حقائق تو یہ ہیں

ہم نے جب سے اس ویب سائٹ پر ماضی کی ایک محب وطن تنظیم البدر کے حوالے سے کچھ باتیں کی تو بہت سے لوگوں کو یہ بات ناگوار گزری، بالخصوص نام نہاد حق پرستوں کے ایک سرگرم حامی جناب فرقان خان صاحب کو تو یہ بات انتہائی بری لگی ہے۔ اور اس کےب عد سے وقتاً فوقتاً وہ اس حوالے سے گوہر افشانیاں کرتے رہتے ہیں اور قائد تحریک کے جھوٹے پروپیگنڈے کو دہراتے رہتے ہیں۔ ویسے ایک دلچسپ حقیقت جو ہمارے سامنے آئی کہ فرقان صاحب کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہے کہ کونسی تنظیم کیا ہے؟ اس کی تاریخ کیا ہے؟۔ بلکہ ان کو صرف اس بات کی فکر ہوتی ہے کہ کوئی متحدہ کے خلاف بات کرے تو وہ ایک محاذ کھول دیں۔ پہلے جب ہم نے نواز شریف کے خلاف لکھے گئے آرٹیکلز کا جواب دیا تھا تو ان کو غلط فہمی پیدا ہوئی کہ شائد ہمارا تعلق مسلم لیگ ن سے ہے اسی بناء پر اسوقت وہ ہمارے ہر کالم کے جواب میں میاں نواز شریف، مسلم لیگ ن اور پنجاب کو لتاڑتے رہتے تھے ( یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ اس وقت ہمارے کالمز پر کچھ مخصوص انداز کے تبصرے بھی ہوتے تھے اور وہ بھی سارے نواز شریف اور مسلم لیگ ن کے خلاف ہوتے تھے )۔ پھر یہ ہوا کہ ان کو پتہ چلا کہ ہمارا تعلق جماعت اسلامی سے ہے تو اب یہ ہوتا ہے کہ ہمارے ہر کالم کے جواب میں بلا وجہ جماعت اسلامی کو نشانہ بنایا جاتا ہے( حیرت انگیز طور پر اب اگر اس مخصوص انداز کے تبصرے ہوتے بھی ہیں تو وہ بھی جماعت اسلامی کے خلاف ہوتے ہیں نواز شریف کے خلاف نہیں)۔ جبکہ ان کے کالمز اٹھا کر دیکھے جاسکتے ہیں کہ پہلے ان کے کالمز نواز شریف کے خلاف ہوتے تھے۔ اس سے ثابت ہوا کہ ان کا مقصد حق بات کہنا نہیں ہے بلکہ ہر وہ گروہ، وہ فرد جو متحدہ کا اصل چہرہ دکھائے اس کی کردارکشی کرنا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر ہمارا تعلق کسی اور تنظیم سے ہوتا تو اب تک موصوف اس کی عزت افزائی کرچکے ہوتے۔ بہر حال انہوں نے الزامات لگائے کہ جماعت اسلامی نے ملک توڑنے کی سازش کی۔ مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کی حمایت کی۔ اور مشرقی پاکستان میں البدر اور جماعت اسلامی نے قتل عام میں حصہ لیا۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ انکا جواب دے سکیں

سب سے پہلے اس سوال کا جواب کہ جماعت اسلامی اور جمعیت نے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کی حمایت کیوں کی؟ یہ احمقانہ الزام ہے اور تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش ہے کہ جماعت اسلامی اور جمعیت نے مشرقی پاکستان میں اپنے ہی عوام کے خلاف فوجی آپریشن کی حمایت کی تھی۔ جماعت اسلامی وہ پہلی سیاسی جماعت تھی جس نے 1970ء کے انتخابات کے نتائج اور اپنی بدترین شکست کو کھلے دل سے تسلیم کر کے اقتدار منتخب نمائندوں کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اسلامی جمعیت طلبہ، مشرقی پاکستان کی صوبائی شوریٰ نے 14مارچ 1971ء کو ایک متفقہ قرارداد منظور کی جس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس فوری طلب کیا جائے اور منتخب نمائندوں کو اقتدار منتقل کیا جائے۔ (روزنامہ اتفاق، ڈھاکا،15مارچ 1971ء)

جنوری 1971ء سے عوامی لیگ، پیپلز پارٹی اور برسراقتدار فوجی ٹولے کے درمیان اقتدار کی کشمکش عروج کو پہنچ گئی تھی۔ ملک خصوصاً اکثریتی مشرقی صوبہ عوامی لیگ اور مکتی باہنی کی متشدد سرگرمیوں کی وجہ سے خانہ جنگی کے دہانے پر پہنچ گیا تھا۔ یکم مارچ 1971ء سے غیربنگالیوں یعنی بہاریوں، دیگر زبانیں بولنے والے پاکستانیوں اور محب وطن بنگالیوں کا قتل عام شروع ہوگیا تھا۔ اس صورت حال میں اسلام پسند نوجوانوں خصوصاً اسلامی جمعیت طلبہ (چھاترو شنگھو) کے وابستگان کے سامنے تین راستے تھے: 1۔ حالات کے رُخ پر بہتے ہوئے کھل کر علیحدگی پسندوں یعنی پاکستان توڑنے والوں کا ساتھ دیا جائے۔ 2۔حالات کو اپنے رُخ پر بہنے دیا جائے اور خاموش تماشائی کا کردار ادا کیا جائے، یا 3۔ حالات کا رُخ موڑنے، پاکستان کی سالمیت اور مظلوم عوام کے تحفظ کے لیے میدانِ عمل میں اُتر کر اپنی ذمہ داری ادا کی جائے۔ 10تا 14مارچ کو چار روز تک جاری رہنے والے جمعیت کی صوبائی شوریٰ کے اجلاس میں طویل غوروخوض اور بحث و مباحثہ کے بعد جمعیت نے تیسرے آپشن کو اپنانے اور اس ملک کو بچانے کے لیے عظیم الشان قربانیاں دینے کا فیصلہ کیا جس کو بنانے کے لیے صرف 24 سال قبل ان کے آباؤ اجداد نے قربانی دی تھی اور انگریزوں اور ہندوﺅں کے تسلط سے آزاد کروایا تھا۔ اس فیصلے کے 2 ماہ بعد تک البدر نامی تنظیم وجود میں نہیں آئی تھی۔ البدر اُس وقت تشکیل دی گئی جب مشرقی پاکستان کی سرحدوں پر بھارت کی یلغار شروع ہوچکی تھی اور پاکستانی فوج کی رجمنٹیں بغاوت پر اتر آئی تھیں۔ اس صورت ِحال میں مشرقی پاکستان کی حفاظت کے لیے پاکستانی فوج کو ایک قابل اعتماد اور محب وطن فورس کی ضرورت تھی۔ اس ضرورت اور اسلامی چھاترو شنگھو کے فیصلے کے نتیجے میں البدر کا قیام عمل میں آیا۔

یہ بالکل وہی بات ہے جو کہ فرقان صاحب نے خود بائیس جولائی کو اپنے آرٹیکلَ َ عام حالات میں جہاد (فرض کفایہ) - حصہ ٣ میں بیان فرمایا ہے اور لکھا ہے کہ َ َ جہاد کی مہمات میں سے ایک کام اسلامی سرحدات کو دشمن کی یلغار سے محفوظ رکھنے کا ہے جس کو قرآن و حدیث کی اصطلاح میں '' رباط '' کہا جاتا ہے ۔ اور جہاد کی طرح اس کی بھی بڑے فضائل قرآن وحدیث میں مذکور ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ (عنہم) کی ایک جماعت نے اس کو دوسرے کاموں پر ترجیح دے کر اسلامی سرحدات پر قیام اختیار فرمایا تھا۔َ َ اور َ َ جہاں دشمن کے حملے کا خطرہ ہو ان حفاظت کا ہر قدم رباط کے حکم میں ہے۔ یہ ایسا جہاد ہے جس میں ہر شہری اپنے گھر میں بیٹھا ہوا بھی رباط کا ثواب لے سکتا ہے،َ َ
( جاری ہے) 
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1520275 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More