پاکستان میں حالات کیسے بھی ہوں افواج پاکستان نے ہمیشہ
اپنی بہترین خدمات کے ذریعے ملک کو ان مسائل سے نکالا ہے خواہ بھارت کی
جارحیت ہو یا زلزلہ و سیلاب کی آفت ہر ایک نے دیکھا کہ پاکستان آرمی ہر
موقع پر قوم کے شانہ بشانہ کھڑی نظرآئی گزشتہ چند برسوں سے پاکستانی افواج
ایک بار پھر ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہیں کہ انہیں کالعدم تحریک طالبان
پاکستان کے خلاف ایک ایسی جنگ لڑنی پڑرہی ہے جس کا تعلق براہ راست ملک کی
سالمیت سے ہے کیوں کہ تحریک طالبان کی آڑ میں بیشمار غیرملکی ایجنسیاں
متحرک ہیں جو اسلام کے نفاذ کے نام پر ملک کو عدم استحکام کا شکار کررہی
ہیں جس کا ثبوت کئی بار ہماری سیکیورٹی ایجنسیوں کو اس وقت ملا جب مرنے
والے ان شرپسندوں کے قبضے سے ہمارے دشمن ممالک کا اسلحہ اور پاسپورٹ ملے
بہرحال ہماری فورسز نے سوات اور وزیرستان میں کامیابی سے TTPکا مقابلہ کیا
اور انہیں یہاں سے باہر نکال دیا ان ملک دشمنوں کے خلاف جنگ جاری ہی تھی کہ
اس کے سربراہ حکیم اﷲ محسود کے ایک ڈرون حملے میں مارے جانے کے بعد ایک نئی
اور افسوسناک بحث کااس وقت آغاز ہوگیا جب مولانا فضل الرحمٰن کا یہ بیان
سامنے آگیا جس میں انہوں نے حکیم اﷲ محسود کو شہید قراردے دیا اور ساتھ ہی
یہ بھی کہہ دیا کہ امریکہ اگر ایک کتے کو بھی مارے گا تو میں اسے شہید ہی
کہوں گا ان کے اس بیان پر قوم کو بہت حیرانی ہوئی کیوں کہ عام طور پرمولانا
صاحب ایک بہت مدبر سیاست دان کے طور پر پہچانے جاتے ہیں لیکن ان کے اس بیان
نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے قوم مولانا سے یہ پوچھتی ہے کہ وہ یہ بات
کہہ کر کس اسلام کی خدمت کررہے ہیں کیوں کہ جو اسلام ہم نے پڑھا ہے اور
بچپن سے لے کر اب تک اسلام کی جو تعلیمات ہم نے سنی اور سمجھی ہیں اس کے
مطابق تو اسلام ایک مسلمان تو کیا ایک بے گناہ غیرمسلم کی جان لینے کو بھی
بیت اﷲ کو شہیدسے بڑا گناہ قراردیتا ہے تو ایسے میں مولانا کو وہ حکیم اﷲ
محسودمعصوم اور شہید نظرآرہاہے جس کے ہاتھوں ہزاروں بے گناہ عام شہری جاں
بحق ہوئے ،جس نے ہماری افواج اور پولیس افسران کو کھلے عام نشانہ بنایا جس
نے درباروں ،مسجدوں اور امام بارگاہوں پر حملے کروائے جس نے فوج کے انتہائی
قابل افسر کرنل امام کو اپنے ہاتھوں سے گولیاں مارکر شہید کیا ۔دوسری بات
یہ کہ مولانا کو اگر امریکہ سے اتنی ہی نفرت ہے کہ وہ اس کے ہاتھوں مرنے
والے کتے کو بھی شہید کا درجہ دے رہے ہیں تو ان کی امریکہ سے یہ نفرت اس
وقت کہاں چلی جاتی ہے اقتدار کی باری آتی ہے میرا اشارہ وکی لیکس کی اس
رپورٹ کی طرف ہے جس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ مولانا صاحب نے نومبر2007ء
میں ایک عشائیے کے دوران این پیٹرسن سے اپیل کی کہ وہ انہیں وزیراعظم بنانے
کیلئے مدد کریں ۔خیرابھی یہ بحث جاری ہی تھی کہ جماعت اسلامی کے سربراہ
جناب منورحسن نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی فوجیوں کے شہید ہونے پر
سوال اٹھادیا جس پر پاک فوج کے ترجمان ادارہ آئی ایس پی آر نے اپنے ردعمل
میں اس بیان کی شدید مذمت کرتے ہوئے بیان واپس لینے اور منورحسن سے معافی
کا مطالبہ کیا لیکن جماعت اسلامی نے معافی مانگنے سے انکارکردیااور کہاکہ
فوج کو سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے میرا جناب منور حسن صاحب
سے بھی بڑے ادب سے سوال ہے کہ وہ ایمانداری سے بتائیں کہ پاک فوج نے جتنی
بار بھی اقتدار پر قبضہ کیا ہے کیا اس کی دعوت خود سیاستدانوں کی حرکات نے
نہیں دی اور کیا منورحسن صاحب یہ بتانا پسند کریں گے کہ کیا ان کی اپنی
جماعت ضیالحق اور پرویز مشرف کو سپورٹ نہیں کرتی رہی ؟اگر فوج کو سیاست میں
آنے کا حق نہیں تو انہوں نے اس وقت ان فوجی ڈکٹیٹروں کی سیاست میں مداخلت
کو برداشت کیوں کیا ؟ کیا اس کی وجہ یہ نہیں کہ اس وقت خود ان کے اس جرم
میں شامل تھے اور اب ان کو فوج کی سیاسی معاملات میں مداخلت بری لگ رہی ہے
کہ اب وہ خود اقتدار سے باہر ہیں ؟
میں منور حسن صاحب سے یہ سوال بھی پوچھنا چاہتا ہوں کہ جماعت اسلامی کے
سابق امیر جناب قاضی حسین احمد مرحوم نے تو تحریک طالبان پاکستان کو ظالمان
کا ٹولہ کہا تھالیکن آج منور حسن صاحب کیوں انہی کی حمائت کررہے ہیں ؟میری
مالانا فضل الرحمٰن اور منورحسن صاحب زاکیرسے گزارش ہے کہ وہ اپنے دئیے
بیانات واپس لے اس معاملے پر پیدا ہونے والی کنفیوژن ختم کریں اسی میں ملک
وقوم کی بہتری ہے۔ |