فتح اور شکست

افراد اور قو موں کی ز ندگیوں میں اکثر ایسے موڑ آتے ہیں جب ان کو ایک فیصلہ کر نا ہو تا ہے ۔پھر اس کے بعدبہت سے ایسے لمحات آتے ہیں جب وہ اپنی آنکھوں سے اپنوں کو آگ میں جلتا اور خون میں لت پت دیکھتے ہیں۔بہت سے پیاروں کے ہا تھ ہا تھوں سے چھو ٹ جا تے ہیں۔ وہ جن کے نام اور پہچان ز ندگی کا سر ما یہ ہو تے ہیں ۔پل بھر میں ان کے نام اور ان سے وابستہ رشتے یادکی سلگتی اگربتی بن کر دل کی فضا کو غم آلود کر تی رہتی ہے۔ذہن اور جسم دل سے بغاوت کر جا تے ہیں۔اسی ما حول میں پھر ہمیں ایک اور فیصلہ کر نا ہو تا ،ایک ایسا فیصلہ جس پر ہما ر ی آنے وا لی نسل کو فخر ہو۔ ایک ایسا فیصلہ جس میں ہما ر ی بقا جا و داں ہو۔ یعنی ہمیں فتح و شکست کا فیصلہ کر نا ہو تا ہے۔

فتح یا شکست ،کا میا بی اور نا کامی کا فیصلہ میدان کا زا رمیں نہیں ہو تا اس کا فیصلہ ہما ر ے اندر ہو تا ہے ۔Ernest Hemingway's ایک امر یکی مصنف اپنے ایک ناول میں بڑا مردامی خیز راز افشاں کر تا ہے کہ ایک آدمی تباہ تو ہو سکتا ہے مگر اسے شکست نہیں دی جا سکتی ۔یعنی اگر انسان حق شنا س ہو جا ئے اور پھر وہ اس پہ ڈٹ جا ئے تو خواہ اس کا و جود ریزہ ریزہ کر بھی د یا جا ئے تب بھی اُس کے مشن ،مقصد،یقین ،عقیدہ کو مٹا یا نہیں جا سکتا۔جب کبھی کو ئی باطل قوت کسی حق شناس کے وجود کو مٹا بھی د یتی ہے تو اُس کو پھر بھی اس زعم میں نہیں ر ہنا چا ہیے کہ اُس نے حق کو مٹا د یا اُس نے تو صرف یہ کیا کہ جس چیز پہ سورج کی رو شنی پڑ ر ہی تھی ،اس نے اُس چیز کو و ہاں سے ہٹا د یا اور ظا ہر ہے ۔اب روشنی اس کے(Successor) پیچھے جو چیز مو جود تھی اُس پر پڑے گی۔قرآن پاک میں اس بات کو بڑے خو بصورت مکالمہ کے سا تھ حل کیا گیا ہے۔’’اے مومنو! اگر یہ رسول د نیا سے رخصت ہو جا ئیں یا شہید کر دئیے جا ئیں تو کیا تم حق بات سے پھر جا ؤ گے اور اگر ا یسا کرو گے تو اﷲ کا کچھ نقصان نہ کرو گے۔‘‘

قا ر ئین کرام دراصل میں اپنی نہیف کو شش سے آپ کے ذہنوں کو اس فیصلے کے لیے تیار کر ر ہا تھا کہ بحثیت ایک قوم کے اور بحثیت ایک فرد کے اب ہم کو ایک فیصلہ کر نا ہے کہ ہم حق کے سا تھ ہیں یا با طل کے سا تھ ۔ہمیں فیصلہ کر نا ہے کہ اصل دین کس کے پاس ہے ؟ اب کسی ایک کے مٹنے کا وقت آ گیا ہے۔یعنی فیصلے کا و قت آ گیا ہے۔کون شہید ہے اور کون مردود؟کیا کو ئی تیسری قوت تو ہمیں یر غمال نہیں بنا رہی؟ یہ معصوم بچوں کا قتل عام یہ راہ گیروں اور مسافروں کا قتل،یہ مسلک کے نام پہ قتل و غارت گری ۔یہ ہمارے گناہوں کی سزا ہے یا ہماری آزما ئش؟ کیا طالبان میں کو ئی غدار پیدا نہیں ہوتا؟ کیا طالبان میں کو ئی رشوت نہیں لے گا؟ کیا طالبان عدل کے ترازو میں جھکا ؤ نہیں آنے دیں گے؟ حضور ﷺ اور ان کے اصحاب ؓ نے کتنے کلمہ گو مسلمانوں کے پرخچے اڑا ئے ۔کتنے بے نمازیوں کو سرعام کوڑے لگائے گے۔کتنی عورتوں کے منہ پہ تیزاب پھینکا گیا۔کتنی عورتوں کے گھروں پہ پا بندی لگا ئی گئی ؟ کیا کسی کے پاس ان کے اعدادوشمار ہیں؟ اگر لکھنا پڑھنا جرم ہے تو کیوں حضور ﷺ نے غیر مسلموں کو کہا کہ اگر وہ جزیہ نہیں دے سکتے تو مسلمانوں کے بچوں کو لکھنا پڑھنا سیکھا دیں۔پاکستان کا وہ کونسا سکول ہے جہاں اسلام کے خلاف تعلیم دی جا تی ہے ؟پھر ان کو کس جرم کی سزا ملی کے بمبوں سے اڑا دیا گیا۔ اگر ہم عربی میں قرآن سیکھیں تو امر یکہ ہما رے مدرسے تباہ کر د یتا ہے ۔اور اگر ہم اردو ،انگر یزی میں قرآن سیکھیں تو طالبا ن ہما رے سکول تباہ کر دیتے ہیں۔ہم سکولوں میں محفوظ نہیں ۔ہم مدرسوں میں بھی محفوظ نہیں۔ہم عبادت گاہوں میں محفوظ نہیں ۔ہم سیر گاہوں میں محفوظ نہیں۔جب سے ملک معرض و جود میں آیا ہے ،اس وقت سے لے کر آج تک میری سمجھ میں تو یہ ہی آیا ہے کہ اس کو صرف اسی چیز کی سزا ملی ہے کہ ہم نے یہ ملک الگ کیا تو کیا کیوں ۔کبھی بنگالیوں کو اکسا کر کبھی کشمیروں کو ستا کر کبھی افغانستان کو ورغلا کر کبھی بلوچوں کو بہکا کر کبھی طالبان کا ڈرمہ ر چا کر اور کبھی امریکہ کے اشاروں پہ نچا کر ۔اس ملک کے باسیوں کو صرف اور صرف ستا یا ہی گیا ہے۔ان کی آنے والی نسلوں کو اس حد تک ایک دوسر ے سے بیزار کر دیا جا ئے کہ بنگالی بنگلہ دیش بنا لیں، بلوچی بلوچستان، سندھی سندھ، پٹھان پختونستان، پنجابی پنجابستان،کشمیری کشمیرستان۔اس کے بعد ایک اور تقسیم شرو ع ہو گی ،مہاجر، براہوی،مکرانی ،سرائیکی، ہزارہ،پھر اس کے بعد ایک اور تقسیم ہو گی ،شیعہ،سنی،دیوبندی،وہابی اور جانے کیا ۔پھر نہ بھارت کو قبضہ کی زحمت کرنا پڑے گی اور امریکہ کو یہ سب ٹکڑیاں بھارت اور امریکہ کے محتاج ہوں ،بھارت سندھ اور مکران سے مچھلی خریدے گا اور پنجاب اور سرحد کوکمیشن لے بیچ دے گا۔جیسے مشرقی پنجاب کے ٹماٹر، پیاز، ادرک مغربی پنجاب کو ملتا ہے۔اسی طرح گیس بلوچستان سے لے کر پنجاب کو دے گا اور پنجاب سے گندم بلو چستان کو ملے ۔اور سب غلام در غلام چلتے ر ہیں گے۔یہ معجزات کے قصے سنتے او سنا تے ر ہیں گے مگر شا ید پھر ان کو سر سید ،قا ئداعظم ،لیاقت علی ، سردار عبداﷲرب نشتر،قاضی محمد عیسیٰ، سر سعداﷲ،مو لوی اے ۔کے فضل حق اورعلامہ اقبال جیسے لیڈر نہ میسر آ سکیں جو پھر ان کا اقبال بلند کر سکیں۔کیوں کہ اﷲ تعالیٰ کا ایک اصول ہے کہ خدا نا شکروں پہ اپنی عنا ئت بار بار نہیں کر تا۔فیصلہ آپ کا ہو گا۔

اس وطن کی بقا کے لیے اس نہیف کو شش کے سا تھ اپنے بزرگ احمد ندیم قا سمی کے دعا ئیہ اشعار کے ساتھ دعا گو ہوں
خدا کر ے کے میری ارض پا ک پہ اترے
وہ فصل ِ گل(اتحاد) جسے اندیشہ زوال نہ ہو
A.R Ikhlas
About the Author: A.R Ikhlas Read More Articles by A.R Ikhlas: 37 Articles with 28548 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.