یوں تو قیام پاکستان کے بعد سے ہی پولیس جاگیر داری سیاست
کی خدمت اور حکومتی احکامات کی بجاآوری میں مقید نظر آئی اور محکمہ پولیس
کی طرف سے عوامی مفاد کو اہمیت دینے کی صورتحال کبھی نظر نہیں آئی۔ملک میں
پولیس ظلم و جبر کی ایک مثال بن کر رہ گئی اور آج میڈیا کے جدید دور میں
بھی پولیس کا کردار اس سے مختلف نظر نہیں آتا بلکہ اس متعلق عوامی مشکلات و
مصائب میں بہت اضافہ ہو گیا ہے۔1977ء میں پولیس سے عوام کی نفرت واضح
تھی۔پولیس نے ’’ شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری ‘‘ میں عوام پر ایسے ایسے
مظالم ڈھائے کہ عوام کی روح بھی کانپ اٹھی۔حکمرانوں کی ناجائز کاروائیوں کی
پیش رفت میں پولیس نے ہمیشہ نمایاں کردار ادا کیا۔ جس طرح مادر ملت فاطمہ
جناح کو جنرل ایوب کے رسوائے زمانہ الیکشن میں پولیس کے ذریعے ہی ہرانے کے
اقدامات کئے گئے۔کونسلروں کو تھانوں میں طلب کر کے فوجی حکومت کی طرف سے
پیغام دیا گیا کہ وہ صدارتی ووٹنگ میں جنرل ایوب کو ووٹ دیں،جو ایسا کرے
گاوہ کئی فائدے حاصل کرے گا اور جو ایسا نہیں کرے گا اس کی ایسی کی تیسی
کرنے کے لئے پولیس تیار و مددگار ہے۔بھٹو حکومت میں فیڈرل سیکورٹی فورس(ایف
ایس ایف) کی ذریعے سیاسی مخالفین کے خلاف کاروائیوں میں پولیس بھی شامل رہی
اور1977ء کے الیکشن میں کھلی دھاندلی کے بعد عوامی احتجاجی تحریک کے دوران
پولیس کی ظالمانہ کاروائیوں پر عوام میں پولیس سے نفرت شدید نوعیت اختیار
کر گئی۔جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء لگا تو پولیس کی ساکھ بہتر بنانے کے
لئے ٹی وی ریڈیو پر طویل اشتہار چلائے گئے کہ’’ پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی
،یہ چوری چکاری یہ بے راہ روی خود اپنی موت آپ مر جائے گی‘‘۔لیکن پھر وقت
نے ثابت کیا کہ پولیس کا استعمال عوامی مفاد میں نہیں بلکہ حکومتی و سیاسی
مفاد ات کی تکمیل میں ہی محدود رہا۔
سماجی حلقے عرصے سے واویلا کرتے چلے آ رہے ہیں کہ ملک میں پولیس کا سسٹم
مکمل طور پر ناکامی سے دوچار ہے۔پولیس پر عوام کا اعتماد نہ ہونے کے برابر
ہے۔حکومت کی نظر میں چاہے پولیس کا کردار قابل فخر یا تسلی بخش ہو لیکن
عوامی نکتہ نظر سے پولیس کا محکمہ عوام کو تحفظ تو کیا دیتا الٹا وبال جان
بن چکا ہے۔سرکاری حلقے کبھی عوامی مفاد کی اس بات کان نہیں دھرتے تھے کہ
پولیس عوام کو تحفظ فراہم کرنے کے بجائے عوام پر دھونس،جبر اور حاکمانہ
انداز لئے باعث عذاب ہے۔کیونکہ حکومت نے پولیس سے جو کام لینا ہوتا ہے وہ
بخوبی لیا جا رہا ہے اور تابعداری کے اس کام میں پولیس کی طرف سے کوئی کمی
کوتاہی نہیں ہوتی۔
دس محرم کو جمعہ کے دن
راولپنڈی کے علاقے راجہ بازار میں ہونے والے ہیبت و اندوہناک واقعہ میں
پولیس کی غفلت اور نا اہلی واضح طور پر نظر آئی۔اس کا اعتراف وزیر اعلی
پنجاب نے بھی ایک اعلی سطحی اجلاس میں کیا ہے ۔پنجاب حکومت کی سانحہ
راولپنڈی کی تحقیقات کیلئے قائم فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے ابتدائی رپورٹ میں
انتظامیہ اور پولیس کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مظاہرین کو منتشر
کرنے کیلئے پولیس نے کوشش تو کی مگر شر پسندوں نے دھاوا بول دیا۔وزیر اعلیٰ
پنجاب کی طرف سے سابق چیئرمین وزیر اعلیٰ معائنہ ٹیم نجم سعیدکی سربراہی
میں سانحہ راولپنڈی کی تحقیقات کیلئے تین رکنی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے واقعے
کی جگہ اور فوٹیجزسے بھی حقائق جاننے کی کوشش کی ۔ ابتدائی رپورٹ میں کہا
گیا ہے کہ واقعے میں شدت انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے ذمہ داری میں
کوتاہی اور عدم تعاون کے باعث آئی ،کمیٹی نے ڈیوٹی پر موجود پولیس افسروں
اور انتظامیہ کے علاوہ تاجروں اور دونوں گروہوں کے افرادکے بیانات لیے ہیں۔
اس بارے میں چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ دسویں محرم
کو سی پی او راولپنڈی جیمز بانڈ کی طرح ہیلی کاپٹر میں گھوم رہے تھے، پولیس
اہل ہوتی تو کبھی ایسا واقعہ نہ ہوتا۔ چیف جسٹس نے ایک مقدمے کی سماعت کے
دوران ریمارکس دیے کہ راولپنڈی میں کبھی ایسا واقعہ نہیں ہوا تھا جیسا اس
بار ہوا، ایک پولیس افسر دہشت گرد کو پکڑنے جیمز بانڈ کی طرح اٹک چلا گیا،
کچھ پولیس افسران واقعے کے وقت ایمبولینس میں چھپ کر بھاگ گئے، پولیس اہل
ہوتی تو کبھی ایسا واقعہ نہ ہوتا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے لاپتہ
افراد کی کیس کی سماعت میں کہا کہ ملک میں ریاستی اداروں کی بے بسی کے باعث
لاقانونیت کی لہر ہے، ملک بھر میں لوگ قتل اور لاپتہ ہو رہے ہیں، قانون
نافذ کرنے والے ادارے کچھ نہیں کر سکتے تو آئین و قانون کی کتاب بھی بیکار
ہے۔
وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف نے اپنے گزشتہ دور حکومت کے شروع میں پولیس
اصلاحات کا عزم ظاہر کیا ،اس حوالے سے پولیس ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے
کے بعد پولیس کے نظام میں عوامی نکتہ نظر سے کوئی اصلاح نہ ہو سکی۔سرکاری
شخصیات کی حفاظت کے علاوہ انسداد ہشت گردی کے مضبوط شعبے بن گئے لیکن عوامی
نکتہ نظر سے پولیس کی کارکردگی بدستور حاکمانہ و ظالمانہ انداز میں قائم و
دائم رہی۔اب راولپنڈی میں فرقہ واریت کے سنگین واقعہ پر حکومت نے پولیس کی
نااہلی کا اعتراف کیا ہے لیکن اب بھی پولیس سے متعلق عوامی شکایات کی روشنی
میں پولیس کے عوام مخالف روئیے میں اصلاح کی حوالے سے کوئی منصوبہ بندی
دیکھنے میں نہیں آ رہی۔ عوام کے مخالف جرائم کو کنٹرول کرنے میں پولیس مکمل
ناکام نظر آ رہی ہے۔سٹریٹ کرائمز،ڈکیتی چوری ،اغوا،قتل وغیرہ کی وارداتوں
کے خلاف پولیس ہاتھ کھڑے کئے نظر آتی ہے۔دیہی علاقوں میں تو کیا شہری
علاقوں میں بھی پولیس عوام کے خلاف حاکمانہ ،جابرانہ اور دھونس پر مبنی
روئیہ اپنائے نظر آتی ہے۔پولیس لینڈ مافیا کی پشت بان نظر آتی ہے ،جرائم
پیشہ افراد کی معاون نظر آتی ہے۔عوام عمومی طور پر پولیس سے رجوع کرنے سے
گریز کرتے ہیں لیکن با امر مجبوری پولیس سے رابطہ قائم کرنا پڑ جائے تو ایف
آئی آر کے اندراج کے لئے سفارشیں ڈھونڈنی پڑتی ہیں۔المختصر یہ کہ اگر ملک
میں پولیس کی بوسیدہ،فرسودہ عوام مخالف صورتحال کو تبدیل نہ کیا گیا تو ملک
میں نہ تو تیزی سے بڑہتے جرائم کو کنٹرول کیا جا سکے گا اور نہ ہی پولیس کے
روائیتی طریقہ کار میں بنیادی اصلاحات لائے بغیر دہشت گردی کے خلاف جنگ
جیتنے کا سرکاری خواب پورا ہو سکتا ہے۔ملک میں’’ جمہوری دور‘‘ آنے کے بعد
بھی عوام کو پولیس کاعذاب بھگتنے پر مجبور کرنا اور پولیس کو سیاسی’’ آرگن
‘‘ کے طور پر استعمال کرنا عوام کے لئے ناقابل قبول ہے اور اس کا عوامی
ردعمل شدید ہو سکتا ہے۔ |