دولت میں اضافہ ایک ہوس ہے ، جس
میں دنیا کے ارب پتی سب سے آگے ہیں۔ دنیا کے وسائل پر دنیا کے تھوڑے سے
لاگوں کا قبضہ ہے۔ سال 2009 سے ان ارب پتی افراد کی دولت میں اضافے پر
اضافہ ہورہا ہے۔بزنس نیوز ایجنسی 'بلومبرگ' کے مطابق گذشتہ سال دنیا کے
امیرترین افراد کی دولت 241 ارب ڈالر بڑھکر کل ملاکر 19 کھرب ھو گئی ھے۔ سب
سے بڑا اضافہ یعنی 20 فیصد اضافہ ان ارب پتیوں کی دولت میں ھوا جن کا بزنس
ٹیلی کمیونکیشن اور دیگر شعبہ جات سے وابستہ ھے۔ اس فہرست میں اسپین کے 76
سالہ شہری، تیار شدہ لباس کے ٹریڈ سینٹرز نیٹ ورک کے مالک آمانسیو اورتیگا
نے امریکی ارب پتی اورین بافٹ سے تیسری پوزیشن چھین لی۔ دوسری پوزیشن پر
امریکی بزرس مین بل گیٹس ھیں جنکی دولت کا اندازہ 63 ارب ڈالرتک ھے جبکہ
ٹیلی کمیونکیشن بزنس میں مصروف میکسیکو کے شہری کارلوس سلیم کو پھر سے دنیا
کا امیرترین آدمی قرار دیا گیا ھے۔
اقوام متحدہ نے دنیا کے ارب پتی افراد پر ٹیکس عائد کرنے کی تجویز بھی پیش
کی ہے تاکہ سالانہ چار سو بلین ڈالر اکٹھے کرتے ہوئے غریب ممالک کی مدد کی
جا سکے۔سالانہ عالمی اقتصادی اور سماجی سروے کے مطابق دنیا میں غریبوں کی
مدد کرنے کے لیے نئے طریقے تلاش کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے جبکہ وعدوں کے
مطابق امداد بھی نہیں دی جا رہی۔رپورٹ کے اندازوں کے مطابق صرف امریکا ہی
میں ارب پتی افراد کی تعداد 425 کے قریب ہے۔ ایشیا پیسفک میں 315، یورپ میں
310، شمالی اور جنوبی امریکی ممالک میں 90 جبکہ افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں
موجود ارب پتیوں کی تعداد 86 ہے۔رپورٹ کے مطابق یہ ارب پتی افراد مجموعی
طور پر 4.6 ٹریلین ڈالر کے مالک ہیں۔ اگر ان پر ایک فیصد بھی ٹیکس عائد کیا
جائے تو 46 بلین ڈالر سے زائد رقم جمع کی جا سکتی ہے۔کیا اس اقدام سے ارب
پتی افراد کو نقصان پہنچے گا ؟ رپورٹ میں اس سوال کے جواب میں کہا گیا ہے،
’’ٹیکس ادائیگی کے بعد بھی ہر ارب پتی اوسطا 3.7 ارب ڈالر کا مالک ہے۔ اگر
یہ ارب پتی روزانہ ایک ہزار ڈالر بھی خرچ کرے تو اسے اپنی تمام رقم خرچ
کرنے کے لیے 10 ہزار سال درکار ہوں گے۔اس رپورٹ کے مطابق سن 2008 میں آنے
والے عالمی معاشی بحران سے پہلے، گزشتہ دو عشروں میں ان ارب پتی افراد کی
دولت میں سالانہ چار فیصد اضافہ ہوا تھا۔ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اگر
دولت میں اضافے کی یہی شرح رہتی ہے تو آئندہ سترہ برس سے بھی کم عرصے میں
یہ دولت دو گنا ہو جائے گی۔ لیکن اب صرف پانچ سال کے عرصے میں ان ارب پتی
افراد کی دولت دگنی ہوگئی ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ اقوام متحدہ کا یہ نیا
منصوبہ امریکی ٹائکون وارن بفیٹ جیسے ارب پتی افراد کو اچھا لگ سکتا ہے۔ اس
امریکی ارب پتی نے شکایت کی تھی کہ وہ اپنی سکریٹری سے کم ٹیکس ادا کرتے
ہیں۔ساتھ ہی اقوام متحدہ نے یہ بھی تسلیم کہ ہے کہ اس منصوبے کو بڑے پیمانے
پر حمایت حاصل نہیں ہو سکے گی۔ اس رپورٹ میں بین الاقوامی ٹیکس کے لیے کئی
دوسری تجاویز بھی پیش کی گئی ہیں، جن میں ایک یہ بھی ہے کہ ہر ملک فی ٹن
کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج پر ٹیکس ادا کرے۔ اسی طرح ایک تجویز یہ بھی ہے
کی عالمی سطح پر کرنسی کے لین دین پر مخصوص ٹیکس عائد کیا جائے۔اس مہینے کے
شروع میں مشہور امریکی رسالے، فوربس( Forbes) نے کھرب پتیوں کی تازہ فہرست
جاری کی تھی۔ اس کے حساب سیاس وقت دنیا میں’’ 1426 ‘‘کھرب پتی موجود ہیں جو
5.4 ٹرلین ڈالر کی دولت رکھتے ہیں۔(ایک ٹرلین ڈالر برابر ایک ہزار ارب
ڈالر)۔پچھلے سال کھرب پتیوں کی مجموعی دولت 4.6 ٹرلین ڈالر تھی۔ گویا صرف
ایک برس میں ان کی دولت میں 800 ملین ڈالر کا اضافہ ہو گیا۔ یاد رہے ،اس
فہرست میں کم از کم 1ارب ڈالر(99 ارب روپے) دولت رکھنے والی شخصیات ہی شامل
ہو سکتی ہیں۔ چنانچہ ایسے افراد پاکستانی کرنسی کے لحاظ سے کھرب پتی ہی
ہوئے۔ اگر جی ڈی پی (GDP)کے حساب سے دیکھا جائے تو یہ 1426کھرب پتی یورپی
یونین، امریکہ اور چین کے بعد دنیا کا چوتھا بڑا جی ڈی پی رکھتے ہیں۔ چھ
ارب لوگوں میں موجود یہ تھوڑے سے لوگ ساری دنیا میں بہت اثر رسوخ کے مالک
ہیں۔ ان کھرب پتیوں میں کئی سیلف میڈ ہیں جنہوں نے اپنی ذہانت و محنت سے
پیسا کمایا۔ بعض کو وراثت میں جائیدادیں اور کمپنیاں ملیں، چنانچہ وہ بیٹھے
بیٹھائے کھرب پتی بن گئے۔ لیکن اس فہرست میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو کسی
طرح نیک نام نہیں کہے جاسکتے ہیں۔ ان کھرب پتیوں نے غیرقانونی اور ناجائز
طریقے استعمال کرکے دولت کمائی۔ ً دنیا کے امیر ترین انسان، کارلوس سلیم نے
میکسیکو اور دیگر ممالک میں کئی شعبوں میں اجارہ داری قائم کر رکھی ہے۔ وہ
ناجائز ہتھکنڈے اختیار کر نے میں شہرت رکھتے ہیں۔ بے شک وہ کئی اچھے
منصوبوں پر کروڑوں ڈالر خرچ کرتے ہیں۔ لیکن انھیں ایماندار اور شریف نہیں
کہا جا سکتا۔ اسی طرح امریکی کاروباری کھرب پتی، ایس کرٹس جانسن (S. Curtis
Johnson)اپنی سوتیلی بیٹی کی بے حرمتی کرنے کے گھناؤنے جرم میں ملوث پایا
گیا۔ اٹلی کے دو کھرب پتی ہم جنس عاشق ہیں جنہوں نے مل کر ڈولس اینڈ گابانا
کمپنی قائم کی۔ اْدھر روسی اور بھارتی کھرب پتی اپنی دعوتوں اور تقریبات پر
توکروڑوں روپے خرچ کر ڈالتے ہیں لیکن غریبوں کو ایک پائی نہیں دیتے۔ ں ایسے
کھرب پتی جو عوام الناس کی نظروں میں گر ے ہوئے ہیں۔ ان کی ایک بڑی تعداد
امریکہ میں ہے۔ ان میں سے چند سر فہرست افرد یہ ہیں۔ والٹن خاندان دولت
:115.79ارب ڈالر امریکہ کا یہ امیر ترین خاندان آمدنی میں عدم مساوات کی
بہترین مثال بھی ہے۔ اس خاندان کے چھ افراد دنیا میں سب سے بڑی ریٹیلر
کمپنی ’’وال مارٹ‘‘ (Walmart)کے مالک ہیں۔ اس کمپنی کا بانی سام والٹن تھا
جس نے 1962ء میں پہلا وال مارٹ سٹور کھولا۔اس وقت پوری دنیا میں اس خاندان
کے تقریباً نو ہزار سٹور واقع ہیں جن میں ’’بائیس لاکھ افراد‘‘ کام کرتے
ہیں۔یہ خاندان کرسٹی والٹن(28.2 ارب ڈالر)،جم والٹن(26.7)،ایلس
والٹن(26.3)،روب والٹن(26.1)،اینی والٹن(4.5)،اور نینسی والٹن(3.9ارب ڈالر)
پہ مشتمل ہے۔ امریکی عوام کے نزدیک یہ ان دولت مند ’’1 فیصد‘‘ امریکیوں کا
نمائندہ خاندان ہے جو اپنی شاطرانہ پالیسیوں سے خود تو ہر سال امیر سے امیر
تر ہورہے ہیں، جبکہ ملازمین اور کارکنوں کو انہوں نے استحصالی طریقوں کا
نشانہ بنارکھا ہے۔ 2007ء میں فوربس فہرست کی رو سے وال مارٹ کے چھ مالکان
69.7 ارب ڈالر کی مجموعی دولت رکھتے تھے۔ تب ان کی دولت نچلے طبقوں کے 30
فیصد امریکیوں کی مجموعی دولت کے برابر تھی۔ چھ برس بعد وہ 115.79 ارب ڈالر
کی مجموعی دولت رکھتے ہیں۔ گویا اب یہ دولت نچلے 41 فیصد امریکیوں کی
مجموعی دولت کے برابر ہوچکی۔ دوسری طرف لاکھوں امریکی اب تک 2008ء کے عالمی
معاشی بحران سے نہیں نکل پائے۔ ان کی تنخواہیں بس اتنی ہی ہیں کہ روز مرہ
کے اخراجات پورے ہوسکیں۔ بڑی امریکی کارپوریشنیں اپنے نچلے و درمیانے درجے
کے ملازمین کی تنخواہیں بہت کم بڑھاتی ہیں۔ اور ان کارپوریشنوں کی سرخیل
وال مارٹ کمپنی ہے۔ مٹھی بھر افسروں کو چھوڑ کر عام کارکن کی تنخواہ 8.81
ڈالر فی گھنٹہ ے جو امریکی معیار سے بہت کم ہے۔ وال مارٹ کی دیکھا دیکھی
دیگر کمپنیوں نے بھی تنخواہیں کم رکھی ہوئی ہیں۔ دوسری طرف مالکان کی دولت
دن دگنی رات چوگنی کی رفتار سے بڑھ رہی ہے۔ اس وقت امریکہ میں بدترین قسم
کا ارتکاز دولت جنم لے چکااور وہاں دولت چند ہاتھوں تک محدود ہوچکی۔ ماہرین
کا کہنا ہے کہ والٹن خاندان اپنے لاکھوں کارکنوں کی تنخواہوں میں معقول
اضافہ کرکے انہیں مایوسی، ڈپریشن اور مالی مسائل سے نجات دلا سکتا ہے۔ لیکن
یہ خاندان اپنی دولت تقسیم کرنے کو تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ میں
باقاعدہ ایسی تنظیمیں بن چکی جو وال مارٹ اور والٹن خاندان کی کارکن دشمن
پالیسیوں کے خلاف جلسے منعقد کرتی اور جلوس نکالتی ہیں۔ کوک برادران
دولت:70 ارب ڈالر یہ تین برادران امریکہ میں دوسرے بڑے کاروباری گروپ، کوک
انڈسٹریز(Koch industries) کے مالک ہیں۔ یہ گروپ اپنے دامن میں مختلف اقسام
کی کمپنیاں سموئے ہوئے ہے جن میں 70 ہزار ملازمین کام کرتے ہیں۔ گروپ کی
سالانہآمدنی 110 ارب ڈالر ہے۔ گروپ کے مالک دونوں بھائی، چارلس کوک( 34 ارب
ڈالر) اور ڈیوڈ کوک (34 ارب ڈالر) امریکہ کی چوتھی امیر ترین ہستیاں
ہیں۔تیسرا بھائی،ولیم کوک گروپ میں 4 ارب ڈالر کے حصص رکھتا ہے۔ ان امیر
بھائیوں کے دو چہرے ہیں جو پچھلے چند برس میں امریکی عوام پہ عیاں ہوچکے۔
ایک طرف یہ عجائب گھروں،آرٹ کی تنظیموں، تھنک ٹینکس اور سماجی تنظیموں کو
کثیر مالی امداد دیتے ہیں۔دوسری طرف چاہتے ہیں کہ حکومت عوام کی بھلائی کے
لیے شروع کی گئی سرکاری اسکیمیں مثلاً سوشل سکیورٹی، میڈی کیئر وغیرہ ختم
کردے۔ کوک انڈسٹریز کی بیشتر کمپنیاں ماحول دشمن سبز مکانی گیسیں
(Greenhouse Gases) خارج کرتی ہیں۔ یہ گیسیں کنٹرول نہ کرنے پر ماضی میں
کمپنیوں پر بھاری جرمانے بھی ہوچکے۔ کوک بھائیوں نے بھاری جرمانوں سے بچنے
کا یہ طریقہ ڈھونڈ نکالا کہ وہ ان سائنس دانوں اور سائنسی اداروں کی
سرپرستی کرنے لگے جو عالمی آب و ہوا میں جنم لیتی تبدیلیوں کے انکاری ہیں۔
یہ امریکی بھائی ہر امریکی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ صنعت و تجارت اور
کاروبار پر عائد ٹیکس کم کیے جائیں۔ ان برادران نے قدامت پرست امریکی سیاسی
جماعت، ٹی پارٹی(Tea party) کو لاکھوں ڈالر بطور چندہ دیئے۔ یہ سیاسی جماعت
بھی ٹیکس کم کرنے کے حق میں ہے۔ کوک برادران کی خواہش ہے کہ حکومت کاروبار
اور صنعت و تجارت میں کم سے کم دخل دے اور سب کچھ مالکان پر چھوڑ دے، تاکہ
وہ من مانیاں اور ملازمین کا استحصال کرسکیں۔ کوک برادران اسلام سے خوف
(اسلام فوبیا) کا بھی شکار ہیں۔ 2005 میں ایک امریکی این جی او، دی کلیرن
فنڈ (Clarion Fund)نامی نے اسلامی مخالف فلم ،Obsession: Radical Islam's
War Against the West بنائی تھی۔ امریکہ میں اس فلم کی بہت تشہیر ہوئی۔ بعد
ازاں انکشاف ہوا کہ کوک برادران لاکھوں ڈالر بطور امداد دی کلیرن فنڈ کو دے
چکے۔ گویا انہی کی ایما اور سرمائے سے یہ اسلام دشمن فلم تیار ہوئی اور
مسلمانوں کو بدنام کرنے کا منصوبہ بنا۔ واضح رہے، ان بھائیوں کے آباو اجداد
یہودی تھے، لیکن اپنی نسل بچانے کے لیے وہ ہالینڈ میں کیتھولک عیسائی
ہوگئے۔ کوک بھائی مشہور امریکی میڈیا گروپ، ’’ٹربیون‘‘ کمپنی خریدنے کے
خواہش مند ہیں تاکہ اپنا پروپیگنڈا خود کر سکیں۔ یہ کمپنی 23 ٹی وی چینلوں
اور لاس اینجلس ٹائمز اور شکاگو ٹربیون جیسے بڑے اخباروں کی مالک ہے۔ جینا
رائن ہارٹ دولت :17 ارب ڈالر اس موٹی تازی آسٹریلوی عورت پر پتھر دل ہونے
کا محاورہ فٹ بیٹھتا ہے۔ یہ 59سالہ عورت سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوئی۔ باپ
کانوں کا مالک تھا۔ دنیا سے رخصت ہوا، تو اس کی ساری جائیداد اکلوتی بیٹی
کو مل گئی۔ چھپر پھاڑ کر دولت ملی، تو اس نے جینا کا دماغ خراب کردیا۔ اس
امر کا ثبوت وہ اپنے ’’خیالات عالیہ‘‘ ظاہر کرکے اکثر دیتی ہے۔ 2011ء میں
جینا رائن ہارٹ(Gina Rinehart) نے غریبوں کو ’’سنہرا ‘‘پیغام دیا:’’ہم
امیروں سے حسد نہیں کرو۔ بلکہ شراب وسگریٹ کم پیو، ملنے جلنے میں وقت ضائع
نہ کرو اور زیادہ سے زیادہ کام کرو تاکہ خود بھی امیر ہو سکو۔‘‘ پھر 2012ء
میں جینا نے آسٹریلوی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ملازمین کے لیے کم ازکم
تنخواہ کی شرط ہٹا ڈالے۔ اور کمپنیوں کے مالکان کو اجازت دے کہ وہ اپنی
مرضی سے ملازموں کی تنخواہیں مقرر کرسکیں۔ جینا نے اس طرف بھی اشارہ کیا کہ
افریقی محض دوڈالر روزانہ پر کام کرنے کو تیار ہیں۔ لہٰذا آسٹریلوی ملازمین
کو 20 تا 30ڈالر روزانہ دینے کی کیا ضرورت ہے؟ دراصل ایسے مطالبے کرکے جینا
ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات کے ’’زائد خرچ‘‘ سے بچنا چاہتی تھی۔جینا
کان کنی کی کمپنی، ہینوک پروسپیکٹنگ(Hancock Prospecting ) کی مالک ہے۔ نیز
میڈیا گروپوں میں بھی اس نے کثیر سرمایہ کاری کررکھی ہے۔ جینا حقیقت میں
لالچی اور خودغرض عورت ہے۔ اپنی دولت و جائیداد پر سانپ بن کربیٹھی ہے۔
حتیٰ کہ اسی دولت کی خاطر اپنے بچوں سے لڑبیٹھی اور ان سے مقدمے بازی میں
مصروف ہے۔ جو ماں اپنے بچوں کو ان کے حق سے محروم کردے، اس کے پتھر دل ہونے
میں کوئی شبہ نہیں رہتا۔ سرمایہ کاروں کی ایک مخصوص خامی بھی جینا میں
موجود ہے۔ وہ سالانہ اربوں روپے کماتی ہے۔ لیکن اٹھتے بیٹھتے اس بات کا
پرچار کرتی ہے ’’حکومت نے بھاری ٹیکس لگا رکھے ہیں، گزارہ نہیں ہوتا۔‘‘ واہ
کیا معصومیت ہے! رپرٹ مردوخ دولت:11.2ارب ڈالر عام طور پہ بے ایمانی ،
دھوکے، رشوت، دھونس سے جب کسی انسان کا کام نکل آئے ، تو وہ اسے اپنی
کامیابی سمجھتا ہے۔ یہی معاملہ رپرٹ مردوخ(Rupert Murdoch) کے ساتھ بھی پیش
آیا۔ 82سالہ آسٹریلوی نڑاد امریکی کاروباری، رپرٹ مردوخ دنیا میں دوسرے بڑے
میڈیا گروپ، نیوز کارپوریشن کا مالک ہے۔ یہ کمپنی امریکہ، برطانیہ اور
آسٹریلیا وغیرہ میں مشہور ٹی وی چینلوں، اخبارات اور رسائل کی مالک ہے۔
لیکن اب سبھی لوگوں کو معلوم ہوچکاکہ مردوخ نے مجرمانہ سرگرمیوں کے ذریعے
ہی اپنی میڈیا سلطنت قائم کی۔ یہی وجہ ہے کہ میڈیا کی اپنی طاقت اور اپنے
اثرورسوخ کا اس نے غلط استعمال کیا۔ مردوخ چاہتا، تو اس طاقت کے ذریعے عوام
کی بھلائی کے کئی کام کرسکتا تھا۔ مگر اس نے اپنے چینلوں ،اخبارات اور
رسالوں کے ذریعے جھوٹا پروپیگنڈاکرنا ، جھوٹی خبریں پھیلانا، عوام کو عدم
برداشت سکھانا اور لوگوں کی پگڑیاں اچھالنا اپنا وتیرہ بنالیا۔ حتی کہ
امریکہ اور برطانیہ جیسے بظاہر مضبوط جمہوری ممالک میں بھی سیاست دان اس سے
ڈرنے لگے۔ انہیں ڈرتھا کہ اگر انہوں نے مردوخ کا شیطانی جال توڑنے کی
کوششیں کیں، تو وہ پروپیگنڈے کے بل پر ان کا سیاسی کیریئر تباہ کرڈالے گا۔
آخر دوسال قبل برطانیہ اور امریکہ میں ہیکنگ( Hacking) اسکینڈلوں نے مردوخ
کی عزت تار تار کردی۔ انکشاف ہوا کہ نیوز کارپوریشن کے چینلوں، اخبارات اور
رسائل میں کام کرنے والے ملازم چوری چھپے مشہور شخصیات سے لے کر عام افراد
تک کے ٹیلی فون سنتے اور ان کی جاسوسی کرتے ہیں۔ مدعا یہ ہوتا ہے کہ کوئی
چٹ پٹی اور سنسنی خیز خبر مل سکے۔ چنانچہ ان اسکینڈلوں میں مردوخ کو پولیس،
ایف بی آئی اور دیگر تحقیقی اداروں کی تفشیش کا سامنا کرنا پڑا۔ آج زرد
صحافت اور رپرٹ مردوخ ہم معنی اصطلاحیں بن چکیں۔ بے شک وہ 11ارب ڈالر کی
کثیر دولت رکھتا ہے، لیکن اس کی عزت دوکوڑی کی بھی نہیں رہی۔ایسے لوگ آزادی
صحافت کے نام پر دھبہ ہیں‘‘ سلویو برلوسکونی دولت:6.5 ارب ڈالر مقولہ ہے کہ
اقتدار مل جائے تو وہ بے ایمان انسان کو مزید کرپٹ بنادیتا ہے۔ یہ مقولہ
سابق اطالوی وزیراعظم ،سیلویوبرلو سکونی پر فٹ بیٹھتاہے۔ یہ کاروباری شخص
تقریباً دس برس اٹلی کا وزیراعظم رہا۔لیکن اس نے تعمیری کام کم کیے، بس
کرپشن اور جنسی سکینڈلوں میں لتھڑا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ اٹلی کا اندرونی
قرضہ 126.10 ارب ڈالر پہنچ چکا جو دنیا میں آٹھواں بڑا ہے۔ جبکہ بیرونی
قرضہ بھی 2.46 ٹریلین ڈالر ہو چکا جو دنیا میں نواں بڑا عدد ہے۔ موصوف اپنے
دور میں ’’بنگا بنگا‘‘(bunga-bunga) پارٹیاں کراتا رہا جنہوں نے قدیم
رومیوں کی رنگ رلیوں کو بھی ماند کر ڈالا۔ طوائفوں سے تعلقات رکھنے اور
انہیں منہ مانگی رقم دے کر بلاتا رہا۔ اس اطالوی سیاستدان کا مجرمانہ
ریکارڈ طویل اور حیرت انگیز ہے۔ یہ ٹیکس فراڈ، رشوت خوری اور غبن میں ملوث
رہا۔ اب بھی برلوسکونی پر بیس مقدمے چل رہے ہیں۔ نچلی عدالتیں دو مقدمات
میں اسے پانچ برس کی سزائیں سنا چکی۔ اب معاملہ اعلیٰ عدالتوں میں ہے۔
دلچسپ بات یہ کہ مجرمانہ اور غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے باوجود
پچھلے ماہ اطالوی پارلیمانی انتخابات میں برسکولونی کی پارٹی دوسرے نمبر پر
آئی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ شخص اٹلی میں سب سے بڑا میڈیامغل بھی
ہے۔لہٰذا اس کے ٹی وی چینل اور اخبارات مسلسل اطالویوں کو باور کراتے رہتے
ہیں کہ برلو سکونی سیاسی انتقام کا نشانہ بنا ہوا ہے، شیلڈن ایڈلسن
دولت:36.5 ارب ڈالر 79 سالہ شیلڈن کٹر یہودی ہے، اس لیے امریکی شہری ہونے
کے باوجود اس کی تمام تر ہمدردیاں اسرائیل کے ساتھ ہیں۔ ٹیکسی ڈرائیور کا
یہ بیٹا خودپروردہ ہے، لیکن کیسینوؤں کا مالک بنا، تو غربت کی زندگی بھول
گیا۔ اپنی کمپنیوں کے ملازمین کا استحصال کرتا اور نفس پرست ہے۔ اسے یہ امر
بہت ناپسند ہے کہ حکومت امیروں پر زیادہ ٹیکس لگاکر ان سے رقم چھین لیتی
ہے۔ شیلڈن ایڈلسن (Sheldon Adelson)شروع میں ڈیموکریٹک پارٹی کا رکن
تھا۔لیکن جب ایک لیبریونین سے لڑائی کے دوران ڈیموکریٹک لیڈروں نے اسے
تنقید کا نشانہ بنایا تو وہ ریپبلکن پارٹی کارکن بن گیا۔ شیلڈن اب صدارتی
انتخابات میں اس امریکی رہنما کو دل کھول کر چندے دیتا ہے جو اسلامی ممالک
کی مخالفت اور اسرائیل کی حمایت کریں۔ مثلاً حالیہ صدارتی انتخاب میں شیلڈن
نے ریپبلکن امیدوار، مٹ رومنی کو پانچ کروڑ تیس لاکھ ڈالر بطور چندہ دیا۔
یہ کسی واحد شخص سے رومنی کو ملنے والی سب سے بڑی رقم تھی، تاہم وہ بھی اسے
وائٹ ہاؤس نہ پہنچا سکی۔ شیلڈن اسلامو فوبیا کا بھی مریض ہے۔وہ فلسطینی
ریاست کا مخالف ہے۔ کہتا ہے کہ ریاست بننے سے اسرائیل اور یہودی خطرات میں
گھر جائیں گے۔ چنانچہ اسرائیلی حکومت فلسطینیوں پر ظلم و ستم کرے تو اس کے
ضمیر کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ امریکہ میں شیلڈن ہی اسرائیل نواز تنظیموں اور
قدامت پسند گروپوں کو سب سے زیادہ چندے دیتا ہے۔ اب تک وہ تقریباً دس کروڑ
ڈالر ان تنظیموں میں بانٹ چکا۔ دلچسپ بات یہ کہ شیلڈن نے اپنی ساری دولت
جوئے بازی کے کاروبار سے کمائی ہے۔ اب امریکی حکومت شکایات موصول ہونے پر
اس کے کاروبار کی چھان بین کر رہی ہے۔ سرکاری جاسوسوں کا کہنا ہے کہ شیلڈن
چوری چھپے غیرقانونی طریقے اختیار کرتا اور اپناکاروبار بڑھاتا ہے۔ شاید
مستقبل میں قانون کے لمبے ہاتھ اسے اپنی گرفت میں لے لیں۔ پیٹر پیٹرسن
دولت:1.3 ارب ڈالر سٹیفن شوارزمان کے ساتھ بلیک سٹون گروپ کی بنیاد رکھنے
والا یہ 87 سالہ سرمایہ کار امریکہ میں اب بھی اثرورسوخ رکھتا ہے۔ صدر نکسن
کے دور میں امریکی وزیرخزانہ رہا۔ اب امیر ترین ایک فیصد امریکیوں میں شامل
ہو کر ان کی ذہنیت افشا کرتا ہے۔ پیٹر بارہا کہہ چکا کہ امریکی حکومت سوشل
سکیورٹی، میڈی کیئر اور میڈی کیڈ جیسے عوام دوست پروگرام ختم کردے تاکہ بجٹ
خسارہ کم کیا جاسکے۔ اور یوں اندرونی و بیرونی قرضے ختم کرنے میں بھی مدد
ملے گی۔ لیکن امریکی عوام کے نزدیک معاشی مسائل سے چھٹکارا پانے کا یہ
انتہائی گھٹیا طریقہ ہے۔ امریکی حکومت ہر سال اربوں ڈالر اسلحہ بنانے،
فوجیں رکھنے اور جنگیں کرنے پر خرچ کرتی ہے۔ پیٹر پیٹرسن کی توجہ خوفناک
نوعیت کے اس سرکاری خرچ پر نہیں جاتی، مگر وہ عوام کی مددگار سرکاری سکیمیں
ختم کرنا چاہتا ہے۔ یہی امیر اسے امریکہ میں قابل نفرت کھرب پتی بنا
ڈالتاہے۔ سٹیون شوارزمان دولت:6.5 ارب ڈالر یہ 66 سالہ کھرب پتی امریکی
سرمایہ داروں کی مخصوص ذہنیت آشکارا کرتا ہے۔ پردے بیچنے والے ایک یہودی
دکاندار کا بیٹا ہے۔ تعلیم پا کر مختلف کمپنیوں سے وابستہ رہا۔ 1985ء میں
پیٹ پیٹرسن کے ساتھ سرمایہ کار کمپنی، بلیک سٹون گروپ (Blackstone Group)کی
بنیاد رکھی۔ پیسہ ملا تو کارکنوں اور غریبوں کے حقوق بھول بھال اپنی دولت
زیادہ سے زیادہ بڑھانے اور اسے تحفظ دینے میں لگ گیا۔ اپنی سالگرائیں
شاندار طریقے سے منانے کا شوقین ہے۔ ہر سالگرہ پر پاکستانی حساب سے کروڑوں
روپے خرچ ہوتے ہیں لیکن اپنے ملازمین کی تنخواہیں نہیں بڑھاتا۔ دوسری طرف
حکومت ٹیکسوں کی رقم تھوڑا سا بھی بڑھائے تو چیخ اٹھتا ہے۔ اسی لیے ریپبلکن
پارٹی کا طرفدار ہے جو امرا پہ ٹیکس بڑھانے کی حامی نہیں۔ سٹیون شوارزمان(
Stephen Schwarzman) نے حال ہی میں تین امریکی ریاستوں، نیویارک، اریزونا
اور فلوریڈا میں 3.5 ارب ڈالر کی لاگت سے 20 ہزار گھر خریدے ہیں۔ وہ ان
گھروں کو کرائے پر چڑھا کر مالی فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ یہ سبھی گھر مارکیٹ
ویلیو سے 30 تا40 فیصد کم رقم پر خریدے گئے۔ یوں سٹیون نے پریشان حال
امریکیوں کی بے بسی سے خوب فائدہ اٹھایا اور سستے داموں ان کی خون پسینے کی
کمائی سے بنی رہائش گاہیں خرید لیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ دولت:3.2 ارب ڈالر امریکہ
کے اس 66 سالہ کھرب پتی کی بنیادی خامی یہ ہے کہ شہرت کا بھوکا ہے۔ یہ بھوک
اس سے کبھی کبھی مضحکہ خیز حرکتیں بھی کراتی ہے۔ دراصل ٹرمپ چاہتا ہے کہ وہ
ہر وقت خبروں میں رہے۔لہٰذا وہ کوئی نہ کوئی متنازع ایشو کھڑا کیے رکھتا
ہے۔ مثلاً صدر اوباما اپنا برتھ سرٹیفکیٹ جاری کرچکے، مگر ٹرمپ یہی راگ
الاپتا رہتا ہے کہ وہ غیرملکی ہیں اور ممکن ہے کہ مسلمان بھی ہوں۔ ڈونالڈ
ٹرمپ ( Donald Trump)رئیل اسٹیٹ ٹائکون ہے۔ امریکی شہروں میں کئی قیمتی
عمارتوں اور پلاٹوں کا مالک ہے۔ 2011 میں اعلان کیا کہ وہ 2012 میں صدارتی
انتخابات لڑے گا۔ مگر پھر دستبردار ہوا اورمٹ رومنی کا حمایتی بن گیا۔
اسرائیل کا حامی ہے مگر کھل کر فلسطینیوں کی مخالفت نہیں کرتا۔ منہ پھٹ
سمجھا جاتا ہے مگر اسلاموفوبیا کا شکار نہیں۔ کہتا ہے کہ بہت سے مسلمان
ذہین، باصلاحیت اور اہل ہیں۔ تاہم یہ بھی سمجھتا ہے کہ اسلامی دنیا کسی
مسئلے کا شکار ہے ،اسی لیے مغرب کو اپنادشمن سمجھتی ہے۔ ڈونالڈ شہرت کی
خاطر جھوٹ بولنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ اس واسطے امریکہ میں ’’جھوٹے‘‘ کی
حیثیت سے مشہور ہے۔ ایک اور طریق واردات یہ ہے کہ جب بھی کوئی ڈونالڈ پر
تنقید کرے، وہ اس پر ازالہ حیثیت عرفی کا مقدمہ ٹھونک دیتاہے۔ یہی وجہ ہے
کہ ڈونالڈ سیکڑوں مقدموں میں ٹانگیں پھنسائے بیٹھا ہے۔ موصوف پاکستان کا
مخالف ہے۔ 2011 میں بیان دیا کہ پاکستان کو اسی وقت امریکی امداد دینی
چاہیے جب وہ اپنے ایٹمی ہتھیار تلف کردے۔ کارل ایکان دولت:20 ارب ڈالر
امریکہ کا یہودی سرمایہ دار جسے امریکی عوام کئی منفرد خطابات سے نواز
چکی…مثال کے طور پر ’’کارپوریٹ لٹیرا‘‘، ’’عیار سرمایہ کار‘‘ اور ’’لالچی
ایکان‘‘۔ 2007 میں سی این این نے اسے کرہ ارض پر سب سے چالاک سرمایہ کار کا
خطاب دیا۔ 77 سالہ کارل ایکان (Carl Icahn) ناکام گلوکار اور ایک اسکول
استانی کا بیٹا ہے۔ 1961 میں وال سٹریٹ میں سٹاک بروکر کی حیثیت سے عملی
زندگی کاآغاز کیا۔ جتنا کماتا اس سے کمپنیوں کے حصص خریدلیتا۔ یوں اس کی
دولت بڑھتی چلی گئی، مگر ساتھ ساتھ لالچ و حرص میں بھی اضافہ ہوا۔ ذہین
تھا، مگر اس کی ذہانت نے منفی رخ اختیار کرلیا۔ کارل ایکان کا طریق واردات
یہ ہے کہ وہ مالی مشکلات کا شکار کمپنی سستے داموں خریدتا ہے۔ پھر کمپنی کے
ملازمین کو اکثریت کو گھر بھجوا دیتا ہے۔ پھر کمپنی کی جائیدادیں مہنگے
داموں بیچ کراپنا منافع کھرا کرتا ہے۔ یوں دوسرے لوگ تو اپنی نوکریوں سے
ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ،جبکہ ایکان زیادہ امیر کبیر بن جاتا ہے۔ 1985ء میں
درج بالا معاملہ مشہور امریکی فضائی کمپنی، ٹرانس ورلڈ ایئرلائنز کے ساتھ
بھی پیشآیا۔ تب کمپنی کے سابق چیئرمین، سی ای میئر(C.E. Meyer) نے ایکان کو
’’دنیا کا سب سے زیادہ لالچی انسان‘‘ قرار دیا۔ امریکی کمپنیوں کے ملازمین
میں وہ ’’ایکان دی باربیرین‘‘(Icahn the Barbarian) کے عرف سے مشہور ہے۔
کچھ دن قبل وال اسٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ سے انکشاف ہوا کہ پچھلے دس برس
میں کارل ایکان ’’68 کمپنیوں‘‘ کے ساتھ مقدمے بازی میں مصروف رہا۔آج بھی
ڈیل کمپیوٹرز، یاہو، نوسیٹار، نیٹ فلیکس، ہربل لائف اور کئی بڑی کمپنیوں سے
وہ لڑائی میں مصروف ہے۔ ارب پتی کی کی یہ فہرست اس بات کی غماز ہے کہ دولت
کے جمع کرنے والے ہر دور میں قارون کی طرح ہی رہے ہیں۔ |