جس فریق کی زیادتی ہو اس کے خلاف سخت ترین
کارروائی کی جائے۔ تاکہ آئندہ کسی کو امن وامان سے کھیلنے کی جرات نہ ہو۔
امیر جماعت اسلامی لاہور میاں مقصود احمدنے سانحہ راولپنڈی میں قیمتی جانوں
کے نقصان کو حکومت اور عوام الناس کے لئے لمحہ فکریہ قراردیا ہے۔ اور کہا
کہ یوم عاشور کے عظیم دن پرراولپنڈی اورملک کے دیگر شہروں میں فرقہ وارانہ
فسادات امام حسین علیہ السلام اور شہداء کربلا کی تعلیمات کے سراسرمنافی
ہیں۔ ان کا کہناتھاکہ امریکہ ، اسرائیل ، انڈیا پاکستان میں ترقی اورامن کے
دشمن ہیں۔ پاکستانی عوام الناس کو چاہیے کہ وہ کسی بھی مسلک یا فرقہ سے
تعلق رکھتے ہوں وطن عزیز کے خلاف جاری یہودوہنود کی سازشوں کوناکام بنانے
کیلئے اپنی صفوں میں اتحاد ویگانگت پیدا کریں۔ یہ اپیل عوام سے کرنے سے
پہلے بہتر ہے کہ علماء اور مذہبی قائدین خود آپس میں اتحاد کی فضا قائم
کریں۔ عوام میں یہ کام خودبخودہوجائے گا۔ راولپنڈی سانحہ پر اپنے ردعمل کا
اظہار کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات سینیٹر پرویزرشیدنے سخت رنج
وغم کا اظہارکرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے واقعات دنیا بھرمیں پاکستان کی
بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ حکومت اس واقعہ کی مکمل تحقیقات کراکر ذمہ
داران کے خلاف سخت ترین کارروائی کرے گی۔ وزیراطلاعات نے کہاکہ ماضی میں
ریاست فرقہ واریت کو ختم کرنے کی بجائے خود ایک فریق بنی رہی۔ جس کا خمیازہ
آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ فرقہ واریت کی سرپرستی کی وجہ سے
اس کے جراثیم تمام اہم اداروں اور ان کے اہلکاروں میں سرائت کر گئے ہیں۔
اسی وجہ سے نہ تو آج ہمارے انتہائی حساس دفاعی مقامات محفوظ رہے ہیں نہ ہی
مساجد اور نہ ہی کوئی اور جگہ محفوظ ہے۔ وفاقی وزیرنے کہا کہ اس مسئلہ کو
حل کرنے کے لئے ہرطرح کی وابستگی سے بالا تر ہوکر اقدامات کرکے قومی اداروں
کو اس لعنت سے پاک کرنا ہوگا۔ سنی اتحادکونسل پاکستان کے رہنماؤں صاحبزادہ
حامد رضا ، حاجی حنیف طیب، علامہ محمد شریف رضوی، طارق محبوب ، مفتی محمد
سعید رضوی اور دیگر نے سانحہ راولپنڈی کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ تمام
مکاتب فکر صبروتحمل کامظاہرہ کریں اور فرقہ وارانہ قتل وغارت کی عالمی سازش
کاناکام بنادیں۔ سانحہ کے ملزمان کو گرفتارکرکے عبرت کا نشان بنایا جائے
اسلام دشمن قوتیں فرقوں کو لڑا کر پاکستان میں خانہ جنگی کرانا چاہتی ہیں۔
اس لیے تمام مکاتب فکر کے سنجیدہ علماء مذہبی ہم آہنگی کے لئے اپنا کردار
ادا کریں۔ اور فرقہ وارانہ کشیدگی کو روکیں۔ علماء مسلمانوں کوانتشار،
فساداو شر سے بچائیں۔ تمام مذہبی رہنماؤں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی
جماعتوں کو قانون شکن او رشرپسند عناصر سے پاک کریں۔ سنی اتحادکونسل ملک
میں امن کے قیام کے لئے کوششیں جاری رکھے گی۔ وفاق المدارس عربیہ پاکستان
کے رہنماؤں مولانا محمد حنیف جالندھری ، قاضی عبدلرشید اور دیگر نے کہا ہے
کہ راولپنڈی کے واقعہ کی جتنی بھی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسجد ومدرسہ پر
حملہ افسوسناک ہے اورقابل مذمت ہے۔ اگرانصاف کے تقاضے پورے نہ کیے گئے تواس
کے سنگین نتائج برآمدہوں گے۔ حکمرانوں کی بے حسی قابل مذمت ہے۔ عوام الناس
، علماء ، طلباء اور مذہبی کارکنوں کے اشتعال میں اضافہ ہورہا ہے۔ اور کسی
کو ان کے زخموں پر مرحم رکھنے کی توفیق نہیں ہورہی۔ شرپسندوں کے ہاتھوں بے
گناہ مسلمانوں کی شہادتوں، مسجد،مدرسہ، او رقرآن کریم کی بے حرمتی اور
دکانیں نذرآتش کیے جانے پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔ اس واقعہ میں ملوث
افرادکو کیفر کردارتک پہنچایا جائے۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے یوم
عاشورکو راولپنڈی میں تصادم کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس غیر انسانی
اورظالمانہ فعل کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اور یہ ملک اور اس کے عوام
کو نقصان پہنچانے اور فرقہ واریت کو ہوا دینے کی مذموم کوشش ہے۔سابق صدر نے
کہاکہ اس سانحہ کی مذمت کے لئے کوئی بھی الفاظ کافی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ
وہ بے گناہ جانوں کے زیاں پر افسوس اور دکھ کا اظہا ر کرتے ہیں۔ اور اس
تصادم میں زخمی ہونے والوں کی جلد صحت یابی کے لئے دعا گو ہیں۔ آصف زرداری
نے عوام کو خبردارکیا کہ ان لوگوں سے ہوشیاررہیں جو مذہب کے نام پر اپنا
مذموم ایجنڈا پوراکرنا چاہتے ہیں۔ اورملک اور معاشرے کے امن کو تباہ کرنا
چاہتے ہیں۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ اپنے جذبات پر قابو رکھیں ،
برداشت اور درگزرسے کام لیں۔ انہوں نے حکام سے مطالبہ کیا کہ اس جرم کے
مرتکب افرادکو گرفتارکرکے سزائیں دی جائیں۔ سنی تحریک علماء بورڈنے سانحہ
راولپنڈی کو ملکی سالمیت کے خلاف گہری سازش قراردیتے ہوئے حکومت سے مطالبہ
کیاہے کہ مجرموں کو گرفتارکرکے عبرت کا نشان بنایا جائے۔ کالعدم تنظیموں کے
دہشتگردوں کے ذریعے ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کرانے کی سازش کی جارہی ہے۔
بعض ممالک اپنے مفادات کی جنگ پاکستان میں لڑنا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کے لئے
انتہا پسندوں کو مالی معاونت سمیت تمام وسائل فراہم کیے جارہے ہیں۔ جوممالک
، ادارے اور افرادانہیں مالی معاونت فراہم کررہے ہیں۔ حکومت انہیں بے نقاب
کرے۔ ملک میں شیعہ سنی فساد کا کوئی وجود نہیں۔ کالعدم جماعتیں اہلسنت کا
نام استعمال کرکے ملک کے پرامن اور محب وطن طبقہ کو بدنام کرنے کی سازش
کررہی ہیں۔ بعض مدارس میں اسلام کے نام پر دی جانے والی دینی تعلیم فرقہ
واریت تعصب اور تنگ نظری پر مبنی ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے ان مدارس
کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائیں۔ جو طلباء کو جہاد کی آڑ میں دہشت
گردی ، لسانیت اورفرقہ واریت پر اکساتے ہیں۔ حکومت اپنی رٹ قائم کرنے میں
مکمل ناکام دکھائی دے رہی ہے۔پنجاب ہاؤس راولپنڈی میں پرہجوم پریس کانفرنس
سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی وزیر قانو ن رانا ثناء اﷲ نے راولپنڈی واقعہ کی
ابتدائی تفصیلات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ دس محرم الحرام کو ماتمی جلوس نما
زظہرین کی ادائیگی کے لئے ایک بج کر پینتالیس منٹ پر فوارہ چوک میں رکا ہوا
تھا۔ کہ پہلے آگے مسجد میں نماز جمعہ مکمل ہوجائے تو جلوس آگے بڑھایا جائے۔
اسی اثناء میں جلوس سے آگے سو سے ڈیڑھ سوافرادمسجد کے سامنے پہنچ گئے۔ جس
کے بعد دوطرفہ الزامات اور اشتعال انگیزی شروع ہوگئی۔ تاہم اب یہ معاملہ
جوڈیشل انکوائری میں ہے۔ لہٰذا اس پر مزید کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا۔ اور
ذاتی رائے سے اس کو متاثر کرنا درست نہیں۔ تاہم ابتدائی اطلاعات کے مطابق
جلوس سے آگے موجود انہی سو سے ڈیڑھ سوافرادنے مسجد پر حملہ کردیا اور مسجد
میں داخل ہوگئے۔
اس سانحہ کی آڑ میں موبائل اور سوشل میڈیا پر جو نفرت پھیلائی جارہی ہے۔
حکومت نے اس کا بھی نوٹس لے لیا ہے۔ وزارت داخلہ نے بے بنیاد اورنفرت انگیز
مواد سوشل ویب سائٹ سے ہٹانے کا حکم دیتے ہوئے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی
کی ہدایت کردی ہے۔ اس کے علاوہ سول سوسائٹی بھی اس سانحہ کے خلاف احتجاج
کررہی ہے۔ سانحہ راولپنڈی کے خلاف پنجاب کے مختلف شہروں میں پنجاب بارکونسل
کی اپیل پر وکلاء نے ہڑتال کرتے ہوئے عدالتی بائیکاٹ کیا۔
اس فرقہ واریت کی تازہ لہر کے بارے میں آپ نے تما م مکاتب فکر کے علماء
جماعتوں اور سیاستدانوں سمیت حکومتی شخصیات کے تبصرے اور خیالات پڑھ چکے
ہیں۔ اس سے یہ بات اخذکرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے کہ پوری قوم اس فرقہ
واریت کے خلاف ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے او ر حقیقت بھی یہی ہے۔
ان تبصروں اور خیالات سے ایک اور بات جو سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ ان میں
سے اکثر نے اس کاذمہ دار علماء ، حکومت اور مذہبی تنظیموں کوٹھہرایا ہے۔
حکومت نے سیکیورٹی کے بہترین انتظامات کیے تھے۔جس طرح رانا ثناء اﷲ نے کہا
کہ ماتمی جلوس سے آگے سو سے ڈیڑھ سوافرادنے ابتدائی اطلاعات کے مطابق مسجد
پر حملہ کردیا اور اس میں داخل ہوگئے۔ اس سے انکارنہیں کیا جاسکتا اوراس
بات کی کیا گارنٹی ہے کہ جلوس میں موجود افرادمیں سے کوئی بھی ایسا نہیں
جوفسادی ہو۔ ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ ایسے جلوسوں سے آگے اس طرح کے ہی
نوجوان ہوتے ہیں۔ جب انتظامیہ سمیت متعلقہ تمام افراد کے علم میں یہ بات
تھی کہ جلوس کے راستے میں مخالف فرقہ کی مسجد ہے تو پھر ماتمی جلوس اس
راستے سے کیوں گزاراگیا۔ اگرچہ انتظامیہ نے سیکیورٹی کے انتظامات کیے تھے۔
اور جلوس کو مذکورہ مسجد میں نمازجمعہ کی مکمل ادائیگی تک روک بھی دیا گیا
تاہم تصادم کے خدشات موجودتھے جو ہوگیا۔ ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں پھر لکھ
رہے ہیں کہ فساد اورشر سے بچنے کے لئے روٹس تبدیل کیے جائیں۔ اب جس جلوس
میں فساد ہوا اگر اس کا روٹس تبدیل کرلیا جاتا اس مسجد کے پاس سے نہ
گزاراجاتا تو اس سانحہ سے بچاجاسکتاتھا۔ جوڈیشل انکوائری میں اس پوائنٹ کو
بھی سامنے رکھا جائے۔ اگر ایسی مجبوری آبھی گئی تھی کہ جلوس اسی راستے سے
ہی گزارنا تھا تو ٹائمنگ پر بھی نظرثانی بھی کی جاسکتی تھی یا جمعہ کی پہلی
اذان سے پہلے پہلے گزارلیا جاتا یاایسا وقت بنایا جاتا کہ نماز جمعہ ادا
ہونے کے کم سے کم نصف گھنٹہ بعد جلوس وہاں سے گزرتا۔ جلوسوں سے آگے چلنے
والے جوانوں اور نوجوانوں کی نگرانی کا بھی انتظام ہونا چاہیے۔ حکومت نے
انٹرنیٹ اورموبائل پر فرقہ وارانہ مواد پھیلانے کانوٹس لے کر اچھا اقدام
کیا ہے۔ سوشل میڈیاپر نفرت انگیز نہیں محبت آمیز موادپھیلایا جانا چاہیے
تاکہ ملک میں امن و سلامتی اور محبت کو فروغ دیا جاسکے۔ ایک ہی دن میں ایک
نہیں تین شہروں میں فسادپھیل جانا اور دودن بعد دو اورشہروں میں حالات خراب
ہوجانا اس بات کی نشاندہی بھی کرتے ہیں کہ یہ ایک سوچے سجھے منصوبے اورمنظم
سازش کے تحت کرایا گیا ہے۔ اس سانحہ کے بارے میں تحقیقات کا آغازبھی کردیا
گیاہے ابتدائی اطلاعات کے مطابق چالیس افراد کی شناخت ہوگئی ہے۔ مزید
تحقیقات کے بعد مزید تفصیلات بھی سامنے آجائیں گی۔ ہمیں ایسے واقعات سے
بچنے کے لئے فسادی افرادکی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے اوراپنی صفوں میں
اتحادقائم کرنا چاہیے۔ فرقہ واریت میں ملوث جماعتوں اورتنظیموں پر مکمل
پابندی ہونی چاہیے بیرون ملک سے آنے والی امداد پر نذررکھی جانی چاہیے اور
نام تبدیل کرنے پر بھی پابندی لگائی جائے۔ سوشل میڈیا پرایک اورمضحکہ
خیزمطالبہ پر رائے پوچھی جارہی ہے کہ میلاد اورماتمی جلوسوں پر پابندی
لگائی جائے کہ عبادت مسجد میں ہوتی ہے سڑکوں پر نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں
کہ عبادت مسجد میں ہوتی ہے تو اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکے گا کہ سیاست
اسمبلیوں میں ہوتی ہے۔ عبادت کے لئے موزوں ترین جگہ مسجد ہے اور سیاست کے
لئے موزوں ترین جگہ اسمبلی ہال ہے۔پھر سڑکوں پر سیاست کرنے پر بھی پابندی
ہونی چاہیے۔ |