کیا آپ کی جیب میں ہزار کا نوٹ
ہے ؟ اگر ہزار کا نہیں تو پانچ سوکا ضرور ہو گا؟ کیا آپ کو یقین ہے کہ وہ
نوٹ جعلی نہیں ہے؟ آپ نے اس کے اصلی ہونے کا یقین کر لیا ہے؟ اگر وہ اصلی
نہیں تو پھر کہیں آپ پکڑے نہ جائیں؟ آپ کے خلاف کاروائی نہ ہو جائے، لہٰذٰ
ہو شیار ہو جایئے۔ آپ اپنی جیب میں موجود نوٹوں کے جعلی نہ ہونے کی تصدیق
کیسے کر سکتے ہیں ؟ آج کل تو بینکوں سے ہی جعلی نوٹ مل رہے ہیں ، جعلی نوٹ
تو اصل سے بھی ذیادہ اصل نظر آتے ہیں ۔ اصلی نوٹوں کے اصل ہونے پر آپ کو
یقین آئے نہ آئے ، مگر کڑ کڑاتے جعلی نوٹوں کو ہاتھ میں لیتے ہی آپ کو یقین
ہو جائے گا کہ وہ سو فیصد اصلی ہیں ۔ جی ہاں یہ جعلسازوں کی دنیا ہے ، یہاں
تو آنکھوں سے کاجل چرانے والے بستے ہیں اور آپ کو احساس بھی نہیں ہونے دیتے
۔ یہاں آئے دن وہ تماشے آپ کی نگاہوں کے سامنے ہوتے ہیں جن کو تصدیق کرنا
آپ کے دل کے لئے مشکل ہو جاتا ہے ، جعلی نوٹوں کے تعلق سے بھی آج یہی
معاملہ ہے ۔ آپ کو اگر کوئی نوٹ دیتا ہے تو آپ پہلے سے اسے الٹ پلٹ کر
دیکھتے ہیں ، اسے پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں اس کے اصلی ہونے کا یقین کر لینا
چاہتے ہیں مگر اس کے باوجود آپ کو خدشہ رہتا ہے کہ آپ نے کہیں کوئی جعلی
نوٹ تو قبول نہیں کر لیا۔ ٹھیک ایسا ہی معاملہ اس دکاندار کے ساتھ بھی ہوتا
ہے ، جو آپ سے پانچ ہزار، ایک ہزار یا پانچ سو کے نوٹ لیتا ہے ۔اس وقت پورے
ملک میں اربوں روپے کے جعلی نوٹ پھیلے ہوئے ہیں جن کی شناخت مشکل ہے اور
انہیں ضائع کرنا اور بھی مشکل کام ہو چکا ہے ۔ عام لوگوں کے اندر حکومت
بیداری پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ وہ شناخت کر سکیں ، مگر باوجود اس کے
ہر شخص کے لئے نوٹوں کی پہچان مشکل کام ہے ۔ نتیجہ کے طور پر اس قسم کے نوٹ
ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ اور دوسرے ہاتھ سے تیسرے ہاتھ میں پہنچتے رہتے ہیں
جو اس وقت ہماری اربوں کی اکانومی پر اثر انداز ہو رہے ہیں ۔ یہ جعلی نوٹ
دِھیرے دِھیرے ملک کی معیشت کو گھن کی طرح چاٹ رہے ہیں ۔یہ حکومت کے بس کی
بات نہیں رہی کہ وہ ایسے نوٹوں کی شناخت کرکے انہیں الگ کرے ۔حالانکہ جعلی
نوٹوں کے دھندے پر حکومت سخت نظر رکھتی ہے اور ملک کی خفیہ ایجنسیاں بھی
نظر رکھتی ہیں۔ماہرین کا قیاس ہے کہ اس وقت تمام نوٹوں کا 0.21فیصد جعلی ہے
اور پاکستانی مارکیٹ میں دھڑلے سے چل رہے ہیں ۔
پاکستان میں چل رہے جعلی نوٹ کہاں سے آتے ہیں اس سوال کے جواب میں حساس
ادارے یہی کہتے ہیں کہ یہ ہندوستان سے آ رہے ہیں باوجود اس کے پاک و ہند
باڈر پر بہت کم ایسا ہوا ہے کہ جعلی نوٹ کے ساتھ لوگوں کو پکڑا گیا ہو۔ اس
سلسلے میں حکومت اور خفیہ ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ ہندوستان سے سیدھے طور پر
ان نوٹوں کے لانے میں پکڑے جانے کا ڈر رہتا ہے لہٰذٰ اس کے لئے ایسے راستے
اپنائے جاتے ہیں جہاں پکڑے جانے کا خطرہ کم سے کم ہو ۔ جعلی نوٹ ریکٹ کا سب
سے آسان راستہ افغانستان ہے یہ نوٹ ہندوستان سے افغانستان لائے جاتے ہیں
پھر سڑک کے راستے انہیں پاکستان بھیج دیا جاتا ہے ۔ غور طلب ہے کہ دونوں
ملکوں کی سرحدیں غیر محفوظ ہیں اور کھلی ہوئی ہیں لہٰذٰ ریکٹ سے جڑے لوگ
ایسے راستوں سے پاکستان میں داخل ہو جاتے ہیں جہاں چیکنگ نہ ہوتی ہو ۔
علاوہ ازیں یہ نوٹ کسی دوسرے ملکوں سے بھی لائے جاتے ہیں جن میں سری لنکا،
ملیشیاء، ہانگ کانگ ، دوبئی، تھائی لینڈ اور عمان وغیرہ شامل ہیں ۔ پاکستان
کے بازاروں میں جو ہزار اور پانچ سو کے جعلی نوٹ رائج ہیں ، انہیں آخر کون
لوگ لاتے ہیں ؟ اس بارے میں ہمارے ملک کی خفیہ ایجنسیاں کہتی ہیں کہ اس کے
پیچھے ہندوستان کا ہاتھ ہے ،مگر اسے پاکستان تک پہنچانے کا کام ایک طرف
دہشت گرد تنظیمیں کرتی ہیں تو دوسری طرف انڈین انٹیلی جنس ایجنسی را کے لوگ
کرتے ہیں ۔آخر پاکستان کے بازاروں میں جعلی نوٹ کیوں پھیلائے جاتے ہیں ؟ اس
بارے میں خفیہ ایجنسیاں دعویٰ کرتی ہیں کہ اس کا مقصد پاکستان کی معیشت کو
تباہ کرنا ہے ۔ اس کے ذریعے جہاں ملک کی اکانومی کو نقصان پہنچانے کی کوشش
ہو رہی ہے وہیں دوسری طرف پورے ملک میں دہشت گرد تنظیموں کے جال پھیل رہے
ہیں اور اسے کھڑا کرنے کے لئے جعلی کرنسی کا دھڑلے سے استعمال کیا جا رہا
ہے ۔ ذرائع کے مطابق اب تک جیتنے بھی معاملات سامنے آئے ہیں ان سے پتہ چلتا
ہے کہ یہ سب ہندوستان کی طرف سے کئے جا رہے ہیں اور کسی دوسرے ملک کا ہاتھ
ہونے کے ثبوت اب تک فراہم نہیں ہوئے ہیں ۔ |