شفیق حسین شفق کے آئینے میں عرفان صدیقی کی تصویر
ڈاکٹر شفیق حسین شفق سے میری ایک مختصر ملاقات سال بھر قبل لکھنؤ میں ہوئی
تھی۔ یقین کریں کہ اگر اس سے پہلےمیں نے ان کی کتاب عرفان صدیقی:شخص اور
شاعر دیکھ لی ہوتی تو میرے لئے یقین کرنا مشکل ہوجاتا کہ یہی وہ نوجوان ہے
جوعرفان صدیقی پرایسی تحقیقی تصنیف کا خالق ہے ۔عرفان صدیقی: شخص و شاعر کی
بابت نیا ورق کے مدیرساجد رشیدکی رائے ہے’’زیر نظر کتاب کو دیکھ کر کہنا
پڑتا ہے کہ اگر ان(مرحوم عرفان صدیقی)کی زندگی میں یہ کتاب شائع ہوتی تو وہ
اپنے بے نیازانہ مزاج کے باوجودکتاب کے دقیق موادکو دیکھ کر ضرور خوش ہوتے‘‘
لیکن قربان جائیے ڈاکٹر شفق کے عجز و انکسار پر کہ وہ اپنی کتاب کے
ابتدائیہ میں یوں رقمطراز ہیں’’میں ان سخن فہموں اور عرفان شناسوں کا
شکرگزار ہوں کہ جنہوں نے میری کتاب کی توقع سے زیادہ تحسین وپذیرائی کی اور
اسے عرفان شناسی کیلئے نشانِ راہ قرار دیا۔ہر چند کہ مجھے اس کا اعتراف ہے
کہ میں اپنی کم علمی اور بے بضاعتی کے سبب عرفان صدیقی کی شاعری کی کماحقہ
تعبیر و تفہیم نہ کرسکا۔(ص ۱۵)۔
چار سال کے مختصر عرصے میں کتاب کےاشاعتِ سوم کا منصۂ شہود پر آنا بجائے
خود کامیابی کی دلیل ہے۔ اس کے علاوہ مختلف لوگوں کی توجہات کا عرفان صدیقی
کے فن و شاعری کی جانب مبذول ہونا جس کی پیشن گوئی پروفیسر انیس اشفاق نے
کی تھی ، نیادوراور دیگر مؤقر جریدوں کا عرفان صدیقی پر خصوصی نمبر شائع
کرنا ڈاکٹر شفیق حسین شفق کیلئے ثوابِ جاریہ سے کم نہیں ہے۔ مرزاصاحب ابھی
نوجوان ہیں ان کی ذات پر غالب کا مصرعہ ’’سب کہاں کچھ لالہ و گل ‘‘صادق
آتا ہے ۔ اس مشتِ خاکی کے اندر بہت کچھ پنہاں ہے جس کا نمایاں ہونا ابھی
باقی ہے ۔ اردو زبان کا تابناک مستقبل ایسے ہی جواں سال ناقدین سےوابستہ ہے۔
مرزا شفیق حسین شفق نے قول کے بجائے اپنے عمل سے اس دور کی دو بڑی غلط
فہمیوں کاازالہ کر دیا ہے ۔ اول یہ کہ بڑے شہروں کے لوگ چھوٹےقصبوں کے
لوگوں سے زیادہ ذہین وفطین ہوتے ہیں دوسرے کانونٹ میں تعلیم حاصل کرنے
والوں کو دینی درسگاہوں میں پڑھنے والے طلباء پر فوقیت حاصل ہوتی ہے ۔
شفیٖق صاحب قصبہ سانکھنی بلند شہرکے اسلامی پرائمری مکتب سے ابتدائی تعلیم
حاصل کرکے لکھنو آئے اورجامعہ سلطانیہ سے فارغ التحصیل ہو کر لکھنؤ
یونیورسٹی میں داخل ہوئے جہاں ان کا سابقہ عصری تعلیم گاہوں سے نکل کر آنے
والے طلباء سے پڑا ۔تاریخ شاہد ہے کہ شفیق حسین نے نہ صرف ہر امتحان میں
امتیازی کامیابی درج کروائی بلکہ لکھنؤ یونیورسٹی کے بہترین طالبعلم کے
اعزاز سے بھی نوازے گئے ۔ یہ حسن اخلاق ان دینی درسگاہوں کی مرہون منت تھا
جہاں سےزانوئے ادب طے کرکے مرزا شفیق یونیورسٹی میں آئے تھے لیکن بقول
اقبال یہ آدابِ فرزندی محض مکتب کی کرامت نہیں ہوتے بلکہ کےیہ توکریم و
شفیق والدین کا فیضان ِ نظراور تذکیر و تربیت کا ثمر ہوتا ہے جواولاد کے
سیرت و کردارکی شجرکاری کرتا ہے۔
ہمارے دور کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ انسان زندگی مختلف معاملات میں بڑی
آسانی سےافراط و تفریط کا شکار ہو جاتا ہے۔ کچھ لوگ اپنے بچپن کے خول سے
زندگی بھر باہر نہیں آتے اور کچھ رسی تڑا کرایسے فرار ہوتےہیں کہ پھر
پیچھے مڑ کر دیکھنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتےیہاں تک کہ ان کے بارے میں
اندازہ لگانا مشکل ہوجاتا ہے کہ یہ پھول آخر کھلاکس چمن میں تھا؟احساسِ
کمتری کا شکار یہ محروم طبقہ اپنے رنگ و بو سے بیزارو بے نیاز کائناتِ ہستی
میں تمام عمر ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے۔ لیکن ڈاکٹرشفیق حسین شفق نے اس
معاملے میں کمال توازن قائم کررکھا ہوا ہے۔ ان کی ادبی و صحافتی سرگرمیاں
نہ تو دینی مجالس میں حائل ہوتی ہیں اور نہ فن خطابت کو قلم کا سایہ بوجھل
یا مہمل بنا تا ہے بلکہ ایک حسین امتزاج ہردو کیلئے سونے پر سہاگہ کا کام
کرتاہے۔
عرفان صدیقی: شخص و شاعر میں ڈاکٹر شفیق حسین شفق نے جو بات صنفِ غزل کے
بارے میں لکھی ہے وہ خود ان کے حسنِ سیرت پر صادق آتی ہے ملاحظہ فرمائیں :قلی
قظب شاہ سے لے کر آج تک کی اردو شاعری شاہد ہے کہ بنیادی روایات اور عصری
تغیرات کا جتنا حسین امتزاج غزل میں پایا جاتا ہے اتنا کسی صنفِ سخن میں
نظر نہیں آتا ۔ دراصل اسی امتزاج میں غزل کا حسن مضمر ہے۔ ایمان کی حدتک
روایت پسندی اور ارتداد کی حدتک روایت شکنی، کورانہ تقلید اور باغیانہ
انقطاع دونوں ہی اس کے ارتقاء میں مانع ہیں۔ (ص ۷۰)
ڈاکٹر شفیق حسین شفق کی مذکورہ کتاب دراصل ان کے ایم اے کا مقالہ ہے مگر
مقالہ نگاری کے پسِ پشت ضرورت کے بجائے جذبۂ عقیدت و محبت کارفرماہے۔
عرفان صدیقی کے قریبی دوست پروفیسر نیر مسعود کا بیان ہے کہ ’’مرزاشفیق
حسین شفق زندگی کے آخری دور میں عرفان صدیقی سے بہت قریب ہوگئے تھے ۔ ان
کی بیماری کے زمانے میں مرزا شفیق نے ان کی بہت خدمت کی جس کا اعتراف عرفان
صدیقی نے بارہا کیا‘‘۔ جب کسی مصنف کی قلبی آمادگی اس کے ذہن سے ہم آہنگ
ہو جاتی ہےتو شاہد و مشہود کا فرق مٹ جاتا ہے اور ایسی تصنیف عالمِ وجود
میں آتی ہے جس کے اندر قاری شفیق حسین شفق کے آئینے میں عرفان صدیقی کی
تصویردیکھتا ہے نیزعرفان صدیقی کا یہ شعران کے مداح شفیق حسین پرچسپاں ہو
جاتا ہے ؎
اپنا ہی چہرہ انہیں مجھ میں دکھائی دے گا لوگ تصویر سمجھتے ہیں میں آئینہ
ہوں
یہ مقالہ عرفان صدیقی کے ساتھ گہرے تعلق اور ان کی شاعری سے شفیق حسین کے
والہانہ عشق کاآئینہ دار ہے۔اس میں عرفان صدیقی کے فن اور شخصیت کے علاوہ
جدید اردو شاعری اورواقعہ کربلا پر بھی علمی بحث کی گئی ہے ۔اس کتاب کا ایک
اہم جز ڈاکٹرشفیق حسین شفق کے ذریعہ عرفان صدیقی کے چند مشکل اشعار کی
نہایت سہل اور مؤثر تشریح و توضیح ہے۔اس طرح گویا اس مقالےکے دو پہلو تو
عنوان میں شامل ہیں لیکن دیگر تین اجزاء جن کا اوپر ذکر کیاگیا کتاب کے
سینے میں پوشیدہ ہیں۔یہ معاملہ بالکل مرزا صاحب کی شخصیت کی طرح ہے کہ ان
سے ملنےپران کی جس قدر خوبیاں نمایاں ہوتی ہیں اس سے کہیں زیادہ سربستہ راز
ظاہرنہیں ہوتے۔ ڈاکٹر شفیق جستہ جستہ کھلتے ہیں ۔
مولانا شفیق حسین شفق ایک دلنوازشخصیت کے مالک ہیں۔جو ان سے ایک بار مل
لیتا ہے پھر آسانی سے انہیں بھلا نہیں پاتانیز دوبارہ ملاقات خواہش اس کے
دل میں پروان چڑھتی رہتی ہے۔شفیق صاحب سے نصف ملاقات یعنی خط و کتابت کا
بھی اپنا مزہ ہے۔ اگر آپ کے ای میل بکس میں شفیق صاحب کا میل سیکڑوں خطوط
کے درمیان بھی دبکا ہوا ہو تب بھی میرا دعویٰ ہے کہ آپ اس سے پہلے کوئی
اور میل کھول نہیں سکتے۔ جب میں نے یہ سوال اپنے آپ سے کیا کہ ایسا کیوں
ہوتا ہے؟تو میرے اندرون سے آواز آئی یہ جذبۂ اخلاص و محبت ہےجو بقول
غالب ’’سینۂ شمشیرسے باہر ہے دم شمشیر کا‘‘ کی مصداق سر چڑھ کر بولتا ہے ۔
شفیق حسین شفق کے خطوط میں لفاظی نہیں ہوتی ۔ان سادہ خطوط سے میں نے یہی
جانا ہے کہ بے لوث تعلق الفاظ و اظہار کامحتاج نہیں ہوتا ۔ عرفان صدیقی پر
شفیق حسین شفق کی تصنیف اسی طرح کےرشتۂ عقیدت وشفقت کی آئینہ دار ہے۔
عرفان صدیقی چونکہ اس دور کا شاعر ہے جب اپنے ہمعصروں کا ڈھنڈورہ پیٹنے
والا ترقی پسندزمانہ گزر چکا تھا اس لئے ان کے بارے عوام کی معلومات قدرے
کم ہے ۔کتاب کی ابتداء میں بجا طور پر اس جانب توجہ دی گئی اور عرفان صدیقی
کے متعلق نہ صرف ذاتی معلومات بلکہ ان معاشرتی اور تہذیبی عوامل کوبھی
تفصیل کے ساتھ پیش کیا گیا جس نے عرفان کی شخصیت کو ایک مخصوص انداز میں
ڈھالا اور ایک خاص بانکپن عطا کیا۔ عرفان صدیقی کی ایک نہایت قیمتی تحریر
کا اقتباس شکیب جلالی کی کتاب ’روشنی اے روشنی‘کے پیش لفظ سے نکال کر ہیرے
کی مانندمرزا شفیق نے اپنی کتاب میں ٹانک دیا ہے۔ اس اقتباس کے ذریعہ عرفان
صدیقی کی شخصیت کے اجزائے ترکیبی تک رسائی ہوجاتی ہے۔
’’آج میں موسموں کی کتاب کے بیس یا بائیس ورق الٹتا ہوں توکچھ دھندلے عکس
اجاگر ہو کر بولتی تصویروں میں بدل جاتے ہیں اور کتنی ہی بھولی بسری یادیں
مجسم ہو جاتی ہیں۔ چوتھائی صدی پہلے زندگی اتنی دلشکن معلوم نہ ہوتی
تھی۔نئی عصری حقیقتیں اس چھوٹی سی بستی کے دروازے پر دستک دے رہی تھیں لیکن
آنکھوں میں گزری ہوئی روایتوں کے عکس ابھی جاگ رہے تھے۔جو نسل اس وقت
بدایوں میں جوان ہو رہی تھی اس کے ہاتھوں میں ماضی کے دامن کی مہک باقی تھی
اور آنکھوں میں آنے والے برسوں کے خواب جگمگا رہے تھے۔ادبی محفلیں،
مباحثے ، رسالوں کا اجراء،ڈرامے اورادبی و ثقافتی انجمنوں کا قیام ، گہری
خاموش بامعنی دوستیاں،دلنواز رقابتیں اور بااصول وسیع القلب دشمنیاں، کچھ
کردکھانے کے حوصلے‘‘۔(ص۳۰)
اس کتاب میں شفیق حسین شفق نے عرفان صدیقی کے بہترین اشعار کو اس خوبی کے
ساتھ یکجا کیا کہ جن لوگوں کے پاس عرفان صدیقی کی مختلف کتابوں کودیکھنے کی
فرصت نہ ہو وہ اس ننھی سی صاف شفاف نہر سے دریا کی تلاطم کا اندازہ لگاسکتے
ہیں۔ یہاں ایک آسانی یہ بھی ہے کہ اشعار موضوعات کے ساتھ مل جاتے ہیں۔ ان
کا پس منظر اور خوبیاں بھی بیان ہو جاتی ہیں ۔ لیکن ایسا نہیں ہے ان
سہولیات کے نتیجے میں قاری کی طبیعت سیراب ہوجاتی ہو بلکہ اس کے اندر ایک
پیاس جنم لیتی ہے ۔ یہ تشنگی اسے عرفان صدیقی کا دیوانہ بنا دیتی ہے اور
پھر وہ شاعر کی تلاش میں نکل کھڑا ہوتا ہے۔ اس کی کتابوں کو تلاش کرتا ہے ۔
اس کے کلام سے مستفید بھی ہوتا ہے اور محظوظ بھی۔ اس لئے کہ دورجدید کے
قاری کو عرفان صدیقی کی شاعری میں ایک شجر سایہ دار میسر آتا ہے اور اس کی
وجہ ڈاکٹر شفیق حسین شفق اس طرح بیان کرتے ہیں کہ:
عرفان صدیقی نے رموزتخلیق اور اسرارِ کائنات کو سمجھا ہے یہی وجہ ہے کہ
افلاس، سامراجی استحصال اور جبرو استبداد کی گرم ہواؤں میں جھلستے ہوئے
اور کراہتے ہوئے نیم جاں افرادکیلئے عرفان صدیقی کی شاعری شجرِ سایہ دار کی
حیثیت رکھتی ہے۔عرفان صدیقی کی انسان دوستی اور ان کے غنائی لہجہ کا ذکراس
مقام پر بے محل نہ ہوگا۔عرفان صدیقی ظلم کے خلاف احتجاج اور مظلوم کی حمایت
کا اعلان ببانگِ دہل کرتے ہیں لیکن اس اعلان میں وہ غزل کی حرمت کو مجروح
نہیں ہونے دیتے۔(ص۱۱۴)
اس کتاب کا تیسرا اہم پہلو عرفان صدیقی کےمنتخب اشعار کی تفہیم و تشریح ہے۔
ان میں سے کچھ متنازعہ اشعار ہیں اور کچھ مشکل ۔ان اشعار کو جس انداز میں
شفیق حسین شفق نے سمجھا اور سمجھایا ہے وہ ان کےعرفان شناسی کی دلیل ہے۔ وہ
ا لفاظ کے مختلف معنیٰ،رنگ وآہنگ کے اشارے کنائےاور شعرکی تراکیب و
اصطلاحات کو جب اجاگر کرنے لگتے ہیں تو قاری کو ایسامحسوس ہوتا ہے کہ گویا
شفیق حسین شفق اپنے محبوب شاعر عرفان صدیقی کےقلب و ذہن کا ترجمان بن گئے
ہیں۔ اس کی تین مثالیں ملاحظہ فرمائیں عرفان صدیقی کے مشہور شعر ؎
بہت کچھ دوستو بسمل کے چپ رہنے سے ہوتا ہے
فقط اک خنجرِ دست جفا سے کچھ نہیں ہوتا
گجرات کے المیہ کے پس منظر میں اس شعر کی معنویت ڈاکٹر شفق یوں بیان کرتے
ہیں :’’ہم جس معاشرے میں سانس لے رہے ہیں وہاں ظلم کا بول بالا ہےلیکن ہم
میں ظلم کے خلاف محاذ کھولنے کی جرأت نہیں اس لئے ظلم کو پنپنے کاموقع مل
رہاہے۔ اس شعر میں یہ مفہوم بھی پنہاں ہے کہ جتنا بڑا ظلم ،ظلم کرنا ہے
اتنا ہی بڑا ظلم، ظلم ہوتے ہوتے ہوئے دیکھنا اور اس پر خاموش رہنا
ہے۔(ص۱۶۶)۔اسی طرح ایک اور شعر کی گجرات کے فسادات پر تطبیق فرماتے ہوئے
ڈاکٹر شفق لکھتے ہیں کہ یہاں علامات کربلا کا سہارا لے کر موجودہ عہد کی
عکاسی کی ہے۰۰۰لہذہ تفہیم عرفان کے وقت اس کا خاص خیال رکھنا چاہئے کہ وہ
کربلا کے الفاظ و علامات کے توسط سےمعاصر عہد کی صورتحال کو ظاہر کرتے
ہیں(ص۱۷۵)۔ عرفان صدیقی کےایک متنازعہ شعر کی تشریح بھی ملاحظہ ہو’’معترضین
نے دراصل اس شعر کو سمجھنے میں بنیادی غلطی یہ کی ہے کہ اس کی تفہیم
’علامات ِکربلا‘ کے آئینہ میں کی ہے۔ جیسا کہ ہم عرض کرچکے ہیں عرفان
صدیقی کے یہاں صرف علامات کربلا ہی نہیں بلکہ اور بھی بہت کچھ ہے وہ تو ان
کی شاعری کا صرف ایک پہلو ہے حالانکہ یہ شعر خالص عشقیہ شعر ہے۔(۱۳۱)
اس کتاب میں جدید اردو شاعری کا جائزہ اس حوالے شامل کیاگیا کہ عرفان صدیقی
اس کا نمائندہ شاعر تھا لیکن یہ محض رسمی حوالہ نہیں ہے بلکہ اس باب میں
جدید اردو شاعری کامنظر اور پس منظر،اس کی ضرورت و اجزائے ترکیبی ، اس کے
اندر پیدا ہونے والے رحجانات اور ان کے پس پردہ کارفرما وجوہات پر نہایت
دلنشین انداز میں سیر ٖحاصل بحث کی گئی ہے۔ نئی غزل کا تعارف شفیق حسین اس
طرح کرواتے ہیں کہ ’’ نئی غزل درحقیقت معاصر انسان کی خارجی و داخلی شکست و
ریخت کا اظہار ہے۔نئی غزل کی تفہیم کیلئے اس دور کے انسان اور اس کے مسائل
سے واقفیت ضروری ہے۔مشینی زندگی، نیچر سے انسان کے ازلی وابستگی کے
خاتمے،خدا کے تصور کے زوال نیز تمام اقدار کے مٹ جانے سے نیا انسان جن
مسائل سے دوچار ہےاور نئے اقدار کی تلاش میں جس تخلیقی کرب سے گزررہا ہے وہ
خود رحمی کی سرحدوں کو چھو چکا ہے۔
آج کا انسان ماقبل کے انسان سے ذہنی طور پر مختلف ہے۔ وہ اب زمینی فاصلوں
کے کم یا ختم ہوجانے سے بین الاقوامی سطح پر ایک عالمگیر قوم میں شامل
ہوگیا ہے۔اس کا کرب اب محدود نوعیت کا نہیں رہا جبکہ پوری کائنات کے اسرار
کی گرہیں کھل چکی ہیں اس کے کرب کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔نیا انسان خارجی
وسعتوں کے سامنے خود کو ہیچ پاکراب اپنے وجود کو تلاش کرنے نکلا ہے۔اس کا
سفر اب اپنے خارج سے باطن کی طرف ہے۔اس لئے وہ خود سے ہمکلام ہے۔ سوالات
نئے اور پیچیدہ ہیں۔وہ ان سب کا جواب چاہتا ہے۔اضطراب گہرا اور شدید ہے۔ اس
کی آواز میں زوال خوردہ معاشرے کی چیخیں شامل ہیں۔جو ہمیں نئی غزل میں صاف
طور پر سنائی دیتی ہیں‘‘(ص۷۶)
اس اقتباس کو پڑھتے وقت بالکل بھی محسوس نہیں ہوتا کہ کوئی دقیق تحقیق کی
کتاب زیر مطالعہ ہے۔جدید و قدیم شاعری کا جائزہ لیتے وقت ڈاکٹرشفیق حسین
شفق کی ٖغیرجانبداری قابلِ تحسین ہے کہ انہوں نہ تو کسی کی بیجا تعریف کی
اور نہ کسی سے بغض و عنادکا اظہار کیا لیکن اسی کے ساتھ جہاں گرفت کی ضرورت
محسوس کی پروقاراور مہذب انداز میں اس سے گریز بھی نہیں کیا۔ یہ کام خاصہ
مشکل ہے خاص طور پر ان چغادری ناقدین کیلئے جو اپنے خودساختہ تشخص کے
حصارمیں مقیدرہتے ہیں۔
واقعہ کربلا کے سلسلے میں بھی عام طور پر اعتدال وتوازن قائم رکھنا مشکل
ہوتا ہے لیکن ڈاکٹر شفیق حسین شفق نے اپنی کتاب کے چوتھے باب میں نہایت سہل
انداز میں اسے بیان فرمایا اور اس کی ہمہ گیر معنویت پرجس طرح روشنی ڈالی
وہ اپنے آپ میں ایک جداگانہ تصنیف ہے۔ اس کتاب میں اس کا شامل ہونا اس لئے
ضروری قرار پایا کہ ان حقائق کی یاددہانی کے بغیر عرفان صدیقی کے بہت سارے
اشعارکی مکمل تفہیم ممکن نہیں ہے۔اس مرحلے میں ڈاکٹر شفیق حسین شفق نے اپنے
کام کو مزید وسعت دیتے ہوئےدیگر جدیداورمعتبرشعراء کا کلام بھی پیش کردیا
ہےجس سے قاری کو یہ جاننے میں مدد ملتی ہے جدید لہجے میں قدیم اصطلاحات کی
مدد سے عصرِ حاضر کے کرب و بلا کو کیسے بیان کیا جارہا ہے اور عرفان صدیقی
نے اسے کیسے برتا ہے اس لئے کہ بقول ڈاکٹر شفیق حسین شفق :
ظلم کے خلاف سب سے پرقوت استعارہ کربلا ہے اسی وجہ سے عرفان صدیقی کے یہاں
کربلا اور اس کے جزئیات کا ذکر بہت آتا ہے (ص۱۰۰)۔ظلم و تشدد،
جبرواستبدادکے خلاف خودی کا اثبات واقعات کربلا کا بہت بڑا استعارہ ہےاور
یہی عرفان صدیقی کی شاعری کا اہم پہلو ہے بلکہ نقطۂ ارتکاز ہے۔ ان کی تمام
شاعری اس کے گرد گھومتی ہے۔ہمارے عہدکے انسان کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ
اس پر ظلم ہوتا ہے مگر وہ ظالم قوتوں کی شناخت نہیں کرپاتا ہے۔اس کیلئے یہ
پتہ لگانا نہایت دشوار ہوگیا ہے کہ اس پر ظلم کس نے کیاہے۔ چونکہ ظلم کے
وسائل اس قدر وسیع ہوگئے ہیں کہ ان تک مظلوموں کی رسائی ناممکن ہے۔نتیجہ
میں مظلوم عدم اعتماد کا شکار ہوجاتا ہے۔جبکہ ماضی میں ظلم کی شناخت آسان
تھی کیونکہ ظلم کے وسائل محدود تھے لہذہ ظالم کا مقابلہ بھی بآسانی کیا
جاسکتا تھا (ص۱۰۱)
نقدو نظر کے میدان میں اترنے والے سپاہی کے اندر فہم و ادراک، گہرائی و
گیرائی ، زبان و بیان پر قدرت کےعلاوہ خود اعتمادی و بے باکی کی فراوانی
بھی لازم ہے ڈاکٹر شفیق حسین شفق کے اندر ان صفات کی موجودگی کا
اظہارمندرجہ ذیل اقتباس سے ہوتا ہے جس میں انہوں نے ناقدین کو اپنی تنقید
کا نشانہ بنایا ہے’’ میرا خیال ہے کہ ناقدین کی زبان و بیان کے معاملہ میں
اتنی زیادہ سخت گیری بھی مناسب نہیں ہے، زبان و بیان سے واقفیت شاعر کے لئے
ضروری ہے۔اس کے بغیر شعر میں حسن پیدا نہیں ہوسکتا۔ قواعد کو نظر انداز
کرنا زبان کوقتل کرنے کے مترادف ہے۔لیکن قواعد کو زبان پر تھوپ دینا بھی
زبان کی توسیع و اشاعت اور اس کے فروغ کی راہ میں میں روڑے اٹکانے کےبرابر
ہے۔ شعر گوئی کا فن بہت نازک اور لطیف فن ہے۔یہ اکثر قواعد کی جکڑبندیوں کا
متحمل نہیں ہوپاتا۔ شعر کہتے ہوئے شاعر پر الہامی کیفیت طاری ہوتی ہے۔وہ
اپنے مخصوص وجدانی لمحات میں اکثرقواعد کی بیجا حدود و قیود کو توڑ دیتا
ہے۔(ص ۱۳۲)
ڈاکٹر شفیق حسین شفق اور ان تصنیف کے حوالے سے اپنے دل کی بات میں ابرار
رحمانی کے الفاظ میں کہہ کر رخصت لیتا ہوں۔ بقول رحمانی :’’عرفان صدیقی
:شخص اور شاعر نوجوان نقاد مرزاشفیق حسین شفق کی تنقید کا نقشِ اول ہے۔
حیرت ہوتی ہے کہ ایم اے کیلئے لکھا گیا یہ مقالہ اتنا جامع اور بھرپور ہے
کہ عرفان صدیقی کے شعری محاسن کو پوری طرح روشن کردیتا ہے۔ اس میں مرزا
شفیق کی علمی،فکری، ادبی اور فنی صلاحتیں پوری طرح ظاہر ہورہی ہیں ۔ اور ان
کی یہی خوبیاں مستقبل کے اہم نقاد کی نشاندہی کررہی ہیں‘‘۔ |