1956ء میں کوئٹہ میں پیدا ہونے والے جنرل راحیل شریف کو
26نومبر2013ء تک کوئی عِلم نہیں تھا کہ وہ پاکستان کی مظبوط اور محبِ وطن
فوج کی کمانڈ سنبھال لیں گے ۔لیکن ایک جانب 27نومبر2013ء کا سورج طلوع ہوا
تو دوسری جانب پاکستان کے وزیر اعظم اور صدر ِ مملکت نے باہمی مشاورت کے
بعد جنرل راحیل شریف کی بطور آرمی چیف تقرری کا نوٹیفکیشن جاری کرکے
پاکستانی فوج کی کمانڈ ایک باہمت اور اچھی ساکھ کے حامل فوجی آفیسر کے سپرد
کر دی۔جنرل راحیل شریف نے 1976 میں فرنٹیئر فورس رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا
تھا اور وہ 1971 کی پاک بھارت جنگ میں نشانِ حیدر پانے والے میجر شبیر شریف
کے چھوٹے بھائی ہیں۔
جنرل کیانی جوکہ 6سا ل پاکستان کے بری فوج کے سربراہ رہنے کے بعد 28 نومبر
کو ریٹائر ہو رہے ہیں انکے بارے میں یہاں میں ضرور تحریر کرنا چاہوں گا کہ
اُنہوں نے اپنی تقرری کے دوران پاکستانی فوج کے وقار میں خا صا اضافہ کیا
جبکہ جنرل راحیل شریف انکی جگہ لینے والے پاکستان کے بری فوج کے 15ویں
سربراہ ہیں جن سے پاکستان اور اسکی کروڑوں عوام کے ساتھ ساتھ پاکستانی فوج
کے جوانوں کو بھی بہت ساری اُمیدیں وابستہ ہیں ۔،جنرل راحیل چیف آف آرمی
سٹاف بننے سے قبل انسپکٹر جنرل ٹریننگ اینڈ اویلوئیشن کے عہدے پر فائز تھے
۔ اس کے علاوہ وہ کور کمانڈر گوجرانوالہ اور پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول کے
کمانڈنٹ کے عہدوں پر بھی کام کر چکے ہیں۔یہ انتہائی خوش آئند بات ہے کہ
پاکستان بّری فوج کے نامزد سربراہ لیفٹیننٹ جنرل راحیل شریف پاکستانی فوج
کو درپیش اندرونی چیلنجوں کے لیے تیار کرنے کے لیے سالوں پر محیط کوششوں کے
حوالے سے جانے جاتے ہیں۔لیفٹیننٹ جنرل راحیل شریف اپنے فوجی کریئر میں ایک
ایسے افسر کے طور پر شہرت رکھتے ہیں جنہوں نے گذشتہ کئی برسوں میں فوج کو
جدید خطوط پر تربیت دینے اور اسے ملکی سرحدوں کے اندر درمیانے درجے کی
لڑائیوں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے تیار کرنے کے لیے وقف کیے ۔جنرل
راحیل نے گذشتہ چند برس فوجی صدر دفاتر میں فوج کے تربیتی شعبے کے سربراہ
کے طور پر گزارے ہیں۔ اس دوران ان کی کارکردگی کو بہت اعلیٰ درجے کی قرار
دیا جاتا ہے ۔جنرل راحیل نے تقرری کی اس قلیل مدت میں پاکستانی فوج کے
تقریباً تمام اہم تربیتی کورسز کو از سر نو مرتب کر کے انھیں جدید ضروریات
سے ہم آہنگ کیا ہے ۔
خاص طور پر سرحدوں کے اندر امن کے قیام اور دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں
کے لیے فوج کو تیار کرنے کے لیے جنرل راحیل شریف کے تیار کردہ تربیتی
مینولز (manuals) خاصے پسند کیے گئے اور فوجی قیادت نے ان کتابچوں کو اعلیٰ
معیار کا حامل قرار دیا۔پاکستان کے اندر اور باہر فوج کو ’لو انٹنسٹی
کنفلکٹ‘ (Low Intensity Conflict) کے لیے تیار کرنے پر ان کے تحریر کردہ
مقالوں کو خاصی پذیرائی ملی ہے ۔اس سے پہلے جنرل راحیل شریف پاکستانی فوج
کی بہت پسندیدہ تصور کی جانے والی پوسٹنگ کمانڈنٹ پاکستان ملٹری اکیڈمی
تعینات رہے اور اس دوران انھوں نے اکیڈمی کے نصاب میں بھی بعض کلیدی
تبدیلیاں کیں۔ ان تبدیلیوں کا محور بھی نئے فوجی افسروں کو ملک کے اندر
لڑائی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے تیار کرنا تھا۔
کور کمانڈر گوجرانوالہ کے طور پر بھی جنرل راحیل نے اپنی اسی دلچسپی کو
عملی شکل دی اور کور میں ایسی تربیتی مشقیں متعارف کروائیں جن کا محور ’لو
انٹینسٹی کانفلکٹس‘ تھے ۔بعض فوجی افسران کا کہنا ہے کہ مستقبل کے چیلنجوں
کو سمجھنے اور ان کے لیے فوجی ردعمل کو بطریقِ احسن استعمال کرنے کی صلاحیت
کے باعث موجودہ حالات میں جنرل راحیل کی تقرری خاصی اہم ہے ۔جنرل راحیل کے
بڑے بھائی میجر شبیر شریف کو 1971 کی جنگ میں دادِ شجاعت دینے پر نشانِ
حیدر دیا گیا تھا۔عوام کی اکثریت کی رائے یہی ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل راحیل
شریف کی فوجی سربراہ کے طور پر تقرری ثابت کرتی ہے کہ میاں نواز شریف نے اس
کلیدی عہدے کے لیے موزوں شخصیت کا چناؤ کیا ہے ۔ |