ہمارا ملک اور قومکئی عرصے سے مشکل ترین حالات سے گزر رہے
ہیں ۔شاید اسی وجہ سے ہم دور اندیشی اور صحیحی فیصلہ کرنے کی قوت سے محروم
ہو چکے ہیں،ہمیں بالکل اندازہ نہیں رہا کہ ہمارے لئے کیا درست ہے کیا
غلط۔ہمارے قائدین ایسی حرکات کر گزرتے ہے جس کی وجہ سے فائدے کی بجائے
نقصان زیادہ ہوتا ہے۔انہیں اپنی سیاست چمکانے، لوگوں کو بیوقوف بنانے کے
موقع کی تلاش رہتی ہے،جو اگر نہ ملے تو کسی بھی ایشو کو ہوا دینا معمول
ہے۔وہ کسی عمل کے سیاق و سباق کو سوچے بغیر بیانات دے کر پھنس جاتے ہیں پھر
اپنی کہی ہوئی بات کا بھرم رکھنے کے لئے وہ کچھ کر گزرتے ہیں جس کی کوئی
ضرورت نہیں ہوتی بلکہ کئی اہم ایشوز سے توجہ ختم ہو جاتی ہے،وقت ضائع ہوتا
ہے،اکانومی کا نقصان ہو رہا ہوتا ہے،لوگوں کی جان و مال کو خطرات لاحق ہو
جاتے ہیں ، لیکن انہیں تو اپنی سیاسی چالوں کی فکر ہوتی ہے۔
ایسا ہی کارنامہ تحریک انصاف نے سر انجام دیا ہے ۔نیٹو سپلائی کے خلاف
خیبرپختون میں احتجاجی دھرنوں کا سلسلہ جاری کر رکھا ہے،شہروں میں ناکے
لگائے گئے ہیں،انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ پاکستان میں اس وقت دو
مسائل سب سے بڑے ہیں امن اور معاشی بدحالی۔لیکن انہوں نے دھرنوں کی سیاست
اس وقت شروع کر دی ہے جب اور بہت سے محاذ کھلے ہوئے ہیں جن پر لڑنے کی اشد
ضرورت ہے۔اس دھرنے کے نتیجے میں پاکستان اور افغانستان میں ڈھائی ہزار کے
قریب ایسے ٹرک اور ٹرالر پھنس گئے ہیں ، جن پر سامان لدا ہوا ہے۔افغانستان
سامان کی ترسیل کا 70فیصد طورخم بارڈر کے راستے بھیجا جاتا ہے۔باقی 30فیصد
ترسیل چمن بارڈر کے ذریعے کی جاتی ہے ،جو اب بالکل بند ہو کر رہ گئی ہے۔
افغانستان سے جنگی سامان کی واپسی کا سلسلہ بھی رگ گیا ہے ،تقریباً ڈیڑھ سو
ٹرالر کراچی روانہ کئے جاتے ہیں۔
اس صورتحال میں دیکھنا ہے کہ ہمیں اس سے کیا فائدہ ہو رہا ہے ،کچھ نہیں ،ہماری
بہت بڑی ٹریڈ افغانستان کے ساتھ ہے ،جس کا روز کی بنیاد پر نقصان ہو رہا
ہے،ہاں اگر ایسا کرنے سے ڈرون حملے رک جائیں یا امریکہ کو کوئی نقصان ہو تب
تو سمجھ میں آتا ہے ۔
امریکہ کسی کا دوست نہیں،وہ ہمیشہ اپنے مفادات کے پیچھے رہتا ہے،انہیں اس
بات کا اندازہ کیوں نہیں کہ پاکستان کے قائدین آپس میں لڑیں،جھگڑیں ،امن نہ
ہو ، معاشی صورتحال بدتر رہے،یہ اس کے مفاد میں ہے ،ہمارے بے عقل سیاستدان
غیر ارادی طور پر امریکہ کا ساتھ دے رہے ہیں ،وہ افغانستان سے واپسی کے لئے
تیار نہیں ،ابھی بھی بہانوں سے اپنے پنجے اس خطے میں جمائے رکھنا چاہتا
ہے،وہ چاہتا ہے کہ افغانستان سے 2024ء تک کا معاہدہ ہو اور وہ اپنی اجارہ
داری قائم کر سکے،اس میں ہمارے قائدین امریکہ کا بھرپور ساتھ دے رہے ہیں۔
پاکستان نے بغیر پائلٹ کے جاسوسی طیاروں کا پہلا دستہ فوج میں شامل کر لیا
ہے ،یہ طیارے پاکستان میں ہی تیار کئے گئے ہیں۔کیا ہم امریکی ڈرون کو نہیں
گرا سکتے ؟دنیا کو معلوم ہو چکا ہے کہ پاکستان فوج میں یہ صلاحیت موجود ہے
کہ وہ ڈرون کا مقابلہ کر سکتے ہیں ،لیکن ہم وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے ان
سے گفت و شنید سے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کریں،اگر ایسا نہ ہو، تو
تمام قائدین مل بیٹھ کر انتہائی قدم اٹھا سکتے ہیں ۔لیکن ہم بجائے سلجھے
ہوئے طریقے سے کام کریں ،دنیا کو پاکستان کا مذاق بنانے کے موقع دے رہے
ہیں،وفاق کچھ کر رہا ہے اور ایک صوبہ دوسری جانب جا رہا ہے ،اس سے صاف
پیغام جاتا ہے کہ ہم متحد نہیں،ہر کسی نے ایک اینٹ کی مسجد بنانے کی ٹھان
رکھی ہے۔
تمام سیاسی پارٹیوں نے متحد ہو کر ڈرون کی مخالفت کی،تو اس کا فائدہ ضرور
ہوا کہ ان کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہو گئی ،اب کئی سالوں سے خراب
صورتحال کو درست سمت پر لانے کے لئے تمام سیاسی پارٹیز کے قائدین کو سوچنا
ہو گا اور سڑکوں کی سیاست کو بالکل بند کرنا ہوگا،اپنے بیانات کو سوچ سمجھ
کر دینا ہو ں گے،کیونکہ ہمیں منتشر نہیں ہونا، اس وقت ہمیں ایک سوچ کی
ضرورت ہے، مل بیٹھ کر جو فیصلے ہوں ان پر عمل کروانے کے لئے زور دینا تمام
پارٹیز اور عوام کا حق ہے،پارلیمنٹ ہاؤس کس مرض کی دوا ہے ،وہ تفریح کی جگہ
نہیں،ملک و قوم کی بہتری کے لئے سر جوڑنے کی جگہ ہے۔پارلیمنٹ میں مسئلہ
رکھا جائے ، ایک دوسرے پر تنقید کی بجائے اس کا حل نکالاجائے اور اس بات کو
یقینی بنایا جائے کہ چھوٹے سے چھوٹے مسئلہ پر بھی جو فیصلہ ہو، اس پر من و
عن عمل کیا جائے ۔ |