سردیوں میں جسم کاٹتی سردی اور
گرمیوں میں جھلسا دینے والی گرمی کی پرواہ کئے بغیر افراز روزانہ صبح اٹھتا
اپنی لوکل منڈی میں جاتا وہاں سے مختلف قسم کے فروٹ لیتا اسے اپنی ریڑی پر
سجاتا اور پھر ریڑی کو اپنی مقررہ جگہ پر لگا کر بیٹھ جاتا، شام کو جو
کمائی ہوتی اس سے فروٹ والے کو اگلی صبح کے لئے پیسے دیتا اور جو بچتے وہ
اپنے گھر والوں کے لئے سودہ سلف لے جاتا، یہی ریڑی اس کی کل سرمایا اور کل
اثاثہ ہے ۔21نومبر2013صبح کا وقت تھا افراز نے روزانہ کی طرح اپنی ریڑی
نکالی اور فروٹ سجا کر اپنی مقررہ جگہ پر لگا کر بیٹھ گیا رزق حلال اور
محنت کی کمائی پر یقین رکھنے والا شریف النفس افراز کو یہ نہیں پتہ تھا کہ
آج کی صبح کا سورج اس کیلئے اچھا پیغام نہیں لایا ۔افراز کو اپنی ریڑی
لگائے ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ چند بندے آئے جو اپنے آپ کو بلدیہ باغ
کے ملازم کہتے تھے انہوں نے آتے ہی آو ،دیکھا ،نہ، تاو افراز کی فروٹ بھری
ریڑی الٹی کی اس کا سارا فروٹ سڑک،نالیوں میں گرا کر ضائع کر دیا،افراز نے
ان سے اس کی وجہ پوچھی تو جواب میں بدتمیزی اور گالیوں کا تحفہ دینے کے
ساتھ ساتھ یہ دھمکی بھی دی کہ ہم قمر صاحب کے جیالے ہیں بلدیہ باغ کے ملازم
ہیں تم نے یہ ریڑی غلط لگائی ہوئی ہے ۔ان کے اس سوال پر ریڑی بان نے عاجزی
سے کہا کہ محترم یہ جو میرے ساتھ میرے برابر دس ریڑیاں اور بھی لگی ہوئیں
ہیں میں اکیلا نہیں ہوں،اگر میں بقول آپ کے غیر قانونی ہوں تو میرے ساتھ یہ
لائن بھی غیر قانونی ہوگی ان کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جائے جو آپ نے میرے
ساتھ کیا اس پر ان بہادر صاحب نے کہا تم ان کے ذمہ دار نہیں وہ جانے ہم
جانے ،تم اپنی بات کرو باقی ریڑی بانوں نے اسے کہا بھی کہ ان کو بھتہ چاہیے
تم دے دو یہ کچھ نہیں کہے گے، جس پر افراز نے انکار کر دیا اور اس کی سزا
اسے یہ ملی کہ اس کی فروٹ سے بھری ریڑی کا سارا فروٹ گرا دیا گیا اور ریڑی
کو اپنے قبضے میں لے لیا۔یہاں شکوہ یہ نہیں کہ بلدیہ کے اہلکاروں نے ایسا
کیوں کیا ،یا انہوں نے اس کو اجازت کیوں نہیں دی بلکہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے
کہ یہ کیسا آپریشن تھا جو صرف ایک ہی آدمی کے خلاف کیا گیا باقی سب اسی طرح
ہی نہیں بلکہ تماشہ دیکھ رہے تھے۔ایسے میں یہ کہنا کوئی مشکل بات نہیں کہ
جس جس نے بھتہ دیا اس کے لئے سیاہ سفید سب جائز ہے اور جس نے نہ دیا اس کے
لئے جینا مشکل ہو گیا۔افراز ایک مزدور آدمی ہے اس کا نہ کوئی سیاسی تعلق ہے
اور نہ کوئی سیاسی اثر و رسوخ۔ وہ تو اپنی مزدوری کر کے روزی روٹی کمانے
والا شخص ہے اس کا کہنا تھا کہ مجھے کسی قسم کا کوئی نوٹس نہیں دیا گیا اگر
مجھے وہاں پر بھی یہ کہا جاتا کہ یہاں سے ریڑی ہٹا دو تو میں ان کا حکم مان
لیتا اور اپنا نقصان ہونے سے بچا لیتا مگر انہوں نے نہ صرف میرا نقصان کیا
بلکہ میرے بچوں کا رزق چھینا،میں بلدیہ باغ کے سینئر عہدیداروں سے درخواست
کرتا ہوں کہ میرے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کا نوٹس لیا جائے قانون تو
سب کے لئے برابر ہے یہ کیسا قانون ہے کہ باغ شہر تجاویزات سے بھرا پڑا ہے
یہاں سرعام سڑکوں پر ریڑی بانوں کی بھر مار ہے ایک ایک دکان کے اگے چار چار
قسم کی ریڑیاں لگا کر لوگ بیٹھے ہیں ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں ان پر
کوئی ہاتھ ڈالنے والا نہیں،وہ کیسے جائز ہو گئے اور میں جو سڑک پر بھی نہیں
تھا میں غیر قانونی ہو گیا،اگر میں بھتہ یا منتھلی دینا شروع کر دوں تو
تمام راستے میرے لئے کھل سکتے ہیں اور اگر میں حلال رزق کما کر اپنے بچوں
کو کھلاوں تو میں مجرم بن جاتا ہوں یہ کیسا معیار ہے۔
ہمارے ہاں المیہ یہی ہے کہ جو بات خود کو پسند آتی ہے وہی قانون اور وہی
اصول ہوتی ہے یہاں تک کہ سلام اور مذہب بھی اپنی مرضی کا ہے ۔ہر کوئی اپنا
اپنا نظریہ لے کر پھر رہا ہے ہر ایک خود کو خدا ،آقا سمجھتا ہے جس کا یہاں
جتنا بس چلتا ہے جس کا یہاں جتنا اختیار استعمال ہوسکتا ہے وہ جائز اور نا
جائز اپنی طاقت کو ازماتا ہے۔انفرادی تو ہو سکتا ہے کہ کوئی اچھی زندگی
گزار رہا ہو مگر من حیث القوم لمحہ فکریہ ہے کہ جو بیچ اس وقت بویا جارہا
ہے وہ نفرت اور دشمنی کا ہے،یہاں پر قانون،اصول،میرٹ، رزق روزی کمانا،یہاں
تک کہ زندگی جینے کے لئے سائنس لینا تک کا اختیار چند مخصوص لوگوں کو ہے جو
خود کوکبھی کسی کا جیالہ اور کبھی کسی کاجان نثار کہہ کر زمین پر خدا بنے
پھرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب اصول ،پالیساں،قانون،ضابطے،اخلاقیات،ذمہ
داریاں،انسانیت اور انصاف کی قیمت لگ جائے اور وہ قیمت بھی چند کوڑیوں میں
ہو تو اس معاشرے قوم،شہر،ملک کے مستقبل کا اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں ،معاشرے
جب تباہ ہونے کو آتے ہیں تو سب سے پہلے وہاں سے اخلاقیات ختم ہوتی ہیں پھر
انصاف اور پھر اندھیر نگری چوپٹ راج ہو جاتا ہے۔بد بخت ،بد قسمت معاشروں
میں بسنے والے انسانوں کی یہ بھی پہچان ہوتی ہے کہ وہ جانتے سب کچھ ہوتے
ہیں مگر وہ سمجھتے کچھ بھی نہیں ہر برے کام کی دلیل ان کے پاس ہوتی
ہے۔قران،و حدیث،ان کو خوب یاد ہوتیں ہیں مگر عمل کچھ نہیں ہوتا اور جب
قوموں کے اندر فرقہ واریت برادری ازم،تعصب،گرو بندی علاقائی تقسیم،اور
خاندان کی اونچ نیچ آجائے بچوں کی تربیت میں یہ سب کچھ شامل ہو جائے تو پھر
کسی اٹم بم ،کسی ڈرون حملے ،کسی سازش کی ضرورت نہیں پڑتی وہ قوم وہ معاشرہ
اپنی موت آپ مر جاتا ہے پھر اسے کسی کی مدد،یا امداد نہیں بچا سکتی،ہم بد
قسمتی سے ایسی راہوں کے مسافر بن چکے ہیں جنکی منزل بربادی اور جس کا انجام
تباہی کے سوا کچھ نہیں ،ستم بالا ستم یہ کہ ان تمام تر برائیوں کے ساتھ
ساتھ جب انسان جسمانی اور سوچ سے غلام ہو تو اس قوم کا اﷲ ہی حافظ ہے۔
غلامی جسمانی ہو تواتنی خطرناک نہیں کیونکہ اس سے آزادی ممکن ہے مگر آزاد
نظر آنے والے جسم جب ذہنی غلام ہو جائیں تو ان کا کوئی حل نہیں ہم لاکھ خوش
فہمی میں رہے کہ ہم آزاد گھومتے پھرتے ہیں مگر ہم غلام سوچ کے مالک غلام
قوم ہیں ۔مزدور پر اپنا رعب جما کر اس کا جینا محال کر کے یہ سوچا جائے کہ
ہم بہت بہادر اور خود مختار قوم ہیں کسی خواب سے کم نہیں ۔کسی مزدور کے منہ
سے نوالہ چھین کر خود کو بہادر کہنا خوش فہمی تو ہو سکتی ہے انسانیت
نہیں۔یہ جھوٹی طاقت کا نشہ زیادہ دیر تک نہیں رہتا۔ |