آپ کو تعجب تو ہوگا مگر یہ حقیقت ہے کہ ہم بھی کبھی بچے
تو تھے ہی، تھے تو چھوٹے لیکن بڑے بڑے خواب دیکھنا فطری عمل تھا۔ ہم اکثر
سوچا کرتے تھے کہ بڑے ہو کر ہم آسمان سے چاند نہیں تو تارے ضرور توڑ کر
لائیں گے۔ آسمان سے تارے تو نہیں توڑ پائے لیکن گھر کے آنگن کو چار بچوں کی
کہکشاں سے ضرور سجا دیا۔بچپن کا تصور ذہن میں آتے ہی کھیل کود، شرارتیں اور
چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑنا، لڑانا، جھگڑنا یاد آتا ہے لیکن ہمارا بچپن ذرا
ہٹ کے تھا اور ہم اتنے الگ قسم کے تھے کہ دیگر بچوں کے ساتھ کھیلنا ہم قطعی
گوارا نہیں کرتے تھے۔ ہم کھیلتے بھی تھے تو خود کے ساتھ۔ جب دوسرے بچوں کو
کھیل کود میں مصروف دیکھتے تو ہم اپنے مکان کے چبوترے پر کسی عظیم مفکر کی
طرح بیٹھ کر سوچوں میں گم رہتے لیکن کیا سوچتے، اب سوچنے پر بھی یاد نہیں
آتا ہے لیکن اتنا ضرور تھا کہ کچھ نہ کچھ سوچتے ضرور تھے۔دراصل ہم بچپن ہی
سے بلا کے شریف النفس واقع ہوئے ہیں، کبھی کسی کو کچھ اونچ نیچ کی باتیں
بول بھی دیتا تو فوری اس کا ازالہ کردیتا تھا کیونکہ پتہ نہیں کیوں میرا دل
اُن باتوں پر ملامت کرتا تھا۔ اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے ، اس عادت کو
میں اپنے لئے فلاح کا ذریعہ سمجھتا ہوں۔ہماری یہ خوش نصیبی ہے کہ ہم نے امی
سے بہت مار کھائی مگر ہمارے ابو نے کبھی ہمیں ہاتھ تک نہیں لگایا بلکہ ہمیں
مار پڑنے پر دل برداشتہ دکھائی دیئے، امی کی اُس مار کے ہم اتنے عادی ہوگئے
کہ اب زندگی کی وقتاً فوقتا پڑنے والی ماریں ہم پر اثر انداز نہیں ہوتیں۔
بچپن میں ہم بہت زیادہ گرتے پڑتے رہتے تھے جس کی وجہ سے ہمارے گھٹنے کی
کٹوریاں لہو لہان ہو جاتیں اور ابو کو اس بات پر بہت غصہ آتا کہ میرا بیٹا
جگہ جگہ گر کر ان کا نام مٹی میں ملا رہا ہے۔ دراصل بار بار امی کی مار
کھانے کے فیوض و برکات ہی ہیں کہ ہم آج سنبھل سنبھل کر چلنے کے قابل ہو سکے
ہیں، ورنہ ہم تو اتنی بار گرتے رہے کہ خود اپنی نظروں میں گر چکے تھے۔ جیسا
کہ ہم بتا چکے ہیں کہ ہم کھیل کود سے کوسوں دور رہتے تھے اور چبوترے پر کسی
امن پسند راجہ کی طرح بیٹھ کر پرجا، یعنی دیگر بچوں کی شرارتیں اور مستیاں
ملاحظہ فرمایا کرتے تھے۔یوں تو ہم سنجیدہ طبیعت کے حامل ہیں لیکن بچپن ہی
سے ہمارے اندر چلبل پانڈے بیٹھا ہوا تھاجو کچھ کرنے کی ضد میں ہمیں الجھائے
رکھتا تھا۔
سنبھال کر رکھی ہیں تیری یادیں
جیسے بچپن کی عیدی ہو میری
آج قلم سے ہمیں جتنا پیار ہے اتنا ہمیں اپنے آپ سے بھی نہیں، لیکن ایک وقت
وہ بھی تھا جب قلم دیکھتے ہی ہمیں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے کوئی ہمارا سر
قلم کرنے پر آمادہ ہے۔ جی ہاں! ہمارا دل اور دماغ پڑھائی کی طرف بالکل مائل
نہیں تھا ، یہ تو امی اور ابو کی شفقتوں کی وجہ سے اس قابل ہو گیا کہ آج اس
مقام پر ہوں۔ اکثر ایسا ہوتا کہ ہم گھر سے اسکول کے لئے بستہ لے کر تو
نکلتے لیکن کسی ایسی جگہ جا کر بستے جہاں کوئی آتا جاتا نہ ہو اور جب ہم
دیکھتے کہ اسکول کے بچے گھر کی طرف لوٹ رہے ہیں تو ہم گوشہ نشینی ترک کرکے
گھر کی راہ لیتے، (اس حساب سے آج کل کے بچے زیادہ پڑھ لکھ سکتے ہیں کیونکہ
ان کے والدین ہر صبح اپنے بچوں کو خود اسکول چھوڑ کر آتے ہیں اور واپسی پر
لینے بھی جاتے ہیں، اس کام کو آپ حالات کی نزاکت کہہ لیں یا پھر ماں باپ کی
اپنے بچوں کی بہتر دیکھ بھال،کیونکہ یہ صورتحال کل کی نسبت آج بہتر
ہے)بہرحال! ایک دن ہماری چوری پکڑی گئی ، ایک مخبر نے یہ خبر ہمارے والد تک
پہنچا دی تھی کہ ہم اسکول کی بجائے یہاں وہاں وقت گزارا کرتے ہیں، پھر کیا
تھا ہمارے والد صاحب نے پکڑ کر امی کے حوالے کر دیاپھر کیا تھا امی کی
مشفقانہ ہاتھ اور ہماری پیٹھ حاضر تھی۔
وقت اور حالات کی نزاکت نے آج ہمیں سکیڑ کر رکھ دیا ہے ورنہ ہم بچپن میں
خاصے فربہ اور خوبصورت تھے۔ خیر! آج بھی کوئی ایسی بات نہیں ہے ہم آج بھی
اسمارٹ ہیں، شاید اس لئے کہ والدِ بزرگوار کی شفقت اور مادر کی شفقت اور
پٹائی دونوں نے مل کر کسی پہلوان کی مانند بنا دیا ہے۔ پھر بھی جنہیں شک ہو
وہ اسی کالم میں موجود ہماری تصویر ملاحظہ کر لے۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا
پانی ہو جائے گا۔ہم اس بات کو بھی سمجھتے ہیں کہ بغض، کینہ، حسد جیسے ناپاک
جذبات کے ساتھ جینا عقلمندی نہیں ہے۔ ہم نے بچپن کو نہیں چھوڑا بلکہ بچپن
نے ہمیں چھوڑ دیا اور ہم جوان ہوئے تو ہمیں یہ احساس شدت سے ہونے لگا کہ یہ
بھی کوئی زندگی ہے، اگر عورت پر ہاتھ اُٹھائے تو ظالم، عورت سے پٹ جائے تو
بزدل، عورت کو کسی کے ساتھ دیکھ کر لڑائی کرے تو غصے کا تیز، چپ رہے تو بے
غیرت، گھر سے باہر رہے تو آوارہ، گھر میں رہے تو ناکارہ، بچوں کو ڈانٹے تو
بے رحم نہ ڈانٹے تو لاپروا، عورت کو نوکری سے روکے تو شکی مزاج نہ روکے تو
بیوی کی کمائی کھانے والا، ماں کی مانے تو ماں کا چمچہ ، بیوی کی سنے تو
جورو کا غلام۔ اور پتہ نہیں کیا کیا ۔ یہ سب اُسی جوانی کے دور کی باتیں
ہوتی ہیں۔
اﷲ رب العزت نے ہر دور میں زمانے کے مطابق انسانی برانڈ بھیجی ہے۔ آج
کمپیوٹر کا دور ہے، سو بچے بھی کمپیوٹر دماغ کے حامل ہیں۔ جب ہم دنیا میں
آئے تو غالباً ٹائپ رائٹر تھا، (یا شاید نہیں) اُس وقت درخت سے کوئی پتا
بھی جھڑ کر ہماری کھوپڑی پر گرتا تو ہم گھبرا جاتے تھے کہ نجانے کونسی آفت
ہم پر نازل ہوگئی ہے۔ جب کہ آج ہماری پانچ سالہ بیٹی کی بیباکی کا یہ عالم
ہے کہ وہ گوندھے ہوئے آٹے کی تھوڑی سی مقدار کو اپنی انگلیوں میں پکڑ کر ’’
بو ‘‘ یعنی کسی خطرناک کیڑے کے طور پر پیش کرکے ہمیں نہ صرف ڈراتی پھرتی ہے
بلکہ ہمیں ادھر اُدھر بھاگتا پھرتا دیکھ کر خوب محظوظ ہوتی ہے۔ بچپن میں
ہمیں کھانے کے بعد خود اپنا منہ پوچھنے کی توفیق نہیں ہوتی تھی مگر آج
ہماری ننھی گڑیا کھانے کے بعد اپنا منہ دھیان سے صاف کرتی ہے۔
ہمیں ابتدائی بچپن میں تو پڑھائی کا کوئی شوق نہیں تھا لیکن پھر نجانے کہاں
سے کسی قلم کار کی روح ہمارے اندر سما گئی ۔ پڑھائی سے فارغ التحصیل ہوئے
تو نوکری اور پھر شادی، پھر ہمیں لکھنے پڑھنے کا ایسا جنون سوار ہوا کہ
لوگوں نے ہمیں کتابی کیڑے کے لقب سے نواز دیا۔ جہاں کوئی کتاب نظر آتی ، ہم
اسے لپک کر چاٹے بغیر نہیں رہتے۔ ہم نے نہ صرف معاشی بلکہ سماجی، کھیل کود
اور سیاسی حالات پر بھی گہری نظر رکھنی شروع کر دی تھی۔ ہم خود تو مکمل
شباب تک نہیں پہنچے تھے مگر ہمارا یہ شوق شباب کو ضرور پہنچ گیا تھا۔
چنانچہ گھر میں ایک چھوٹی سی لائبریری بنا ڈالی ، جہاں ہم خبروں کو نوٹ
کرتے اور پھر ان خبروں پر اپنے تبصرے کر ڈالتے۔ ہمارے اسی جنون کی بدولت
ہمیں بڑے بوڑھوں کی ڈانٹ بھی سننی پڑتی کہ بچے ہو کر تم نے بڑوں کا شوق پال
رکھا ہے، اگر یہ شوق ہمارے اندر اسی طرح برقرار نہیں رہتا تو پھر آج ہم اس
طرح آپ کو لکھاری نظر نہیں آتے۔ ہم سے لکھنے پڑھنے کا شوق تو نہ چھوٹا
البتہ ہم بچپن سے جوانی اور پھر سیدھے بڑھاپے کی جانب گامزن ہو گئے
ہیں۔ہمارے استاد ہمیں اکثر کہا کرتے تھے کہ تم اپنے اندر اپنے بچپن کو کبھی
مرنے نہ دینا ، یہی وجہ ہے کہ ہم آج بھی بچوں کو چٹکیاں بھرتے رہتے ہیں۔اور
ان سے اٹکھیلیاں ہی ہماری زندگی ہے ، چاہے وہ میرے اپنے بچے ہوں یا پھر کسی
عزیز کے۔بقول ہمارے استاد کے اس طرح تم بوڑھے نہیں ہوگے۔ اور یہ حقیقت بھی
ہے کہ ہم انہی اٹکھیلیوں کی وجہ سے آج تک جواں ہمت ہیں۔ ان کا کہنا بجا طور
پر درست ثابت ہو رہا ہے کہ اپنے بچپن کو سنبھال کر رکھو، اگر ناکام ہوگئے
تو پھر تمہیں بوڑھا ہونے سے کوئی نہ روک پائے گا۔ |