گاؤں کے ایک کونے پہ فنکاروں کی بستی تھی۔اب میں استاذی
عبدالقادر حسن تو ہوں نہیں کہ انہیں سیدھا مراثی ہی کہہ دوں ۔یہ سوشل میڈیا
کا دور ہے اور فنکاروں کے بچے اس میڈیم کو استعمال کرنے میں یدطولیٰ رکھتے
ہیں۔ اب اس ملک میں گانا بجانا جتنا معزز کام ہے سیاست بھی نہیں کہ اب تو
جماعت اسلامی والے بھی اپنے جلسوں میں اس کا خاص اہتمام کرتے ہیں۔یہ
علٰیحدہ بات کہ کچھ گاتے ہیں کچھ سنتے ہیں اور کچھ صرف منہ بسورتے ہیں۔پہلے
کسی زمانے میں اس مسلم معاشرے میں اﷲ کا ذکر دلوں کو مطمئن کیا کرتا تھا اب
موسیقی روح کی غذا ہے۔موسیقی بھی وہ جو فاسٹ فوڈ کی طرح کی ہے۔اﷲ جانے کہاں
سے شروع ہوتی اور کہاں جا کے ختم ہو جاتی ہے۔چلیں یوں کہتے ہیں کہ بستی تو
میراثیوں ہی کی تھی جو آجکل فنکار کہلاتے ہیں۔بستی بڑی پرامن تھی اور سب
فنکار اس میں مل جل کے رہتے تھے۔
کرنا خدا کا یہ ہوا کہ ایک چوہدری اپنے کسی دشمن کا پیچھا کرتے بستی کے
کنارے آ کے بس گیا۔بس پھر کیا تھا فنکاروں کی شامت آ گئی۔کبھی ان کے صحن سے
چوہدری کا گدھا گذرتا کبھی اس کے نوکر۔فنکار ویسے ہی حساس ہوتے ہیں ،نازک
دل کے لوگ۔ہاں کوئی سخی سامنے ہو تو وہ کمالِ فن سے اپنی ساری حساسیت چھپا
لیتے ہیں۔چوہدری اور اس کے کارندے آتے جاتے فنکاروں کو حساس ہونے سے بچانے
کے لئے کچھ نہ کچھ دان کرتے رہتے۔کچھ دن تو چوہدری کا ٹہکا رہا لیکن پھر
چوہدری کے دشمن بھی اکٹھا ہونا شروع ہوئے اور گھمسان کا رن پڑا۔فنکار کی
اپنی مرضی کہاں ہوتی ہے اور پھر آجکل کے فنکار"ـ مینوں نوٹ وکھا میا موڈ
بنے" ٹائپ۔چوہدری اپنی آمدو رفت کے لئے بستی کے راستے اور فنکاروں کا صحن
بد معاشی سے استعمال کرتا تھا۔جب اس کے دشمنوں نے دیکھا کہ فنکاروں کے گھر
کے راستے ہمارے خلاف استعمال ہو رہے ہیں تو انہوں نے چوہدری سے پہلے
فنکاروں کا مکو ٹھپنے کی ٹھانی۔انہوں نے نہ صرف مار مار کے فنکاروں کا
بھرکس نکال دیا بلکہ ان کے گھروں ہی میں رہنا شروع کر دیا۔
فنکاروں کے لئے اب دوہری مصیبت تھی۔باہر سے چوہدری مارتا تھا اندر سے
چوہدری کے دشمن۔فنکاربیچارے کیا کرتے۔کچھ بڑے نام کے فنکار دونوں طرف ملے
ہوئے بھی تھے۔کچھ "پاپ گلوکار "چوہدری کو کہتے تم مارتے رہو ہم شور ڈالتے
رہیں گے تم پروا نہ کرنا۔کچھ "قوالوں "نے چوہدری کے دشمنوں کے ساتھ ساز باز
کر رکھی تھی۔سر عام انہیں برا بھلا کہتے ان کے طریقہ کار سے اختلاف کرتے
لیکن چوہدری جب بھی اپنے دشمن تلاش کرنے نکلتا کھراانہی کے گھروں تک جاتا۔
سازندے البتہ مارے جا رہے تھے اور ہزاروں کی تعداد میں مارے جا رہے تھے۔
لیڈر دشمن کے ساتھ مل جائیں تو موت عوام کا مقدر بن جاتی ہے۔ چوہدری کے
دشمن چونکہ اب بستی کے کناروں پہ بس گئے تھے۔اس لئے چوہدری کے کارندے اکثر
ان کناروں پہ حملہ آور رہتے۔ ان حملوں میں دشمن تو کم ہی ہاتھ آتا اکثر بے
گناہ مارے جاتے۔ چوہدری پہلے پہل بستی کے کناروں تک آتا تھا۔حملہ کرتا تھا
اور لوٹ جایا کرتا۔کل پہلی بار چوہدری کا ہرکارہ فنکاروں کی جھونپڑیوں میں
جا گھسا اور اس عمل سے اس نے یہ اشارہ بھی دے دیا کہ اب اسکا دشمن کون ہے
۔گوئیے اور قوال تو مطمئن ہیں کہ وہ تو اندر خانے چوہدری اور اس کے دشمنوں
کے ساتھ ملے ہوئے ہیں لیکن سازندوں کی مجلسوں میں کل سے ماتم پباہے کہ آج
چوہدری نے پہلی جھونپڑی تباہ کی ہے تو کل ہماری باری بھی آسکتی ہے لیکن یہ
فکر رائیگاں جائے گی کہ سازندے فیصلہ ساز نہیں ہوتے۔ ان کا کام ہے سنگت۔
ڈھول پیٹنا یا تالیاں بجانا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سازندے ہی گوئیے کو
گویا اور قوال کو قوال بناتے ہیں۔اگر وہ سر کے ساتھ سر اور تال کے ساتھ تال
نہ ملائیں تونہ کوئی ملکہ ترنم ہو نہ شہنشاہ غزل لیکن زیرو کو ہیرو بنانے
والے کی بدقسمتی یہ کہ وہ طائفے کا سربراہ نہیں بن سکتا۔فیصلے سربراہ ہی
کیا کرتے ہیں۔
کوئی ان بے حس سازندوں کو یہ بات سمجھائے کہ جن کے لئے تم نے تالیاں پیٹ
پیٹ کے اپنے ہاتھ لال کر لئے ہیں انہوں نے تمہیں اب تک دیا کیا ہے؟سارا کچھ
کرنے کے بعد بھی اگر تم نے خون ہی تھوکنا ہے۔تمہاری اولاد نے ذلت کی زندگی
ہی بسر کرنی ہے تو اپنے ہاتھ خود اپنے ہی ہاتھوں کاٹ کیوں نہیں لیتے؟اپنے
گلوں پہ خود ہی کوئی دھاتی ڈور کیوں نہیں پھیر لیتے؟تمہاری عزتوں نے سر
بازار نیلام ہی ہونا ہے تو تم خود ان کے لئے کوئی کنواں تلاش کیوں نہیں
کرتے؟ کیا تمہاری پہلی جھونپڑی پہ چوہدری کا حملہ اس بات کا اشارہ نہیں کہ
اب یہ تمہیں چن چن کے مارے گا۔ یہ اس بات کا بھی اشارہ ہے کہ آہستہ آہستہ
تمہارے گوئیے اور قوال تمہیں اس میدان میں تنہا مرنے کے لئے چھوڑ کے اس
بستی سے بھاگیں گے کہ انہوں نے تو اب چوہدری کے دوار اپنے کاروبار بھی بڑھا
لئے ہیں اور نئی بستیاں بھی بنا لی ہیں۔
پاکستان کے حساس سازندو!،غداروں کی سنگت میں گلے پھاڑنے اور تالیاں پیٹنے
والو! یہ بستی تمہاری ہے۔تمہارے اجداد کی لازوال قربانیوں کی نشانی۔ جنہوں
نے اس بستی کو اپنی عزتیں لٹا کے اور اپنی جانیں قربان کر کے اس لئے بنایا
تھا کہ یہاں تم آزادی کے ساتھ رہ سکو۔ جہاں تمہیں مذہب مسلک ،رنگ نسل قوم
اورپیشے کی بنیاد پہ تکلیف نہ پہنچائی جا سکے لیکن تم نے ہر بار ایسے لوگوں
کو اپنے سر پہ مسلط ہونے دیا جنہوں نے تمہیں جہنم کے دھانے پہ لا کھڑا کیا
ہے۔ اب جہنم مجسم ہو کے تمہارے در پہ کھڑی ہے ۔فیصلہ آپ کو کرنا ہے کہ
مقابلہ کر کے مرنا ہے یا بے غیرتی اور بے حیائی کی موت قبول کرنی ہے۔ ہمیں
تو ہمارے آقاﷺ نے پہلے ہی خبر دے دی تھی کہ آخر زمانے میں ایک دجال ہو گا
جو لوگوں کو جہنم میں ڈالے گا لیکن اس کی جہنم اصل میں جنت ہو گی۔ہم نے اس
زندگی کے جہنم سے کمایا ہی کیا ہے۔نہ جان محفوظ نہ مال،نہ عزت اور نہ
مستقبل آؤ آخرت کو محفوظ بنا لیں۔یہ دجالی جہنم ہی دراصل جنت ہے۔یہ آخری
موقع ہے عزت کے ساتھ مرنے کا۔آؤ ایک قابل عزت موت کو گلے لگاتے ہیں۔یاد
رکھو! ڈرون نہیں مارتے انسان کے اندر کا ڈر انسان کو مار دیتا ہے۔ کچھ" جیو
اور جینے دو "کے نعرے لگانے والے آپ کو بھوک سے ڈرا رہے ہیں۔کیا رزق کی ذمہ
داری اﷲ نے خود نہیں اٹھا رکھی؟ |