غیر قانونی تعمیرات اور حکومتوں کی بے حسی!

ہندوستان کی صورت حال بھی عجیب ہے ۔یہاں جو غریب ہیں وہ اس قدر غریب ہیں کہ ان کے پاس سرچھپانے کو بھی صحیح معنوں میں چھت نہیں ہے اور جو امیر ہیں وہ اس قدر امیر ہیں کہ سینکڑوں مکانات اور صدہا منزلوں کی کوٹھیاں ان کے قبضوں میں ہیں ۔ اسی پر بس نہیں ہے بلکہ ان کی ہوس مکان گیری دن بدن بڑھتی جارہی ہے جس کی تسکین کے لیے وہ کہیں تو غریبوں کی جھونپڑ پٹیوں سے آباد زمینوں پر غاصبانہ قبضہ کر رہے ہیں اور کہیں تعمیر شدہ بلڈنگوں پر غیر قانونی تعمیرات کر کے انسانیت کے لیے خطرے پیدا کر رہے ہیں ۔یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کسی زمانے میں راجے مہاراجے اپنی ریاستوں کی توسیع میں دوسر ے کمزور راجوں کی زمینوں کو ہڑپ لیتے تھے ۔ طرفہ تماشا تو یہ ہے کہ ان کی ان ناپاک کوششوں کے پشت پر پولیس اور عدلیہ کی حمایتیں ہیں اس لیے نہ انھیں کسی قسم کا ڈر ہے اور نہ کسی قسم کا خدشہ۔نہ کوئی ان سے بازپرس کر نے والا ہے اور نہ کوئی ان کی سرزنش کر نے والا۔

ممبئی ،دہلی ،حیدرآباد ،بنگلور ،تھانے،بھیونڈی اور ان جیسے علاقو ں میں زمین مافیا ، بلڈر مافیا بے دھڑک غیر قانونی تعمیرات کر کے انسانی زندگیوں کے لیے خطرات پید ا کر تے ہیں ۔ ان کی بنا ئی ہوئی بلند وبالا عمارتیں اکثر زمیں بوس ہوجاتی ہیں اور اپنے ساتھ عظیم تباہی لاتی ہیں ۔اس کی شہادت اور بیان کے لیے حالیہ دنوں دہلی او رممبئی میں گر نے والی سینکڑو ں منزلوں پر مشتمل عمارتوں کے دل دوز سانحا ت کافی ہیں۔ان عمارتوں کے بارے میں ماہرین نے کھلے لفظوں میں کہاتھاکہ یہ عمار تیں بہت جلد گر جائیں گی ۔ ا س لیے ان کے مکینوں کوکسی دوسری جگہ منتقل کر دیا جائے مگرکسی نے بھی ان کی دہائی پر کان نہیں دھرے ۔ دہلی اور ممبئی میں تباہ ہونے والی عمارتوں میں رہنے والے ہزاروں افراد تو لقمہ اجل بنے ہی مزید آس پاس کی عمارتیں بھی ان کی وجہ سے مخدوش ہو گئیں اور آس پاس رہنے والے لاکھوں افراد راست طور پرمتاثر ہوئے۔

اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب بھی کہیں کوئی عمارت گر تی ہے توحکومتیں بڑے غیض و غضب اور طمطراق کا مظاہرہ کر تے ہوئے ’بلڈر مافیا‘نامی مخلوق کے خلاف سخت کارروئی کر نے اور اس حادثے کی جانچ وتفتیش کے لیے کمیشن بناتی ہیں نیز عدالتیں بنچ بنا کر اس واقعے کی تحقیق کا اعلان کرتی ہیں مگر تھوڑا وقت گذرتے ہی یہ سب باتیں پرانی ہوجاتی ہیں۔ اس لیے کہ بلڈر مافیا حکومت کا منہ بھی بند کردیتے ہیں اور عدالتوں کے مطالبات بھی پوری کر دیتے ہیں ۔پھر انھیں کھلی آزادی ہوتی ہے وہ کہیں بھی فلک بوس عمارتیں بنا ئیں اور موت کی سوداگری کر تے پھریں ۔

غیر قانونی تعمیرات تو ایک طرف اب تو بلڈروں کے حوصلے اس قدر بلند ہیں کہ وہ پولیس کی شہہ پر اوقاف کی زمینوں پر آباد خاندانوں کو اجاڑرہے ہیں۔یا کہیں سلم علاقوں میں بزور بلڈوزور چلوا کر غریبوں کے آشیانوں کو نوچ رہے ہیں ۔یہ رونا کسی ایک شہر کا نہیں ہے بلکہ ہر میٹرو شہر میں غریبوں پر زمین تنگ سے تنگ تر کی جارہی ہے ۔ غریب سوچتے ہیں کہ امیروں کے سائے میں رہ کر انھیں زندگی کے مسایل سے کچھ وقت کے لیے نجات مل جائے گی مگر امیرو ں کو اس کا بالکل احساس نہیں ہے۔بلکہ وہ غریبوں کے خون کی بھی تجارت کرتے ہیں۔حکومتیں ! وہ حکومتیں جنھیں اس لیے کرسی پر بٹھایا جاتا ہے کہ وہ غریبوں کی فریاد رسی کریں وہ بھی اپنے فرض کو ادا کر نے کے بجائے امیروں کے ساتھ مل کر غریبوں کی تباہی اور بربادی میں مصروف ہیں ۔ اپنے عوام سے زیادہ انھیں کارپوریٹ گھرانوں کے نخروں اورناز برداری کا خیال ہے۔ ان کی خوشنودی ان کا مقصد بن کر رہ گیا ہے۔حکومتیں ان کے اشاروں پر ناچنے لگی ہیں ۔یہاں تک کہ ان کی خوشی کے لیے انسانیت سے گراکام بھی کر گذرتی ہیں ۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ حکومتیں کارپوریٹ گھرانوں اور بلڈرو ں کے سامنے بالکل بے حس ہو کر رہ گئی ہیں۔حکومتوں کی بات تو رہنے دیجیے عدالتیں بھی امیروں کے اشاروں پر فیصلے اور انصاف کر نے لگتی ہیں۔ جیسے وہ ان کے گھروں کی لونڈیاں ہوں ۔

غیر قانونی تعمیرات پر خامہ فرسائی کا خیال ایک بار پھر اس لیے آیا کہ حالیہ دنوں ممبئی کے کیمپا کولا کمپاؤنڈہاؤسنگ کمپلکس کا معاملہ اخبارات کی شہہ سرخی ریڈیو کی تہلکہ خیز خبر اور ٹی وی کی بر یکنگ نیوز بن کر چھایا ہوا ہے ۔جہاں مہاراشٹر حکومت اور بمبئی ہائی کورٹ کے زیر عنایت تعمیر ہونے والی غیر قانونی عمارتوں اور فلیٹس کا ایک جہاں آباد ہے۔حسب سابق بمبئی میونسپل کارپوریشن (بی ایم سی)ماہرین بار بار کہہ رہے ہیں کہ یہ تعمیرات جان لیوا ہوسکتی ہیں اور ایک دن ضرور عظیم تباہی بر پا کریں گی اس لیے ضروری ہے کہ ایسے سانحات بر پا ہونے سے قبل انھیں منہدم کر دیا جائے مگران کی کوئی نہیں سن رہا اور اگر کوئی سننے کی کوشش بھی کر تا ہے تو حکومت اور عدلیہ انہدامی کارروا ئی میں اڑچن بن کر سامنے آگئیں ۔ حکومت کہتی ہے کہ نہیں!ہرگز یہ نہیں ہوسکتا ۔یہ سب عمارتیں اور فلیٹس سرکاری اجازت سے تعمیر ہوئے ہیں اور عدالت کہتی ہے کہ ا ن میں آباد لاکھوں مکینوں کو کہا ں پھینکا جا ئے ؟ انھیں کہاں رکھا جائے ؟جب کوئی ان کے شایان شان مقام نہیں ہے تو انہد ا می کارروائی کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔
اگر غور کیا جائے تو واقعی حکومت اور عدالت کی دلیلوں میں دم خم ہے۔جس سے ظا ہر ہوتا ہے کہ مذکورہ دونوں اداروں کو بلڈروں نے معقول ’تحفے‘دیے ہیں ۔ مگر مفاد عامہ کے حق میں یہ امر زہر قاتل ہے ۔دیکھنا ایک دن جب یہ عمارتیں گر یں گی اس وقت دوہری تباہی بر پا ہوگی ۔پھر حکومت اور عدلیہ ایک دوسرے کو مجرم ٹھیرائیں گی اور درمیا ن میں غریب پستے رہیں گے۔

دراصل یہ تخریب کاریاں اس لیے ہیں کہ پیسے اور صرف پیسے کا حصول آج کا واحد مقصد بن گیا ہے ۔اس حصولیابی میں چاہے کسی کی جان جائے یا کوئی فنا ہوجائے اس کی کسی کو فکر نہیں ہے ۔آج کے عہد میں یہ فارمولہ اپنا لیا گیا ہے کہ جتنا ممکن ہوسکے آدمی آگے بڑھتا جائے اگر اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا یا کسی غریب کی آہوں و کراہوں پر دھیا دیا بس وہیں سے اس کی ناکامی اور بر بادی شروع ہوجاے گی ۔ اس غیر انسانی عمل کا نام آج کامیابی ہے اور اسے ہی ترقی کہا جاتا ہے۔اونچی بلڈنگیں بنا بنا کر لوگوں کی موت کے سامان کیے جاتے ہیں اور اپنے غلط کارناموں کو جائز بنا نے کے لیے حکومتو ں اور عدالتوں کو رشوتیں دی جاتی ہیں ۔

احساس
حکومتیں ! وہ حکومتیں جنھیں اس لیے کرسی پر بٹھایا جاتا ہے کہ وہ غریبوں کی فریاد رسی کریں وہ بھی اپنے فرض کو ادا کر نے کے بجائے امیروں کے ساتھ مل کر غریبوں کی تباہی اور بربادی میں مصروف ہیں ۔ اپنے عوام سے زیادہ انھیں کارپوریٹ گھرانوں کے نخروں اورناز برداری کا خیال ہے۔ ان کی خوشنودی کی ان کا مقصد بن کر رہ گیا ہے۔حکومتیں ان کے اشاروں پر ناچنے لگی ہیں ۔یہاں تک کہ ان کی خوشی کے لیے انسانیت سے گراکام بھی کر گذرتی ہیں ۔ حکومتیں کارپوریٹ گھرانوں اور بلڈرو ں کے سامنے بالکل بے حس ہو کر رہ گئی ہیں ۔ حکومتوں کی بات تو رہنے دیجیے عدالتیں بھی امیروں کے اشاروں پر فیصلے اور انصاف کر نے لگتی ہیں۔ جیسے وہ ان کے گھروں کی لونڈیاں ہوں ۔
 

IMRAN AKIF KHAN
About the Author: IMRAN AKIF KHAN Read More Articles by IMRAN AKIF KHAN: 86 Articles with 62283 views I"m Student & i Belive Taht ther is no any thing emposible But mehnat shart he.. View More