آخری کوشش

درندے کے قدموں کی آہٹ اور بھی قریب ہو گئ تھی۔ اس نے سوچا اگر اس کے دوڑنے کی رفتار یہی رہی تو جلد ہی درندے کے پنجوں میں ہو گا۔ اس نے دوڑنے کی رفتار اور تیز کر دی۔ پھر اس نے سوچا کیا وہ اور اس جیسے کمزور طاقتور کے آگے دوڑنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں؟ جب اور جہاں کمزور کی رفتار کم پڑ جاتی ہے طاقتور دبوچ لیتا ہے۔ اس کے بعد زندگی کا ہر لمحہ طاقتور کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ چند لمحوں کے ذہنی سکون کے بعد طاقتور چیر پھاڑ کر اپنی مرضی کے حصے کھا پی کر جان بناتا ہے۔ لمحہ بھر کے لیے بھی وہ یہ سوچنے کی ذحمت گوارا نہیں کرتا کہ کمزور کے دودھ پیتے بچوں کا کیا ہو گا۔ اس کے جانے کے بعد اس سے کم طاقتور بقیہ پر بڑی بے دردی سے ٹوٹ پڑتے ہیں اور وہ بوٹی بوٹی نوچ لیتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہڈیوں پر بھی رحم کھایا نہیں جاتا۔ کھایا بھی کیوں جائے ہڈیاں فاسفورس کی کانیں ہیں۔ بٹنوں کے لیے ان کی ضرورت رہتی ہے۔

اس کے بھاگنے کی رفتار میں مزید اضافہ ہو چکا تھا۔ سوچ خوف اور بچ نکلنے کی خواہش نے اس کے جسم میں ہونے والی ٹوٹ پھوٹ کا احساس تک نہ ہونے دیا۔ وہ ہر حالت میں دشمن کی گرفت سے باہر نکل جانا چاہتا تھا لیکن دشمن بھی اسے بخش دینے کے موڈ میں نہ تھا کیونکہ اس کی رفتار میں بھی ہر اضافہ ہو گیا تھا۔

موت کا گھیرا تنگ ہو گیا تھا۔ اس کے سامنے کھلا میدان دائیں دریا بائیں گہری کھائی اور پیچھے خونخوار درندہ تھا۔ رستے کے انتخاب کے حوالہ سے یہ بڑی سخت گھڑی تھی۔ پھر وہ بائیں مڑ گیا۔ اس نے جسم کی ساری طاقت جمع کرکے کھائی تک پہنچنے کی کوشش کی۔ درندہ فقط ایک قدم کے فاصلے پر رہ گیا تھا۔ اس سے پہلے درندے کا پنجہ اس کی گردن پر پڑتا اس نے کھائ میں چھلانگ لگا دی۔ درندے کے اپنے قدم اس کی گرفت میں نہ رہے۔ کوشش کے باوجود رک نہ سکا اور وہ بھی گہری کھائی کی نذر ہو گیا۔

کمزور کے جسم کی ہڈیاں ٹوٹ گئی تھیں اور دم اکھڑ رہا تھا۔ اس نے سراٹھا کر دیکھا کچھ ہی دور درندہ پڑا کراہ رہا تھا۔ اس کی ٹانگیں ٹوٹ گئی تھیں۔ بھوک درد کے زنداں میں مقید ہو گئی تھی۔ کمزور کے چہرے پر آخری مسکراہٹ صبح کازب کے ستارے کی طرح ابھری۔ اس کی آخری کوشش رنگ لا چکی تھی۔ اسے اپنی موت کا رائی بھر دکھ نہ تھا۔ اس نے خود یہ رستہ منتخب کیا تھا۔ اب یہ درندہ کبھی کسی کمزور کا وحشیانہ تعاقب نہ کر سکے گا اور اس کی ٹانگوں سے ہمیشہ اف اف اف کے بزدل نعرے بلند ہوتے رہیں گے۔

maqsood hasni
About the Author: maqsood hasni Read More Articles by maqsood hasni: 170 Articles with 190885 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.