چیف جسٹس افتخار محمد چودھری امید کی کرن اور جمہوریت کے محافظ ہیں

تحریر : محمداسلم لودھی

گزشتہ66 سالوں سے چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے پردرجن سے زائد جج صاحبان عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرچکے ہیں لیکن جو عزت ٗ عظمت ٗ وقار اور عوامی حمایت چیف جسٹس کی حیثیت سے افتخار محمد چودھری کو ملی ہے وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آئی ۔یہ ان کی شخصیت کا خاصا ہے کہ حکومت چاہے فوجی ہو ٗ سویلین ہو وہ کسی دباؤ میں آئے بغیر عوام کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے ایسے جرات مندانہ فیصلے دیتے چلے آرہے ہیں جنہیں عدالتی تاریخ میں ہمیشہ اہم ترین حوالے کی صورت میں یاد رکھا جائے گا ۔اس کے باوجود کہ وہ اس سپریم کورٹ میں 2002ء سے تعینات تھے لیکن انہیں عروج اس وقت حاصل ہوا جب صدر پاکستان اور آرمی چیف کے عہدے پر فائز جنرل پرویز مشرف نے جی ایچ کیو میں بلا کر ان سے غیر قانونی طور پر استعفی طلب کیا ۔پاکستان میں کبھی ایسانہیں ہواکہ باوردی جرنیل اور وہ بھی صدر پاکستان بھی ہو اس کی حکم عدولی کی جائے ۔حالانکہ اس وقت تین چار اور جرنیل بھی وہاں موجود تھے ان حالات میں افتخار محمد چودھری کا استعفی سے انکار اور ڈٹ جانا ایک ناقابل فہم بات دکھائی دیتی ہے پھر انہیں چار پانچ گھنٹوں کے لیے اسی جگہ نظر بند رکھا گیا ٗبعدازاں گھر میں نظر بند کردینے کے باوجود انہوں نے حوصلہ نہیں ہارا اور وہ پیدل ہی سپریم کورٹ کی جانب روانہ ہوگئے پھر دنیا نے دیکھا کہ طاقت اور اقتدار کے نشے میں بدمست پرویز مشرف کے ایما پر پولیس نے ان سے توہین آمیز سلوک کرکے سپریم کورٹ نہ پہنچنے دیا۔ پھر جسٹس خلیل الرحمن رمدے کی سربراہی میں ایک فل بینچ نے افتخار محمد چودھری کی معطلی اور حکومت کے جارحانہ اقدام کی سماعت جاری رکھی اس دوران افتخار محمد چودھری نے نہ صرف کامیابی سے اپنا دفاع کیا بلکہ عوام اور وکیلوں کی حقیقی حمایت بھی حاصل کی ۔یہی وجہ ہے کہ جولائی میں انہیں ایک عدالتی حکم کے مطابق چیف جسٹس کے عہدے پر بحال کردیا گیا یہ بحالی کوئی آسانی سے میسر نہیں آئی جنرل پرویز مشرف اپنے سیاسی اور دیگر حمایتیوں کے ہمراہ پوری طاقت سے اقتدار کے ایوانوں میں موجود تھے ۔چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے بحالی کے بعد بلا خوف خطر فیصلے کرنے شروع کردیئے انہوں نے پرویز مشرف کے احکامات کو مسترد کرتے ہوئے بے نظیر اور نوازشریف کو وطن واپس آنے کی اجازت دے دی ۔ اس عدالتی حکم کے نتیجے میں نواز شریف جب اسلام آباد پہنچے تو پرویز مشرف نے فرعونیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نواز شریف کو اسلام آباد سے ہی واپس جدہ روانہ کردیا۔جب باوردی الیکشن کا معاملہ عدالت میں آیا تو چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سے خائف ہوکر پرویز مشرف نے 3 نومبر 2007ء کو ملک میں ایمرجنسی پلس نافذ کرکے افتخار محمد چودھری سمیت سپریم کورٹ کے ان تمام جج صاحبان کو نظر بند کردیا جنہوں نے پی سی او پر حلف اٹھانے سے انکار کیا تھا۔یہ ظلم اس قدر بڑھا کہ جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے بھی جج صاحبان کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہ دی گئی بلکہ اس حکومتی پرتشدد رویے کا شکار ان کے بیوی بچے بھی ہوئے ۔قابل ذکر بات تو یہ ہے کہ افتخار محمد چودھری اور ان کے عظیم رفقائے کارنے سخت ترین حالات ٗدھمکیوں اور ذہنی اذیتوں کے باوجود حوصلہ نہ ہارا اور حکومت کی مائنس ون پالیسی کو مسترد کردیا ۔پھر جب پیپلز پارٹی کی حکومت برسراقتدار آئی تو آصف علی زرداری ٗچیف جسٹس کے عہدے پر افتخار محمد چودھری جیسا باضمیر اور جرات مند شخص پسند نہیں کرتے تھے زرداری نے ان کے ساتھیوں کو عہدوں اور مراعات کالالچ دے کر خریدنا چاہا لیکن کوئی ایک ساتھی بھی بکنے اور جھکنے پر آمادہ نہ ہوا ۔پھر جب عدلیہ کی آزادی کے لیے مسلم لیگ کے سربراہ نوازشریف اور دیگر سیاسی جماعتوں نے 15 مارچ 2008ء کو لانگ مارچ شروع کیا تو افتخار محمد چودھری کی بحالی کے لیے عوام دیوانہ وار گھروں سے نکل آئی تمام تر رکاوٹوں اور پولیس تشدد کے باوجود جب یہ قافلہ گوجرانوالہ پہنچا تو پیپلز پارٹی کی حکومت کو نہ چاہتے ہوئے بھی چیف جسٹس کے عہدے پر افتخار محمد چودھری کو مجبورا بحال کرنا پڑا ۔انہوں نے 22 مارچ 2008ء کو ایک بار پھر چیف جسٹس کا عہدہ سنبھال لیا اس طرح وہ دنیا کے واحد انسان ہیں جنہوں نے دو مرتبہ معطلی کے بعد تین مرتبہ وقفے وقفے سے اس عظیم المرتبت عہدہ سنبھالا ۔چیف جسٹس کی حیثیت سے افتخار محمد چودھری پیپلز پارٹی حکومت کی کرپشن ٗ اقربا پروری ٗ رشوت خوری ٗ سرکاری خزانے کی لوٹ مار کے خلاف ننگی تلوار ثابت ہوئے انہوں نے کسی خوف کے بغیر فیصلے دیئے ۔ منصب صدارت پر فائز آصف علی زرداری کے مقدمات بحال کرنے اور غیر ملکی بنکوں میں جمع شدہ دولت کو پاکستان لانے کے لیے حکومت وقت پر دباؤ بڑھاتے رہے حتی کہ سید یوسف رضاگیلانی کو وزارت عظمی کے عہدے سے برطرف کرکے ہمیشہ کے لیے نااہل قرار دے دیا دنیا میں بڑے بڑے جرات مند جج دیکھے گئے ہیں لیکن افتخار محمد چودھری جیسا فرزند شاید ہی کسی ماں نے پیدا کیا ہو جو براہ راست یا بلواسطہ کسی دباؤ کا شکار نہیں ہوئے انہیں خریدنے ٗ جھکانے اور مرعوب کرنے کے لیے بہت سے حربے آزمائے گئے لیکن آزمائش کی ہر گھڑ ی میں اﷲ نے انہیں نہ صرف سرخرو رکھا بلکہ پہلے سے بھی زیادہ عزت سے نوازا ۔انہوں نے کوئٹہ خود پہنچ کر بلوچستان میں بدامنی کیس کی سماعت کی اور گمشدہ افراد کی واپسی کی ہر ممکن کوشش کی ٗ انہوں نے فوجی اداروں اور فوج کی انٹیلی جنس اداروں سے بھی خوف نہیں کھایا بلکہ آئین کی پاسداری کے لیے انہیں بھی عدالت میں جوابدہی کے لیے طلب کیا ۔کراچی میں حد سے زیادہ بڑھتی ہوئی لاقانونیت ٗ بھتہ خوری ٗ قتل و غارت ٗ اغوا کی وارداتیں اس قدر بڑھ چکی تھی کہ حکمران بھی کراچی کا رخ کرنے سے کتراتے تھے لیکن افتخار محمد چودھری اور ان کے رفقاء کو اﷲ نے اتنا حوصلہ عطا فرمایا ہے کہ انہوں نے پانچ چھ مرتبہ مسلسل کئی کئی دن نہ صرف کراچی میں بیٹھ کر بدامنی کیس کی سماعت کی بلکہ پولیس اور دیگر سیکورٹی اداروں کی سرزنش کرکے وہاں امن بحال کرنے کے لیے فیصلے بھی دیئے آج اگر کراچی کے حالات میں کچھ بہتری دکھائی دے رہی ہے تو اس کا سہرا افتخار محمد چودھری کے سر بندھتا ہے جنہوں نے اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے مگرمچھوں پر ہاتھ ڈالا انہوں نے آئی ایم ایف کے ایما پر بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کو روکنے کے لیے بھی از خود نوٹس لیا انہوں نے سی این جی گیس اسٹیشنوں کی لوٹ مار بھی روکی انہوں نے دوہری شہریت کے حامل افراد کی حکومتی اداروں میں تقرریوں کو روکا انہوں نے جعلی ڈگری کے حامل افراد کا اسمبلیوں میں داخل بند کرنے کی ہر ممکن جستجو کی انہوں نے بلدیاتی الیکشن کروانے کے لیے حکومت کو مجبور کیا انہوں نے تمام تربرائیوں اور کرپشن کے باوجود ملک میں جمہوریت اور جمہوری حکومت کا تحفظ کیا اگر یہ کہاجائے کہ ان کی وجہ سے ہی گزشتہ ساڑھے پانچ سالوں میں مارشل لاء نہیں لگا تو یہ بات غلط نہ ہوگی انہوں نے حج سکینڈل پر سخت کاروائی کرکے حاجیوں کولوٹی ہوئی رقوم واپس دلائی اور کرپٹ لوگوں کو جیلوں میں بند کیا انہوں نے این ای ایل سی کیس میں مگرمچھوں پر ہاتھ ڈالا جو آج تک اپنے سیاسی اثرو رسوخ کی وجہ سے آزاد تھے انہوں نے اصغرخان کیس کی بہت پرانے کیس کی سماعت کرکے جرات مندانہ فیصلہ بھی دے دیا انہوں نے این آراو کو کالعدم قرار دے کر ساڑھے آٹھ ہزار افراد سے لوٹی ہوئی رقم واپس لے کر سرکاری خزانے میں جمع کروانے کا حکم جاری کیا انہوں نے ریکوڈک اور نندی پور پراجیکٹ ٗ سٹیل ملز کی اونے پونے فروخت پر از خود نوٹس لیا۔ چیف جسٹس کی حیثیت سے ان کے جرات مندانہ فیصلوں اور از خود نوٹسوں کی تفصیل بہت طویل ہے لیکن اب جبکہ افتخار محمد چودھری چیف جسٹس کے عہدے سے 12 دسمبر کو ریٹائر ہورہے ہیں تو ہر شخص یہ سوچ رہا ہے کہ بعد میں کیا ہوگا ان کی موجودگی میں عدلیہ ایک طاقتور ادارے کی حیثیت سے ابھری ہے کیا وہ اسی طرح عوام کے اعتماد پر پوری اترتی رہے گی بہرحال یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن ایک بات بلاشک و شبہ کہی جاسکتی ہے کہ افتخار محمد چودھری نہ صرف محافظ جمہوریت ہیں بلکہ عوام سیاسی جماعتوں سے زیادہ ان پر اعتماد اور بھروسہ کرتے ہیں موجودہ حکومت کے لیے یہ اچھا موقعہ ہے اگر وہ انہیں مزید 22 مہینوں کے لیے عہدے پر برقرار رکھ کر خود کو مارشل لاء سے بچائے اور خود بھی عوام کے حقوق غصب کرنے سے باز رہے ۔

Anees Khan
About the Author: Anees Khan Read More Articles by Anees Khan: 124 Articles with 127101 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.