’افسانے کے قواعد ‘کے حوالے سے شمس الرحمن فاروقی کا کہنا
ہے کہ ’’گزشتہ 30برسوں میں فکشن پر اس طرح کے نظری مباحث قائم نہیں ہوئے‘‘
جس طرح حالیؔ کا ’مقدمہ شعرو شاعری‘ اور پروفیسر مسعود حسن رضوی ادیب کی
کتاب ’ہماری شاعری‘مل کر اردو شاعری کے حسن و قبح کے محاکمے کی تکمیل کرتے
ہیں اور جس طرح دونوں مل کر اردو شاعری کی شعریات کو مستحکم کرتے ہیں اسی
طرح شمس الرحمن فاروقی کی کتاب ’افسانے کی حمایت میں ‘ اور سکندر احمد کی
’افسانے کے قواعد‘ مل کر افسانے کا صنفی منصب طے کرنے اور افسانے کی شعریات
مستحکم کرنے کی کوشش کے’رائد‘(Pioneers)ہیں۔
سکندر احمد کا یہ طویل مضمون پہلی بار 2004میں شب خون میں شایع ہوا
پھر’پاکستان کے کس جرید ے میں نقل ہوا ‘ہمیں نہیں معلوم - گمان غالب ہے کہ
کہیں نہ کہیں ضرور شایع ہوا ہوگا کیوں کہ ان کے دیگر متعدد مضامین بھی ’شب
خون‘جامعہ‘ الانصار‘ اردو ادب یا ذہن جدید وغیرہ میں شایع ہونے کے بعد
پاکستان کے متعددعلمی و ادبی جرائد میں تواترسے شایع ہوتے رہے ہیں۔ اس بار
یہ طویل مضمون جریدہ اثبات (ممبئی) کے گیارہویں شمارے کے ساتھ علیحدہ سے
ضمیمے کے طور پر شایع ہوا ہے جو کتابی سائز کے 47صفحات پر محیط ہے اور بقول
مدیر اثبات اشعر نجمی اصل جریدے سے زیادہ ہٹ ہواہے اور پھر سے محل بحث بن
گیا ہے۔ اس کتابچے کے آٹھ صفحات میں وہ خطوط بھی شامل ہیں جو شب خون اشاعت
اول کے بعد کئی شماروں (از290تا299) میں (2005۔2004)مسلسل شایع ہوتے رہے
تھے۔
آگے بڑھنے سے پہلے اتنا اور کہہ دیں کہ ہمیں تمام تر پسندیدگی کے باوجود اس
کتاب میں کچھ کمیاں کھٹکتی ہیں ۔ ایک تو اس میں نیر مسعود کہیں نظر نہیں
آتے جبکہ سکندر احمد نیر مسعود اور ان کے فن پر ایک معرکہ آرا مضمون ۔ ’نیر
مسعودمعمایاحل‘انگریزی اور اردو میں لکھ چکے ہیں جو پہلے ہی محمد عمر میمن
کے جریدے جرنل آف انڈین اسٹڈیز‘ (میڈیسن ۔ امریکہ)میں اور پھر اسلم پرویز
کے سہ ماہی اردو ادب(نئی دہلی) کے شمارہ نمبر 341(جولائی ۔ ستمبر 2008)میں
شایع ہوا۔
پھر قرۃ العین حیدر پر بھی ان کا ایک یادگار مضمون (قرۃالعینیت) زبیر رضوی
کے ذہن جدید میں (مارچ تا مئی 2009)شایع ہوا۔ جس کی اہمیت کا اندازہ اس سے
لگائیے نیر مسعود نے’ قرۃالیعنیت‘پڑھنے کے بعد ذہن جدید کو لکھا کہ ’’اگر
یہ مضمون قرۃالعین حیدر کی زندگی میں لکھا جاتا تو انھیں (عینی آپا کو)پھر
نقادوں سے کوئی شکایت نہ رہتی۔‘‘ تو ظاہر ہے کہ 2004میں افسانے کے قواعد
لکھتے وقت یہ دونوں عظیم فن کار ان کے ذہن میں ضرور رہے ہوں گے جس کاثبوت
قرۃالعین حیدر کے حوالے ہیں پھر نیر مسعود کا کوئی تذکرہ یاحوالہ کیوں
نہیں؟
دوسری بات جو ہمیں کھٹکی وہ یہ کہ افسانے کے قواعد سکندر احمد 2004میں’
مقرر‘کر چکے تھے۔افسانہ نگار ادیب و دانشور احمد یوسف کے فن اور شخصیت پران
کا ایک طویل مضمون (38صفحات پر محیط) اردو ادب کے شمارہ نمبر332اپریل۔جون
2006میں شایع ہوا ۔جس میں انہوں نے احمد یوسف کے ایک افسانے ’جلتا ہوا
جنگل‘ کا محاکمہ کیا جو 31صفحات پر مشتمل ہے اس مضمون میں سکندر احمد نے
ایڈگرایلن پواورپروفیسر بالڈوِن،جیسے ناقدین مغرب کے حوالے سے افسانے کے
تجزیے،تعبیر اور تشریح کا کام انجام دیا ہے لیکن’افسانے کے قواعد‘ میں اس
کا کوئی حوالہ نہیں اسی طرح ’’نیر مسعود : معمایاحل اور’ قرۃالعینیت‘انھوں
نے بالترتیب 2008اور 2009میں لکھے ۔ تو سوال یہ ہے کہ پھر انھوں نے نیر
مسعود اور قرۃالعین حیدر کے افسانوں کا تجزیہ بھی خود اپنے ہی مقرر کردہ
’قواعد‘ کی روشنی میں کیوں نہیں کیا؟ 23صفحات کے نیر مسعود معمایاحل‘ اور
21صفحات کے قرۃالعینیت میں افسانے کے قواعد کی کسی مخصوص اصطلاح کا کوئی
حوالہ کیوں نہیں ملتا؟جبکہ شمس الرحمن فاروقی کے ’سوار اور دیگر افسانوں کا
تذکرہ اس میں موجود ہے!’ لاہور کا ایک واقعہ ‘تو بار بار مذکو ر ہے۔ کیا اس
لیے کہ قرۃالعینیت ، اور نیریت‘کو کسی قواعد کا پابند نہیں بنایا جا سکتا
؟لیکن احمدیوسف کے افسانے جلتا ہوا جنگل کے بارے میں تو انہوں نے ایسی کوئی
بات نہیں لکھی۔
اس کے علاوہ جب قرۃالعین حیدر تک رسائی صرف قرۃالعینیت کے اصول پر مبنی
شعریات کے حوالے ہی سے ممکن ہے اور نیر مسعود کے افسانوں کی کنہہ تک صرف
نیریت کے اصول پر مبنی شعریات ہی کے حوالے سے پہنچاجا سکتا ہے تو پریم
چندیت، ’بیدیت‘او’ر منٹوویت ‘کیوں نہیں؟
اس جگہ ایک بات اور کہتے چلیں کہ مونگیر کے کسی محمد حسن صاحب نے اعتراض
کیا تھا کہ ’’سکندر احمد کا مضمون طوالت اور پیچیدگی کا شکار ہے․․․․․․․․
انھیں سائینسی تنقید سے تخلیقی تنقید تک آنے کے لیے مزید کوشش کرنی چاہیے
تاکہ وہ اسلوبیاتی پیچیدگی سے نکل کر تخلیق کی روح تک پہنچ سکیں (ص52)
محمد حسن صاحب کا پہلا اعتراض تو مہمل ہے۔ رہا دوسرا اعتراض تو وہ انھوں نے
اس وقت کیا تھا جب سکندر احمد نے نیر مسعود اور قرۃالعین حیدر پر وہ معرکہ
آرا تنقید ی مضامین نہیں لکھے تھے جن کا تذکرہ اوپر کیا جا چکا ہے ۔
قرۃالعینیت اور نیر مسعود ’معما یا حل‘افسانے کے قواعدکے بعد لکھے گئے اور
ان کے یہ دونوں تنقیدی مضامین اس کا ثبوت ہیں کہ وہ تخلیق کی روح میں اتر
جانے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں۔
پھر افسانے کے قواعد میں کہیں معین الدین جینابڑے کا بھی تذکرہ نہیں ملتا۔
جبکہ وہ نیر مسعود کی Genreکے فنکار ہیں۔ ان کے افسانوں کا مجموعہ ’تعبیر‘
افسانے کے قواعد کی اشاعت سے بہت قبل منصّہ شہود پر آچکا تھا اور ابھی
اکتوبر 2011میں پاکستان سے دوبارہ شایع ہوا ہے۔ اسی طرح افسانے کی تنقید پر
ان کی کتاب ’اردو میں بیانیہ کی روایت ‘ 2007میں شعبۂ اردو ممبئی یونیورسٹی
نے شایع کی تھی ہمارے نزدیک تو اب اگر معین الدین جینابڑے اور کچھ بھی نہ
لکھیں تو ان کے یہ دونوں کام فکشن اور فکشن کی تنقید دونوں میں ان کے نام
کو زندہ رکھنے کے لیے کافی ہیں۔ تعبیر اور اردو میں بیانیہ کی روایت اس کا
ثبوت ہیں کہ مہدی افادی کی طرح ادب کی دنیا میں زندہ رہنے کے لیے اصل چیز
کیفیت ہے کمّیت نہیں ۔
چلیے ہم اپنے اس آخرالذکر اعتراض کو اس لیے واپس لیے لیتے ہیں کہ’ افسانے
کے قواعد ‘افسانہ نگاروں کی کھاتا کھتونی تو ہے نہیں۔ اس طرح تو پھر اور
بھی بے شمار نام ہو سکتے ہیں۔ بلکہ ہیں جن کا اس میں تذکرہ نہیں مثلاً
ممتاز مفتی قدرت اﷲ شہاب اور انور قمر اور نئے لکھنے والوں میں علی اکبر
ناطق خالد طوراور ڈاکٹر سلیم خان۔ لیکن ظاہر ہے کہ یہ فہرست ہر مبصریا ناقد
کی ذاتی پسند نا پسند کے مطابق الگ بھی ہو گی اور طویل بھی اور ظاہر ہے کہ’
افسانے کے قواعد ‘مرتب کرنے کی کوشش کرنے والا مصنف خود اپنا ایک اختیار
تمیزی رکھتا ہے اور وہ ہر مبصر اور ناقد کو خوش رکھنے کا بہرحال پابند
نہیں۔
ہم وارث علوی گوپی چند نارنگ اور وہاب اشرفی کے تعلق سے سکندر احمد کی
تنقید سے متفق ہیں وارث علوی کے تعلق سے سکندر احمد کا یہ جملہ تو ضرب
المثل بن چکا ہے کہ انھیں تو فی الواقع گلاب اور دھتورے کا فرق بھی نہیں
معلوم۔ اگر چہ سکندر احمدنے اس نقدو تبصرے کے لیے 13قیمتی صفحات صرف کردیے
لیکن شاید اس کے بغیر کوئی چارہ بھی نہ تھا کیونکہ افسانے کے قواعد کی زمین
تو ان ہی ابتدائی 13بلکہ 15صفحات میں ہموار ہوئی ہے۔
سکندر احمد کی یہ بات درست ہے کہ ’’موزوں طبع افسانہ نگار اچھا افسانہ لکھ
سکتا ہے وہ بڑا افسانہ بھی لکھ سکتا ہے(لیکن) اگروہ (افسانے کے)فنّی
لوازمات سے بھی واقف ہوتو خوداحتسابی کی بہتر صورت پیدا ہو سکتی
ہے(کیونکہ)کسی افسانے کا پہلا قاری اور ناقد تو خود افسانہ نگار (ہی) ہوتا
ہے۔منٹو اور بیدی افسانے کے فنّی لوازمات سے واقف تھے لہٰذا بہتر اور بڑے
افسانہ نگار ثابت ہوئے۔ کرشن چندر اس حد تک واقف نہیں تھے اگر ہوتے تو خود
اپنے ڈھیروں افسانے تلف کر دیتے۔ بیدی نے تو ’افسانے کے عروض‘تک پر گفتگو
کی ہے۔ افسانے کا فنّی شعور مختلف زبانوں کے ڈھیروں افسانے پڑھ کر بھی حاصل
کیا جا سکتا ہے اور براہ راست تھیوری پڑھ کر بھی ۔ لیکن، فنّی شعور‘ فنکاری
کی ضمانت نہیں، فن کو پرکھنے کا ذریعہ البتہ بن سکتا ہے۔فن کاری کی ضمانت
توتخلیقی کیفیت ہے۔ ہر کس وناکس افسانہ نگار اور شاعر نہیں بن سکتا۔صنّاعی
تخلیقیت کا ظاہری پہلو ہے اور فنکاری اس کا باطنی مظہر!‘‘ ( ص15)
سکندر احمد کے نزدیک افسانے کی تعبیر و تشریح ایسی ہو نی چاہیے کہ نظریہ
اور حد بندیاں یعنی افسانے کے عناصر ، اس طرح واضح ہو جائیں کہ ان کا اطلاق
دوسرے افسانوں پر بھی کیا جا سکے۔ وہ حدبندیاں یا افسانے کے عناصر درج ذیل
ہو سکتے ہیں۔
(1)بیانیہ ۔ کہانی ، پلاٹ
(2)کردار ۔مرکزی کردار، ذیلی کردار اور سرسری کردار وغیرہ
(3)تھیم۔افسانے میں پوشیدہ سچائی (نفس موضوع)
(4)گردو پیش۔ افسانے کا وہ حصہ جس کے بغیر بھی کہانی آگے بڑھ سکے
(5)نقطۂ نظر۔ افسانے کا تناظر
(6)بیان کنندہ۔کہانی کون بیان کررہا ہے مصنف خود یا افسانے کا کوئی
کردار۔اور
(7)علامت۔ تجرید اور تمثیل کا استعمال اور درج بالا عناصر کو سمیٹنے کا
اسلوب۔ (ص۔17)
سکندر احمد پر ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ ․․․․․․․․اگرچہ انھیں (دوسرے ہم عصر
نقادوں سے )یہ شکوہ رہتا ہے کہ اپنی بات کو وزنی بنانے کے لیے لوگ مغرب سے
حوالے کیوں لاتے ہیں؟مگر اپنے مضمون میں سکندر احمد بھی یہی کچھ کرتے نظر
آتے ہیں․․․․․․․(ص53)یہ اعتراض کسی حد تک درست ہونے کے باوجودپوری طرح
’’درست نہیں‘‘۔ اس لیے کہ افسانے کی روایت اردو میں مغرب ہی سے آئی ہے
شاعری علم لسانیات اور علم عروض کی طرح مشرقی ادب (عربی اور فارسی)میں
افسانے (Short story)اور ناول کی روایت نہیں ۔ اس لیے ان کی شعریات اور
تنقیدی مبادیات لامحالہ مغرب ہی سے درآمد کرنا پڑیں گے۔ لیکن انھوں نے تو
یہاں بھی خود اپنے سرمایہ سے استفادہ کرنے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا
ہے۔ ان کے مضامین نیر مسعود ’معما یا حل ‘اور ’قرۃالعینیت‘اس کا ثبوت ہیں۔
انھوں نے ثابت کیا ہے کہ نیر مسعود کے فن کو کافکائی چربہ ثابت کرنے سے
زیادہ مہمل بات اور کوئی ہوہی نہیں سکتی۔ کافکاکی پوری زندگی حددرجہ انتشار
اور شورش کی شکار تھی اس کے بر خلاف ’’نیر مسعود کی پوری زندگی پر سکون
گزری ہے اور ماحول پر امن‘‘ ۔ اسی طرح انھوں نے ثابت کردیاہے کہ دستوئفسکی
کے خوابوں پر مبنی افسانے کی تکنیک اور اس کی شعریات کو نیر مسعود کے
افسانوں پر ہرگز منطبق نہیں کیا جا سکتا ۔ یہاں تک کہ ان کے افسانوں پر
یونگ(Jung)اور فرائیڈ کے نفسیاتی اصولوں کا اطلاق بھی ممکن نہیں۔ نیر مسعود
تو چیزدیگراندکے مصداق ہیں۔ ان کے فن تک رسائی تو ’نیریت‘ کے اصول پر مبنی
شعریات کے حوالے ہی سے ممکن ہے (اردو ادب341ص228)
اسی طرح انھوں نے ثابت کیا کہ قرۃ العین حیدر کو سمجھنے کے لیے ورجینا وولف
کو سمجھنا ضروری نہیں۔ شعور کی رو کی تکنیک کااستعمال کم از کم آگ کادریا
میں تو ہوا ہی نہیں ۔ خود انھیں کے لفظوں میں’’دراصل بات یہ ہے کہ بڑافکشن
اپنی شعریات (اپنے قواعد)خود ساتھ لاتا ہے۔ آگ کا دریا کے ساتھ کچھ یہی
صورت حال ہے۔ قارئین اور ناقدین کو چاہیے کہ شعور کی روشنی میں ’’آگ کا
دریا‘‘ کو نہ دیکھیں بلکہ ’’آگ کا دریا‘‘ کی روشنی میں ’’شعور کی رو‘‘ کو
پرکھیں۔یہ ’’شعور کی رو‘‘ نہیں ہے’’ قرۃالعینیت ہے ‘‘!(ذہن جدید مارچ ۔ مئی
2009ص98)۔
سکندر احمد نے تو لکھا ہے کہ عام طور سے افسانے میں ایک زمانی ترتیب کا
ہونا لازمی ہے ۔ یہ Frozen Time Techniqueبھی ہو سکتی ہے اور Temporal Time
یا Actual Timeبھی یہاں تک کہ Spiritual Timeبھی ہو سکتا ہے۔ مگر اردو میں
قرۃالعین حیدر اور شفیع جاوید Frozen Timeتکنیک کا استعمال کرتے ہیں یعنی
وقت تو ٹھہرا ہوا ہے مگر کہانی آگے بڑھ رہی ہے اسی وجہ سے اس معاملے میں
قرۃالعین حیدر اور شفیع جاوید کو مغربی فکشن نگاروں (اور ان کے ناقدین)پر
تقدیم حاصل ہے۔ کیونکہ مغربی بیانیات Narratology میں منجمد وقت کی تکنیک
Frozen Time Techniqueکا کہیں تذکرہ نہیں ملا۔ یعنی وہی قرۃالعینیت والی
بات کہ سکندر احمد شعوری طورپر جہاں تک ممکن ہو تا ہے مغربی حوالوں سے
پرہیز ہی کرتے ہیں او رصرف اسی وقت کوئی حوالہ دیتے ہیں جب اس کے سوا کوئی
چارہ نہ ہو۔
افسانے کی ریطوریقا(Rhetoric)کے عنوان سے افسانے کے معروضی تجزیے کے لیے
ص34سے ص 40تک شکاگو اسکول کے نقاد اور مفکر وین سی بوتھ(Wayn C. Booth)کے
مقرر کردہ
(1)مصنف بالکنایہ IMPLIED AUTHOR
(2)بیان کنندہ NARRATOR اور
(3)فاصلہ DISTANCE(مصنف بالکنایہ اور بیان کنندہ کے درمیان اورافسانے کے
مختلف اجزا کے درمیان فاصلے کے جوتین اصول بیان ہوئے ہیں ان کے بارے میں
ضرور یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایک خالص مغربی حوالہ ہے جو اگر نہ ہوتا تو
بھی ۔ شاید کوئی خاص فرق نہ پڑتا ۔ کیونکہ مصنف بالکنایہ اور قاری بالکنایہ
Implied Readerکی فلسفیانہ اصطلاحوں کے بغیر بھی افسانے یا افسانوں کو
سمجھنے او رسمجھانے کی کوشش کی جا سکتی ہے جیسا کہ خود سکندر احمد نے
’افسانے کے قواعد‘(2004)لکھنے کے بعد احمد یوسف(2006) نیریت(2008)اور
قرۃالعینیت(2009)میں عملی مظاہر ہ کرکے دکھادیا ہے لیکن وین بوتھ کی
ریطوریقا کو بھی پوری طرح مسترد Discard نہیں کیا جا سکتا۔ اور انھوں نے
دعویٰ بھی نہیں کیا کہ ان کی کتاب ’افسانے کے قواعد‘ حرف آخر ہے اور ’’آج
ہم نے تمہارے لیے افسانے کے قواعد کو مکمل کر دیا ہے ’’اور اب اس میں قیامت
تک کوئی اضافہ نہیں ہو سکتا‘‘۔انہوں نے اس طرح کا کوئی دعویٰ نہیں کیا۔
نیریت اور قرۃالعینیت کی اصطلاحوں کی تخلیق اور ان کے جواز کو ثابت کرنے کی
کوشش اس کا ثبوت ہے کہ عقل ، فکر ، شعور اور وجدان کے دروازے کھڑکیاں روشن
دان سب کھلے ہیں۔
کتاب کا آخری باب افسانہ اور محل بحث افسانہ‘ (ص40تا 47)میں عربی نثری
اسلوب کے تین پیش رووں(Pioneers)ابن المقنع ، ابن العمید اور جاحظ کے اسلوب
اور ان کا تتبع کرنے والوں ارنست ہمنگوے قرۃالعین حیدر، کرشن چند اور قاضی
عبد الستار کا تذکرہ بھی اسی کا ثبوت ہے۔ اسی آخری باب میں انھوں نے ہنری
جیمس ، جابر حسین نکولائی گوگول(NICOLAI GOGOL)کے حوالے سے بھی یہی بات
ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔
ہمارے نزدیک اب اردو ادب اور اردو فکشن کی تنقید کو ایک اور ’’سکندریت ‘‘کی
ضرورت ہے جو قدرت اﷲ شہاب، ممتازمفتی، بانو قدسیہ ، اشفاق حسین ، علاء
الاسوانی، علی اکبر ناطق، انور قمر ،ڈاکٹر سلیم خان، خالد طور،معین الدین
جینا بڑے، ذکیہ مشہدی ، وبھوتی نارائن رائے او رارون دھتی رائے کی کہانیوں
کو بالاستعیاب پڑھے ، ان کا تجزیہ کرے اور افسانہ کی ایک نئی ریطوریقا
تشکیل دے جس کا تعلق صرف مشرق سے ہو۔ اور ایسا ممکن ہے یہ خود سکندر احمد
ثابت کرچکے ہیں ۔ جس کے لیے ہم ان کے احسان مند ہیں۔ |