سچ پوچھیے تو ماما کے کارواں کی بات ہی نرالی ہے ۔ اس
کارواں میں سبھی ہیں ۔ معصوم بچے ہیں ، عورتیں ہیں ، شناخت سے بچنے کے لیے
نقاب اوڑھے جوان ہیں ، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ 70 سالہ ماما بھی ہے ۔ماما
کا کارواں اس لحاظ سے بھی نرالا ہے کہ اس نے 400 میل کا سفر پیدل طے کیا ۔
27 اکتوبر سے 22 نومبر تک کا یہ سفر ۔۔۔۔کوئٹہ سے کراچی تک کا یہ سفر ۔۔۔کتنا
دشوار گزار تھا ، اس کا اندازہ ماما اور اس کے کارواں کے زخمی پاؤں سےلگا
یا جاسکتا ہے ۔وہ زخم ، جو اس وقت تک نہیں بھریں گے ، جب تک ماما سمیت اس
کے چھوٹے سے کارواں کے بچوں ، عورتوں اور جوانوں کو انصاف نہیں مل جاتا ۔جب
تک ملک کے سب سے بڑے صوبے کے باشندوں کو ان کے گم شدہ عزیز مل نہیں جاتے
اور جب تک مسخ شدہ لاشوں کا سلسلہ تھم نہیں جاتا ۔ماما !آپ کے کارواں نے تو
اگلی کئی صدیوں تک دل گداز ادب تحریر کرنے والوں کو غم آلود اور خوں چکاں
موضوعات فراہم کر دیے ہیں۔یہ ادب آنے والی کئی نسلوں کو یہ شعور دیتا رہے
گا کہ اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے آئینی اور قانونی طریقہ ہی اختیا ر کیا
جائے ۔چاہے 700 کلو میٹر پیدل ہی کیوں نہ چلنا پڑے ۔چاہے سنگین چٹانوں کی
تاب نہ لاتے ہوئے پاؤں زخمی ہی کیوں نہ ہو جائیں۔
بیٹے کی مسخ شدہ لاش کا بوجھ اپنے غمزدہ دل اور مضبوط ارادوں پر اٹھائے
ہوئے ماما کہتے ہیں: بلوچستان میں 23000لاپتا افراد کے رجسٹرڈ کیسز ہیں ۔جن
میں سے 14000لوگ پچھلی قیادت کے دور میں لاپتا ہوئے ۔جون 2010 تک 730 لاپتا
افراد کو گرفتار کرنے کے بعد قتل کیا جاچکا ہے ۔ماما کے کارواں میں شامل بی
بی گل کہتی ہیں: انسانیت اور ایک بلوچ کے ناتے لانگ مارچ میں شرکت کا فیصلہ
کیا ہے ۔کوئٹہ سے کراچی تک ہم نے کئی اذیتیں سہیں، راستے بھر میں یہ سوچتی
رہی کہ جو لاپتہ ہیں ان کے لواحقین کیا سوچتے ہوں گے؟ جو سلوک مہذب معاشروں
میں جانوروں کے ساتھ بھی نہیں کیا جاتا ہمارے یہاں انسانوں کے ساتھ روا
رکھا جاتا ہے۔ماما کے کارواں کی فرزانہ مجید ، جس کا بھائی 2009 سے لاپتا
ہے ، کہتی ہیں: میں خاموش نہیں رہوں گی ، اگرچہ مجھے نظرانداز کر دیا جائے
یا قتل کردیا جائے ۔میں اس وقت تک اپنا احتجاج جاری رکھوں گی جب تک میرے
بھائی سمیت تمام لاپتا افراد مل نہیں جاتے ۔
ماما! ہم آپ کو اور آپ کے کارواں کو خراج ِ تحسین پیش کرتے ہیں ۔ ہم امید
کرتے ہیں کہ آپ کو اور آ پ کے کارواں کو ضرور انصاف ملے گا ۔یہ آپ کے جدو
جہد ہی کی کاوش ہے کہ پاکستان کی عدالت ِ عظمیٰ میں آپ کے عزیزوں کی
بازیابی کے قصے چل رہے ہیں ۔ انشا ء اللہ آپ کے گمشدہ عزیز آپ کو ضرور مل
جائیں گے اور ہم بھی وہ دن دیکھیں گے ، جب بلوچستان پاکستان کا سب سے پر
امن صوبہ کہلائے گا ۔انشا ء اللہ |