مشکل فیصلے بھی عوامی تحفظ بھی

پاکستان کے موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے ہر پاکستانی پریشان نظر آتا ہے مگر وہ کچھ کر بھی نہیں سکتا مگر اس طرح ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہو گا،حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں ملک کو دوبارہ ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لیے مشکل فیصلے کرنا ہوں گے ورنہ معاملات بگڑ جائیں گے یہ اعتراف عین حقیقت پسندانہ ہے لیکن ان مشکل فیصلوں کا اثر کم سے کم عوام پر پڑے اس کے لئے ضرور سوچنا ہو گا پاکستان کو بلاشبہ قومی سلامتی، معیشت اور توانائی کے حوالے سے نہایت تکلیف دہ اور نازک مسائل کا سامنا ہے جنہیں نسبتاً مشکل اور ناگوار فیصلے کیے بغیر حل نہیں کیا جا سکتا اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ منتخب حکومتوں کے ابتدائی ایام ہی بالعموم ایسے فیصلوں کے لیے سازگار ثابت ہو سکتے ہیں اس کے برعکس اگر سال ڈیڑھ سال گزرنے کے باوجود حکومت کے منشور میں کیے گئے وعدے پورے نہ ہوں اور عوام اس سے بد دل ہونے لگیں تو اصلاح احوال کے نقطہ نظر سے کی جانے والی تدابیر اکثر عوامی رد عمل کا باعث بن جاتی ہیں جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے لوگوں کو ایثار پر آمادہ کرنا دشوار تر ہو جاتا ہے فیصلے سازی کے بارے میں یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ فیصلے اتنے سخت نہ ہوں جنہیں عوام سہار نہ سکیں یعنی فیصلے ایسے ہونا چاہئیں کہ جو ہضم بھی ہو جائیں اور ان کے ذیلی اثرات کم سے کم ہوں پاکستان کو اس وقت تین بڑے مسائل کا سامناہے اولین مسئلہ دہشت گردی کا ہے جو قومی سلامتی کے لیے چیلنج بنتی جا رہی ہے اور جو باقی تمام مسائل کی جڑ تصور کیا جاتا ہے کیونکہ امن و امان کی ناقص صورت حال کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے اور اس وجہ سے ملک میں بے روزگاری کا گراف انتہائی بلند ہو رہا ہے جس سے کئی اور مسائل جنم لے رہے ہیں دوسرا بڑا مسئلہ معیشت کی بحالی کا ہے نو منتخب حکومت کو سابقہ حکومت سے ملنے والے زر مبادلہ کی مالیت صرف ساڑھے چھ ارب ڈالر تھی جو بمشکل دو چار ہفتوں کی درآمدات کے لیے کافی ہو تے اس صورت حال میں آئی ایم ایف کے قرضوں کی واجب الادا اقساط کی ادائیگی کے لیے اسی بین الاقوامی ادارے سے قرضے لینا مجبوری بن گیا تھاجبکہ آئی ایم ایف کی طرف سے شرط عائد کی گئی کہ توانائی کے نرخوں پر سبسڈی بتدریج ختم کی جائے ظاہر ہے مہنگائی سے پسے ہوئے عوام کے لیے یہ فیصلہ سخت ناگوار ہو ا اسی طرح بجلی چوری کے سدباب کے لیے سخت اقدامات بعض بڑے لوگوں کو ناگوار گزرے جن کے کارخانے چلتے ہی بجلی چوری پر تھے مزید برآں قبائلی علاقوں اور دیگر مقامات پر سیاسی لحاظ سے با اثر لوگ اپنے بل تک ادا نہیں کرتے ہمارے بڑے شہر وں کے اندر لوگوں کی خاصی تعداد نے مین تاروں پرکنڈے لگائے ہوئے ہیں مگر سیاسی اثر رسوخ کی وجہ سے ان پر کوئی بھی ہاتھ ڈالنے کی ہمت نہیں کرتا پھر لائن لاسز ہیں جن کے ذمہ دار واپڈا اور کے ای ایس سی ہیں جو اس پر موثر کنٹرول کرنے میں بری طرح ناکام ہیں گردشی قرضے اپنی جگہ پر ایک بیانک روپ دھارے کھڑے ہیں جو کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے جن کی وجہ سے حالات اتنے بگڑ چکے ہیں کہ بجلی کے نرخوں اور پیداواری لاگت میں فرق کو بتدریج کم اور بجلی چوری کا خاتمہ کیے بغیر توانائی کا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ ظاہر ہے توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے کی جانے والی تدابیر کے خلاف ان طبقوں کی طرف سے شدید مخالفت بھی سامنے آ رہی ہے اسی طرح معیشت کی بحالی کے لیے مراعات یافتہ طبقوں کی مراعات میں تخفیف بھی حکومت پر دباؤ کا سبب ہے لیکن حکومتوں کو اختیارات دینے کا مقصد یہی تو ہوتا ہے کہ وہ قومی اور عوامی مفاد میں پورے عزم لیکن حکمت کے ساتھ اپنے فیصلے نافذ کریں یوں اپنی رٹ قائم کریں جس کے بغیر کوئی اقدام نتیجہ خیز نہیں ہو سکتا-

پاکستان آج جس نازک موڑ پر کھڑا ہے وہاں معیشت کی بحالی اور توانائی کے بحران سے بھی زیادہ سنگین مسئلہ قومی سلامتی کا ہے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑے بغیر معاشی ترقی کی طرف کوئی پیش قدمی ممکن نہیں برادر ملک چین کی طرف سے بھی زور دے کر کہا گیا ہے کہ چینی سرمایہ کار دہشت گردی سے مکمل تحفظ چاہتے ہیں دہشت گردی کے خلاف قومی پالیسی کی تشکیل کے لیے حکومت کی طرف سے آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا فیصلہ ایک اچھا فیصلہ تھااطمینان کی بات ہے کہ سیاسی جماعتوں نے طالبان سے مذاکرات پر یکساں جذبے سے اس کا جواب دیالیکن مذاکرات کی میز پر آتے ہوئے طالبان پر ایک ہی ڈرون حملے نے سارے کا سارا منظر نامہ تبدیل کر دیا یوں امن قائم کرنے کا ایک ایسا موقع کھو دیا گیا جس سے پاکستانیوں کو بہت امید تھی کے یہ مذاکرات کامیاب ہوں گے اور ملک امن و سلامتی کی طرف لوٹ آئے گا ان مذاکرات کے لیے تقریبا تمام سٹیک ہولڈر خواہ وہ پاکستان کی طرف سے ہوں یا طالبان کی طرف سے مثبت اشارے دے رہے تھے ۔ قومی سلامتی کا تحفظ عمومی طور پر دفاعی اداروں کی ذمہ داری ہے آئین کے مطابق اس کی حیثیت ایک ماتحت ادارے کی ہے اسٹیبلشمنٹ سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ قومی سلامتی کے بارے میں حکومت کی طے کردہ حکمت عملی پر عمل درآمد کرے گی اگر یہ ادارے منتخب حکومت کے طے کردہ اور پارلیمنٹ سے منظور شدہ پلان کو رو بہ عمل لانے کے لیے اپنے فرائض منصبی انجام دینے لگے تو امید کی جا سکتی ہے کہ بہت سا الجھاؤ دور ہو جائے گاطے شدہ حکمت عملی کا نفاذ نتیجہ خیز ہونے لگے گا بہر حال یہ امر باعث اطمینان ہے کہ قومی سلامتی کے مسئلے میں منتخب حکومت اور پارلیمنٹ کی فوقیت تسلیم کی جانے لگی ہے۔
rajatahir mahmood
About the Author: rajatahir mahmood Read More Articles by rajatahir mahmood : 304 Articles with 227294 views raja tahir mahmood news reporter and artila writer in urdu news papers in pakistan .. View More