سادہ لوح عوام ،بمقا بلہ چالاک حکمران

 اس بات میں اب کسی شک و شبہ کی گنجا ئش با قی نہیں رہی کہ پاکستان کے لوگ دو حصوں میں بٹ چکے ہیں ۔ایک طرف وہ لوگ ہیں جو دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں، جن کے بچے ہاتھوں میں ڈگریاں لئے ہو ئے روزگار کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں ،جن کے پاس بچوں کے علاج اور تعلیم کے لئے پیسے نہیں، جن کا مستقبل داوٗ پر لگا ہوا ہے ، ان کی جان محفوظ ہے نہ ان کا مال محفوظ ہے۔دوسری طرف پاکستان کا وہ طبقہ ہے جن کے پاس اتنی مال و دولت ہے ، جس کا وہ حساب تک نہیں رکھ سکتے، کیونکہ انہوں نے اس ملک سے بے حساب ما ل سمیٹا ہے۔ان کے بچے بیرونِ ملک دنیا کے بہترین تعلیمی اداروں میں پڑھ رہے ہیں، انکے بچے بے شک نکمےّ ، نکٹھو اور کورے ہی کیوں نہ ہوں، پاکستان میں وہ وزیر تک کا عہدہ آ سانی سے حاصل کر سکتے ہیں۔دو طبقوں میں بٹا ہوا یہ پاکستانی معاشرہ نہ صرف یہ کہ دلچسپ ہے بلکہ نہایت قابلِ رحم بھی ہے۔ذرّا غور فر ما ئیے ! پہلا طبقہ یعنی پاکستان کے غریب عوام پاکستان کے آ بادی کا اٹھانوے فی صد جبکہ دوسرا طبقہ یعنی سرمایہ دار طبقہ کل آ بادی کا صرف دو فی صد ہے مگر یہ اٹھانوے فی صدلوگ دو فی صد لوگوں پر حاوی نہیں ہو سکتے بلکہ ان دو فی صد لو گوں نے اٹھا نوے فی صد لو گوں کو غلام بنا رکھا ہے ، یہ دو فی صد لوگ ان کے مختارِ کل بنے ہو ئے ہیں ۔ملک کے تمام وسائل پر انہوں نے قبضہ جما رکھا ہے ،وہ یا ان کے بچے اپنے ہاتھوں سے کچھ نہیں کرتے بلکہ غریب کے ہا تھوں کی کمائی سے یہ لو گ اپنی تجو ریاں بھرتے ہیں ۔ان کی فیکٹریان، ان کی زمینیں ،ان کے کارخا نے سبھی غریب لوگوں کے ہاتھوں رواں دواں ہیں مگر غریبوں کے ہاتھ خالی اور ان کے خزانے بھرے ہو ئے ہیں۔

مگر جو بات میرے لئے باعثِ حیرت ہے وہ یہ ہے کہ یہ تھوڑے سے لوگ یعنی یہ سر مایہ دار طبقہ ہمیشہ ان غریب لو گوں کو بڑے آ سانی کے ساتھ بے وقوف بھی بنا لیتا ہے اور ان سے ووٹ لے کر مسندِ اقتدار پر قابض ہو جاتا ہے گویا اقلیّت اکثریت کو ہر بار بے وقوف بناتا چلا آ رہا ہے مگر ؂ وائے ناکامی کہ احساسِ زیاں جاتا رہا ، ان اکثریت کے حامل عوام کو اس زیاں کا احساس تک نہیں ہے۔جب الیکشن کا وقت آ تا ہے تو احساسِ کمتری میں مبتلا یہ غریب طبقہ الیکشن کے کروڑ پتی امیدوار سے ہاتھ ملانے کوبھی بڑی سعادت سمجھتا ہے ، جس طرح پتنگے شمع کے گرد گھو متے ہیں یہ بے چارہ بھی اس امید پر ان کے گرد طواف کرنے لگ جاتا ہے کہ کل کو ان کا یہ منتخب امیدوار ان کے کسی نہ کسی کام ضرور آ ئے گا مگر یہ انکی بھول ہو تی ہے ۔منتخب ہونے کے بعد سر مایہ دار طبقے کا فرد ان کے کسی کام نہیں آتا، کام آنا تو درکنار ، الٹا انکے لئے نقصان کا باعث بنتا ہے کیو نکہ وہ ملکی وسائل کو لوٹتا ہے جس کے نتیجہ میں مہنگائی بمعہ دیگر مشکلات کا وہ شکار ہوجاتا ہے۔عوام کو بے وقوف بنانے کا یہ عمل اس وقت سے جاری ہے جب سے ہمارا یہ پیارا ملک معرضِ وجود میں آیا ہے۔دور جانے کی ضرورت نہیں، موجودہ بر سرِ اقتدار پارٹی مسلم لیگ ن کے حکمرانوں پر نظر دوڑائیے !عوام تین بار ان کے امیدواروں کو ایوانِ اقتدار تک لے آئے، کیا وہ ان غریب عوام کے کام آئے ؟ نہیں ، بلکہ الٹا باعثِ مصیبت بنے۔دراصل ان لوگوں نے ایک ایسی چال چلی ہے کہ یہ لوگ اقتدار میں نہ بھی ہوں ، تو یہ حکمران ہی ہو تے ہیں ،اپنی دولت اور اثر و رسوخ کی بنیا د پر یہ اپنے علاقے پر حکمرانی کرتے ہیں۔ علاقے کا تھا نیدار اور پٹواری وغیرہ ان کے زیرِ اثر ہو تے ہیں۔جس کی وجہ سے نفسیاتی طور پر وہ عام آدمی کو اپنے دباو میں رکھتے ہیں۔صرف الیکشن کے دوران ہی نہیں ، الیکشن کے بعد بھی وہ عوام کو بے وقوف بنانے میں کو ئی کسر نہیں چھوڑتے اس کی ایک تازہ مثال مو جودہ حکو مت کی سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ ہے جو صرف اور صرف اس لئے ہے کہ عوام کی تو جہ اصل مسائل سے ہٹایا جائے۔ملک کو اس وقت بد امنی، بے روزگاری،مہنگا ئی ا ور لوڈ شیڈنگ جیسے سنگین مسائل کا سامناہے اسے حل کرنے کی بجائے حکومت لا حاصل اور بے مقصد کاروائیاں کرکے عوام کو بے وقوف بنانے میں مگن ہے۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے ؟یہ چالاک حکمر ان ہر مرتبہ عوام کو بے وقوف بنانے میں کیوں کا میاب ہو تے ہیں ؟ اقلّیت اکثریت کو کیسے مغلوب کرتی چلی آ رہی ہے ؟اس سوال کا جواب جاننے کے لئے میں نے اپنے ذہن پر زور ڈالا تو مجھے اسکی ایک ہی وجہ سمجھ میں آئی اور وہ یہ کہ پاکستان کے 80فی صد غریب عوام میں 60فی صد تو مکمل ان پڑھ ہیں جبکہ20فیصد،جو بظاہر پڑھے لکھے ہیں ، وہ ایسے تعلیمی اداروں میں زیرِ تعلیم رہے ہیں جہاں 2جمع2 کا جواب 4 روٹیاں پڑھائی جاتی ہیں،جہاں تعلیم کامقصد صرف ملازمت کا حصول اور روزی روٹی کمانا ہوتا ہے۔ جو ذہن کو وسعت، کشادگی، خود داری ،وطن سے محبت اور دور اندیشی نہیں سکھاتی بلکہ سوچ کے دائرے کو تنگ اور محدود کرتی ہے جس کی وجہ سے وہ انگریزوں کے غلاموں کے غلام رہنے پر احتجاج نہیں کرتے، بغاوت نہیں کرتے، ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ صرف سرمایہ دار طبقہ کے لوگ ہی عرصہ دراز سے ایک آزاد مملکتِ خداداد میں سیاہ و سفید کے مالک بنے ہو ئے ہیں اور پچھلے 65سالوں سے غریب عوام کی خون چوس رہے ہیں مگر پھر بھی وہ آہ تک نہیں کرتے اور ہر مرتبہ عام انتخابات میں انہی کا چناو کرتے ہیں،وجہ صاف ظاہر ہے کہ پاکستان کا سرمایہ دار طبقہ بہت چالاک اور عوام بہت سادہ لوح ، ان پڑھ اور نا سمجھ ہیں جس کی وجہ سے پاکستان جیسا جنت نما ملک سرما یہ داروں کے لئے تو جنت ہے مگر غریب عوام کے لئے دوزخ بنا ہو ا ہے۔جس کا علاج
تعلیم، خود آگاہی اور ذہنی بیداری کے بغیر ممکن نہیں۔۔۔
roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 315824 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More