جانشینِ مفتی اعظم تاج الشریعہ حضرت علامہ محمد اختر رضا
قادری ازہری کی ذات دنیاے اسلام میں محتاجِ تعارف نہیں۔ گلستانِ رضویہ میں
مفتیِ اعظم علامہ مصطفی رضا نوری علیہ الرحمہ کے بعد جس گُلِ سر سبد کی مہک
چہار دانگ عالم میں محسوس کی جارہی ہے وہ آپ ہی کی ذات ِ ستودہ صفات ہے۔ آپ
کی ہمہ جہت شخصیت سے متاثر ہوکر مارچ2010میں عالم اسلام کی عظیم وقدیم
اسلامی یونی ورسٹی الازہر مصر نے آپ کو ’’فخرازہر‘‘ کا پر وقار اعزاز تفویض
کیا۔ اور عالمی ادارے’’ اسلامی اسٹریٹیجک اسٹڈی‘‘ نے دنیا کی500؍ با اثر
شخصیات میں اولین 22؍ ویں مقا م پر شمار کیا۔آپ مسلّم بزرگ وروحانی پیشوا
ہیں، بزرگوں کے اقوال انقلابِ زندگانی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بزرگوں
کی نصیحتیں اور ان کے اقوال دلوں کی دنیا بدلنے کا بہترین ذریعہ ہیں۔ ہر
دور میں مختلف طریقوں سے ان کے اقوال و ارشادات محفوظ کیے جاتے رہے۔کہیں
سینہ بہ سینہ، کہیں لوح وقلم سے۔ ان کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ وہ صالح
انقلاب جو بڑی بڑی تحریکوں سے ناممکن ہو تا ہے۔ وہ ایک مردِ خدا کے ارشاد
سے آسان تر ہوجاتا ہے۔ ذیل میں بلا تبصرہ تاج الشریعہ دام فیوضہم الباری کے
چنندہ ارشادات آپ کے مواعظ سے پیش کیے جا رہے ہیں۔ جو عمل کے متقاضی
ہیں۔بزمِ حیات میں سجائیں اور زندگی کو طریقِ مصطفی علیہ التحیۃوالثناء پر
گامزن کریں:
٭سورۂ فاتحہ میں جوہم کو دعا سکھائی گئی،وہی ہمارے لیے نسخۂ کام یابی اور
نسخۂ کیمیا ہے۔
٭شیطان اور شیطان کے راستوں سے پچیں۔
٭دنیا کا عیش چند روزہ ہے۔
٭قبر کی لذّت اور قبر، حشر کا عیش یہ اس کے لیے ہے جو غلامِ مصطفی ہے۔
٭مذہب مہذب اہل سنت وجماعت یہی سچامذہب ہے اور یہی سچا راستہ جو اﷲ و رسول
تک پہنچانے والا۔
٭بندہ دوسرے بندے کو بھلائی کا حکم دے اور برائی سے روکے۔
٭قرآن کریم کا ہر حرف منتخب ہے، یہ اس کا کلام ہے جس کے کلام میں کسی کو
کوئی کلام ہو ہی نہیں سکتا۔
٭اس (قرآن) کا ہر کلام ہر بیان اور قول ہمارے لیے درسِ حیات ہے۔
٭جو دشمنان مصطفی ہیں، جو دشمنان خدا ہیں، ہمیں ان کی کوئی ضرورت ہی نہیں
ہے۔
٭سنی سنی ایک ہوں، مصطفی کے غلام آپس میں ایک ہوں، یہی قرآن کی تعلیم ہے،
ہمارے لیے یہی کام یابی کا ضامن ہے۔
٭ہمارا رشتہ اور ہماری نسبت اس سے ہے جو محمد رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
وسلم کا ہے۔
٭جومحمد رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا نہیں اور ان کے دین پر نہیں ہے
تو ہمارا اس سے کوئی رشتہ نہیں ہے، یہی سچا اتحاد ملت ہے۔
٭لا الہ الا اﷲ محمد الرسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پڑھ کر کے ہم نے اﷲ
و رسول سے جو عہد کیا ہے، اس عہد کو ہم یاد رکھیں،اس کی تجدید اور اس کی
یاد دہانی ایک دوسرے کو کراتے رہیں۔
٭ہماری اور آپ کی زندگی کا، دنیا میں آنے کا اور دنیا میں رہنے کا مقصد بھی
یہی ہے کہ ہم اﷲ کو پہچانیں۔اس کے رسول کے وسیلے اور بزرگان دین کے وسیلے
سے اﷲ والے ہوں۔
٭آدمی اگر امانت کا لحاظ کرلے تو پوری مسلم کمیونٹی(قومِ مسلم) سدھر سکتی
ہے، اور سنور سکتی ہے۔
٭ہماری اچھی باتیں یورپیوں ، انگریزوں ،ہندووں، نصرانیوں، یہودیوں نے سیکھ
لیااور ہم نے ان کی بری باتوں کو لے لیا۔
٭امانت کا مطلب یہ بھی ہے کہ آپ کے پاس کسی کا راز ہے تو اس راز کی حفاطت
کریں۔
٭شریعت نے اڈوائس (Advise)دیا کہ جن کو راز بتانے سے نقصان کا اندیشہ ہو
اسے اپنا راز نہ بتائے۔
٭مسلمان کی یہ شان نہیں کہ وہ غیر مسلموں کو راز دار بنائے۔
٭مسلمان، مسلمان سے مشورہ کرے۔
٭ہر چھوٹے سے چھوٹے،بڑے سے بڑے، دینی اور دنیاوی معالے میں مسلمان، مسلمان
سے اِن ٹچ (In touch)رہے۔
٭آج قوم مسلم کو نقصان جو پہنچ رہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے
غیرمسلموں کو اپنا راز دار بنالیا ہے۔ اور انہوں نے اپنی کمیٹیاں۔
٭ہمارے جسم میں اﷲ تبارک و تعالیٰ نے جو اعضا رکھے ہیں، اور جو پاورس
پروائڈ کیے ہیں ان میں بھی امانت کا لحاظ ضروری ہے۔
آنکھ کی امانت یہ ہے کہ :’’اﷲ تبارک و تعالیٰ نے جس چیز کو دیکھنے کا حکم
دیا ہے اسے دیکھے اور آنکھ کو جس چیز کو دیکھنے سے منع کیا آدمی اس چیز کو
نہ دیکھے۔‘‘
کان کی امانت یہ ہے کہ :’’جو بات سننے کا حکم اﷲ نے دیا ہے اسے سنے، اور اﷲ
نے جس بات کو سننے سے منع فرمایا ہے اس سے باز رہے۔‘‘
ہاتھ کی امانت یہ ہے کہ:’’جو کام کرنے کا حکم اﷲ تعالیٰ نے دیا ہے آدمی
ہاتھ سے وہ کام کرے اور جس سے منع فرمایا ہے آدمی اس کام سے اپنے ہاتھ کو
بچائے۔‘‘
پیر کی امانت یہ ہے کہ:’’جہاں پر اﷲ نے حکم دیا ہے جانے کا وہاں جائے۔ اور
جہاں پر اﷲ نے حکم دیا ہے نہ جانے کا وہاں اپنے پیر نہ جائے۔‘‘
زبان کی امانت یہ ہے کہ :’’جو بات کہنے کا حکم دیا ہے وہ کہے،اور جس بات کو
کہنے سے منع فرمایا ہے وہ نہ کہے۔ جس چیز کو چکھنے کا حکم دیا ہے اس کو
چکھے اور کھائے، اور جس چیز کو چکھنے سے اﷲ نے منع کیا ہے اس سے دُور رَہے۔
ناک کی امانت یہ ہے کہ:’’جس چیز کو سونگھنے کا حکم دیا ہے اسے سونگھے اور
جس چیز کو نہ سونگھنے کا حکم دیا ہے اسے نہ سونگھے۔‘‘
ان اقوال میں بڑاعظیم فلسفہ ہے، ایک ایک قول ایسا کہ اگر عمل کے گلشن میں
سجا لیا جائے تو بہار آجائے اور مسلم معاشرہ پاکیزہ بن جائے،ضرورت عمل کی
ہے۔
|